تحریر: |یاسر ارشاد|
گزشتہ تین ماہ سے ہندوستان کی طلبہ تحریک میں آنے والی نئی اٹھان ملک کے طول وعرض اور دنیا بھر کے طلبہ پر زبردست اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ہندوستانی طلبہ کی یہ تحریک پچھلے25سال میں ابھرنے والی سب سے بڑی تحریک ہے۔ اگرچہ تحریک اس وقت سوشل میڈیا پر پہلے اور بعد میں ذرائع ابلاغ پر کھل کر سامنے آئی جب جواہر لال نہرو یونیورسٹی(JNU) کی طلبہ یونین کے منتخب صدر کامریڈ کنہیا کمار کو ملک کے خلاف بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن درحقیقت تحریک کے اس ریلے کا آغاز17جنوری کو حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ایک طالبعلم روہیت ویمولا کو یونیورسٹی سے نکالے جانے پر احتجاجاً خودکشی کرنے کے باعث ہوا۔
روہت کا تعلق دلت(نیچ) ذات سے تھا اور وہ حیدرآباد یونیورسٹی میں ’’ امبیدکر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن ‘‘ کا ایک سر گرم کارکن تھا۔امبیدکر سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ قانون ’’ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر ‘‘(جسے بابا صاحب بھی کہا جاتا ہے) کے نام سے منسوب ایک طلبہ تنظیم ہے۔ ڈاکٹر بھیم راؤ کو سیکولرازم کا حامی اور ہندوستان میں رائج ذات پات کے دقیانوسی نظام کے خاتمے کی جدوجہد کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی میں انتظامیہ اور BJPکے طلبا ونگABVPکے متعصبانہ رویے کے باعث دس سالوں میں9 دلت طلبہ خودکشی کر چکے ہیں۔ جبکہ روہت کی خودکشی ایک چنگاری ثابت ہوئی جس نے اس تشویشناک صورتحال کے خلاف غم و غصے کی آگ کو بھڑکا کر شعلے میں تبدیل کر دیا۔ گزشتہ سال ستمبر میں پی ایچ ڈی کرنے والے طلبہ کے سرکاری وظائف کی رقوم میں کمی کے خلاف یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کے سامنے کئی روز طلبہ نے دھرنا دیے رکھا۔ یوں ہم ہندوستان کے طلبہ میں عمومی مسائل کے بڑھنے کے خلاف غم و غصے میں سطح کے نیچے اضافہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں جو اس معیار تک پہنچ چکا تھا جہاں کوئی بھی حادثاتی عنصر اس غم و غصے کو ایک تحریک کی صورت میں پھاڑ سکتا تھا۔پہلے یونیورسٹی گرانٹ کا خاتمہ اور پھر روہت کی خودکشی اور اس کے ساتھ کنہیا کی گرفتاری پے در پے وہ واقعات ثابت ہوئے جنہوں نے سالوں سے مجتمع ہونے والے غم و غصے اور نفرت کو ایک تحریک میں تبدیل کردیا۔
17جنوری کو روہت کی خودکشی کے بعد حیدرآباد یونیورسٹی کے طلبہ نے اس کو ایک یونیورسٹی انتظامیہ اور ABVP کے صدرسوشیل کمار کی ملی بھگت سے کیا جانیوالا ایک انسٹی ٹیوشنل قتل قرار دیتے ہوئے وائس چانسلر اور سوشیل کمار کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرانے کے لیے ایک احتجاجی تحریک کا آغاز کیا جس کو انہوں نے’’روہت کے لیے انصاف‘‘ (Justice For Rohit) کا نام دیا۔ اس تحریک کی حمایت میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طلبہ بھی اس تحریک میں سرگرمی سے شمولیت اختیار کرنے لگے۔ذرائع ابلاغ کی مجرمانہ خاموشی کے باوجود یہ تحریک بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلنا شروع ہوگئی تھی جو BJPحکومت اور سنگ پریوار کی دیگر پارٹیوں کی دوسرے مذاہب اور خاص کر نچلی ذاتوں کے خلاف متعصبانہ نظریات کے خلاف ایک چیلنج بن کر ابھر رہی تھی۔ BJPحکومت نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے طلبا پر وحشیانہ تشدد کیا اور روہت کے لیے انصاف کے حصول کی تحریک کے کئی سر گرم کارکنان کو گرفتار کیا تاکہ جبر کے ذریعے اس تحریک کو کچلا جاسکے لیکن ہندو بنیاد پرستی اور ریاست کا مشترکہ جبر بھی اس تحریک کو کچل نہیں سکا۔اسی دوران9 فروری کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ماؤاسٹ) کے طلبا ونگ ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس یونین نےJNUدہلی میں ایک ثقافتی پروگرام کا انعقاد کیا جس میں افضل گرو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا گیا۔ اسی پروگرام کو بنیاد بنا کرABVP کے رہنماؤں کی درخواست پر کنہیا کمار کو ملک کے خلاف نعرے لگانے کے مبینہ الزامات میں بغاوت کے جھوٹے مقدمے میں گرفتار کیا گیا۔
کنہیا کمار کی گرفتاری نےJNUکے طلبا میں بغاوت کو بھڑکا دیا جس کے بعد اس طلبا تحریک کی گونج بورژوا ذرائع ابلاغ میں بھی شہ سرخیوں اور ٹاک شوز سے لیکر حکمرانوں کے ایوانوں تک گونجنے لگی۔ JNU دہلی اپنی آزاد خیالی اور بائیں بازو کی سر گرم سیاست کے حوالے سے نہ صرف مشہور ہے بلکہ ہندو بنیاد پرستوں کے دلوں میں ہمیشہ سے کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔BJPحکومت اور سنگ پریوار نے بغاوت کے الزامات کے ذریعے تحریرو تقریر کی حقیقی آزادی، اور سیکولرازم جو ہندوستان میں عملاً رائج نہیں رہا لیکن JNUمیں موجود تھا اس کو ختم کرنے کی جو کوشش کی اس کے جواب میںJNU کی طلبہ قیادت نے یہ لڑائی ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں تک پہنچا دی۔JNU کے طلبہ نے اس حملے کا جواب یونیورسٹی کے انتظامی بلاک کو آزادی چوک کا نام دیکر وہاں ہر روز ایک سیاسی موضوع پر لیکچر کا انعقاد کر کے دیا۔ جہاں ہر سیاسی اور سماجی موضوع پر ہر قسم کے نقطہ ہائے نظر اور نظریات کو زیرِ بحث لایا جاتا تھا۔ اسی طرح ذات پات کی تفریق سے لیکر سامراجیت اور ہندو بنیاد پرستانہ اور شاؤنسٹ قوم پرستی سے لیکر قوموں کے حقِ خود ارادیت تک جیسے موضوعات پر ملک کی دیگر جامعات میں بھی پروگرام منعقد کیے جا رہے ہیں جہاں طلبہ قیادت کے ساتھ بائیں بازو کی پارٹیوں کے قائدین اور لبرل دانشور اپنے نظریات کا پرچار کرتے ہیں۔
ہندوستان کی موجودہ طلبہ تحریک کا جائزہ لیا جائے تو اس کے بنیادی محرکات میں جہاں مودی حکومت کی معیشت کو ترقی دینے میں ناکامی اور ہندوستانی سرمایہ داری کے عمومی زوال کے باعث درمیانے طبقے اور محنت کشوں پر بڑھنے والا بے پناہ دباؤ ہے اس کے ساتھ ہی معاشی بحران کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ریاستی اخراجات خاص کر تعلیم اور صحت کے شعبے میں کی جانیوالی کٹوتیاں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام کے زوال کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کے عمومی اثرات ہیں۔ مودی حکومت معیشت میں حقیقی بڑھوتری لانے میں ناکامی کے بعدگزشتہ طویل عرصے سے محض اعدادوشمار میں ہیر پھیر اور معاشی نمو کو جانچنے کے طریقوں میں ردوبدل کے ذریعے ہندوستان کو دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بنانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔9 اپریل کو اکانومسٹ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق’’ ممبئی کی ایک بروکر فرم ایمبت کیپیٹل کے مطابق ہندوستان کی شرح نمو5.4فیصد ہے جبکہHSBCبینک کے معاشی ماہرین کے مطابق5.6سے5.9فیصد شرح نمو سچائی کے قریب تر ہے۔‘‘
مودی حکومت کی ناکامی محنت کشوں اور طلبا کی حاصل کردہ مراعات پر حملوں سے مکمل عیاں ہے۔ ہندو بنیادپرستی کے نظریات کو ریاستی طاقت کی پشت پناہی سے سماج کی ہراس پرت پر مسلط کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جہاں سے بغاوت کے ابھرنے کے امکانات موجود ہیں۔ اسی پسِ منظر میں یہ وضاحت کی جاسکتی ہے کہ یونیورسٹیوں میں بنیادپرست نظریات کو مسلط کرنے کے لئے کس طرح یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاست کی طاقت کے ذریعےABVPکے غنڈوں کی معاونت کی جارہی ہے تاکہ ان اداروں میں آزادانہ سیاسی سرگرمیوں اور بحث و مباحثے کے ماحول کو ختم کیا جاسکے۔ لیکن جیسا کہ مارکس نے لکھا تھا کہ بعض اوقات انقلاب کو آگے بڑھانے کے لیے ردِ انقلاب کے کوڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہندوستان میں ابھرنے والی حالیہ طلبہ تحریک ہندوبنیاد پرستی کے ایک وار کے سبب ہی ابھری ہے اور اب مودی حکومت کے لئے حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔
دلت طلبہ کیساتھ بد سلوکی اور طلبہ پر ہندوستان مخالف ہونے کے جھوٹے الزامات اور مقدمات کے خلاف ابھرنیوالی طلبہ تحریک اس حکومت کے ایوانوں کو لرزا رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ استحصال سے لیکر پاکستان کے خلاف جنگ جیسے مسائل پر بحث و مباحثہ زبان زدِ عام ہوتا جارہا ہے۔ کنہیا کمار اور عمر خالد جیسے ’’وطن دشمن‘‘ ملک کی ہر یونیورسٹی میں حقیقی آزادی کی سائنسی اور سوشلسٹ تعریف جیسے موضوعات پر لیکچر دے رہے ہیں۔ سوشلزم کے نظریات جو JNUدہلی کی چار دیواری تک محدود تھے وہ اس چار دیواری سے نکل کردہلی کی سڑکوں سے ہوتے ہوئے ملک کے طول و عرض پر بحث و مباحثے کا محور بنتے جارہے ہیں۔طبقاتی آزادی کا سوال اتنے بڑے پیمانے پر کمیونسٹ پارٹیوں کی دہائیوں کی جدوجہد نہیں پھیلا سکی جتنا اس تحریک نے پھیلا دیا ہے۔
JNUکی تحریک جب اپنے عروج پر تھی اسی دوران ’’ ہنڈا ‘‘ گاڑیاں اور مو ٹر سائیکل بنانے والی فیکٹری کے محنت کشوں کی بھی ایک زبر دست ہڑتال جاری تھی جو اس قسم کی پذیرائی حاصل نہیں کر سکی بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس تحریک کی وجہ سے وہ ہڑتال دب کے رہ گئی۔ لیکن اس دوران بھی ہمیں طلبہ کی محنت کشوں کے ساتھ یکجہتی کے کچھ ابتدائی نوعیت کے اقدامات دکھائی دیئے جب ہڑتالی مزدوروں کے نمائندوں کوJNU کے طلبہ سے خطاب کرنے کے لئے باقاعدہ مدعو کیا گیا ۔اسی دوران روہت کے لئے انصاف کی مانگ کرنے والے حیدرآباد یونیورسٹی کے احتجاجی طلبا نے یہ نعرہ بھی ایجاد کیا کہ ’’ JNUتو بہانہ ہے۔۔۔روہت کا مدعا دبانا ہے۔‘‘ JNUکی تحریک میں ٹھہراؤ آ چکا ہے لیکن حیدرآباد یونیورسٹی کے طلبہ کی تحریک ابھی تک جاری ہے۔
6 اپریل کو حیدرآباد کے مختلف تعلیمی اداروں سے سینکڑوں طلبہ حیدرآباد یونیورسٹی کے احتجاج میں شرکت کے لئے جب یونیورسٹی پہنچے تو وہاں موجود پولیس کی بھاری نفری نے انہیں اندر داخل ہونے سے روک دیا اور اس کے ساتھ ہی یونیورسٹی کے طلبہ کو بھی باہر آنے سے روکنے کے لئے ان پر وحشیانہ تشدد کیا۔ ریاستی تشدد سے طلبہ تحریک کو کچلنے میں مودی حکومت کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔
طلبہ تحریک کے اس پہلے ریلے کی ریاست کے جبر کے خلاف کامیابی مستقبل کی زیادہ سنجیدہ اور بڑی فتوحات کے لئے درکار عزم ،حوصلہ اور جرات فراہم کرے گی۔ ہندوستان کے طلبا کی انتہائی جرات مندانہ اور زبر دست تحریک کے باوجود ابھی یہ واقعات ایک بہت بڑی ہڑتالوں اور تحریکوں سے بھر پور سماجی ہلچل کے عہد کا محض آغازہے۔ لیکن بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہندوستان میں یہ آغاز ہو چکا ہے اور یہ عمل اب اپنے تمام تر اتار چڑھاؤ اور اندرونی تضادات کے ساتھ دنیا بھر میں رونما ہونیوالے ہر قسم کے واقعات کے زیر اثر نہ صرف تیزی سے آگے بڑھے گا بلکہ ہندوستان کے واقعات بڑے پیمانے پر ارد گرد کے ممالک اور دنیا بھر پر اپنے اثرات مرتب کریں گے۔