|تحریر: انس رحیمی، ترجمہ: اختر منیر|
چار ماہ سے جاری انقلابی تحریک کے نتیجے میں 11اپریل کے روز سوڈانی عوام نے جنرل عمر البشیر کا تختہ الٹ دیا۔ عمر البشیر وہ شخص ہے جس نے 30 سال تک سوڈان پر انتہائی ظالمانہ اور جابرانہ حکمرانی کی اور اس کا تختہ الٹ جانا نہ صرف سوڈانی عوام بلکہ پورے خطے کے لیے ایک اہم فتح ہے۔ لیکن یہ امر انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ انقلابی عمل کا محض پہلا قدم ہے، جس کا پورے نظام کو اکھاڑ پھینکنے پر منتج ہونا لازم ہے۔
To read this article in English, click here
جیسے ہی بشیر کو برطرف کیا گیا، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا جس کے مطابق ’’ایک عبوری ملٹری کونسل قیام میں لائی جارہی ہے جو کہ 2 سال تک امورِ ریاست چلائے گی‘‘ اور ’’تین ماہ تک ملک میں ایمرجنسی اور رات 10سے صبح چار بجے تک کرفیو نافذ ہوگا‘‘۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دہائیوں تک سوڈانی عوام پر ظلم اور جبر کرنے کے بعد اور پچھلے چار ماہ سے درجنوں مظاہرین کو مارنے اور سینکڑوں کو زخمی کرنے کے بعد یہ ان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ گھروں کو لوٹ جائیں اور ان کی حکمرانی کو قبول کر لیں۔ اس کے بدلے میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ دو سال تک ایمرجنسی نافذ رکھنے کے بعد ’’جمہوریت‘‘ اور ’’انسانی حقوق‘‘ کا وعدہ کر رہی ہے۔
یقیناً ان ہتھکنڈوں سے سوڈانی عوام بیوقوف بننے والے نہیں تھے۔ وہ تاریخ اور حالیہ عرب بہار کے تجربے سے یہ جانتے ہیں کہ انقلاب کو آدھے راستے میں چھوڑنا تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اس لیے مظاہرے رکے نہیں بلکہ اور شدید ہو گئے۔ پورے سوڈان میں مظاہرین اس بات پر مصر ہیں کہ انقلاب تب تک جاری رہے گا جب تک پوری حکومت کا تختہ نہیں الٹ جاتا۔
فی الحال حکمران طبقہ خوفزدہ ہے اور ریاست اپنی طاقت کھو چکی۔ ملٹری کونسل بس ایک ڈھکوسلا ہے جس کا پوری ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر بھی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ لیکن یہ صورت حال ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر انہیں ہٹا کر متبادل حکومت قائم نہیں کی جاتی تو جلد یا بدیر یہ جوابی حملہ کرتے ہوئے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیں گے۔
اس وقت اصل طاقت گلی کوچوں اور فیکٹریوں میں ہے۔ یہ محنت کشوں اور غریب کسانوں کے ہاتھ میں ہے جنہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک بار جب وہ حرکت میں آگئے تو ان سے زیادہ کوئی طاقتور نہیں۔ ان کے پاس پورے نظام کا تختہ الٹنے کی طاقت موجود ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں ہے اور کوئی ایسی تنظیم بھی موجود نہیں جو قیادت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے اقتدار حاصل کرنے میں ان کی رہنمائی کرے۔
بڑی عوامی تنظیموں پر اس نازک صورتحال میں یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جن میں ٹریڈ یونینز اور کیمونسٹ پارٹی دونوں شامل ہیں۔ صرف جمہوریت، آزادی اور روٹی کا مطالبہ کرنا کافی نہیں ہو گا۔ عوام کو آگے بڑھ کر یہ سب چھیننا پڑے گا۔
یہ انقلابی تحریک مخصوص اور فوری مطالبات کے گرد بنی ہے جن کا تعلق سماجی، یعنی عوام کے معیار زندگی، اور جمہوری سوالات سے ہے۔ یہ مطالبات فوری طور پر پورے ہونے چاہئیں۔ لاکھوں لوگ چار مہینوں سے اپنی زندگیاں داؤ پر لگا کر ظلم و جبر کے آگے سینہ تان کر اس لیے نہیں کھڑے کہ انہیں جھوٹے وعدوں سے بہلا لیا جائے۔ انہیں اپنی جدوجہد کا حقیقی پھل چاہیے ورنہ یہ انقلاب ان کے لیے بے کار ہو گا۔
کیا انقلاب جمہوریت کا مطالبہ منوا سکتا ہے؟ یقیناً منوا سکتا ہے، لیکن صرف عوامی طاقت کے بل پر۔ عوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر ایک نئی ریاست قائم کی جا سکتی ہے جس کی بنیاد محنت کشوں کے علاقوں، فیکٹریوں اور بیرکوں سے منتخب شدہ عوامی کونسلوں پر ہو۔ یہ نمائندے عوام کو جوابدہ ہوں اور عوام کے پاس ان کو ہٹانے کا بھی اختیار موجود ہو۔
کیا بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے؟ ہاں یہ بھی ممکن ہے۔ مگر ایسا کرنے کے لیے انقلابی اقدامات کی ضرورت ہو گی۔ ایسا کرنے کے لیے اوقات کار کو اجرتوں میں کٹوتی کیے بغیر سب میں برابر تقسیم کرنا ہو گا۔ یہ بالکل بے تکی سی بات لگتی ہے کہ کچھ لوگ روزانہ انتہائی طویل وقت کے لیے جان توڑ محنت کریں اور کچھ لوگوں کو کام ہی نہ ملے۔
کیا ہم غربت اور بھوک کا خاتمہ کرسکتے ہیں؟ ہاں ہم یہ بھی کر سکتے ہیں۔ اس ملک میں محنت کشوں کو معقول معیار زندگی، ثقافت اور تفریح مہیا کرنے کے لیے اجرتوں میں اضافہ کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ محنت کش اور غریب کسانوں کے خاندانوں کے قرضے ختم کیے جانے چاہئیں۔ زراعت میں بھی انقلابی اقدامات کرتے ہوئے زمین ان لوگوں کو دینی ہو گی جو اس پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب کرنے کے لیے بڑی کمپنیاں، بینک اور معیشت کے اہم ستون ضبط کر کے محنت کشوں کی جمہوری کونسلوں کے حوالے کرنے ہوں گے۔ صرف اسی طریقے سے پیداوار اور تقسیم کا ایک ایسا منطقی منصوبہ بنایا جا سکتا ہے جس سے معاشرے کی اکثریت کی ضروریات پوری ہو سکیں۔
پوری دنیا کے محنت کش سوڈان میں ہونے والے واقعات کو انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ اگر سوڈان کا انقلاب ان فوری فرائض کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے پورے خطے کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو ان کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ ملے گا۔ اس سے مصر، ایتھوپیا، الجیریا اور پورے براعظم کہ دوسرے ممالک میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور بالآخر ہم وہ انقلابات دیکھیں گے جن سے سرمایہ داری، جنگ اور قحط کا خاتمہ ہو گا اور سوشلسٹ ریاست ہائے متحدہ افریقہ کی بنیاد رکھی جائے گی۔