|تحریر: راشد خالد|
پاکستانی حکمران گزشتہ کچھ وقت سے معیشت کی بہتری کی دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ کچھ دن قبل ہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قوم کو خوشخبری دی کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سے حالیہ قرضے کی آخری قسط موصول کرنے کے بعد بھی حکومت کے بیانات مضحکہ خیز تھے جن میں آئی ایم ایف کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے اور کشکول توڑ دینے کے پرانے گھسے پٹے بیانات کا پورا سلسلہ سننے میں آتا رہا۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھی اسحاق ڈار کی اس کامیابی کو سراہا جا رہا ہے کہ انتہائی مشکل وقت میں وزیر خزانہ نے معیشت کو سہارا دیا ہے۔ اور بس اب ملک پسماندگی کی صفوں سے نکل کر ترقی کی راہوں پر گامزن ہوا ہی چاہتا ہے۔ جہاں ایک طرف ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے کافی شد و مد سے دکھائی دے رہے ہیں وہیں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی طلسماتی طاقتوں کی بھی رام کتھا بار بار سنائی جا رہی ہے۔
ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کا 24ارب ڈالر سے تجاوز کر جانا موجودہ حکومت کی بڑی کامیابی اس لئے بھی جتایا جا رہا ہے کہ یہ ملکی تاریخ کے سب سے بڑے زر مبادلہ کے ذخائر ہیں، لیکن اس کے پس پشت چھپے حقائق پر سے نہ تو کوئی پردہ اٹھا رہا ہے اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی بات کر رہا ہے اور زرمبادلہ کی ریکارڈ بلندی سے ملک میں کیا بہتری آئی ہے یا آئے گی اس پر بھی کہیں کوئی بات نہیں کی جا رہی۔ اگست میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ملکی قرضے (اندرونی اور بیرونی) بھی تاریخ کی بلند ترین سطح تک پہنچ چکے ہیں اور ان اعداد وشمار کے مطابق اس وقت پاکستان کا کل قرضہ ساڑھے 22ہزار ارب روپے (22.5ٹریلین) تک پہنچ چکا ہے۔ جس میں صرف ایک سال میں 2ہزار6سو ارب روپے کا اضافہ ہوا اور یوں پاکستان کا قرضہ GDPکی 76.9فیصدکی خطرناک حد سے بھی تجاوز کر گیا۔ اس طرح بیرونی قرض 7ہزار 2سو ارب روپے (تقریباً73ارب ڈالر، ایک سال میں تقریباً8ارب ڈالر کا اضافہ) تک پہنچ گیا ہے جبکہ حکومت ابھی بھی اپنے اعداد و شمار میں بیرونی قرض 5ہزار4سو ارب روپے (تقریباً54ارب ڈالر) بتا رہی ہے جو اعدادوشمار میں بڑی ہیر پھیر کا نتیجہ ہے۔ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ مذاکرات کے بعد آئی ایم کی طرف سے جاری کئے گئے تخمینوں کے سے بھی زیادہ ہے۔
اسی طرح پاکستان کے اندرونی قرضے 13ہزار6سو ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ اندرونی قرضوں میں ہونے والے اس اضافے میں پبلک سیکٹر کے قرضوں میں 24فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ریاستی معاملات کو چلانے کے لئے اس وقت قرضوں پر حد سے زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قرضوں کو کم دکھانے کے لئے موجودہ حکومت نے قرض کی تعریف کو ہی تبدیل کر دیا ہے تاکہ عوام کو حقائق سے آگہی نہ ہو سکے اور نجی شعبے سے حاصل کئے گئے قرضے شامل نہیں کئے جا رہے۔
زرمبادلہ میں ہونے والے اس اضافے میں بڑاحصہ چین سے 700ملین ڈالر اور آئی ایم ایف سے 6.15ارب ڈالر کی آخری قسط 102ملین ڈالر موصول ہونے سے ہوا ہے۔ اس سے قبل مئی میں حکومت کو آئی ایم ایف سے 501ملین ڈالر، ورلڈ بینک سے 502ملین ڈالر اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے 307ملین ڈالر قرض کی مد میں موصول ہوئے تھے۔ یعنی زرمبادلہ کا بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی صورت میں حاصل کیا گیا ہے۔ جس وقت زرمبادلہ کے ذخائر کو ایک بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں پاکستانی معیشت کے دیگر اشاریے انتہائی مخدوش حالت میں ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے ہی مطابق اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.36ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے جو ایک سال قبل 579ملین ڈالر تھا، یعنی اس میں 136فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اسی دوران تجارتی خسارہ 30فیصد اضافے کے ساتھ 7ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ زرمبادلہ کا سب سے اہم ذریعہ تارکین وطن کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم ہیں جو پاکستانی درآمدات کے 45فیصد کے برابر ہیں، میں اس مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں ساڑھے 5فیصد گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری 38فیصد کمی کے بعد 403ملین ڈالر سے گر کر 249ملین ڈالر ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ صنعتی اور زرعی پیداوار کے شعبے انتہائی زبوں حالت میں ہیں۔ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹینا لیگارڈ کے حالیہ دورہ پاکستان میں ایک بار پھر پاکستان کو کئی حوالوں سے تنبیہہ کی گئی ہے۔ بالخصوص ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی بار بار تاکید کی گئی ہے اور شفافیت اور کرپشن کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کی تجاویز پس پردہ مسائل کے ادراک کے لئے اہم ہیں۔
میڈیا پر معاشی ترقی کی چکا چوند سے ہٹ کر اگر زندہ سماج کی حالت زار کو دیکھا جائے تو اس ترقی کی حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر ایک بوجھ بنتے جا رہے ہیں جو عام لوگوں کی زندگیوں پر جو اثرات ڈالے ہیں وہ تباہ کن ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ سردیوں کی آمد سے قبل ہی گیس کی قیمت میں 36فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن عوامی ردعمل کے خوف کے تحت یہ فیصلہ جلد ہی واپس لے لیا گیا۔ لیکن یوٹیلیٹی بلز کو اگر بغور پڑھا جائے تو کوئی بھی فرد انہیں سمجھنے سے قاصر ہے، استعمال شدہ بجلی یا گیس کے علاوہ دیگر ٹیکسوں کا ایک گھن چکر اس بل میں شامل ہوتا ہے۔ یوں اعلانیہ ریٹس سے زائد پیسے پہلے ہی اس بل میں شامل ہوتے ہیں جو صارفین کو بغیر کسی چوں چراں کے ادا کرنا پڑتے ہیں۔ بیروزگاری کا خوف عوام کو انتہائی کم اجرتوں پر کام پر مجبور کر رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت عوامی مسائل کو حل کرنے کے کسی پروگرام کی بجائے محنت کشوں پر مزید حملوں کی تیاری کر رہی ہے۔ فیسکو کی نجکاری کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے، اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کے لئے بھی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔
اس کیفیت میں اگر ان حکمرانوں سے کوئی بھی سوال پوچھا جائے تو ایک ہی جواب سننے کو ملتا ہے کہ سی پیک میں ہی ان مسائل کا حل ہے۔ پاکستان میں توانائی کے بحران کا کیا حل ہے؟ جواب سی پیک، پاکستان میں بیروزگاری کا کیا حل ہے؟ جواب سی پیک، پاکستان میں معاشی بہتری کے لئے کیا حکمت عملی ہے؟ جواب سی پیک، پاکستان میں دہشت گردی سے کیسے نبٹا جا سکتا ہے؟ جواب سی پیک اور ایسے ہی باقی بھی۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان کا ہر مسئلہ سی پیک کے ساتھ جڑا ہے۔ اور پاکستان میں جو بھی ہو جائے اسے سی پیک پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات سی پیک پر حملہ ہیں، عمران خان کا دھرنا سی پیک کے خلاف ایک سازش ہے، اسلام آباد میں منعقد ہونے والی سارک کانفرنس کا منسوخ ہو جانا سی پیک کے خلاف منصوبے کی ایک کڑی ہے۔ یہ بیانات سننے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ ان حکمرانوں کو سی پیک کی بد ہضمی ہو گئی ہے۔
تمام سیاسی پارٹیوں کا منشور اس وقت سی پیک ہے۔ ہر پارٹی سی پیک کے حق میں ہے لیکن روٹ پر اس کے تحفظات ہیں۔ روٹ کو پختونخوا سے گزرنا چاہئے۔ نہیں، اسے سندھ سے گزرنا چاہئے، نہیں پنجاب سے، جی بالکل نہیں اس روٹ میں سے بلوچستان کو باہر نہیں کیا جاسکتا۔ حتیٰ کہ نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران بھی اب سی پیک میں شامل ہونے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم صاحب تو جس اجلاس یا کانفرنس میں جاتے ہیں سی پیک کا ہی منجن بیچتے نظر آتے ہیں۔ چاہے سلامتی کونسل کا اجلاس ہو یا ایشیائی اقتصادی کونسل کا۔ سارک ممالک کی کانفرنس میں بھی سی پیک کے لئے بھرپور تقریر تیار کی گئی تھی، لیکن وہ منسوخ ہو جانے کی وجہ سے انہوں نے وہی تقریر ذرا رد و بدل کے ساتھ آذربائیجان کے دورے پر پڑھ کے سنا دی کہ میٹنگ تو نہیں ہوئی، تقریر کا تو استعمال کر دیں اور آذربائیجان کو سی پیک کے فوائد سے آگاہ کیا۔ نام نہاد بائیں بازو کی پارٹیاں بھی سی پیک سی پیک کی رٹ لگائے نظر آتی ہیں۔
سی پیک کو ترقی کا ذریعہ بتانے والے اس سے قبل بھی ترقی کے ایسے ہی راستے بتاتے رہے ہیں۔ اس سے قبل اس کے لئے اصطلاح براہ راست بیرونی سرمایہ کاری (FDI) استعمال کی جاتی تھی کہ اگر FDIمیں اضافہ ہو گا تو ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو جائے گا۔ وہ بیرونی سرمایہ کاری ہوئی بھی لیکن آج تک اس کے ثمرات میں مزید لوڈ شیڈنگ، مزید بیروزگاری، مزید مہنگائی، مزید غربت کی صورت ہی محنت کش طبقے کو بھگتنا پڑے۔ اور اب جو سی پیک کا نسخہ کیمیا نون لیگ کی حکومت بیچ رہی ہے اس کا نتیجہ بھی کچھ مختلف نہیں نکلنا۔ انفراسٹرکچر کے علاوہ چینی سرمایہ کاری زیادہ تر توانائی کے شعبے میں کی جا رہی ہے اور اس مد میں بھی جو پلانٹ لگائے جا رہے وہ تھرمل پاور پلانٹس ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ غالب امکان ہے کہ اربوں روپے لگا کر بنائے جانے والے ان پلانٹس سے بجلی پیدا ہی نہیں ہو گی، جیسا کہ نندی پور پاور پلانٹ اپنی تکمیل کے ایک سال بعد تک ایک واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کر سکا۔ ایسا ہی ایک اور کول پاور پلانٹ ساہیوال میں لگایا جا رہا ہے جس کے چلنے کے امکانات انتہائی مخدوش ہیں۔ اور اگر ان پاور پلانٹس سے بجلی پیدا بھی ہوئی تو اتنی مہنگی ہو گی کہ عوام بجلی کا استعمال یا تو ترک کرنا پڑے گا یا انتہائی محدود۔ اور اہم بات یہ ہے کہ پاور پلانٹ چلے یا نہ چلے، بجلی پیدا ہو یا نہ ہو ہماری جیبوں سے پیسے بٹور کر ان کمپنیوں کو ادا کرنا حکومت کی بہرصورت ذمہ داری ہو گی۔ باقی سڑکوں کے بن جانے سے کتنا ایک روزگار پیدا ہو گا جو ملک میں کوئی حقیقی بہتری لا سکے گا؟ ایسی ہی بیان بازی اس وقت بھی کی جا رہی تھی جب لاہور اسلام آباد موٹر وے کی تعمیر کی جا رہی تھی۔ محض انفرااسٹرکچر کی بہتری معیشت میں بہتری نہیں لا سکتی۔
پاکستان میں اس وقت توانائی کے شعبے کے جو حالات ہیں اس کی وجہ سے پہلے سے موجود صنعت بھی بند ہو رہی ہے اور پاکستان کی شرح نمو کو اگر حقیقی معنوں میں ناپا جائے تو اس میں صنعتی شعبے کی شرح نمو منفی میں نکلے گی۔ زراعت کی حالت تو اتنی دگرگوں ہے کہ گزشتہ سال کسانوں نے مختلف علاقوں میں دھان کی فصل کاٹی ہی نہیں کیونکہ مارکیٹ میں چاول کی قیمت اتنی کم تھی کہ ان کے نقصان کا ازالہ کیا جانا ممکن ہی نہیں تھا۔ پنجاب میں گزشتہ دو سال سے لگاتار ہمیں زراعت سے وابستہ لوگوں کے احتجاج نظر آ رہے ہیں جو بار بار یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ انہیں پانی، بجلی، فرٹیلائزر اور کیڑے مار ادویات پر سبسڈی دی جائے۔ زرعی اجناس کی درآمد کو بند کیا جائے تاکہ ان کی اجناس کی منڈی میں کھپت ہو۔ ان مطالبات سے ہی زراعت کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اور زراعت کی ناگفتہ بہ حالت ہی بڑے پیمانے پر دیہاتوں سے زراعت پیشہ افراد کے شہروں کی طرف رخ کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ جس کی وجہ سے شہروں میں آبادی کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ کراچی لاہور فیصل آباد جیسے بڑے شہر تو ایک طرف، چھوٹے شہروں کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ جو شہر پہلے ہی اپنے مکینوں کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں ان کی طرف آبادی کا مزید کھچاؤ شہروں پر مزید دباؤ کا باعث بن رہا ہے جس کی وجہ سے شہر ایک مکمل طوائف الملوکی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
ان تمام تر مسائل کی بنیادی وجہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ جس میں منافع اور شرح منافع کی ہوس کسی مرکزی منصوبہ بندی کو ماننے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے ذرائع پیداوار پر قابض قوتیں وحشی سے وحشی ہوتی جا رہی ہیں۔ اور جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام رہے گا اس سماج میں مزید غلاظتیں پھیلاتا رہے گا اور محنت کشوں کے مسائل گھمبیر ہوتے چلے جائیں گے۔ ان سے چھٹکارے کا واحد راستہ اس ملکیت کے نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ منصوبہ بند نظام کی بنیاد رکھنا ہے۔
Tags: CPEC × Debt Servicing × Economic Crisis × Economy × FDI × Foreign Debt × IMF × Pakistan × Privitization