|تحریر: عمر ریاض|
یوں تو پاکستانی میڈیا پر دن میں کئی بار آئین و قانون کی بالادستی اور جمہوریت جمہوریت کی گردان سننے کو ملتی ہے اور اس عمل میں سیاسی پارٹیاں ہوں، مذہبی یا قوم پرست پارٹیاں، چاہے بیوروکریٹس ہوں یہاں تک کہ ریٹائرڈ اور حاضر سروس جرنیل بھی اس رٹے رٹائے سبق کو دہراتے نظر آتے ہیں۔ ہر مسئلے کا حل جمہوری عمل کے جاری رہنے میں پنہاں بتایا جاتا ہے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ ملک کے نوجوانوں بالخصوص پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنے فرائض کو سمجھنے اور اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔مگر اسی جمہوریت اور جمہوری عمل کے ایک لازمی اور انتہائی ضروری جزو کی طرف خال ہی کسی کا دھیان جاتاہے گویا وہ کوئی ایسا شجر ممنوعہ ہے جو اس مملکت خداداد کے ارباب بست و کشاد کو آدم کی طرح رسوا کرسکتا ہے۔ جی ہاں! آپ بالکل درست سمجھے ، ہم طلبہ یونینز کی بات کر رہے ہیں۔ طلبہ یونینز پر پابندی کو تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے اور اس دوران آمریت اور جمہوریت کا ناٹک بھی چلتا رہا مگر طلبہ یونینز پر پابندی برقرار ہے۔ آمریت کا تو کیا گلہ کرنا نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بھی طلبہ یونینز شجرممنوعہ ہی رہیں۔ جمہوریت کے بڑے بڑے چیمپئن سمجھے جانے والے سیاستدانوں کے منہ سے بھول کر بھی کبھی طلبہ یونینز کی بحالی کے حوالے سے کبھی کوئی سنجیدہ بات نہیں سنی گئی۔ ہاں پیپلز پارٹی کے ایک جغادری ’انقلابی‘ سیاستدان کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لئے اس حوالے سے ایک آدھ قرارداد سینٹ میں منظور کرلیتے ہیں مگر اس قراردا دکا حشر بھی باقی دیگر قراردادوں سے مختلف نہیں ہوتا۔ یوں ایک آمر کی لگائی ہوئی پابندی آج تک برقرار ہے۔
مگر یہ عمل بس طلبہ یونینز پر پابندی تک ہی نہیں رکا بلکہ اس ریاست نے میڈیا، نصاب اور اپنی گماشتہ طلبہ تنظیموں کے ذریعے طلبہ یونینز اور طلبہ سیاست کے خلاف غلیظ پروپیگنڈا شروع کیا جو کہ آج تک جاری و ساری ہے۔ غنڈہ گردی، مارکٹائی، اسلحہ کلچر اور منشیات فروشی کا دوسرا نام طلبہ سیاست کو ٹھہرا دیا گیا۔ تعلیمی نصاب سے طلبہ سیاست کی تاریخ کو اس طرح غائب کردیا گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ اگر کہیں کوئی تذکرہ ملتا ہے تو وہ یہی کہ طلبہ سیاست اور طلبہ یونینز تعلیمی اداروں کا پرامن ماحول خراب کرتی ہیں اور غنڈہ گردی اور اسلحہ کلچر کو فروغ دیتی ہیں۔ ضیا آمریت اور بعد کے عہد میں سرکاری وظیفہ خوار ادیبوں اور ناول نگاروں کی جانب سے طلبہ سیاست کے خلاف غلیظ پروپیگنڈے پر مبنی لٹریچر کی بھرمار کردی گئی جن میں ایسے کردار گھڑے گئے جن کی زندگیاں طلبہ سیاست نے غارت کردیں۔ مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ اس غنڈہ گردی، منشیات اور اسلحہ کلچر کی ذمہ دار ریاست کی گماشتہ طلبہ تنظیمیں تھیں جن میں اسلامی جمعیت طلبہ، اے پی ایم ایس او، انجمن طلبہ اسلام اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سرفہرست ہیں۔ اس عہد کی فلموں میں ایک طرف سابقہ سٹوڈنٹ لیڈران کو غنڈے بنتے دکھایا گیا اور دوسری جانب ایسے کرداروں کے ساتھ ایک رومانس اور ہیروازم کو منسوب کردیا گیا جو کچے ذہنوں کو متاثر کرتا تھا۔ سماج کے رگ وپے میں یہ بات بٹھا دی گئی کہ طلبہ سیاست سے غلیظ شے شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔ یہ ریاستی پروپیگنڈہ اس قدر شدید تھا کہ عمومی سوچ کا حصہ بن گیا۔ گھر سے لے کر کلاس روم تک ہر جگہ سے طلبہ کو سیاست سے دور رہنے اور اپنی توانائیاں صرف اور صرف تعلیم حاصل کرنے اور مستقبل سنوارنے پر صرف کرنے کا درس ملتا۔ یوں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف جہاں عہد کے عمومی کردار کے باعث طلبہ تحریک اور طلبہ سیاست کی روایت بالکل دم توڑ گئی تو دوسری طرف مستقبل بعید میں بھی طلبہ تحریک کو یکسر مسترد اور بھلا دیا گیا۔ تعلیمی اداروں کو ’سیاست‘ سے پاک کیا گیا اور جہاں ایسا ممکن نہ تھا وہاں اپنی گماشتہ طلبہ تنظیموں کو مسلط کردیا گیا۔ ترقی پسند طلبہ اور تنظیموں کے خلاف غیر اعلانیہ کریک ڈاؤن جاری رہا۔ اسی دوران طلبہ تحریک کے عمومی زوال اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد نظریات کو کوئی فالتو اور غیر ضروری شے سمجھ کر پس پشت ڈال دینے کے باعث ماضی میں ترقی پسند سمجھی جانے والی طلبہ تنظیمیں بھی اسی غنڈہ گرد اور ٹھیکوں، کمیشنوں ا ور مال پانی کی سیاست کا حصہ بن گئیں اور آج تاریخ کی بدترین زوال پذیری کا شکار ہوکر اسٹیٹس کو کاحصہ بن چکی ہیں۔
ایسی صورتحال میں آج پاکستانی طلبہ مکمل طور پر حکمران طبقے اور ریاست کے رحم و کرم پر ہیں۔ طلبہ یونین پر پابندی کو تین دہائیاں گزر جانے کے بعد آج کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ کی ایک بھاری اکثریت طلبہ یونینز کے نام ہی سے ناواقف ہے کہ اس قسم کی کوئی بلا بھی وجود رکھتی ہے۔ دوسری طرف اس ریاستی پروپیگنڈے کے اثرات اس حد تک سرایت کرچکے ہیں کہ آج جب کسی عام طالبعلم سے طلبہ سیاست کے حوالے سے بات کی جائے تو فوراً اس کے منہ سے غنڈہ گردی اور اس قسم کے دیگر الفاظ نکلتے ہیں اور ایک شدید قسم کا ردعمل دیکھنے کو ملتا ہے جو کہ ظاہر ہے اس نے اسی سماج سے سیکھا ہے۔ ہم یہاں پڑھنے آتے ہیں، ہمارا کام بس پڑھائی کرنا ہے، سیاست کا بھلا ہم سے کیا لینا دینا، اس قسم کا ردعمل معمول کا حصہ ہے۔ لیکن دوسری جانب پچھلے ایک لمبے عرصے سے فیسوں میں اضافے، انتظامیہ کے جبر، ہاسٹل و ٹرانسپورٹ اور دیگر مسائل نے طلبہ کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ مختلف مسائل کے حوالے سے آئے روز کسی نہ کسی کالج یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج وغیرہ بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
سانحۂ اے پی ایس اور مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل کے خلاف ابھرنے والی احتجاجی لہر میں پاکستانی سرمایہ داری کے سماجی و معاشی بحران کے زیر اثر سماج میں ہونے والی تیز تبدیلیوں کے زیر اثر طلبہ کے شعورپر مرتب اثرات دیکھنے کو ملے جو کہ پاکستان میں ایک ابھرتی طلبہ تحریک کی غمازی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے خلاف بھی احتجاج ابھرنے لگے ہیں جو کہ ایک انتہائی اہم ڈیویلپمنٹ ہے۔گو کہ شعور میں ہونے والی ان تبدیلیوں کا اظہار کسی طے شدہ فارمولے کے تحت نہیں ہوا مگر مختلف واقعات، احتجاج، اسٹیٹس کو سے بیزاری جیسے عوامل اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ طلبہ سیاست اور سیاسی کلچر کی عدم موجودگی کے باوجود طلبہ کی اس نئی نسل نے سماجی حالات کے دباؤ کے تحت یہ شعور حاصل کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تبدیلی ماضی کی طلبہ تنظیموں سے نفرت اور لاتعلقی ہے۔ ان میں دائیں بازو کی جمعیت جیسی رجعتی تنظیموں سے لے کر نام نہاد ترقی پسند طلبہ تنظیمیں بھی شامل ہیں۔ طلبہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہر دم بڑھتے ان مسائل کے خلاف کچھ کرنا چاہیے مگر طلبہ سیاست کے حوالے سے ریاستی پروپیگنڈے کے باعث وہ خود کو غیر سیاسی گردانتے ہیں اور غیر سیاسی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ طلبہ سیاست کے خلاف شدید اور غلیظ پروپیگنڈے کے باوجود نئی نسل کس حد تک سیاسی ہوچکی ہے۔ اس صورتحال میں مختلف حلقوں کی جانب سے طلبہ یونین بحالی کا مطالبہ بھی سامنے آتا رہتا ہے۔ اس وقت پاکستان میں طلبہ کو درپیش مسائل اور حکمران طبقے اور ریاستی حملوں کے خلاف جدوجہد کے لئے طلبہ یونینز انتہائی اہم اور مؤثر کردار ادا کرسکتی ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ یونین کی بحالی کیسے ممکن بنائی جائی سکتی ہے۔ اس تحریر کو لکھنے کا مقصد یہی ہے کہ طلبہ یونینز، اس کی تاریخ، پابندی کی وجوہات اور ضرورت کا جائزہ لیتے ہوئے آج کے عہد میں طلبہ یونین کی بحالی کے لئے درکار نظریات اور پروگرام اور پاکستان میں طلبہ تحریک کا تناظر پیش کیا جائے۔
طلبہ یونین کیا ہوتی ہے؟
جب بھی عام طلبہ سے طلبہ یونین کی بات کی جاتی ہے تو طلبہ کے شدید رد عمل کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں براجمان جمعیت اور ایم ایس ایف جیسی غنڈہ گرد تنظیموں کو ہی طلبہ یونین سمجھتے ہیں۔ ماضی میں ترقی پسند سمجھی جانے والی طلبہ تنظیموں کا کردار بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ طلبہ یونین کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کے طلبہ کی نمائندہ ایک سٹوڈنٹ باڈی ہوتی ہے جس کو اس ادارے کے طلبہ اپنے ووٹوں سے خود منتخب کرتے ہیں۔ طلبہ یونین کے باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں جس میں مختلف طلبہ تنظیمیں اپنے اپنے انتخابی منشور پر حصہ لیتی ہیں۔ انتخابات سے قبل طلبہ تنظیمیں الیکشن کیمپین چلاتی ہیں جس دوران اپنا پروگرام طلبہ تک پہنچانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لئے میٹنگز اور جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جو پینل زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ ایک سال کے لئے طلبہ کی نمائندہ باڈی کے طور پر کام کرتا ہے۔ یوں ایک جمہوری عمل کے ذریعے طلبہ اپنے نمائندے خود منتخب کرتے ہیں جو کہ طلبہ کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے دفاع کے ضامن ہوتے ہیں۔ طلبہ یونین میں منتخب شدہ یہ نمائندے طلبہ کو جواب دہ ہوتے ہیں اور کسی بھی فوری مسئلے پر جنرل باڈی اجلاس بلا کر، جس میں عام طلبہ کی اکثریت موجود ہو، لائحہ عمل اور سٹریٹجی مرتب کی جاسکتی ہے۔ یوں طلبہ یونین طلبہ کی حقیقی نمائندہ باڈی کے طور پر کام کرتی ہے۔
طلبہ یونین کے حوالے سے ایک نقطہ یہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ نام نہاد پارلیمانی جمہوریت عوام کے لئے کیا بہتری لے کر آئی ہے سوائے جھوٹے وعدوں اور فراڈ کے اور اگر طلبہ یونین بحال ہوتی ہیں تو ان کا کردار بھی ایسا ہی ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ آج پاکستان کے محنت کشوں، کسانوں اور نوجوانوں کی اکثریت میڈیا پر نظر آنے والی سیاست کو رد کر چکے ہیں اور اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے کہ ساری کی ساری سیاسی پارٹیوں کا کردار ایک جیسا ہے۔ یہ تمام پارٹیاں عوام دشمن پارٹیاں ہیں اور کسی اور ہی سیارے کی سیاست کر رہی ہیں جن کا عوام کے حقیقی مسائل سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں۔ ووٹ ڈالنے سے ان کی زندگیوں میں کوئی آسودگی اور بہتری نہیں آنے والی۔ سوائے منحنی سے درمیانے طبقے کے جو کہ اس طبقاتی جمہوریت کے حوالے سے فریب نظری کا شکار ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ ووٹ سے واقعی کوئی حقیقی تبدیلی آنے والی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس سیاست کو رد کرنا محنت کشوں ا ور نوجوانوں کے بلند شعور کی غمازی کرتا ہے اور کسی حقیقی عوامی متبادل کی عدم موجودگی میں شعوری بلوغت کا یہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی حقیقی متبادل موجود ہوتو عوام بغیر کسی روپے پیسے کے لالچ کے ووٹ ڈالنے نکلتے ہیں۔ یوں اگر آج طلبہ یونینز بحال ہوتی ہیں اور یونین انتخابات منعقد کروائے جاتے ہیں تو وہی طلبہ تنظیم یا گروہ عام طلبہ کی حمایت جیت سکے گا جو طلبہ کے سلگتے مسائل کے حوالے سے درست پروگرام پیش کرے گا۔
پاکستان میں طلبہ یونینز اور سیاست‘ ایک درخشاں ماضی
جنرل ضیاء کے عہد سے پہلے تک پاکستان میں طلبہ یونینز موجود تھیں اور طلبہ کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے ایک ترقی پسند کردار ادا کر رہی تھیں۔ طلبہ کی اکثریت بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں سے منسلک تھیں۔ یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ طلبہ کی فلاح و بہبود کیا تھی جس کے لیے یونین کردار ادا کرتی تھی۔ طلبہ کی فلاح و بہبود سے مراد تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کیلئے مناسب فیس ہونا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہاسٹلز کی تعمیر، طلبہ کیلئے یونیورسٹی ٹرانسپورٹ حاصل کرنا جو آج ہمیں ایک سہولت محسوس ہوتی ہے ، طلبہ کے تناسب سے یونیورسٹی کیمپس کی تعمیر کروانا ، پورے پاکستان میں سٹوڈنٹ کارڈ پر مفت یا انتہائی سستی سفری سہولت مہیا کرنا، چار سالہ ڈگری کو دو سالہ کروانا اور ایسے دیگر تمام مسائل جو اس وقت طلبہ کو درپیش تھے، طلبہ یونین نے اداروں کی انتظامیہ اور ریاستی انتظامیہ کے ساتھ باقاعدہ ایک منظم سیاسی لڑائی لڑ کے حل کروائے۔ بس یہی نہیں بلکہ طلبہ یونین کی موجودگی میں تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مابین ایک ترقی پسند سیاسی جمہوری ماحول موجود تھا اور طلبہ فلسفہ، سائنس، آرٹس اور دیگر سماجی مسائل اور تحریکوں کو بڑے بڑے سٹڈی سرکلز میں زیر بحث لاتے تھے جس کی وجہ سے طالب علم محض نصابی کتابوں کے علم تک ہی محدود نہیں تھے بلکہ اگر کوئی ریاضی کا طالبعلم بھی ہوتا تھا وہ معیشت، سیاست اور ریاست کے علوم پر بھی عبور رکھتا تھا۔ اسی طرح کسی دوسرے شعبے سے تعلق رکھنے والا طالب علم باقی علوم کے بارے میں بھی جانتا تھا اور اس کی واحد وجہ یونین کی موجودگی میں تعلیمی اداروں کا ترقی پسند، جمہوری اور سازگار ماحول تھا جس میں ایک دوسرے کے اختلافی نقطۂ نظر کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا تھا اور طلبہ کی شخصی آزادیِ اظہار رائے کو فروغ دیا جاتا تھا اور کسی بھی اختلافی نقطہء نظر کو جبر کے ذریعے دبانے کی بجائے ایک طویل بحث کے عمل سے ہوتے ہوئے اسے اتفاق رائے کی طرف لے کر جایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ساٹھ کی دہائی کے لوگوں کو اگر دیکھا جائے تو وہ سیاسی طور پر بالغ تھے اور طلبہ کے مسائل سے آگے بڑھتے ہوئے معاشرے کے مسائل پر بھی ناصرف بات کرتے تھے بلکہ ان کے حل کے لیے عملی طور پر سرگرم تھے۔ آج بھی اگر ماضی میں طلبہ یونین سے تعلق رکھنے والے کسی بزرگ سے آج کا کوئی سیاست پڑھنے والا طالبعلم بات کرے تو وہ بزرگ آدمی عالمی معاشی سیاسی صورتحال سے زیادہ واقف ہوگا( گو کہ ان کی اکثریت آج بھی اسی عہد میں زندہ ہے اور نئے عہد اور حالات کے ساتھ چلنے سے قاصر ہے) کیونکہ آج کا طالبعلم سیاسی عمل سے بیگانہ ہوکر سیاست کو بطور نصاب کے حصہ کے ہی پڑھتا ہے کیونکہ وہ عملی طور پر سیاست سے کٹا ہوا ہے جبکہ وہ انسان جو ساٹھ کی دہائی میں سیاسی عمل کا حصہ رہ چکا ہے وہ جانتا ہے کہ سیاست ہماری زندگی کے ساتھ پیچیدہ انداز میں منسلک ہے اس لیے تاریخی طور پر طلبہ یونین صرف فیسوں، ہاسٹلز اور دیگر مسائل تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ وہ طلبہ کی ثقافتی، سیاسی اور اجتماعیت کی بھی ایک درسگاہ تھی۔
طلبہ یونینز پر پابندی کیوں عائد کی گئی؟
پاکستان کے اندر طلبہ یونین کی ایک طویل اور سنہری تاریخ رہی ہے اور جب تک طلبہ یونین موجود تھیں اس وقت تک پاکستان کے تعلیمی اداروں کا ماحول ترقی پسند،جمہوری اور سیاسی تھا جس کی وجہ سے طلبہ تعلیمی اداروں میں نا صرف طلبہ کے مسائل کے خلاف بات کرتے تھے بلکہ معاشرے کے دیگر مسائل پر بھی بات کرتے ہوئے مجموعی طور پر سماج کی سیاست پر بھی اثرانداز ہوتے تھے۔ جس کی وجہ سے حکمران طبقے کو طلبہ کی طرف سے سماجی و سیاسی مسائل پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سیاست سے لے کر معیشت تک طلبہ ایک پریشر گروپ کے بطور موجود تھے اور حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں اور لوٹ کھسوٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے اور اس کے خلاف عملی جدو جہد بھی کرتے تھے۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی پوری دنیا میں انقلابات اور عوامی تحریکوں کی دہائیاں تھیں۔ امریکہ سے لے کر پاکستان تک اس عرصے میں طلبہ اور محنت کشوں کی انقلابی تحریکیں اٹھیں جس نے حکمران طبقات کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ پاکستان میں69-1968ء کی انقلابی تحریک جس نے ایوب آمریت کا تختہ الٹ دیا، میں ترقی پسند طلبہ تنظیموں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن(NSF) کا کردار انتہائی شاندار تھا اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں طلبہ میں وسیع حمایت رکھتی تھیں۔ اس تحریک کا آغاز ہی راولپنڈی میں پولیس کی گولی لگنے سے ایک طالبعلم کی ہلاکت کے بعد ہوا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ طلبہ کی اس تحریک نے مزدور تحریک کو بھی تحرک دیا اور یوں کراچی سے راولپنڈی تک پورا ملک انقلابی لہر کی لپیٹ میں آگیا۔ طلبہ اور مزدور ہڑتال پر تھے۔ طلبہ کالجوں یونیورسٹیوں پر قبضے کر رہے تھے تو مزدور اور کسان فیکٹریوں، ملوں اور زمینوں پر قبضے کر رہے تھے۔ ریاست ہوا میں معلق تھی اور طاقت گلیوں، محلوں اور چوراہوں میں موجود تھی۔ محنت کش طبقے کی شمولیت نے فیصلہ کن کردار ادا کیا اور تحریک فوری مطالبات سے بڑھ کر ملکیتی رشتوں کو چیلنج کرنے لگی۔ ایسے میں کمیونسٹ پارٹی کی نظریاتی غداری نے بھٹو کے لئے راہ ہموار کی اور بھٹو اپنے سوشلسٹ پروگرام پر روٹی، کپڑے اور مکان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر عوامی حمایت جیتنے میں کامیاب ہوا۔ پیپلز پارٹی کا منشور اور نعرے عوامی امنگوں کی ترجمانی کرتے تھے اور اسی لئے عوامی حمایت جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ بھٹو نے اقتدار میں آکر عوامی دباؤ کے زیر اثر پاکستان کی تاریخ کی سب سے وسیع تر اصلاحات کیں جن میں نجی صنعتوں ا ور بینکوں کو نیشنلائز کیا گیا۔ مفت تعلیم، علاج اور روزگار کی ذمہ داری ریاست نے اٹھائی۔ طلبہ اور مزدور یونینز کو آئینی حق کے طور پر قبول کیا گیا۔ ستر کی دہائی کے پہلے نصف کو پاکستان میں طلبہ سیاست کے حوالے سے سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ اسی دوران طلبہ حقوق اور سیاست کے حوالے سے وسیع تر اقدامات دیکھنے کو ملے جس کے پیچھے ماضی کی ایک لمبی جدوجہد موجود تھی۔
بھٹو کوئی لینن یا ٹراٹسکی نہیں تھا نہ ہی پیپلز پارٹی کوئی بالشویک پارٹی تھی۔ بھٹو نے نجی ملکیت کو ختم کرنے اور ایک سوشلسٹ انقلاب کو مکمل کرنا تو دور کی بات بلکہ اقتدار کے چند سالوں بعد ہی بھٹو نے طبقاتی مفاہمت کی پالیسی اپنائی اور بائیں بازو کے ریڈیکل رہنماؤں اور کارکنان کو سائیڈ لائن کردیا گیا۔ بھٹو کی اس طبقاتی مفاہمت کی پالیسی کا نتیجہ ضیا الحق کی آمریت کی شکل میں ایک ردِانقلاب کی صورت میں نکلا۔ اقتدار میں آتے ہی ضیا آمریت نے ترقی پسند نظریات رکھنے والی پارٹیوں، تنظیموں اور سیاسی کارکنان کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ سینکڑوں کو قتل کیا گیا۔ ہزاروں کو قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ جماعت اسلامی نے ضیاآمریت کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔ فاشسٹ اور دہشت گرد جماعت اسلامی کے طلبہ ونگ، اسلامی جمعیت طلبہ کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کو خاص طور پر اس کریک ڈاؤن کی زد میں آئیں۔ قوم پرست اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پشتون ایس ایف اور بی ایس او بھی ضیا آمریت کا نشانہ بنیں۔ ترقی پسند تنظیموں کو ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لئے اسلامی جمعیت طلبہ کے ’’تھنڈر سکواڈ‘‘ کی شکل میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں مسلح گروہ اور اسلحہ کلچر کو متعارف کرایا گیا۔ افغان ڈالر جہاد کے لئے آنے والا اسلحہ جمعیت اور دیگر رجعتی تنظیموں کو بھی پہنچایا گیا۔ اس سب کے باوجود ضیا آمریت کے خلاف تحریک کو دبایا نہ جا سکا۔ ریاست کی پوری مدد اور فنڈنگ کے باوجود 1983ء میں ہونے والے طلبہ یونین کے آخری انتخابات میں جمعیت کو بڑے پیمانے پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس صورتحا ل کو دیکھتے ہوئے ضیا آمریت نے طلبہ یونینز پر پابندی عائد کردی جو کہ آج تک برقرار ہے۔
طلبہ یونینز اور سیاست پر پابندی تو عائد کردی گئی مگر یہ پابندی بس ترقی پسند طلبہ اور تنظیموں کے لئے تھی۔ جمعیت، اے ٹی آئی، ایم ایس ایف، اے پی ایم ایس او اور دیگر رجعتی طلبہ تنظیموں کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ ان کو مسلط کرنے کا مقصد تعلیمی اداروں میں خوف اور دہشت کی فضا کو مسلط کرنا تھا۔ طلبہ حقوق کے لیے اٹھنے والی کسی بھی حقیقی آواز کو دباناان کا مقصد ٹھہرا۔ ان تمام طلبہ تنظیموں کی مکمل ریاستی اور انتظامیہ کی پشت پناہی حاصل رہی۔ یونیورسٹیاں اور کالج اسلحے اور منشیات کے اڈوں میں تبدیل ہوگئے۔ ساتھ ہی ساتھ ان طلبہ تنظیموں کی غنڈہ گردی اور اسلحہ کلچر کو بنیاد بناتے ہوئے میڈیا، نصاب، لٹریچر، فلموں غرض ہر ذریعے سے طلبہ سیاست کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا۔ رجعتی اور بنیاد پرست نظریات کو متعارف کروایا گیا۔ جمہوری اور تخلیقی ماحول کا قلع قمع کیا گیا۔سوویت یونین کے انہدام نے اس عمل کو مزید مہمیز دی۔ جو کچھ تھوڑے بہت ترقی پسند اور نظریاتی لوگ موجود تھے وہ بھی سوشلزم اور کمیونزم سے توبہ تائب ہو کر سٹیٹس کو کا حصہ بن گئے۔ ماضی کی ترقی پسند طلبہ تنظیمیں دائیں بازو کی طرف جھکنے لگیں۔ نظریات کی اہمیت اور طاقت کو یکسر فراموش کردیا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ناصرف تعلیمی اداروں کے مسائل بلکہ ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات طلبہ کے بحث و مباحثوں میں زیر غور آتے تھے۔ طلبہ اور محنت کشوں کی عالمی جڑت ترقی پسند طلبہ سیاست کا اہم حصہ تھے۔ گو کہ سوویت بیوروکریسی کے زیر اثر پروان چڑھنے کے باعث قومی رنگ غالب تھا۔اسی اور نوے کی دہائی میں یہ عمل جاری رہا۔ اسی اثنا میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی اداروں کے ایما پر نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور ٹھیکیداری جیسی نیو لبرل پالیسوں کو لاگو کیا گیا۔ تعلیم کا شعبہ بھی اس کی زد میں آیا۔ مزاحمت نہ ہونے کے برابر تھی۔ نئے کالجوں اور یونیورسٹیوں کا قیام تو درکنار موجودہ اداروں کی نجکاری شروع کردی گئی۔ تعلیم کا شعبہ نجی سرمائے کے لئے کھول دیا گیا اور آج سب سے منافع بخش شعبہ بن چکا ہے۔ گلی کوچوں میں جابجا تعلیمی دکانیں کھل گئیں اور خوب لوٹ مار کی جانے لگی۔ اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی تک آتے آتے دو تین نسلیں پروان چڑھیں جو کہ ماضی کی طلبہ سیاست سے بالکل نا آشنا تھیں مگر معروضی حالات ان پر مستقبل کی لڑائیوں کے لئے اثر انداز ہو رہے تھے۔
طلبہ یونینز کی اہمیت و افادیت
آج یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ کی حیثیت بھیڑ بکریوں سے زیادہ نہیں۔ جس طرح چرواہا اپنے ہاتھ میں موجود ڈنڈے سے ریوڑ کو ہانکتا ہے یہی سلوک طلبہ کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کرتی ہے۔ اگر کسی نے کنٹرول شیڈ یا پولٹری فارم دیکھنا ہوتو وہ کسی بھی سرکاری ادارے کے ہاسٹلز کا دورہ کرسکتا ہے۔ جس طرح چوزوں کو ڈربے میں قید کیا گیا ہوتا ہے ایسی ہی صورتحال ان ہاسٹلوں میں ٹھونسے گئے طلبہ کی ہے۔ ٹرانسپورٹ اکثر اداروں میں تو ناپید ہے اگر کہیں موجود ہے تو ناکافی ہے۔ طلبہ بسوں کے دروازوں میں لٹک رہے ہوتے ہیں۔ دو سالہ ڈگری پروگرامز کو ختم کر کے چار سالہ ڈگری پروگرامز اور سمیسٹر سسٹم متعارف کروایا گیا۔ سال میں دو دو بار فیسیں لی جانے لگیں۔ اور سمسٹر سسٹم کے فیوض و برکات سے بہرہ مند ہونے کے لئے اسائنمنٹس، پریزنٹیشنز، سیشنلز، مڈ ٹرمز، کوئز اور فائنل ٹرمز کے ایسے گھن چکر میں دھکیل دیا گیا کہ طلبہ کو سرکھجانے کی فرصت ہی نہ ملے۔ یہ سب کچھ تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنے کے نام پر کیا گیا تاکہ طلبہ کو دور حاضر کے تقاضوں یعنی ننگے استحصال کے لئے تیار کیا جاسکے۔ خود مختاری کے نام پر یونیورسٹیوں کی نجکاری کا عمل شروع کیاگیا جو کہ آج اپنی انتہا کو چھو رہا ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ہی یونیورسٹیوں کی فیسوں میں کئی کئی گنا اضافہ کیا گیا۔
محنت کشوں کے بچوں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کب کے بند ہوچکے اب تو درمیانے طبقے کے لئے بھی بچوں کو پڑھانا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔لیکن ان تعلیمی دکانوں میں پڑھایا کیا جاتا ہے اگر اس پر بات کرنے لگیں تو مزید کئی صفحات درکار ہوں گے۔ سونے پر سہاگہ آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد سیکیورٹی کو بنیاد بناتے ہوئے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو فوجی بیرکوں میں تبدیل کردیا گیا۔ تعلیمی اداروں کو دہشت گردوں سے بچانے کے لئے ہر ادارے کے اندر دہشت گردوں کو بٹھا دیا گیا جو آتے جاتے، اٹھتے بیٹھتے کارڈ چیک کرتے ہیں۔ مگر دہشت گردی رک نہ سکی۔ یہ کھلا راز ہے کہ دہشت گردی اس ریاست کا جزو لاینفک بن چکی ہے۔ طلبہ پر جبر کی انتہا کر دی گئی اور اس جبر کی آڑمیں فیسوں میں اضافہ جاری رکھا گیا۔ جو کوئی آواز انتظامیہ کے خلاف اٹھتی ہے سیکیورٹی کو بنیاد بنا کر اس کو دبا دیا جاتا ہے۔ نسلی و قومی تعصب پھیلانے کے لئے مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر رجعتی اور دہشت گرد طلبہ تنظیموں کے حملے کروائے جاتے ہیں۔ مگر آج اس سب کے خلاف لڑنے، اپنے حقوق کا دفاع اور جدوجہد کے لئے طلبہ کے پاس کوئی پلیٹ فارم کوئی فورم ہی موجود نہیں اور وہ مکمل طور پر ریاست اور انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہیں۔
لیکن سدا سے ایسا نہیں تھا۔ جب تک طلبہ یونینز موجود تھیں تعلیمی اداروں کے معاملات چلانے میں طلبہ کا اہم کردار ہوتا تھا۔ تمام پالیسی میٹرز میں طلبہ یونینز کے نمائندوں کی رائے فیصلہ کن سمجھی جاتی تھی۔ طلبہ یونین کے نمائندے یونیورسٹی سینٹ اور سنڈیکیٹ کے ممبران ہوتے تھے اور طلبہ کے حقوق کے دفاع کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر عائد تھی۔ فیسوں کا مسئلہ ہو یا کینٹینوں کے ریٹ طے کرنا ان سب امور میں طلبہ یونین ایک پریشر گروپ کے طور پر عمل کرتی تھیں۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں درپیش مسائل کو حل کرنا طلبہ یونین کاکام ہوتا تھا۔ اگر ریاست یا انتظامیہ کوئی طلبہ دشمن اقدام کی طرف بڑھتی تو طلبہ یونینز اس کے خلاف صف آرا ہوتیں۔ آج یونیورسٹی وائس چانسلر زمینی خدا سے کم نہیں۔ اس تک اپنی عرضی پہنچانے یا کوئی مسئلہ پیش کرنے کے لئے کئی کئی دن وائس چانسلر آفس کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ مگر ستر کی دہائی میں جب طلبہ یونینز اور سیاست موجود تھی تو ہر ماہ ایک ’’روبرو‘‘ کے نام سے ایک سیشن ہوتا تھا جس میں وائس چانسلر عام طلبہ کے سامنے موجود ہوتا تھا اور طلبہ کے سوالات اور مسائل کے بارے میں جوابدہی طلب کی جاتی تھی۔
ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ آج ہر کالج اور یونیورسٹی میں فیسوں میں ہوشربا اضافے سے لے کر سیکیورٹی کا جبر اور ہاسٹلز اور سمیسٹرز کے مسائل سے لے کر فی میل سٹوڈنٹس کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے جنسی ہراسانی کے واقعات کے خلاف لڑنے اور جدوجہد کے لئے طلبہ یونین اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس لئے طلبہ یونینز کی بحالی کی جدوجہد کرنا ہر طالبعلم کا فرض ہے۔
طلبہ یونینز اور طالبات
خواتین کے حقوق اور سماجی مقام کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے بدترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں محنت کش خواتین کی معاشی و سماجی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ ہمارے ہاں خواتین گھر سے لے کر سماج کے ہر ادارے کے اندر دوہرے اور تہرے جبر کا شکار ہیں۔ محنت کش خواتین کی ایک بڑی تعداد تو سرے سے ہی تعلیم جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم ہے ۔جو تعلیم جیسی نعمت سے مستفید ہو سکتی ہیں اور جو مستفید ہو پاتی ہیں انھیں تعلیمی اداروں میں بھی میل سٹوڈنٹس کی نسبت کئی گنا مسائل کا سامنا ہوتا ہے اور ان مسائل کے خلاف لڑنے اور ان کے حل کیلئے کسی پلیٹ فارم سے محروم ہوتی ہیں۔ اس وقت یونیورسٹیوں میں مرد طلبہ کے لیے کوئی نہ کوئی سیاسی گروپ یا کونسلز موجود ہیں لیکن طالبات کے پاس ایسا کوئی بھی نمائندہ ادارہ موجود نہیں اور جو کونسلز یا سیاسی گروہ ہیں ان میں بھی خواتین اپنی نمائندگی نہیں کرسکتیں۔ اس لیے طالبات کو جہاں باقی طلبہ کے ساتھ مشترکہ مسائل کا سامنا ہے وہیں انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے جس میں ہمیں آئے دن اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگوں کی طرف سے ہراساں کیے جانے والے واقعات سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ تو چند واقعات ہیں جو منظر عام پر آتے ہیں اکثریتی واقعات منظر عام پر نہیں آتے اور نا مجرموں سے کوئی پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالبات جنہیں انتہائی مشکل سے تعلیم کی اجازت ملتی ہے وہ اس جبر کو خون کے آنسوپی کر سہہ لیتی ہیں کیوں کہ اگر ان کے ساتھ کسی قسم کی ایسی زیادتی کا ذکر منظر عام پر آیا تو انہیں ہی قصوروار قرار دیتے ہوئے تعلیم کے حق سے محروم کر کے گھر بٹھا دیا جائے گا۔ پہلے تو ایسے کسی واقعے کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اگر واقعہ سطح پر آجائے تو معاملے کا جائزہ لینے کے لئے جو کمیٹی بنائی جاتی ہے اس میں انہیں جنسی بھیڑیوں کے بھائی بندے موجود ہوتے ہیں اور طلبہ کی کوئی نمائندگی ہی موجود نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک شاید ہی کبھی کسی استاد یا انتظامیہ کے کارندے کے خلاف کاروائی عمل میں لائی گئی ہو۔ ایسے میں ان واقعات کے خلاف حقیقی کاروائی کے لئے طلبہ یونینز اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔ طلبہ یونین طالبات کو طلباء کے برابر اپنی نمائندگی کا حق دیتی ہے اور بلا تفریق طالبات تمام طلبہ کی نمائندگی بھی کرسکتی ہیں۔ طلبہ یونین ہی طالبات کے ساتھ جنسی طور پر ہراساں کیے جانے والے واقعات کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں آزاد ثقافتی، سیاسی اور جمہوری ماحول فراہم کرنے کی ضمانت دے سکتی ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کو دیکھا جائے تو اس میں طالبات کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پابندیاں بھی انہیں پر عائد کی جاتی ہیں انہیں انسان کے بجائے ایک جنس سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت اس نفسیات کے ذریعے طالبات کے حقوق آسانی سے غصب کیے جاتے ہیں اور انہیں سیاسی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اس وقت قریباً تمام تعلیمی اداروں میں طالبات کا تناسب طلباء کے برابر یا کہیں ان سے زیادہ ہے۔ اس لیے پچاس فیصد کو اگر اخلاقی پابندیوں کے جواز کے ذریعے کنٹرول کر کے انہیں نہ صرف ان کے سیاسی حقوق سے محروم رکھا جا سکتا ہے بلکہ ان سے میس بل زیادہ بٹورے جا سکتے ہیں ، ان سے ٹیکسی کے کرائے زیادہ بٹورے جا سکتے ہیں، انہیں کسی بھی قسم کی جنسی اذیت کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی پوچھنے والا تو کوئی ہے ہی نہیں۔ طالبات کو سمجھنا ہو گا کہ اپنے حقوق کی لڑائی وہ خود لڑ سکتی ہیں اور اپنی نمائندگی خود کر سکتی ہیں۔ ان تمام اخلاقی ضابطوں اور پابندیوں کی آڑ میں ان کا استحصال کیا جاتا ہے اور اس کے خلاف انہیں باقی طلبہ کے ساتھ جڑت میں ایک جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔
طلبہ یونینز کی بحالی مگر کیسے؟
طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ بھی یہ نعرہ بلند کرتی ہے تو دوسری جانب بائیں بازو کی تمام طلبہ تنظیمیں اور گروہ بھی یہ مطالبہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سرمایہ داری کے تاریخی بحران کے اس عہد میں یہ نعرہ ایک جمہوری مطالبے سے بڑھ کر ایک انقلابی مطالبہ بن جاتا ہے اور اس کے حصول کے لئے انقلابی جدوجہد درکار ہے۔ طلبہ یونین کی بحالی کے مجرد نعرے کی بجائے اس عہد میں ایک ریڈیکل پروگرام کے ساتھ جوڑتے ہوئے ہی اس مطالبے کو آگے بڑھایا اور طلبہ یونین کی بحالی کی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ اور یہ سب درست نظریات اور تناظر کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے میں جہاں طلبہ یونین اور طلبہ کو درپیش دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد وقت کی ضرورت ہے وہیں طلبہ تحریک کو درست اور سائنسی نظریات سے لیس کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ درست نظریات اور پروگرام کے بغیر کوئی بھی جدوجہد آگے نہیں بڑھائی جاسکتی۔ ایسے میں یہ بات سننے کو ملتی ہے کہ طلبہ کودرپیش مسائل پر خود طلبہ بات سننے کو تیار نہیں اور آپ چلے ہیں ان کو کارل مارکس پڑھانے۔ ہمیں بس مسائل پر بات کرنی چاہیے نظریات پر بعد میں کہیں بات ہوگی۔ ہم اس عملیت پسندی کو رد کرتے ہیں اور اس کے خلاف جدوجہد کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی عملیت پسندی کا نتیجہ کبھی موقع پرستی اور کبھی دوسری انتہا مہم جوئی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ صرف مارکسزم کے نظریات اور میتھڈ ہی ہے جس کی بنیاد پر موجودہ سماج، سیاست اور معیشت کا درست تجزیہ اور تناظر تخلیق کیا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ ماضی میں طلبہ اور مزدو رتحریک کے زوال کی ایک بڑی وجہ نظریاتی غداریاں تھیں جن نظریات کو کوئی دوسرے درجے کی چیز سمجھا جاتا تھا اور ایکٹیوازم پر زور دیا جاتا تھا۔ آج طلبہ یونین کی بحالی کے نعرے کو درست نظریاتی بنیادیں اور پروگرام مہیا کرتے ہوئے اس کو مفت تعلیم، روزگار اور دیگر مسائل کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے۔
سرمایہ داری کا بحران اور پاکستان میں طلبہ تحریک کا تناظر
ساٹھ اور ستر کی دہائی میں زندہ رہنے والے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے تجزیوں کے برعکس پاکستان میں ایک طلبہ تحریک پک کر تیار ہوچکی ہے جو کہ مستقبل قریب میں ایک دھماکے کی صورت میں اپنا اظہار کرسکتی ہے۔ 2008ء کے عالمی سرمایہ داری کے بحران نے جہاں پوری دنیا میں انقلابی تحریکوں کو جنم دیا وہیں پاکستان بھی اس عمل سے ’محفوظ‘ نہیں رہا گو کہ سطح پر اس کا کوئی معیاری اظہار نہیں ہوا مگر بہت سے واقعات سے طلبہ تحریک کی حرکیات اور نہج کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ سانحۂ آرمی پبلک سکول کے بعد نوجوانوں اور خاص طور پر طلبہ کی طرف سے آنے والے ردعمل نے حکمران طبقات اور ریاست کو خوف میں مبتلا کردیا۔ اس وقت ایسے حالات موجود تھے کہ ایک طاقتور طلبہ تحریک بن جاتی مگر سیکیورٹی کو بنیاد بنا کر دو ماہ کے لئے تعلیمی اداروں کو بند کردیا گیا۔ مستقبل میں ایسی کسی تحریک کو روکنے کے لیے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو جیلوں میں تبدیل کردیا گیا۔ مگر تعلیمی اداروں کو بند کردینے سے شعور میں آنے والی تبدیلیوں کو رول بیک نہیں کیا جاسکتا نہ ہی اس عمل کو واپس پہلے کی نہج پر لے جایاجاسکتا ہے۔ اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں مختلف مسائل کے گرد طلبہ کے احتجاج ابھرتے رہے۔ مشال خان کے ریاستی پشت پناہی میں قتل کے بعد ملک بھر میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔ قتل کے تیسرے روز جا کر حقیقی کہانی معلوم ہوئی کہ مشال خان فیسوں میں اضافے، انتظامیہ کی کرپشن اور دیگر مسائل کے خلاف جدوجہد کو منظم کر رہاتھا مگر اس سے پہلے ہر ذی روح شخص نے اس ظلم کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا۔ ریاست کی توہین رسالت کو بنیادبنا کر سماج پر رجعت مسلط کرنے کی کوشش بیک فائر کرگئی جو کہ عوامی شعور میں ہونے والی بڑی تبدیلی کی غمازی کرتا ہے۔ ملک کے کونے کونے میں اس ظلم کے خلاف احتجاج ہوئے۔ اس واقعے نے جہاں جمعیت کے حقیقی چہرے سے ایک بار پھر پردہ اٹھایا وہیں نام نہاد ترقی پسند طلبہ تنظیم پشتون ایس ایف کے بدترین زوال کو بھی عیاں کیا۔ مشال خان کے قتل کے خلاف آنے والے ری ایکشن نے ریاست کو ایک بار پھر بیک فٹ پر جانے پر مجبور کردیا اور یہ طلبہ تحریک کے پوٹنیشل کا اظہا رتھا۔ اسی دوران طلبہ تحریک کو نسلی اور قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لئے پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اور بلوچ طلبہ پر حملے کروائے گئے مگر کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ پچھلے سال قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ کی فیسوں میں اضافے کے خلاف کامیاب ہڑتال اور اس کے حق میں ملک بھر میں ہونے والے یکجہتی مظاہروں نے پورے ملک کے طلبہ کے لئے ایک مثال قائم کی مگر اس ہڑتال کے ثمرات کو بھی بلوچ طلبہ پر تشدد کرکے زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد پشاور یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے خلاف ابھرتی طلبہ تحریک کو دائیں اور نام نہاد بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کا ایک مقدس الائنس بنا کر ہائی جیک کرنے کی کوشش کی گئی جو کہ ناکام ثابت ہوئی جس کے بعد زرعی انسٹیٹیوٹ پشاور یونیورسٹی پر دہشت گرد حملہ ہوا اور ایک با رپھر طلبہ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ پچھلے سال پہلے پنجاب اور اس سال بلوچستان میں انٹری ٹیسٹ اور امتحانی نتائج کے خلاف تحریکیں بنیں ۔ پچھلے پانچ سالوں کی ہی بات کر لیں تو تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل میں ناصرف کئی گنا اضافہ ہوا ہے بلکہ یہ مسائل سلگ رہے ہیں۔ ریاست کے پالیسی ساز سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں رینجرز اور فوج کی چیک پوسٹیں کھڑی کردینے سے اس ابھرتی طلبہ تحریک کاراستہ روکا جاسکتا ہے مگر وہ یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ قوی امکان ہے کہ اسی سیکیورٹی کے جبر کے خلاف تحریک بن جائے۔ پشتون تحفظ تحریک کے بعد تو اس کے امکانات کہیں زیادہ ہیں۔ تعلیمی اداروں کی حالت یہ ہے کہ پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ شدید گرمیوں کے موسم میں لود شیڈنگ ان طلبہ کے شعور پر کیا اثرات مرتب کرتی ہوگی ریاست کے پالیسی ساز اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ آبادی کا ساٹھ فیصد سے زائد بنانے والے نوجوان آج ساری سیاسی جماعتوں کے باہر ہیں اور یہ اس ریاست اور حکمران طبقے کے لئے خطرناک ہے۔ پی ٹی آئی کا بلبلہ کب کا پھٹ چکا۔ پاکستان کی موجودہ کیفیت میں کسی بھی وقت ایک دھماکے کی صورت میں طلبہ تحریک بن سکتی ہے۔ ایسے میں اگر ایک انقلابی جدوجہد کے ذریعے طلبہ یونین بحال ہونے کی طرف جاتی ہے تو یہ طلبہ تحریک کو مزید شکتی دینے کا باعث بنیں گی۔ مستقبل میں ابھرنے والی یہ طلبہ تحریک صرف طلبہ مسائل تک محدود نہیں رہے گی بلکہ سرمایہ داری کے اس بحرانی عہد میں اسکے مطالبات یہ ریاست پوری کرنے سے قاصر ہوگی۔ ایسے میں یہ تحریک مزدور تحریک کو تحرک دینے کا سبب بھی بن سکتی ہے جو کہ اس ریاست کو ہوا میں معلق کردے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طلبہ کی اس جدوجہد کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہوئے سماج کی انقلابی تبدیلی کی جدوجہد کے ساتھ جوڑا جائے۔ اس کے لئے طلبہ کی نظریاتی و سیاسی تربیت کرتے ہوئے انقلابی پارٹی کی تعمیر عہد حاضر کا واحد تقاضا ہے۔