|تحریر: فضیل اصغر|
رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے لیے مختص کیے گئے بجٹ میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کی، جس کے نتیجے میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیوں کو دی جانے والی امداد کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور یونیورسٹیوں کو اپنے اخراجات خود پورے کرنے کو کہا۔ اس کا دوسرے الفاظ میں یہ مطلب تھا کہ اب یونیورسٹیاں طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کر کے اپنے اخراجات پورے کریں گی۔ لہٰذا اس عرصے میں تقریبا تمام یونیورسٹیوں کی فیسوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ حکومتوں کی طرح اس حکومت کی جانب سے بھی تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا گیا۔ جہاں ایک طرف ”دو نہیں ایک پاکستان“ کا نعرہ لگایا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف تعلیم کو محنت کشوں کے بچوں کیلئے ناممکن بنادیا گیا ہے۔ فیسوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف طلبہ میں شدید غصہ پایا جا رہا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں کئی احتجاجوں کی صورت میں اس غصے کا اظہار بھی ہمیں دیکھنے کو ملا۔ مثلاً بونیر ڈگری کالج، بولان میڈیکل یونیورسٹی، یو ای ٹی لاہور اور خاص طور پر قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت میں ہونے والے احتجاج قابل ذکر ہیں۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی گلگت کے طلبہ نے شاندار جدوجہد کے بعد 31 دسمبر 2019ء کو بالآخر اپنے مطالبات منوا لیے جس میں حکومت نے قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کو 7 کروڑ روپے کی خصوصی گرانٹ دینے کا اعلان کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کو امتحانات میں بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی۔ قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے طلبہ نے خون جما دینے والی سردی میں بھی احتجاج جاری رکھ کر اپنے مطالبات منوا کر پورے ملک کے طلبہ کیلئے ایک مثال قائم کر ڈالی ہے۔
انتہائی سخت معاشی حالات کے اندر محنت کش طبقہ تو ویسے ہی اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکتا تھا مگر آج تو متوسط طبقے کیلئے بھی اپنی اولاد کو اعلی تعلیم دلوانا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ مہنگائی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ حالات یہ ہو گئے ہیں کہ متوسط طبقے کی بھی ساری کمائی آج گھر کا سودا سلف لینے اور بجلی و گیس کے بل ادا کرنے میں ہی صرف ہو جاتی ہے۔ قرضے لے کر بچوں (جن کی جاری تھی) کی تعلیم پوری کرائی جا رہی ہے۔ ڈگریاں ملنے کے بعد نوکری کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ پڑھے لکھے بے روزگاروں کی ایک بہت بڑی فوج تیار ہو چکی ہے۔
ایسے حالات میں جو طلبہ کسی بھی طرح سے یونیورسٹیوں میں پہنچ بھی گئے ہیں، انہیں تعلیمی ادارے کے اندر جیل کا ماحول ملتا ہے۔ کہیں پروفیسر نمبروں کا خوف دلا کر ان سے بے تکی فرمانبرداری کرواتے ہیں تو کہیں اس بنیاد پر ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ بھیڑ بکریوں کی طرح ہاسٹلوں میں انہیں رکھا جاتا ہے۔ ان ہاسٹلوں کے میس یونیورسٹی انتظامیہ کے پالتو غنڈوں (مختلف طلبہ دشمن تنظیموں) کے پاس ہوتے ہیں جہاں انتہائی مضر صحت کھانے دستیاب ہوتے ہیں، جو شدید مہنگائی کے عالم میں مجبوراً طلبہ کو کھانے پڑتے ہیں۔ ان ہاسٹلوں کی عمارتیں باوا آدم کے زمانے کی محسوس ہوتی ہیں، جیسے تعمیر کے بعد مرمت کے لئے کسی نے انہیں ہاتھ تک لگانے کی زحمت نہیں کی۔ اسی طرح کلاس کے اندر نمبروں کے نام پر زندگی اور موت کی دوڑ لگائی جاتی ہے۔ پریشر کے اس ماحول میں ہر دوسرا طالب علم ڈپریشن کا شکار ہے۔ یونیورسٹی سے جب وہ گھر واپس جاتا ہے تو گھر میں اپنے والدین کی حالت دیکھتا ہے، جو قرضے لے کر اسے تعلیم دلوا رہے ہیں اور اس سے بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ یہ حالات اسے مزید ڈپریشن کا شکار کرتے ہیں۔ مگر جہاں ایک طرف وہ ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے تو وہیں دوسری طرف اس کے اندر موجودہ کٹھن حالات کے خلاف شدید غصہ بھی جنم لیتا ہے۔
اب اگر بالخصوص پچھلے نو دس سالوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ تعلیم کا بجٹ اس تمام تر عرصہ میں انتہائی قلیل رہا ہے۔ اسی طرح نئی نوکریاں بھی اس عرصے میں بالکل پیدا نہیں ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کے اندر کا ماحول بھی جیل جیسا ہی رہا ہے۔ اوپر سے ہر سال فیسوں میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوتا رہا (جو آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے اس بار معیاری جست کے ساتھ کئی گنا زیادہ ہوا ہے)۔ ان تمام سالوں میں طلبہ کے اندر شدید ترین غصہ اکٹھا ہوا۔ تو اس سب کا کیا نتیجہ ہو سکتا تھا؟ ماسوائے بغاوت کے، تحریکوں کے اور احتجاجوں کے، اسکا نتیجہ اور کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی کچھ ہم نے پھر پچھلے چند سالوں میں دیکھا۔ مثلاً مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف پورے ملک میں ہونے والے احتجاجوں کی صورت میں (خاص طور پر ایسے معاشرے میں جہاں ریاست کی جانب سے مذہبی بنیادوں پر کھل کر نفرت پھیلائی گئی ہو)، اے پی ایس حملے کے خلاف، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ہونے والے فیسوں میں اضافے کے خلاف، بلوچستان میڈیکل کالج میں فیسوں میں اضافے کے خلاف، انٹر میڈیٹ کے طلبہ کی پنجاب بھر میں تحریک، مختلف ریپ کیسز کے خلاف ملک گیر احتجاج، بی زیڈ یو ملتان میں کئی احتجاج، گلگت میں طلبہ کے احتجاج، بونیر میں طلبہ کے احتجاج، یو ای ٹی لاہور کے طلبہ کے احتجاج، پنجاب یونیورسٹی کے طلبہ کے احتجاج، سندھ میں طلبہ کے احتجاج، بلوچستان میں ہراسگی کے خلاف شاندار تحریک اور ان سب سمیت دیگر کئی احتجاج دیکھنے کو ملے۔ مستقبل قریب میں ہمیں ان تحریکوں اور احتجاجوں کی شدت اور حجم میں بہت بڑا اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
جی ہاں یہ سب کچھ اسی پاکستان میں ہوا ہے، جسے نام نہاد آزاد میڈیا نے دکھانے سے صاف انکار کیا۔ اس نام نہاد آزاد میڈیا کیلئے نام نہاد ”جمہوریت اور آمریت“ کی ”لڑائی“ زیادہ اہم ہے۔ نواز شریف کی صحت، عمران خان کی شادیاں اور زرداری کی جیل میں حالت کے بارے میں عوام کو آگاہ رکھنا زیادہ ضروری ہے۔ مگر حقیقت چھپانے سے وہ بدل نہیں جاتی۔ ان تمام تحریکوں کے نتیجے میں جہاں طلبہ نے کئی اہم اسباق حاصل کیے ہیں جیسے سب سے اہم سبق کہ اس ملک کے حکمرانوں سے اپنا حق مانگنے سے نہیں ملتا بلکہ اسے چھیننا پڑتا ہے، وہیں دوسری طرف ان احتجاجوں اور تحریکوں پر حکمران طبقے کی بھی بڑی گہری نظر تھی۔ حکمران طبقے نے بھی اس چیز کو محسوس کیا ہے کہ طلبہ اب خاموش رہنے والے نہیں۔ اسے اس بات کا خطرہ سب سے زیادہ تھا کہ کہیں یہ تمام تحریکیں جو اس وقت ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں، ایک نہ ہو جائیں۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پورے ملک کے طلبہ منظم نہ ہو جائیں۔
ایسے میں پچھلے مہینے کے دوران چاروں صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی میں طلبہ یونین بحالی کی قراردادیں منظور ہوئیں اور وزیر اعظم نے خود طلبہ یونین بحالی کا عندیہ دیا اور اس ضمن میں ایک ’ضابطہ اخلاق‘ مرتب کرنے کی بات کی۔ اس کے بعد یوں محسوس ہونے لگا کہ شاید پاکستانی حکمرانوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے اور واقعی ہی طلبہ یونین کی بحالی میں سنجیدہ ہیں۔ سب سے پہلے سندھ اسمبلی میں طلبہ یونین بحالی کی قرارداد پیش کی گئی اور ہر طرف سے پیپلز پارٹی اور بالخصوص بلاول کے لیے داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جانے لگے اور ایک عرصے سے سلب طلبہ کے اس بنیادی جمہوری حق کا سارا کریڈٹ پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈالا جانے لگا۔ ان حکمرانوں سے خاصی خوش فہمیاں وابستہ ہو گئیں کہ اب طلبہ کے مسائل حل ہوجائیں گے اور جدوجہد کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہے گی۔ یہ ساری صورتحال ایک سنجیدہ تجزیے کی متقاضی ہے۔ کیا واقعی طلبہ یونین بحال ہوسکتی ہیں؟ طلبہ یونین بحالی اور اس کے بعد اگر الیکشن منعقد ہونے کی طرف جاتے ہیں تو اس کے ملکی سیاست بالخصوص طلبہ تحریک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ موجودہ بحرانی کیفیت میں طلبہ یونین کی بحالی کیا کردار ادا کرے گی؟ کیا طلبہ یونین بحالی سے طلبہ کو درپیش مسائل فوری اور حتمی طور پر حل ہوجائیں گے؟ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کا ہم جواب دینے کی کوشش کریں گے۔
موجودہ شدید بحرانی کیفیت میں جب عوامی غم غصہ اپنی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور بالخصوص درمیانے اور نچلے درمیانے طبقے، جس سے طلبہ کی اکثریت کا تعلق ہے، کا ارتعاش بحران کی حدت سے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی، ایسے میں خود حکمران طبقے کی جانب سے طلبہ یونین کی بحالی، جو کہ بھوسے کے ڈھیر کو آگ دکھانے کے مترادف ہے، خاصی مشکل نظر آتی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی قبل از انقلاب کی صورتحال ہے جس میں حکمران طبقے کا ایک دھڑا تحریک کے خوف سے اصلاحات او ررعایتیں دینے کی بات کرتا ہے اور دوسرا دھڑا اس کے بالکل برعکس جبر میں اضافے کی حمایت کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ اگر کچھ بھی دیا گیا تو انقلاب آجائے گا۔ پاکستانی حکمران بھی اسی تذبذب کا شکار ہیں۔ حالیہ طلبہ یونین بحالی کی قراردیں جہاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ ایران، چلی اور عراق جیسی تحریکیں یہاں بھی ابھر سکتی ہیں تو اس دباؤ کو زائل کرنے کے لیے اوپر سے کچھ مصنوعی اقدامات کیے جائیں، وہیں یہ اس بات کی بھی غمازی ہے کہ سماج کے اندر حقیقی صورتحال کیا ہے اور بڑھتے سماجی درجہ حرارت کی حدت حکمران طبقہ بھی محسوس کررہا ہے۔ اس صورتحال میں کتنے ہی ضابطہ اخلاق بنا لیے جائیں، اگر ایک بار طلبہ یونین کتنی ہی کنٹرولڈ شکل میں بحال ہوتی ہیں تو اس آگ کو قابو کرنا مشکل ہوجائے گا۔ دوسرا یہ کہ جہاں ایک طرف طلبہ یونین بحالی کی بات کی جا رہی ہے تو دوسری طرف طلبہ یونین اور سیاست کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ بھی شدومد سے جاری ہے۔ خاص طور اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں جمعیت اور کونسلز کی لڑائی میں ایک طالبعلم کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر طلبہ سیاست کے خلاف پروپیگنڈہ کا موقع ہاتھ آگیا اور خوب زہر ا گلا گیا۔ مگر کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ کیمپسز میں طلبہ سیاست پر پابندی کے باوجود جمعیت کس کی اجازت سے یونیورسٹی کے اندر تقریب منعقد کر رہی تھی۔ یہی تعلیمی اداروں میں ا کا دکا پرتشدد واقعات کی وجہ ہے کہ ایک طرف عام طلبہ کے لیے پابندیاں ہی پابندیاں ہیں تو دوسری جانب ریاستی تنظیموں کو کھلی چھوٹ ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر طلبہ یونین بحال ہو جاتی ہیں تو اس کے ملکی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اور حالات کا جبر طلبہ کو مجبور کرے گا کہ وہ ادارہ جاتی مسائل جیسے فیسوں اور ہاسٹلوں کے مسائل سے آگے بڑھ کر سیاسی اور جمہوری حقوق پر بات اور جدوجہد کریں۔ چوتھا یہ کہ پاکستانی ریاست جس داخلی ٹوٹ پھوٹ اور انتشار کا شکار ہے، طلبہ یونین اور سیاست کو ماضی کی طرح کنٹرول کرنا خاصامشکل کام ہوگا اور حالات تعلیمی اداروں میں شدید خونریزی کی جانب بھی جاسکتے ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل میں تعلیم اور صحت کی نجکاری اور دوسری جانب یہ توقع کرنا کہ کوئی ردعمل نہیں آئے گا یا رد عمل کو کنٹرول کرلیا جائے گا، سراسر دیوانہ پن ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ چاہے طلبہ یونین بحال ہو یا نہ ہو حالات کا جبر پاکستان کو چلی،ایران اور لبنان بننے سے نہیں روک سکتا اور ملک بھر میں بکھری یہ طلبہ تحریک بہت جلد سطح کے اوپر ایک دھماکے کی صورت میں اپنا اظہار کرے گی۔ فیسوں کا مسئلہ ہو یا بیروزگاری کا ناسور، جدوجہد کے سوا کوئی رستہ نہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ”طلبہ یکجہتی مارچ“ نامی ایک مارچ ہوا۔ اس مارچ میں طلبہ یونین بحالی کا نعرہ سرفہرست تھا۔ اس مارچ کو مین سٹریم میڈیا کے کچھ حصوں (ریاست کے لبرل دھڑے سے پیسہ کھانے والے) نے بھرپور کوریج دی۔ بعض مواقعو ں پر یوں بھی لگا جیسے باقائدہ کمپئین کی جارہی ہے۔ اسی مارچ کے فورا بعد ہمیں طلبہ یونین کی بحالی کی قرار دادیں منظور ہوتی ہوئی نظر آئیں۔ ریاست کے ایک دھڑے نے اس مارچ کی زور و شور سے حمایت کی۔ بی بی سی اور وائس آف امریکہ جیسے سامراجی ماؤتھ پیسز نے بھرپور میڈیا کیمپین کی اور مصنوعی طور پر ایک ’تحریک‘ کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی۔ بہر حال اس مارچ کے گرد ایک بحث کا آغاز ضرور ہواجس کی بنیادی وجہ عالمی معاشی بحران کے گیارہ سالوں کے بعد زرخیز سماجی حالات تھے۔
اسی طرح اس عرصے میں لاہور میں جمعیت اور بائیں بازو کا لبادہ اوڑھے این جی او مالکان کے درمیان ”ڈائیلاگ“ بھی دیکھنے کو ملے۔ اس کے بعد طلبہ یکجہتی مارچ میں جمعیت کے کارکنان نے شرکت بھی کی۔ اسکے بعد اسلامیہ انٹرنیشل یونیورسٹی (اس یونیورسٹی کو جمعیت کی یونیورسٹی بھی کہا جاتا ہے، جہاں ساری انتظامیہ جمعیت کی کھلی پشت پناہی کرتی ہے) میں جمعیت کی بڑی لڑائی دیکھنے کو ملی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب جمعیت کو دوبارہ پورے ملک میں زندہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اب کی بار لنگڑی لوڑی جمعیت کو سہارا ان این جی اوز کے ذریعے دلوایا جا رہا ہے۔ ان کے ذریعے جمعیت پر لگے خون کے دھبوں کو صاف کر کے اسے”ترقی پسند“ اور مظلوم تنظیم بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تا کہ اسے طلبہ میں ”قابل قبول“ بنایا جا سکے۔ یہ سب ریاست کے سنجیدہ اور سب سے رجعتی دھڑے کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تحریکوں کو کبھی بھی ڈنڈے کے زور سے ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں ہمیشہ ان ”اپنوں“ کی مدد سے (جو وقتی طور پر ہمدرد بن کر فیصلہ کن وقت میں پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں) تباہ کیا جاتا ہے۔
این جی اوز کے مالکان، سیاسی یتیموں اور کرائے کے لبرل دانشوروں کی جانب سے یہ مشورے دیے جاتے ہیں کہ آئینی و قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق مانگے جائیں تو (جلد یا بدیر) سب کچھ مل جاتا ہے۔ بالفرض ”تاخیر“ ہو رہی ہو تو پھر چھوٹا موٹا احتجاج ریکارڈ کروا کر عدالتی پریشر کے ذریعے، ریاست کے لبرل دھڑے کے چڈی بنیان بن کر اور اقوام متحدہ یا دیگر عالمی انسانی حقوق کے سامراجی اداروں سے بھیک مانگی جائے۔ جواز وہی گھسا پٹا دیا جاتا ہے کہ ریاست کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں نا، دیکھیں معیشت کی حالت اتنی خراب ہے، ہمیں ”حقیقت پسند“ (ریاستی دلال) بن کر مطالبہ کرنا اوراس مطالبے کے حصول کیلئے لائحہ عمل بنانا چاہئیے۔ اس طرح سڑکوں پر ”بار بار“ نکل کر ہم اپنے مقصد کو خراب کر رہے ہیں۔ یہاں ایک بات واضح ہونی چاہیئے کہ یہ وہ باتیں ہیں جو ان مصلحت پسندوں کے دلوں میں ہیں، جو وہ ہمیشہ کرتے تھے اور کرتے ہیں، لیکن جو سماجی و سیاسی پریشر کی وجہ سے بعض اوقات فوری طور پر سامنے نہیں بھی آتیں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا طبقہ (محنت کش طبقہ) سماج کا اکثریتی طبقہ ہے۔ پورے سماج کو ہم چلاتے ہیں۔ ہماری مرضی کے بغیر ایک بلب تک نہیں جل سکتا، ایک ریل نہیں چل سکتی، ایک جہاز نہیں اڑ سکتا۔ ہمیں سرمایہ دار طبقے،ریاستی اشرافیہ کے کسی دھڑے یا سامراجی طاقتوں کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ ہم خود بہت بڑی طاقت ہیں۔ سہارے کی ضرورت کمزوروں کو ہوتی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ میں سے ایک بڑی تعداد کا تعلق محنت کش طبقے سے ہوتا ہے۔ مہنگے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والوں کو یقینا ان سہاروں کی ضرورت پڑتی ہوگی مگر ہمیں نہیں پڑتی۔ ہمیں لڑ کر اپنا حق حاصل کرنا آتا ہے۔ہم بھیک نہیں مانگتے، ہم بھکاری نہیں ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ یونین کی بغیر کسی ”پابندی“ کے بحالی اور مفت اور معیاری تعلیم ہمارا حق ہے، خیرات نہیں اور اسے اپنے زور بازو پر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عدالتوں اور سینیٹ کمیٹیوں میں مجرموں کی طرح حاضری دینے اور بھکاریوں کی طرح مانگنے سے نہیں۔ ریاستی دلالوں (چند سو) کو ساتھ ملا کر تعداد بڑھانے اور ”پریشر“ بنانے سے نہیں، بلکہ لاکھوں طلبہ کو پورے ملک میں سوشلزم کے انقلابی نظریات سے لیس کرتے ہوئے منظم کر کے،اور طلبہ تحریک کو ابھرتی ہوئی مزدور تحریک کے ساتھ جوڑتے ہوئے جدوجہد کو آگے بڑھانے سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ مصلحت پسندی نہیں بلکہ انقلابی للکار ہی اپنے حقوق حاصل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
مصلحت یا جدوجہد۔۔جدوجہد،جدوجہد!!