|تحریر: لی چی یے، ترجمہ: یار یوسفزئی|
چین میں ایک وحشت ناک عمل کے بارے میں ہمیں مندرجہ ذیل رپورٹ موصول ہوئی ہے، جہاں کارخانوں کے ساتھ سکول کے طلبہ کے معاہدے کروائے جاتے ہیں اور انہیں غلامانہ طرز پر سخت محنت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہیں۔ یہ رپورٹ پہلی دفعہ دی سپارک پر شائع ہوئی، جو تائیوان میں عالمی مارکسی رجحان کے حامیوں کی ویب سائٹ ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسلسل نائٹ شفٹ، طویل اوقاتِ کار، سخت محنت، مشینی زندگی، ظالم انتظامیہ اور انتہائی کم فی گھنٹہ اجرت۔ چینی محنت کشوں کو روزانہ کی بنیاد پر مذکورہ چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہیں بتایا تو یہ جاتا ہے کہ وہ ”چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کے نئے عہد“ میں ”ملک کے مالک“ ہیں، مگر درحقیقت کئی حوالوں سے، آج محنت کشوں کی زندگی 1930ء کی دہائی میں بلا معاوضہ کام کرنے والے محنت کشوں سے زیادہ مختلف نہیں ہے، جیسا کہ چینی ڈرامہ نگار ’شا ین‘ کے ڈراموں میں عکاسی کی گئی ہے۔
کچھ ہی دن قبل، صوبہ ہوبئی سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ ’سَن‘ نامی نوجوان نے تقریباً آدھے مہینے تک اس قسم کی غلامانہ نوکری کے بعد خودکشی کر لی۔ ’سَن‘ صوبہ ہوبئی کے شہر شی یان میں واقع ہان جیانگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سکول میں جونیئر ہائی سکول کا طالبِ علم تھا (ستم ظریفی تو یہ کہ اس سکول کو ماضی میں اعزازی ناموں سے نوازا گیا ہے، جیسا کہ ”ترقی یافتہ تعلیمی ادارہ“، ”دیہاتی ووکیشنل ایجوکیشن کا ترقی یافتہ ادارہ“، اور ”سٹار فائر ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریشن سکول“)۔ یہ ووکیشنل سیکنڈری سکول ہے، جو چین میں نام نہاد ’ووکیشنل نظامِ تعلیم‘ (پیشہ ورانہ تربیت دینے والے کورسز) کا حصّہ ہے۔ اس المناک موت کے بعد، اس کی خبر انٹرنیٹ پر گردش کرنے لگی، جہاں عمومی سماجی صورتحال سمیت چین کے ووکیشنل نظامِ تعلیم کے خلاف بڑے پیمانے پر نفرت کا اظہار کیا گیا۔
واقعے کی تفصیل
10 جون کو، سَن سمیت، 90 سے زائد طلبہ کو ان کے سکول نے شینزین شہر میں واقع کارخانے میں تین ماہ کے عرصے کے لیے غیر قانونی طور پر جبری محنت کی غرض سے ڈالا تھا۔ ان کے مطابق، یہ معمول کی ’تربیتی مشق‘ تھی، جو ووکیشنل نظامِ تعلیم کے انٹرن شپ کا حصّہ ہے۔ طلبہ کی مہارت بڑھانے، یا ان کے علم و تجربے میں اضافہ کرنے کی بجائے، اس عمل نے انہیں محض غلامانہ محنت پر مجبور کیے رکھا۔
انٹرن شپ کرنے والے طلبہ کی فی گھنٹہ اجرت 14 رینمنبی (تقریباً 2.16 امریکی ڈالر) ہے، جو چین کی کم از کم فی گھنٹہ اجرت 26 رینمنبی (تقریباً 4 امریکی ڈالر) سے بہت کم ہے۔ نام نہاد ’پیشہ ورانہ انٹرن شپ‘ کا ان پیشوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جس کے لیے طلبہ تربیت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ جب بھی طلبہ اور والدین نے اس حوالے سے اعتراضات اٹھائے تو سکولوں کی جانب سے جواباً طلبہ کو بر طرف کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ طلبہ کے ڈپلومہ پر سکول کے اختیارات ہوتے ہیں، اسی لیے طلبہ کو ڈرا دھمکا کر جبری محنت کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
کارخانے میں کام کی جگہ پر ’سَن‘ کو بھاری بوجھ اٹھا کر منتقل کرنے کا کام سونپا گیا، جس کی اکثر شفٹیں شام کے وقت ہوتی تھیں۔ ادھر گزارے گئے اپنے وقت میں، سَن سے مجموعی طور پر چار دفعہ آرام کرنے کی کوشش کا ناقابلِ معافی گناہ سرزد ہو گیا، جس کی اسے سزا دی گئی۔ پہلی دفعہ، 14 جون کو، ساری رات ایک سے دوسری جگہ ڈبے منتقل کرنے کے باعث سَن کھانا نہیں کھا پا رہا تھا۔ اس نے شرائط و ضوابط کے مطابق درخواست کیے بغیر اپنی آرام گاہ میں کچھ دیر آرام کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے سبب اگلے دن اس پر ’بلاوجہ غیر حاضری‘ کا الزام لگایا گیا۔
دوسری دفعہ، 17 جون کو، مسلسل نائٹ شفٹ لگانے کے باعث اس کے معدے کا درد شدید ہو گیا تھا۔ پھر وہ اپنے کام کے نگران سے رخصت کی اجازت طلب کر کے چلا گیا، مگر اگلے دن پھر اس پر ’بلاوجہ غیر حاضری‘ کا الزام لگایا گیا۔
21 جون کو رات 10 بجے، سَن نے دو طلبہ سمیت طبیعت ناساز ہونے کے سبب دوبارہ رخصت لینے کا فیصلہ کیا۔ 23 جون کی رات، کام کی جگہ پر ڈبے منتقل کرتے ہوئے سَن کو سر پر چوٹ لگ گئی اور اس کی عینک بھی ٹوٹ گئی۔ اس کی جلدی سے مرہم پٹی کرا کے دوبارہ غیر انسانی محنت جاری رکھنے پر مجبور کیا گیا۔
24 جون کو نائٹ شفٹ سے پہلے، سَن نے رخصت کی اجازت طلب کی، اس کے نگران نے اسے زبانی طور پر اجازت دی اور پھر سَن نے اس کے ڈیسک پر رخصتی کی سلپ رکھ دی۔ اگلے دن (25 جون کو)، نگران نے سَن کے اوپر جھوٹا الزام لگایا کہ وہ رخصتی کی سلپ دیے بغیر کام چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ سَن نے خود کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کی، مگر اس کے سکول کے استاد نے اس کی باتیں اَن سنی کر کے سَن کے والدین کو بلا لیا، اس پر چار غیر حاضریوں کا الزام لگا کر اگلی دفعہ غیر حاضری کی صورت میں اسے سکول سے بر طرف کرنے کی دھمکی دی۔
ان جھوٹے الزامات اور تھکا دینے والے حالات سے تنگ آ کر اسی دن سَن نے اپنی جان لے لی۔ صبح 10 بج کر 28 منٹ پر اس نے کارخانے کے آرام گاہ کی چھٹی منزل سے چھلانگ لگا دی۔ اسے جلدی سے ہسپتال پہنچایا گیا، مگر دوپہر 12 بجے سَن کی موت واقع ہو گئی۔ اور یوں ایک جوان اور جوشیلی زندگی صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔
سَن کی موت کے بعد، کارخانے کی جانب سے تمام متعلقہ معلومات کو پھیلنے سے روکا گیا، جس نے اپنے ملازمین کو اس حادثے کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا۔ پولیس نے بھی سیکیورٹی گارڈز اور ملازمین کے موبائلوں سے حادثے کی تصاویر اور ویڈیوز ڈیلیٹ کر کے کارخانے کی انتظامیہ کو اس واقعہ سے بری الذمہ کر دیا۔ اسی وقت، سکول کے استاد نے ان تمام طلبہ کو زیر حراست لیا اور انہیں ڈرا دھمکا کر گھر بھیج دیا جو اس واقعہ سے دل برداشتہ تھے۔
سَن کے باپ کو جیسے ہی یہ خبر موصول ہوئی، وہ کارخانے دوڑا چلا آیا مگر کارخانے کی جانب سے کوئی بات چیت یا وضاحت نہیں کی گئی۔ جیسے جیسے اس حادثے کی خبریں گردش کرنے لگیں، حکومت میدان میں اتر آئی اور ”طلبہ کے حقوق کے تحفظ“ کا ناٹک کرتے ہوئے ’بلا معاوضہ کام‘ کے حوالے سے متعلقہ کارخانے پر کریک ڈاؤن کرنے کا ڈرامہ رچایا۔ یہ المیہ ایک ایسے علاقے میں پیش آیا ہے جسے ”چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کا اعلیٰ نمونہ“ قرار دیا جاتا ہے۔
جب لوگ سَن کی موت کے سیاق و سباق سے واقف ہونے لگے تو متعدد چینی انٹرنیٹ صارفین نے اس پر بیتنے والی اذیتیں دیکھ کر اپنی کہانیاں بھی شیئر کیں، اور اس حقیقت پر چیخ و پکار کی کہ شینزین جیسے امیر شہر میں بھی نوجوان طلبہ کو اس قسم کی انتہائی سخت محنت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
”چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم کا نیا عہد“ اور بلا معاوضہ کام کرتے محنت کش
در حقیقت، چین میں اس قسم کے حادثے کا وقوع پزیر ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ووکیشنل سکول کے طلبہ کافی عرصے سے بلا معاوضہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ ایک صدی قبل کے مقابلے میں شاید اس کی شرائط آج زیادہ ’مہذب‘ ہوں گی کیونکہ چینی وزارتِ تعلیم قانونی اعتبار سے ’ووکیشنل سکول کے طلبہ کی انٹرن شپ کے انتظامات کے حوالے سے شرائط و ضوابط‘ کے تحت اس قسم کے عمل سے منع کرتی ہے۔ مگر آج کے نوجوان محنت کشوں، جن کے ہاتھ پاؤں شان ین کی کہانیوں کے کرداروں کی طرح ”سوکھے تنکوں“ کی مانند ہوتے ہیں، کو کوئی قانونی سہارا میسر نہیں، اور ان کے پاس سرمایہ داروں کی جانب سے مسلط کردہ جبر برداشت کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ دوسری جانب سرمایہ دار قانون کی دھجیاں اڑاتے پھر رہے ہیں، جبکہ انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
”انٹرن شپ“ کے عمل میں، سکول اور کارخانے کے مالکان آپسی تعاون کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ سکولوں کی جانب سے طلبہ کو کارخانوں میں سستی محنت کرنے کیلئے بھیجا جاتا ہے اور اس کے بدلے انہیں ان کی تنخواہ میں سے کچھ ملتا ہے جبکہ دوسری طرف سرمایہ داروں کو سستی محنت مل جاتی ہے۔ طلبہ کو اس ’تربیت‘ کے بدلے فقط کمزور جسم اور برائے نام ’اجرت‘ ہی مل پاتی ہے۔ کمیونسٹ پارٹی اور ٹریڈ یونین اس عمل کو مکمل طور پر نظر انداز کر رہے ہیں۔ جب سطح کے اوپر اس قسم کے کسی حادثے کا اظہار ہوتا ہے تو وہ محض ڈرامہ رچانے سامنے آ جاتے ہیں تا کہ وہ لوگوں کی ہمدردی کا ناٹک رچا سکیں۔ جبکہ کارخانے اور سکول تھوڑی سی سزا یا سزا پائے بغیر معاملے سے بَری ہو جاتے ہیں۔
کارخانوں میں بھیجے جانے والے ووکیشنل سکول کے طلبہ کی اکثریت غریب گھرانوں سے ہوتی ہے، جن کے والدین معاشی طور پر پسماندہ اور تعلیم سے محروم علاقوں سے تعلق رکھنے کے باعث کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ ان کی قسمت کے دروازے پیدائش سے ہی بند کر دیے جاتے ہیں، اور نام نہاد ووکیشنل نظامِ تعلیم محض انہیں اجرتی غلامی کی زندگی گزارنے کے لیے تیار کرتا ہے۔
ابھی کے لیے، اگرچہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے ووکیشنل نظامِ تعلیم کے حوالے سے تبدیلیاں لانے کے ارادے ظاہر کیے ہیں، مگر ابھی تک کوئی بھی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ آخری تجزیے میں، سی سی پی اور چینی حکمران طبقے کی نظروں میں، محنت کش نام نہاد ”ڈیموگرافک ڈیوائڈینڈ“ کی حیثیت رکھتے ہیں؛ وہ اجرتی غلام جن کی کسی بھی وقت قربانی دی جا سکتی ہے۔ آخرکار، اگر ’سوشلسٹ‘ چین ترقی کرنا چاہے، یہ بھلا چند ”قربانیوں“ کے بغیر کیسے ممکن ہے؟
آج، ”اصلاحات اور آزاد منڈی“ کے ذریعے سرمایہ داری کو دوبارہ بحال ہوئے 43 سال گزر چکے ہیں، جس کے باعث چین سرمایہ دارانہ تضادات میں آئے روز زیادہ سے زیادہ دھنستا چلا جا رہا ہے۔ محنت کش طبقے کے اوپر حملے شدید ہوتے جا رہے ہیں، مگر چینی سرمایہ داری نے عالمی سطح پر پرولتاریہ کی سب سے بڑی پرت کو بھی تخلیق کر دیا ہے۔ چین میں اس قسم کا مضبوط پرولتاریہ ہونے کے باعث ہی کمیونسٹ پارٹی، یعنی سرمایہ داری کی محافظ ریاستی مشینری، محنت کشوں کے چھوٹے سے چھوٹے جمہوری حقوق تسلیم کرنا بھی گوارا نہیں کر سکتی۔ حالیہ برسوں میں حکومت کی جانب سے شدید جبر اس بات کی نشاندہی ہے کہ حکمران طبقہ بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی سے خوف کھانے لگا ہے۔
بہرحال، چینی سماج میں سرمایہ دارانہ منڈی کے پیدا کیے گئے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا، اور کسی قسم کا جبر بھی عوامی غصّے کو پھٹنے سے روک نہیں پائے گا۔ اس سال کے شروع میں ہمیں شیونگ ین کی گرفتاری دیکھنے کو ملی، ڈیلیوری ورکرز الائنس کا معروف قائد جو فوڈ ڈیلیوری کے محنت کشوں کو متحدہ جدوجہد کے گرد اکٹھا کر رہا تھا۔ حکومت اس بات سے خوفزدہ تھی کہ کہیں ان سرگرمیوں کے اثرات دیگر محنت کشوں کے اوپر بھی مرتب نہ ہو جائیں۔ اس کے علاوہ، نوجوانوں میں بھی جدوجہد پروان چڑھ رہی ہے، جس کا اظہار آن لائن احتجاجوں سمیت آن کیمپس احتجاجوں میں بھی ہوتا ہے۔
چینی سرمایہ داری کی حالت، جس کے ہر ایک مسام سے خون ٹپک رہا ہے، بالآخر محنت کش طبقے کو واپس لڑنے پر مجبور کرے گی۔ یہ بات خاص کر نوجوان محنت کشوں کے حوالے سے درست ثابت ہوتی ہوئی نظر آتی ہے، جن کی اکثریت کو سَن جیسی اذیتوں کا سامنا ہے۔ انہیں شی جن پنگ کی قیادت میں موجود حکمران طبقے کے مجرمانہ ٹولے کے خلاف لڑنے کے لیے مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابی نظریات کی ضرورت پڑے گی۔ انہیں اقتدار پر قبضہ کر کے بڑے سرمائے کے اثاثوں کو محنت کشوں کے اختیارات میں دینا پڑے گا، جنہیں جمہوری منصوبہ بند معیشت کے تحت چلانا ہوگا۔ صرف اسی صورت میں وہ سماج کو تبدیل کر کے حقیقی معنوں میں پرولتاریہ کی آمریت، یعنی مزدور جمہوریت قائم کر سکتے ہیں۔