|تحریر: ماہ بلوص اسد|
مارکسزم نے جہاں جدلیاتی مادیت کے فلسفے کے تحت انسانی سماج کے ارتقا کی سائنسی بنیادوں پر وضاحت کی وہیں مارکسزم دنیا کی واحد سائنس ہے جس نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عورت کے استحصال کی مادی اور تاریخی بنیادوں کو واضح کیا۔ اس سے پیشتر اور اس کے بعد کے تمام فلسفے اور سماجی علوم عورت کی آزادی اور عورت کے تاریخی کردار کو خیال پرستانہ نقطہ نظر سے پرکھتے تھے چاہے وہ مذہبی علوم ہوں یا جدید سماجی علوم۔ خواتین پر جبر کو ہمیشہ ایک اخلاقی مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔
مورگن کی تحقیق کی بنیاد پر اینگلز کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز‘‘ نے تاریخ میں پہلی مرتبہ عورت کے سوال کو تاریخی مادیت کے اصولوں کے تحت واضح کیا اور بتایا کہ قدیم اشتراکی سماج میں عورت کی حیثیت مردوں کے برابر تھی۔ محنت کی تقسیم میں فرق صرف فطری بنیادوں پر تھا۔ مورگن کے بعد ہونے والی تمام تر سماجیات اور علم البشریات کی تحقیق نے اینگلز کے اس مفروضے کو سچ ثابت کیا۔
ایک ایسے عہد میں جب سرمایہ داری اپنے ابتدائی مراحل میں تھی، لبرل فیمینزم محنت کی منڈی میں خواتین کی شمولیت کا نعرہ لگاتے ہوئے خواتین کے حقوق کی علمبردار بنی ہوئی تھیں۔ مارکسزم نے تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کی آزادی کے سوال کو طبقاتی سوال کے ساتھ منسلک کیا اور یہ ثابت کیا کہ طبقاتی نظام ہی خواتین کی آزادی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے نہ کہ کوئی ’’سماجی رشتہ‘‘ یا ’’مرد ذات‘‘۔
لیکن تاریخ کو خیال پرستانہ اخلاقیات کی نظر سے دیکھنے والوں نے عورت کے سوال پر مارکسی نقطہ نظر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اور سب سے پہلی ’’سائنسی‘‘ تنقید یہ کی گئی کہ اینگلز ایک مرد ہے لہٰذا اس نے مردانہ ذہنیت کے تحت قدیم اشتراکی سماج میں عورت کو ایک ’Gatherer‘کے طور پر بنا کر اور مرد کو ایک ’Hunter‘کے طور پر بنا کر فطری تقسیم محنت کے نام پر خواتین کو مردوں سے کمتر دکھانے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا بڑا طنز اینگلز پر یہ کیا جاتا ہے کہ اس نے قدیم اشتراکی عہد میں مدر سری (Matriarchy) کی بات کی تھی جس کے شواہد کسی بھی قدیم قبیلے میں نہیں ملے لہٰذا اینگلز کا پورا مفروضہ غلط ہے۔
انیسویں صدی میں جب علم البشریات بطور ایک سائنس اپنے ابتدائی مراحل میں تھی، اس عہد میں تحقیق بہت محدود تھی جس کی بنیاد پر اینگلز نے خواتین اور مردوں کو بطور Hunterاور Gatherers کی تاریخی تقسیم محنت میں دیکھا۔ 1960ء کی دہائی کے بعد ہونے والی تحقیق میں چند قبائل میں یہ امر دیکھنے میں آیا کہ جس میں خواتین بھی چھوٹے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتی تھیں۔ لیکن اس تحقیق سے بھی اینگلز کا مفروضہ کسی طور پر بھی غلط ثابت نہیں ہوتا کیونکہ تاریخی مادیت کے تحت تاریخی قوانین تاریخی عمل کی عمومیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اور تاریخ کسی سیدھی لکیر کی بجائے مشترک اور غیر ہموار ترقی کے قانون کے تحت آگے بڑھتی ہے۔
محنت کی سماجی تقسیم کی بنیاد پر انسانوں میں فرق کرنا یا پھر محنت کے ساتھ غیر انسانی تعصبات منسوب کرنا ہمیشہ ایک طبقاتی نظام کا خاصہ رہا ہے جس میں ملکیت رکھنے والا کوئی کام نہ کرنے کے باوجود خود کو محنت کرنے والے طبقے سے برتر تصور کرتا ہے اور اپنی مال و دولت جمع کرنے کی ’’صلاحیت‘‘ کی وجہ بھی اپنی اعلیٰ ذہنیت بتاتا ہے۔ لیکن مارکسزم پر لگنے والے اس نام نہاد الزام کی ’’منطق‘‘ کو اگر طبقاتی معاشرے پر ہی منطبق کر کے دیکھا جائے تو ہمیں تمام بالائی طبقے کے خواتین و حضرات کو کوئی کام نہ کرنے کی بنیاد پر باقی محنت کش مرد و زن سے جسمانی طور پرمختلف یا کمتر کہنا ہوگا بلکہ ان کا انسان ہونا اس منطق کے تحت مشکوک ہو جاتا ہے۔
دوسری طرف اینگلز کے کام کو اس نکتہ پر رد کرنا کہ اس نے مدرسری نظام کی بات کی تھی، سراسر غلط ہے اور اینگلز کے کام کو سرے سے سمجھ ہی نہ سکنے کی بنیاد پر ہے۔ قدیم اشتراکی نظام کا سیاسی ڈھانچہ مشترکہ سماجی یونٹس یا اداروں کی بنیاد پر تھا، جس میں ’’گن(Gen)‘‘ ایک بنیادی سماجی اور سیاسی یونٹ ہوا کرتا تھا جس کے نمائندگان خود ساختہ طور پر مسلط نہیں ہوتے تھے بلکہ قبیلے کے افراد کی حقیقی نمائندگی کرتے تھے۔ عورت کی برتری بطور ماں کے ہوتی تھی اور اسی سے ہی بچوں کی شناخت ہوتی تھی۔ نجی ملکیت کی عدم موجودگی کے باعث سماج میں کسی ایک جنس یا صنف کو برتر تصور نہیں کیا جاتا تھا اور نہ ہی سیاسی طاقت کسی معاشی طاقت کی بنیاد پر ہوتی تھی۔ اس لئے میکانکی طور پر یہ تصور کرنا کہ چونکہ بچوں کی شناخت عورت سے ہو رہی تھی تو عورت کو ویسے ہی طاقتور ہونا چاہئے جیسے کہ ایک طبقاتی پدرسری سماج میں مرد ہوتا ہے، سرا سر غلط ہے۔ یہ فرق نجی ملکیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے۔ اس لئے قدیم اشتراکی نظام محض Matrilineal تھا نہ کہMatriarchal۔ نجی ملکیت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کوئی طبقاتی یا پھر صنفی بنیاد پر بالائی ڈھانچہ مرتب ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اس لحاظ سے فیمنسٹوں کا یہ الزام بھی ناصرف غلط ہے بلکہ ان کی لاشعوری رجعتی سوچ کا اظہار ہے۔
ایک طبقاتی معاشرے میں خواتین کے استحصال کی بنیادی وجہ محض پدرسری سمجھنے والوں کے لئے یہ بات تسلیم کرنا مشکل ہے کہ قدیم سماج میں Matriarchyکا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ وہ نہ ہی پدرسری کے تاریخی طبقاتی کردار اور بنیاد کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی قدیم اشتراکی سماج میں صنفی تقسیم کی عدم موجودگی کو تسلیم کر سکتے ہیں۔
کیا مارکسزم فیمنسٹ ہو سکتا ہے؟
مارکسزم کے نقاد یہ کہتے ہیں کہ مارکسزم بہت ’’تنگ نظر ‘‘ ہے اور اپنے سخت طبقاتی نقطہ نظر سے بالا تر ہو کر نہیں دیکھ سکتا۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مارکسی خواتین کے ساتھ ہونے والے صنفی جبر کو محض طبقاتی بنیادوں پر دیکھتے ہیں اور خود کو فیمنسٹ نہیں کہتے۔ تمام انسانی علوم اور فلسفوں کو لفظوں کے گھن چکر میں ڈال کر محنت کش طبقے کو تقسیم اور متذبذب کرنے والے دانشوروں کے لئے تمام مسائل کا واحد حل لفظوں کی یا Narrativeکی تبدیلی ہی ہے۔ ان کے پاس تاریخی سماجی عمل کو سمجھنے اور مستقبل کے لئے کوئی نظریہ موجود نہیں ہے لہٰذا لفظوں کا ردوبدل اور اسی طبقاتی نظام کے ساتھ سمجھوتہ ہی ان کے لئے واحد حل ہے۔ مارکسزم کے نظریات عورت کی آزادی کے لئے ایک متبادل نظام کی کاوش اور جدوجہد ان سہل پسند مرد و خواتین کے لئے ’’Too Hard’’، ‘‘Too Rigid‘‘اور ’’Too Old Narrative‘‘ ہے۔
درحقیقت مارکسزم کے بنیادی نظریات ہی خواتین پر ہونے والے صنفی جبر کی معاشی اور سماجی بنیادوں کی وضاحت کرتے ہیں جب کہ باقی تمام تر علوم اس جبر کی تاریخی بنیادوں پر بات ہی نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ امر ازل سے موجود تھا ۔ ان کے جھوٹے اور غلامانہ نظریات کے مطابق انسانی معاشرہ شروع سے ہی طبقات پر مشتمل تھا اور ہمیشہ رہے گا، لہٰذا اس طبقاتی معاشرے کے اندر رہتے ہوئے ہی عورت کی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہئے اور اس کے لئے ’سٹیٹس کو‘ کو چیلنج کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ سرمایہ داری کے آغاز میں فیمنسٹ سکول کی ابتدا کی یہی بنیاد تھی جس کا آغاز Mary Wollstonecraft نے 1792ء میں کیا، جو برطانیہ میں ایک درمیانے طبقے کے خاندان سے تعلق رکھتی تھی جو کہ معاشی تنگ دستی کا شکار تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی بزرگ والدہ اور بہنوں کی معاشی ذمہ داری سنبھالنے پر مجبور ہوئی۔ اس عہد میں جب سرمایہ داری اپنے ابتدائی مراحل میں تھی، خواتین کے لئے تعلیم حاصل کرکے محنت کی منڈی میں اپنی قوت محنت بیچنے کا حق حاصل کرنا بہت اہم تھا۔ دوسری طرف سرمایہ داروں کے لئے بھی خواتین پر احسان لگا کر انہیں کم اجرت پر کام دینا سود مند تھا۔ اس پس منظر میں ہم فیمینزم کا آغاز ہوتے دیکھتے ہیں جو کہ اپنی ابتدا میں ہی لبرل تھا۔
لیکن سرمایہ داری کی تین سو سالہ تاریخ میں کبھی بھی خواتین کا کوئی حق طبقاتی جدوجہد سے الگ تھلگ کسی جدوجہد سے حاصل نہیں کیا گیا۔ ووٹ کے حق سے لے کر دیگر معاشی اور سماجی حقوق کے حصول کی جدوجہد محنت کش خواتین نے اپنے مرد محنت کش ساتھیوں کے شانہ بشانہ مختلف ہڑتالوں اور تحریکوں کے ذریعے کی ہے۔ انقلاب فرانس سے لے کر عظیم بالشویک انقلاب اور دوسری عالمی جنگ کے بعد پوری دنیا میں ابھرنے والی انقلابی لہر کی وجہ سے سرمایہ داری محنت کش خواتین کو ان کے حقوق دینے پر مجبور ہوئی تھی۔ان تمام تاریخی حقائق کے باوجود مارکسزم کو سخت گیر اور فیمینزم کا لاحقہ نہ لگانے پر Gender Biasedکہا جاتا ہے۔
فیمینزم اپنی بنیاد میں ہی اصلاح پسند اور لبرل ہے اسی لیے یہ محنت کش طبقے کے مفادات سے متصادم ہے۔ اصلاح پسندی طبقاتی مصالحت کی علم بردار ہے جبکہ مارکسزم طبقاتی جنگ کا۔ اس لئے مارکسزم کبھی بھی فیمنسٹ نہیں ہو سکتا۔ یہ دو متضاد نظریات ہیں۔ طبقاتی معاشرے میں رہتے ہوئے طبقاتی فرق کو ختم کئے بغیر خواتین کی سماجی یا معاشی جبر سے آزادی ممکن ہے، یہ ایک سفید جھوٹ ہی نہیں بلکہ دھوکا ہے جو کہ نام نہاد فیمنسٹ محنت کش خواتین کو دیتے ہیں۔ مارکسزم کے لئے عورت کی آزادی محض ایک اخلاقی نہیں بلکہ سائنسی مسئلہ ہے اور اس کا حقیقی حل طبقاتی نظام کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔
سوویت یونین کا انہدام اور فیمنسٹ تحریک کی زوال پذیری
سوویت یونین کے انہدام کے بعد جہاں عالمی سرمایہ داری جشن منانے میں مصروف تھی وہیں فیمنسٹ تحریک نے بھی معاشی اور سیاسی جدوجہد کو خیرآباد کہہ دیا۔ اس عمل کو مہمیز دینے میں سٹالنسٹ قیادتوں کے جرائم بھی شامل تھے جنہوں نے عالمی محنت کش طبقے کی تحریکوں سے غداری کے ساتھ ساتھ خواتین محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کے ساتھ بھی غداری کی۔ اس کے علاوہ خواتین کے حوالے سے ان قیادتوں کے افسرشاہانہ رویوں میں تعصب تھا اس لئے ایسی نام نہاد ’’مارکسی قیادت‘‘ کے ساتھ کام کرنا خواتین کامریڈز کے لئے دشوار تھا۔ نظریاتی زوال پذیری اپنا اظہار ثقافتی معیار کی گراوٹ میں کرتی ہے۔ سٹالنسٹ قیادتوں کی اس ثقافتی زوال پذیری اور مزدور تحریک کی پسپائی بہت سی خواتین کامریڈز کے لئے مایوسی کا باعث بنی اور وہ اس امر کو سٹالنسٹ قیادتوں کی نظریاتی اور ثقافتی کمزوری سمجھنے کی بجائے مارکسزم کے نظریات کی کمزوری سمجھنے لگیں۔ اور طبقاتی جدوجہد سے مایوس ہو کر فیمینزم اور اصلاح پسندی کی خیال پرستانہ زوال پذیری کا شکار ہو گئیں۔
اس عہد میں ہمیں ریڈیکل فیمینزم یا پوسٹ فیمینزم کا آغاز ہوتا نظر آتا ہے جو کہ فیمینزم کا سیاست سے مکمل بیگانگی کا اظہار تھا۔ ایک طرف ریڈیکل فیمینسٹ خواتین کے تمام تر مسائل کی وجہ ’’مرد ذات‘‘ کو گردانتے تھے اور اس کا حل خواتین کی علیحدہ کمیونیٹیز بنا کر مردوں کے معاشرے سے بالکل الگ ہو جانے کو پیش کرتے تھے۔ دوسری انتہا پر پوسٹ فیمنسٹ تھے جو کہ پوسٹ ماڈرن ازم کا فیمنسٹ ورژن تھا۔ یہ خواتین کی ایسی مخلوق تھی جو یہ سمجھتے تھے کہ خواتین کے تمام تر مسائل حل ہو چکے ہیں، خواتین کو مردوں کے مساوی حقوق مل چکے ہیں اور اب ہمیں اس سے آگے کی کوئی کہانیاں گھڑنے کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے سرمایہ داری سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کہا کرتی تھی کہ اب طبقاتی جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے اور اب دنیا میں طبقاتی برابری آ گئی ہے اور اس دنیا کے مسائل اب کچھ اور ہوں گے۔ لیکن ا ن خواتین کے دشمن نظریات کو کبھی بھی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔
موجودہ عہد اور خواتین کی آزادی
عالمی سرمایہ دار طبقہ، لبرلز اور باقی تمام نئی اقسام کے فیمنسٹ رجحانات ابھی سوویت یونین کے انہدام کا جشن منا رہے تھے اور مارکسزم کے خاتمے پر بیہودہ دانش اور تحقیق کے انبار دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں لگا رہے تھے کہ 2008ء کے معاشی بحران نے ان کی تمام تر دانش کو محبوط اور خوابوں کو چکنا چور کر دیا۔ اس بحران نے ناصرف سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست کو محنت کش طبقے کے آگے عریاں کیا بلکہ محنت کشوں اور طالب علموں کی ایک نئی نسل جو کہ ماضی کی تمام تر غداریوں اور روایتوں کے بوجھ سے بالاتر تھی، اسے ایک نئے متبادل کی تلاش پر مجبور کر دیا۔ اس نئی نسل کی سوچوں پر نہ ہی سٹالنسٹ قیادت کی غداری کے اثرات ہیں اور نہ ہی روایتی سیاسی پارٹیوں کابوجھ۔ اس کے لئے یہ تمام چیزیں ماضی کا قصہ ہیں جن سے محض سیکھا جا سکتا ہے اور آگے بڑھنے کے لئے محنت کش طبقے کے مفادات کی ترجمانی کرنے والے حقیقی نظریات کی تلاش کی جا سکتی ہے۔
اس عہد کا ایک اور مختلف پہلو یہ ہے کہ عالمی سرمایہ داری کے پاس اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے جب انقلابی ادوار میں محنت کش طبقہ تحریک میں آتا تھا تو سرمایہ داری کے پاس دینے کے لیے کچھ مراعات کی گنجائش ہوتی تھی۔ لیکن آج معاشی بحران کے عہد میں بڑی بڑی تحریکوں کے باوجود ہمیں محنت کش طبقہ پچھلے دس سالوں میں کچھ حاصل کرتا نظر نہیں آتا بلکہ اس پر حملے مزید تیز تر ہو چکے ہیں۔ یونان میں 30عام ہڑتالوں اور عرب بہار کی عظیم اٹھان کے باوجود ہمیں ان کی حاصلات نظر نہیں آتیں کیونکہ آج کے اس بحران زدہ عہد میں محنت کشوں کو دینے کے لئے اس نظام کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ بلکہ ماضی میں جو حاصلات محنت کش طبقے نے جدوجہد کے ذریعے حاصل کی تھیں وہ بھی ان سے واپس چھینی جا رہی ہیں۔ لیکن محنت کش طبقہ ایک زندہ متحرک قوت ہے اور اس تمام تر عمل کو سمجھتے ہوئے تیزی سے اہم نتائج اخذ کر رہا ہے۔ اس کا اظہار ہمیں عالمی سیاست میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی پولرائزیشن کی صورت میں نظر آ رہا ہے اور عالمی سیاسی افق پر ہونے والی تیز ترین تبدیلیاں دراصل سماجی شعور میں تیز ترین تبدیلی کی عکاسی کر رہی ہیں۔
اس تمام تر عمل میں جہاں عمومی طور پر محنت کش طبقے پر حملے کئے جا رہے ہیں وہیں خواتین محنت کشوں پر جبر مزید بڑھ رہا ہے۔ خواتین محنت کشوں کی اجرتوں میں مزید کمی کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف صنفی جبر میں بھی معاشی اور ثقافتی گراوٹ کی وجہ سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن دوسری طرف خواتین کی ایک ایسی پرت بھی ہے جن کی دولت میں اس بحران کے عہد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جو سیاست کے میدان میں بھی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی محافظ اور علمبردار ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خواتین محنت کش خواتین پر حملے کرنے میں بھی پیش پیش رہتی ہیں۔ ہیلری کلنٹن، برطانیہ کی وزیر اعظم تھیریسا مے اور آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ ایسی ہی خواتین ہیں جو کہ عالمی محنت کش طبقے پر معاشی حملے کرنے کی پالیسیوں کی علمبردار ہیں۔
لہٰذا آج کے عہد میں خواتین کی معاشی اور سماجی آزادی کو طبقاتی بنیادوں سے کاٹ کر محض صنفی بنیادوں پر سمجھنا اور اس کی کوشش کرنا ایک دھوکہ ہے۔ فیمینزم کی کسی بھی ’’قسم‘‘ کی طرف سے خواتین پر ہونے والے صنفی جبر کے نام پر محنت کش طبقے کو صنفی جبر پر تقسیم کرنا مارکسزم کے نظریات کے برخلاف ہے اور آخری تجزیہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ سمجھوتہ اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی عکاسی ہے۔ لیکن آج کے عہد میں مذہب، قوم اور جنس کے نام پر محنت کش طبقے کو تقسیم کرنے کی تمام تر کوششیں ناکامی کا منہ دیکھیں گی۔ دائیں بازو کے تمام تر رجعتی نظریات اور نام نہاد ’’بائیں بازو‘‘ کے ’’دائیں بازو زدہ‘‘ نظریات، جو کہ دراصل سٹالنسٹ زوال پذیری کے عکاس تھے، آج کی نئی نسل کو متاثر نہیں کر سکتے۔
اس عہد میں حقیقی جنگ دو طبقات کے مفادات اور بقا کی جنگ ہے۔ یہ حقیقت عمومی شعور میں روز بروز اپنا ادراک کروا رہی ہے اور یہی ادراک محنت کش اور نوجوان طالب علموں کو حقیقی مارکسزم کے نظریات کا متلاشی بنا رہی ہے۔ ماضی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے، عظیم انقلابات کی تاریخ کو دوبارہ سمجھتے ہوئے محنت کش طبقہ ایک بار پھر اس سچ کو باہر نکال لائے گا جسے سرمایہ دارانہ دانش ’’بہت پرانا‘‘ کہہ کر ماضی کا حصہ بنا نے کی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے اور ایک حقیقی مارکسی انقلابی پارٹی کی قیادت میں کامیاب انقلاب کرتے ہوئے اس نئے عہد میں نئی تاریخ رقم کریں گے اور ایک ایسے معاشرے کی تعمیر کا آغاز کریں گے جہاں نہ صرف خواتین بلکہ نسل انسانی ایک نوع کے طور پر پہلی مرتبہ آزاد ہو گی۔