|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کراچی|
7 مارچ کو ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس کے زیر اہتمام کراچی یونیورسٹی میں محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ایک سٹڈی سرکل کا انعقاد کیا گیا۔ سٹڈی سرکل میں 25 سے زیادہ ڈیپارٹمنٹس کے طلبہ نے بھرپور شرکت کی طلبہ کا تعلق پولیٹیکل سائنس، ہسٹری، ماس کمیونیکیشن اور سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ سمیت دیگر ڈیپارٹمنٹس سے تھا۔
عالمی محنت کش خواتین کے دن پر سٹڈی سرکل کا موضوع ”خواتین کے حقوق کی جدوجہد اور انقلابی سوشلزم“ تھا، سٹڈی سرکل کو چیئر زینب نے کیا اور انعم خان کو تفصیلی گفتگو کی دعوت دی۔ انعم خان نے بات کا آغاز کیا کہ 8 مارچ کو پوری دنیا میں خواتین کا دن منایا جاتا ہے، یہ در حقیقت محنت کش خواتین کا عالمی دن ہے۔ اس دن کی نسبت محنت کش خواتین کی جدوجہد سے ہے اور یہ دن بیسویں صدی کی سوشلسٹ تحریک میں پیدا ہوا تھا، اور 1917 میں ہونے والے روس کے فروری انقلاب کا آغاز بھی درحقیقت یومِ خواتین پر ہوا۔
انعم کا کہنا تھا کہ سرمایہ دارانہ نظام ایک اندھی گلی میں داخل ہوچکا ہے۔ عالمی سطح پر اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا بحران ہے وہ خواتین اور نوجوانوں پر زیادہ شدت سے اثر انداز ہورہا ہے۔ انعم کا مزید کہنا تھا کہ خواتین پر ہر طرح کے ظلم و جبر کی اصل بنیاد معاشرے کی طبقوں میں بٹے ہونے میں ہے۔ یہ جبر دراصل طبقاتی معاشرے، نجی ملکیت کے آنے کے بعد وجود میں آیا ہے۔ مارکس نے پہلے ہی، انیسویں صدی میں اس بات کی وضاحت کردی تھی کہ سرمایہ داری کا رجحان ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کے استحصال سے انتہائی زیادہ منافع نچوڑے۔ مارکس وادیوں کے نزدیک، طبقاتی سماج کی موجودہ شکل، یعنی سرمایہ دارانہ نظام میں آزاد وہ ہے جس کے پاس سرمایہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں نا صرف خواتین کو غلام سمجھا جاتا ہے، بلکہ مرد اور عورت دونوں ہی سرمائے کے غلام ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ غلامی کے خاتمے کا دارومدار طبقات کے خاتمے، یعنی سوشلسٹ انقلاب پر ہے۔ اس نظام کو توڑنے کے لئے، محنت کش خواتین کو منظم کرنا ہوگا اور ان کی جدوجہد کو مرد محنت کشوں کی جدوجہد سے جوڑنا ہوگا۔ کیونکہ خواتین کی جدوجہد صنفی جدوجہد نہیں ہے بلکہ طبقاتی جدوجہد ہے۔ جیسا کہ مارکس نے لکھا ہے کہ خواتین ہماری معاشرتی پیداوار کا ایک سرگرم جزو بن چکی ہیں اور یہ آج کی حقیقت ہے کہ خواتین کے بغیر عظیم معاشرتی تبدیلی ناممکن ہیں۔
اس کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور ساتھ ہی سٹڈی سرکل میں موجود دیگر طلبہ جن میں آنند، دلیپ، نشا اور گلاب شامل تھے، انہوں نے بحث کو آگے بڑھایا اور پھر بحث کو سمیٹتے ہوئے انعم خان نے کہا کہ جب ہم انفرادیت سے نکل کر اجتماعی نقطہ نظر اپناتے ہیں تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ یہ استحصال اور ظلم ہم سب پے ہے اور محنت کش طبقے کی آزادی، خواتین کی حقیقی آزادی اور انسان کی سرمائے سے آزادی مکمل سماج کی آزادی میں ہے۔ ان سب مسائل سے نکلنے کیلئے ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سوشلسٹ انقلاب۔