|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کوئٹہ|
بی ایم سی بحالی تحریک گزشتہ سال کے آخری مہینوں میں بی ایم سی کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ کی صورت میں شروع ہوئی تھی، اور یہ سلسلہ کورونا وباء سے پہلے تک چلتا رہا مگر کورونا وباء کے بعد لاک ڈاؤن میں احتجاجی سلسلہ تعطل کا شکا ہوگیا، مگر رمضان کے مہینے میں یہ احتجاجی سلسلہ واپس بی ایم سی کے سامنے احتجاجی کیمپ کی شکل میں شروع ہوا، جوکہ 10 ماہ سے زائد کے طویل اور کٹھن سفر کے بعد 10 ستمبر کی رات کو کامیاب مذاکرات کی شکل میں اختتام پذیر ہوا۔ یہ بلاشبہ نہ صرف بی ایم سی کے ملازمین کی ایک نہایت شاندار کامیابی ہے بلکہ اس جدوجہد میں پاکستان کے تمام محنت کشوں اور طلبہ کے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ لیکن آگے بڑھنے سے قبل اس احتجاج کے دو اہم پہلوؤں کو زیرِ بحث لانا اہم ہے۔ ایک پہلو مزدور طبقے کے حوالے سے جبکہ دوسرا پہلو طلبہ کے حوالے سے ہے کیونکہ بی ایم سی بحالی تحریک میں مزدور تنظیموں کیساتھ طلبہ تنظیمیں بھی موجود تھیں۔
ملازمین یا مزدوروں کے مسائل
بی ایم سی بحالی تحریک کے ملازمین کے حوالے سے اہم مطالبات یہ تھے کہ جب بی ایم سی ترمیمی ایکٹ 2017ء منظور ہوا تو اُس میں محنت کشوں کے مسائل کی نہ صرف نشاندہی نہیں کی گئی تھی، بلکہ اُنہیں ملازمین سے چھپانے کی ایک شعوری کوشش کی گئی تھی۔ جسکی وجہ سے جب اپریل 2019ء کو ایکٹ عملی طور پر نافذ ہوا، تو ملازمین نے اپنے مسائل کو نئے تعینات ہونے والے وی سی کو ایک استقبالیہ کے پروگرام میں سپاسنامہ کی شکل میں پیش کیا، جس پر وائس چانسلر نے من و عن رضامندی کا اظہار کیا۔ مگر یہ سلسلہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب اس عرصے میں کچھ ملازمین دورانِ سروس فوت ہوئے یا ریٹائر ہوئے تو اُنکی پنشن اور بقایاجات کی ادائیگی کے حوالے سے ٹال مٹول سے کام لیا جانے لگا۔ اُنہیں متعلقہ دفاتر سے یہ جوابات ملنے لگے کہ آپ کو ان مسائل کے حوالے سے یونیورسٹی سے رابطہ کرنا چاہیے، جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کے پاس واضح پالیسی نہ ہونے کی وجہ سے ان سوالات کے جوابات نہیں تھے۔ ان مسائل کے حوالے سے ملازمین کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ہمارا سروس اسٹرکچر، جوکہ حکومتِ بلوچستان کے محکمہ صحت کے پاس ہے، اب یونیورسٹی کے پاس کیسے آگیا؟ یونیورسٹی انتظامیہ میں صرف دو بندے یعنی وی سی اور رجسٹرار ملازمین کے مسائل کے حوالے سے جوابدہ تھے۔ ایک طرف وہ ملازمین کے ان مسائل کو حل نہ کرپانے کی وجہ سے ضد پر اُتر آئے، تو دوسری طرف اُنہوں نے ملازمین کے خلاف غلط اور جھوٹے پروپیگنڈے کا آغاز کر دیا۔ اس ایشو کو چند سیاسی تنظیموں کی پشت پناہی سے قومی و لسانی رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ جبکہ ملازمین اپنے بنیادی اور جائز مسائل کے حوالے سے اپنے حقیقی موقف پر ڈٹے رہے، جس کے بعد اُنہوں نے احتجاج کا راستہ اپنایا۔
ملازمین کا صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ کہ یونیورسٹی ایکٹ میں ملازمین کے سروس اسٹرکچر کے حوالے سے ترمیم کی جائے، یعنی کہ کالج کو واپس اپنی پرانی حالت میں بحال کرکے یونیورسٹی کو کالج سے الگ کیا جائے تاکہ ملازمین اپنی پُرانی حالت میں محکمہ صحت حکومتِ بلوچستان کے پے رول پر آجائیں، جبکہ یونیورسٹی اپنے لیے یا تو خود ایک الگ کالج بنائے یا پھر صوبے میں موجود دیگر تین میڈیکل کالجز میں سے کسی ایک کو اپنا حصہ بنالے، کیونکہ اُن نئے کالجز میں اس طرح کے مسائل نہیں تھے۔ اس حوالے سے بی ایم سی بحالی تحریک کے چیئرمین عبداللہ صافی نے نمائندہ ورکرنامہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بولان میڈیکل کالج ایک قدیم اور کامیاب ادارہ ہے۔ یہاں ہر سال تقریباً تیس سے چالیس ملازمین ریٹائر ہورہے ہیں اور یونیورسٹی کے پاس ان کے واجبات کی ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ اسی طرح میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی، سکالرشپ، فیس کے مسائل فرد واحد کی منشا پر ہونا، سینٹ، سینڈیکیٹ سے دھوکہ دہی کے ذریعے منظوری لینا جس کاثبوت خود یونیورسٹی کے سینٹ کے ممبر مرک اچکزی ہیں جنہوں نے فیسوں میں کئی گنا اضافہ پر اجلاس میں کہا کہ ہمیں غلط بریف کیا گیا تھااور فیس بڑھانے کی منظوری میں دستخط لیتے ہوئے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی دیگر صوبوں میں اسی طرح کے مسائل سامنے آئے ہیں۔ خیبر میڈیکل کالج کو خیبر میڈیکل یونیورسٹی کا حصہ بناتے وقت اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور کا حصہ بناتے وقت ایسے ہی مسائل سامنے آئے تھے۔ وہاں پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نئے میڈیکل کالجز یونیورسٹیز کو دیے گئے، کوہاٹ میڈیکل کالج اور گوجرانوالہ میڈیکل کالج، جب کہ پرانے میڈیکل کالجز صوبائی عملداری میں ہی رہے۔ صوبوں کے بنیادی میڈیکل کالجز صوبوں کے اثاثہ جات ہیں۔ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی انتظامیہ ایک طرف فنڈز نہ ہونے کا رونا رو رہی ہے اور دوسری طرف کنٹریکٹ پر بھاری تنخواہوں کے عوض افسران بھرتی کیے جارہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ یونیورسٹی نے اب تک اعلیٰ تعلیم اور امتحانات کے حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ ایچ ای سی کے قوانین کے مطابق یونیورسٹی کی بلڈنگ پانچ سو ایکڑ زمین پر ہونی چاہیے اور ہر ملازم کی جاب ڈسکرپشن جاری ہونی چاہیے۔ صوبے کے بنیادی اور بہترین میڈیکل کالج کی داخلہ پالیسی حکومت بلوچستان کے پاس ہونی چاہیے نہ کہ فرد واحد اور اس کے ٹولے کے پاس تا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق اوپن میرٹ کی سیٹوں میں کمی نہ کرتے جائیں، نہ ہی طلبہ کے سکالرشپ بند کرسکیں اور نہ ہی فیس میں کئی گنا اضافہ کیا جاسکے۔ اسی طرح سیلف فنانس کی سیٹوں کا اجرا نجکاری کی طرف ایک قدم ہے اور غریب و محنتی طلبہ پر میڈیکل کی تعلیم کے دروازے بند کرنے کے مترادف ہے۔
طلبہ کے مطالبات
طلبہ کے مسائل ملازمین کے مسائل سے مختلف اور ایک حد تک متضاد بھی تھے کیونکہ طلبہ کے مسائل پُرانے روایتی قومی و لسانی تعصبات کا رنگ لیے ہوئے تھے۔ طلبہ کا یونیورسٹی ایکٹ میں مسئلہ کوٹہ اور میرٹ کے حوالے سے تھا۔ یونیورسٹی نے سیلف فنانس کی سیٹوں پر اوپن میرٹ کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے بلوچ طلبہ تنظیموں کے تحفظات تھے جو کہ ان سیٹوں کو ڈویژنل میرٹ یا کوٹے پر چاہتے تھے جبکہ پشتون طلبہ تنظیمیں اس کی مخالف تھیں۔ اس سے پہلے طلبہ کے جو مشترکہ جائز مطالبات تھے، ہم نے اُن کی غیر مشروط حمایت کی تھی، جس میں فیسوں میں اضافہ، سکالرشپ کی بندش، ہاسٹلز اور ٹرانسپورٹ جیسے اہم اور بنیادی مسائل شامل تھے۔ یہ مسائل ایک حد تک حل بھی ہوئے، جس میں خصوصاََ فیسوں میں کیا گیا اضافہ واپس لیا گیا۔ جبکہ یونیورسٹی ایکٹ میں طلبہ کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا وہ سیلف فنانس کی سیٹوں کے حوالے سے تھا جن کی ریڈ ورکرز فرنٹ نے اصولی بنیادوں پر مخالفت کی تھی، کہ اس عمل کے ذریعے صوبے کے غریب اور مفلس طلبہ کا حق مارا جائے گااور صوبے میں محکمہ صحت کے تعلیمی اداروں کی نجکاری کی راہ ہموار ہو گی۔
تحفظات اور خدشات
ملازمین کے بنیادی مسائل کے حوالے سے صوبے بھر کے تمام عوام دوست عناصر نہ صرف ہمدردی رکھتے تھے بلکہ ملازمین کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کرتے تھے۔ جبکہ طلبہ کا موقف ملازمین کے مسائل کے برعکس شروع دن سے ہی لسانی و قومی تعصبات کا شکار ہوگیا تھا جس کی ایک بڑی وجہ قوم پرست طلبہ قیادت کی موجودگی تھی۔ ان کا مقصد ایک تو طلبہ اور مزدوروں کے بیچ تقسیم پیدا کرنا تھا اور ساتھ ہی طلبہ کو خود قومی بنیادوں پر تقسیم کرنا بھی تھا۔ بنیادی طورپر کوٹہ یا میرٹ سسٹم کی لایعنی اور نقصان دہ بحث کے ذریعے ایک تو طلبہ کے مشترکہ حقیقی مسائل پر پردہ ڈال دیا گیا وہیں ان نام نہاد مطالبات کے ذریعے انہیں تقسیم کرکے ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر دیا گیا۔ کوٹہ اور میرٹ کے ایشو پر طلبہ میں دو متضاد گروپ سامنے آئے، پشتون طلبہ تنظیمیں اوپن میرٹ کے حق میں تھیں جبکہ بلوچ طلبہ تنظیمیں کوٹے کے حق میں۔ دونوں اطراف سے انتہائی تعصب آمیز اور قومی ولسانی نفرت پر مبنی رویہ اپنایا جاتا رہا جبکہ صوبے میں صحت کے حوالے صورتحال یہ ہے کہ اگر باقی پورے ملک میں 1500 سے 2000 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر ہے تو بلوچستان میں 7000 افراد کے لئے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔
کوٹہ یا میرٹ کی بے کار بحث کی بجائے اس ضمن میں ریڈ ورکرز فرنٹ کا مطالبہ تھا اور ہے کہ بلوچستان میں میڈیکل کی سیٹوں کو عالمی ادارہِ صحت کے کم از کم اُصول کے مطابق 01:1000 کرنے کے لیے اس تناسب سے نئے سرکاری میڈیکل کالجز بنائے جائیں، کیونکہ بلوچستان میں اس وقت کم از کم موجودہ تعداد سے 5 یا 6 گنا مزید ڈاکٹرز کی ضرورت ہے، جس کے لیے نئے میڈیکل کالجز کی تعمیراور آبادی کی ضرورت کے مطابق نئے داخلوں کا اجراء ایک ناگزیر عمل ہے۔ ایسا کرنے سے ایک طرف کوٹہ بمقابلہ اوپن میرٹ کی قومی تعصب سے لتھڑی بحث کا خاتمہ ہو جائے گا وہیں دوسری طرف صوبے کے غریب عوام کو مفت اور معیاری علاج مل سکے گا۔
نتائج اور اسباق
بی ایم سی بحالی تحریک کی جدوجہد جوکہ طویل اور کٹھن سفر کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور یہ نہ صرف بی ایم سی بحالی تحریک میں جدوجہد کرنے والے ملازمین کے لیے حوصلہ افزاء ہے بلکہ صوبے سمیت ملک بھر کے محنت کش طبقے کے لیے ایک حوصلہ افزاء جیت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری اور اُس میں کورونا وباء کے اثرات کے تحت آنے والی تیز گراوٹ نے اس وقت پوری دنیا میں اور خاص کر پاکستان جیسی پسماندہ سامراجی گماشتہ معیشت میں کہرام مچا دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب پاکستان میں بالخصوص تبدیلی سرکار کے متواتر مزدور دشمن اقدامات اور آئی ایم ایف کے پیش کردہ بجٹ میں ہونیوالے مزدور دشمن فیصلوں کے خلاف پورے ملک کے محنت کشوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، ایسے میں بی ایم سی بحالی تحریک کی جیت انتہائی حوصلہ افزاء عمل ہے۔
مگر ساتھ ہی ساتھ اس تحریک نے جہاں شاندار جدوجہد کی، وہاں اس تحریک کی قیادت شعوری یا غیر شعوری طور پر کچھ غلطیوں کی مرتکب بھی ہوئی جن کا ذکر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ مستقبل میں ان غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اور بھی بہتر انداز میں جدوجہد کو آگے بڑھا یا جا سکے۔ پہلی بات یہ کہ اس تحریک میں طلبہ اور مزدوروں کے اتحاد کو واضح نکات اور متفقہ حکمت عملی کی بجائے مبہم اور غیر واضح کیفیت میں رکھا گیا جس کا فائدہ مختلف قوم پرست سیاسی حلقوں نے ایک طرف مزدوروں اور طلبہ کے بیچ فاصلہ قائم کرکے اور دوسری طرف طلبہ کو قومی و لسانی بنیادوں پر تقسیم کرکے اٹھایا۔ اور اس طرح یہ عناصر عمومی طور پر محنت کشوں اور طلبہ کی اس مشترکہ تحریک کو کمزور کرنے کی وجہ بنتے رہے۔ ایسے عناصر کو سامنے لانا اور ان پر کڑی تنقید کرنا تحریک میں موجود باشعور لوگوں کی اولین ذمہ داری ہونی چاہئے۔
دوسری جانب تحریک اپنے مطالبات کو عوام کے سامنے ایک ٹھوس شکل میں پیش کرنے سے بھی قاصر رہی، جسکی وجہ سے عام لوگ نہیں سمجھ پائے کہ اس تحریک کے مطالبات کیا ہیں، یہاں تک کہ اس ابہام کا فائدہ اٹھا کر قومی و لسانی بنیادوں پر منافرت پھیلائی گئی اور تحریک کے مطالبات کو یونیورسٹی کے سرے سے ہی خاتمے سے جوڑ کر تحریک میں موجود کچھ عناصر ایک دوسرے پر الزامات بھی لگاتے رہے۔ ان تما م عوامل کی وجہ سے تحریک کو عوامی سطح پر خاطرخواہ کامیابی نہیں مل سکی اور اسی لئے محنت کشوں کی تمام تر جرات کے باوجود کامیابی حاصل کرنے میں بہت وقت لگا۔
احتجاجی تحریک کے دوران مزدور قیادت کی جانب سے صوبے کی دیگر مزدور تنظیموں، ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز وغیرہ سے ہمدردی اور یکجہتی حاصل کرنے کی نہ تو کوئی اپیل کی گئی اور نہ ہی اس کے لیے کوئی عملی اقدامات اُٹھائے گئے، بالخصوص محکمہ صحت کے ملازمین کی دیگر ایسوسی ایشنز کے حوالے سے یہ بات انتہائی ضروری تھی کہ کم از کم اُنکو اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش ضرور کی جاتی۔ اس سے ایک طرف تو مذکورہ تحریک جلد کامیابی سے ہمکنار ہو جاتی اور دوسری طرف محنت کشوں میں طبقاتی جڑت کا احساس بھی اُجاگر ہوتا۔
مگریہ کوئی پہلی اور آخری لڑائی نہ تھی اور نہ ہے، لیکن کم از کم محنت کشوں کی ہر اول لڑاکا پرت کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ آج عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے اس شدید نامیاتی بحران کے عہد میں معمولی اصلاحات جیتنے کے لیے بھی مزدور نظریات یعنی سوشلزم کی جانکاری ہونا لازمی ہے۔ صرف ان ٹھوس نظریاتی بنیادوں پر ہی حکمران طبقے کے مزدور دشمن اقدامات کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ ہمیشہ کی طرح شعبہ صحت کے محنت کشوں کی ہر جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔