|تحریر: پروگریسیو یوتھ الائنس|
29جولائی بروز اتوار، بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں ایک تیز رفتار بس نے دو طالب علموں جن میں ایک لڑکا (عبدالکریم راجب) اور ایک لڑکی(دیا خانم میم ) شامل تھے کو کچل دیا، جو اس حادثے سے جانبر نہ ہو سکے۔ ان دو کے علاوہ بھی 12طلبا زخمی ہوئے۔ اس حادثے کے بعدڈھاکہ شہر میں طلبہ کا ایک عظیم الشان احتجاج شروع ہوا جو ابھی (دسویں روز) تک جاری ہے۔ طلبہ کے اس احتجاج نے پورے ڈھاکہ شہر کو جام کر کے رکھ دیا ہے۔ طلبہ محفوظ ٹرانسپورٹ کے نظام کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ابتدا میں یہ احتجاجی مظاہروں تک محدود تھا لیکن بعد ازا ں حکومت کی طرف سے کسی مناسب یقین دہانی نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ نے 4اگست سے ڈھاکہ شہر کا ٹریفک کا نظام اپنے ہاتھ میں لینے کا فیصلہ کیا۔
4اگست کو طلبہ نے ٹرانسپورٹ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ سڑک پر ہر گاڑی اور موٹر سائیکل چلانے والوں کا لائسنس خود چیک کررہے تھے۔ اس احتجاج کو ختم کرانے کیلئے حسینہ واجد کی برسر اقتدار پارٹی عوامی مسلم لیگ نے اپنے روایتی انداز میں جبر کا آلہ استعمال کیا۔روایتی طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے نوجوان طلبہ پر عوامی لیگ کے طلبہ ونگ بنگلہ دیش چھاترا لیگ (BPL) کے غنڈوں سے حملے کروائے گئے۔ حکومت کا خیال تھا کہ نوعمر طلبہ ان سیاسی غنڈوں کے اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈر جائیں گے لیکن طلبہ نے ڈرنے کی بجائے ان غنڈوں کو منظم جواب دیا جس کی وجہ سے وہ بھاگ گئے۔ لیکن بعد ازاں یہ غنڈے پہلے سے بھاری تعداد میں اور پولیس کی نفری کے ساتھ طلبہ پر حملہ آور ہو گئے۔
سیکورٹی اداروں کی جانب سے طلبا پر لاٹھی چارج، آنسو گیس شیلنگ اور ربڑ کی گولیاں چلائیں گئیں۔ اسکے علاوہ خوف پھیلانے اور اس تحریک کو روکنے کیلئے ہر طریقہ استعمال کیا گیا جیسے انٹرنیٹ اور موبائل نیٹ ورک کی بندش (تا کہ احتجاج دوسرے شہروں میں نہ پھیل سکے)وغیرہ۔ بنگلہ دیش چھترا لیگ کے غنڈے ہاتھوں میں چاکو اور ڈنڈے لیے احتجاج میں پر امن طلبا پر حملہ آور ہوئے اور طالبات کو بھی حراساں کیا۔ کئی رپورٹرز کو فوٹوگرافی کرنے یا ویڈیو بنانے کے جرم میں تشدد کا سامنا کرنا پڑا اور خواتین میڈیا رپورٹرز کو بھی حراساں کیا گیا اور یہ سب پولیس کی ملی بھگت سے ہورہا تھا۔ اسکے ساتھ ساتھ سماجی کارکنوں پر شدید کریک ڈاون کیا جارہا ہے۔ شاہد العالم نامی فوٹو گرافر اور سماجی کارکن کو الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں حکومت مخالف زبان استعمال کرنے کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق پولیس کی جانب سے شاہد پر جسمانی تشدد کیا جارہا ہے۔لیکن اس تمام تر جبر کے باوجود طلبہ کا احتجاج جاری ہے اور ناصرف ملک کے دیگر شہروں میں اس کو حمایت حاصل ہوئی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی لوگ اس کے حق میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
نام نہادبنگلہ دیشی جمہوری ریاست کا حقیقی چہرہ یہی ہے۔ حسینہ واجد کی پارٹی 2009ء سے برسراقتدار ہے اور حکمرانی کے اس لمبے عرصے میں بنگالی حکمران طبقے کی نمائندگی کرتے ہوئے بنگلہ دیش کی مظلوم عوام پر شدید ترین جبر کرتی آرہی ہے اور اسکے خلاف ہر اٹھنے والی آواز کو بزور طاقت دباتی آئی ہے۔ شاہد العالم کے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہے گئے الفاظ بالکل درست ہیں اور حسینہ واجد کی وحشی اور درندہ صفت حکومت کی شاندار عکاسی کرتے ہیں۔ شاہد العالم کا احتجاج کے متعلق یہ کہنا تھا کہ اس احتجاج کی بنیادی وجہ لمبے عرصے سے چلا آرہا اس حکومت کا جبر ہے جس میں بینکوں کی لوٹ مار، میڈیا پر کنٹرول، ماورائے عدالت قتل، گمشدگیاں، رشوت اور کرپشن شامل ہیں۔ یقیناجو لاوا اس حادثے کی صورت میں پھٹا ہے یہ لمبے عرصے کے جبر نے تیار کیا تھا۔ عوامی لیگ کے ایک وزیر کے بیان سے اس پارٹی کا حقیقی چہرہ عیاں ہو جاتا ہے۔ شاہجہاں خان نامی ایک وزیر جسکا تعلق ایک طاقتور ٹرانسپورٹ یونین سے ہے کا کہنا تھا کہ’’ ہندوستان میں ممبئی گووا ہائی وے پر ہونے والے بس حادثے میں 33لوگوں کے مرنے پر کوئی احتجاج نہیں ہوا اور یہاں 2کے مرنے پر اتنا شور مچایا جا رہا ہے۔‘‘یہ بیان واضح کرتا ہے کہ موجودہ بنگلہ دیشی حکومت کتنی انسان دوست ہے۔
ٹریفک حادثات حقیقی معنوں میں اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ مسائل کی جڑ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو سماج کے تمام تر شعبوں کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیشی ریاست فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کے حصول کے لئے پاگل پن تک جا چکی ہے اور اس عمل میں محنت کش قاتل پالیسیاں ایک طویل وقت سے زور و شور سے جاری ہیں۔ انہی پالیسیوں کا 2013ء میں رانا پلازہ سانحہ تھا، جس میں فیکٹری کی بلڈنگ کے انہدام کی وجہ سے ایک ہزار سے زائد محنت کش اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس طرح کے واقعات بنگلہ دیش میں ایک معمول بن چکے ہیں۔ ریاستی اداروں کی کرپشن اپنی انتہاؤں کو پہنچی ہوئی ہے جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کے قانون سے بچنے کی ایک قیمت مقرر ہے۔ اور سرکاری اداروں کی کرپشن اتنی عام ہے کہ طلبہ نے اس حادثے کے بعد دو ٹوک موقف اختیار کیا کہ ڈرائیورز بنا کسی ٹریننگ کے گاڑیوں کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور ان کو کسی امتحان کے بنا ہی ڈرائیونگ لائسنس رشوت کی بدولت مہیا کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے ان حادثات کی ذمہ دار سب سے پہلے کھوکھلی بنگلہ دیشی سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ طلبہ نے اپنے مطالبات میں جہاں ٹریفک کا نظام بہتر بنانے کی مانگ کی وہیں ان کا مطالبہ ہے کہ وزیر شپنگ اور ٹرانسپورٹ مافیا کے سربراہ شاہجہان خان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ جس نے ٹرانسپورٹ مالکان کے منافعوں میں اضافے کے لئے ایسی پالیسیاں مرتب کی ہیں کہ ڈرائیورز کو مشین کا پرزہ بنا دیا گیا۔ ڈھاکہ میں خاص طور پر ٹرانسپورٹ میں کمیشن سسٹم موجود ہے جس میں ڈرائیوروں کو سواریوں کی تعداد کے حساب سے کمیشن دیا جاتا ہے اور انکی کوئی مقرر کردہ ماہانہ تنخواہ نہیں ہے جسکی وجہ سے وہ بسیں تیز چلاتے ہیں تا کہ زیادہ سے زیادہ سواریاں بٹھائی جا سکیں اور کافی دیر تک گاڑی چلاتے رہتے ہیں جسکے نتیجے کے طور پر وہ یقیناً تھکاوٹ کا بھی شکار ہو جاتے ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے کئی حادثات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں پچھلے ساڑھے تین سالوں میں تقریبا 25ہزار لوگ ٹریفک حادثات میں ہلاک ہوئے ہیں اور تقریبا 62ہزار زخمی ہوئے ہیں۔
پروگریسیو یوتھ الائنس بنگلہ دیشی طلبہ کے مطالبات کو جائز سمجھتے ہوئے ان سے اظہار یکجہتی کا اعلان کرتا ہے اور انکی جدوجہد کی مکمل حمایت کرتا ہے۔ جو ظلم ڈھاکہ کی سڑکوں پر طلبا کے ساتھ کیا جارہا ہے یہی کچھ پاکستان میں بھی طلبا کے حقوق مانگنے پر انکے ساتھ کیا جاتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کے بنگلہ دیشی طلبہ کا دکھ ہمارا دکھ ہے اور اس دکھ کے مشترک ہونے کی بنیاد پر ہم بنگلہ دیشی طلبہ کے ساتھ ہیں۔
ایک کا دکھ، سب کا دکھ!