|رپورٹ: نمائندہ ورکرنامہ، گلگت بلتستان|
30 مئی، بروز جمعرات قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت بلتستان کی فیسوں میں اضافے کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیا، اس احتجاج کی پاداش میں پولیس کی جانب سے طلبہ کو یونیورسٹی کے اندر سے گرفتار کیا گیا۔ اس خبر کے پھیلتے ہی پورے گلگت بلتستان کے طلبہ، نوجوانوں اور محنت کشوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ متوقع طور پر بڑے احتجاج برپا ہونے سے خوفزدہ ہو کر طلبہ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی پورے گلگت بلتستان میں واحد سرکاری یونیورسٹی ہے۔ باقی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے محنت کش اور درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی اکثریت اسی ایک یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ لیکن پچھلے کئی سالوں سے قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ یونیورسٹی کی فیسوں میں مسلسل اضافہ کرتی چلی آ رہی ہے۔
گزشتہ سال قراقرم یونیورسٹی کی فیسوں میں 50 فیصد سے بھی زیادہ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ کمر توڑ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کی صورت میں فیسوں میں بے تحاشا اضافے کے باعث بہت سے طلبہ کو اپنا تعلیمی سلسلہ مجبوراً ترک کرنا پڑا۔
گزشتہ سال فیسوں میں بے تحاشا اضافے کے خلاف قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ نے شاندار احتجاجی تحریک چلائی تھی، جس میں ہزاروں طلبہ نے خود کو منظم کرتے ہوئے مہنگی تعلیم کے خلاف جرأت مندی سے جدوجہد کے میدان میں اترے تھے۔ طلبہ کے والدین اور گلگت بلتستان کے عوام نے بھی اس تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا تھا۔
اس طلبہ تحریک نے پورے ملک کے طلبہ کے لیے امید کی ایک کرن روشن کی تھی اور حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا تھا۔ ریاست اور قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہر ممکن طریقے سے اس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اپنے تمام ہتھکنڈوں میں ناکام ہونے کے بعد ریاست اور یونیورسٹی انتطامیہ نے جبر کے ذریعے بھی اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی۔
طلبہ کے داخلے منسوخ کیے گئے، انہیں ہراساں کیا گیا اور گرفتار کیا گیا۔ اس تحریک میں کمیونسٹ رہنماء، نوجوان طالبعلم تجمل حسین کو غیر قانونی طور پر 14 دن قید میں رکھا گیا۔ بالآخر تحریک کے ملک بھر میں پھیلنے کے خوف اور طلبہ کی منظم طاقت و اتحاد نے قراقرم یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ریاست کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور انتظامیہ نے طلبہ کے کچھ مطالبات کی منظوری کے بعد کئی ماہ کی چھٹیوں کا اعلان کر دیا تھا۔
کئی مہینوں پر مشتمل چھٹیوں کے وقفے کے بعد اس مہینے یعنی مئی میں یونیورسٹی کو دوبارہ کھولا گیا۔ یونیورسٹی بند کرنے سے قبل انتظامیہ نے طلبہ کے فیسوں میں کمی کے مطالبے کی منظوری دی تھی لیکن ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ طلبہ کے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے اور فیسوں کو کم نہیں کیا گیا۔ بلکہ چھٹیوں کے اختتام پر طلبہ کے دوبارہ یونیورسٹی آنے کے بعد گزشتہ سال چلنے والی طلبہ تحریک میں کلیدی کردار ادا کرنے والے طلبہ کو یونیورسٹی انتظامیہ نے مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ روز یعنی 30 مئی کو قراقرم یونیورسٹی کے طلبہ نے بڑھتی ہوئی فیسوں اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسلط کردہ آمرانہ فیصلوں کے خلاف اور گزشتہ سال کی تحریک میں رکھے گئے اپنی مطالبات کی منظوری کے لیے پرامن احتجاج منظم کیا۔ احتجاج میں شامل طلبہ کا کہنا ہے کہ فیسوں کی ادائیگی میں تاخیر کے باعث یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو کمرہ امتحان سے گھسیٹ کر باہر نکالا جا رہا ہے اور فیسوں میں کمی کا مطالبہ نہ مان کر یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ کو تعلیم کا سلسلہ ترک کرنے پہ مجبور کر رہی ہے۔
اس احتجاج کی پاداش میں کرپٹ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے پولیس کو بلا کر کیمپس کے اندر سے 7 طلبہ کو گرفتار کیا گیا جن میں کمیونسٹ رہنماء نوجوان طالبعلم نیئر عباس بھی شامل تھا۔ گرفتار کیے جانے والے طلبہ کو تھانے سے وِنگ شفٹ کرنے کی خبر جب سوشل میڈیا پر پھیلی تو گلگت بلتستان کے عوام نے بڑے احتجاجوں کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا۔ عوام کے ردعمل اور مزاحمت کو دیکھ کر طلبہ کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
ہم قراقرم یونیورسٹی انتظامیہ کی غنڈہ گردی، ریاستی جبر اور طلبہ کی گرفتاریوں کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور طلبہ کی اس لڑائی میں طلبہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے طلبہ کے تمام مطالبات کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم طلبہ کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ انہیں خود کو اس لڑائی میں گزشتہ سال کی شاندار تحریک کی نسبت پہلے سے زیادہ بلند سطح پر منظم کرنا ہو گا اور اس لڑائی کو جیتنے کے لیے محنت کش طبقے کی حمایت اور یکجہتی بھی حاصل کرنی ہو گی۔
اس سال حکمران طبقہ تعلیمی بجٹ میں پہلے سے کہیں زیادہ بلند پیمانے پر کٹوتیاں کرنے جا رہا ہے اور نتیجتاً فیسوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے پاکستانی حکمران بھی باقی دنیا کی طرح طلبہ اور محنت کش عوام پر ہی بحران کا بوجھ ڈال رہے ہیں اور ڈالتے رہیں گے۔ لہٰذا آج فیسوں کے مسئلہ کا مستقل حل بھی یہی ہے کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کیا جائے۔ اس انقلاب کو کامیاب بنانے کے لیے ایک انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس وقت ہم پاکستان میں ایک ایسی ہی انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنا رہے ہیں۔ ہم قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبہ کو بھی اس پارٹی کا ممبر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔
ایک کا دکھ سب کا دکھ!
جینا ہے تو لڑنا ہو گا!