|تحریر: فضیل اصغر|
سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کی آزادی کا سوال دیگر کئی سوالات کی طرح انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر چکا ہے۔ حکمران طبقے کی طبقاتی تقسیم اور کشمکش کو چھپانے کیلئے مختلف ذرائع، جیسے یونیورسٹیوں، اخبارات، کتابوں اور میڈیا وغیرہ (جو حکمران طبقے کی ملکیت ہوتے ہیں) کے ذریعے پروپیگنڈے سے طبقاتی سماج میں جھوٹی اور مصنوعی تقسیموں کو ہوا دی جاتی ہے اور انہی جھوٹی تقسیموں کو تمام مسائل کی بنیادی جڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ یقیناًیہ کام حکمران طبقہ تعداد میں انتہائی قلیل ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر خود تونہیں کر پاتا مگر اس غلیظ کام میں سماج میں موجود پیٹی بورژوا طبقہ ،حکمران طبقے کا ساتھ دیتا ہے۔ اور اس غلامی میں وہ حکمران طبقے کے نظریات کو سماج کے محکوم طبقات پر شدومد سے مسلط کرتا ہے اور اس کے لیے تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتا ہے۔ یہ کام صدیوں سے ہوتا چلا آرہا ہے مگر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں خاص طور پر، حکمران طبقے کے دلالوں کی تخلیقی غلامی کی بدولت حقیقت اور بھی زیادہ پیچیدہ بن گئی ہے۔ اس تمام تر پیچیدگی کے باوجود حقیقت دراصل ہے بہت ہی سادہ اور واضح۔ مگر حقیقت کو سمجھنے کیلئے پہلے ہمیں حکمران طبقے کے فلسفے کو شعوری طور پر چھوڑنا ہوگا،جس نے حقیقت کو انتہائی پیچیدہ بنا رکھا ہے اور محنت کشوں کے فلسفے سے فطرت اور سماج کو دیکھنا ہوگا۔ ایسا کرنے سے حقیقت کی راہ میں موجود تمام تر پیچیدگیاں ختم ہوجائیں گی اور حقیقت جو انتہائی سادہ اور واضح ہے، ہمیں نظر آئے گی۔ اسی طرح عورت کی آزادی کے مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے بھی ہم اس مضمون میں محنت کشوں کے فلسفے یعنی مارکسزم کی مدد لیں گے اور اس مسئلے کے تاریخی ظہور، ارتقا، موجودہ شکل اور حل کو ڈھونڈیں گے۔
قدیم اشتراکی سماج میں عورت
ہر دور کا حکمران طبقہ رائج الوقت نظام اور اس کے اصول و ضابطے اور اخلاقیات کو ازلی اور ابدی بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ ایک عمومی سوچ پیدا کی جائے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہورہا اورنہ کبھی ہوگا۔ ایسا ہمیشہ سے تھا اور ایسا ہمیشہ ہی رہے گا۔ اس سوچ کے ساتھ حتمی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلتا رہنا چاہیے اور رائج الوقت نظام کے خلاف کسی بھی قسم کی کوئی بغاوت کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ ایک رجعتی فلسفے کا حتمی نتیجہ بھی رجعتیت سے بھرپور ہوتا ہے جو تبدیلی اور تضاد کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ بہر حال اگر تاریخ کو حکمران طبقے کی نظر کے بجائے محنت کشوں کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا ہے کہ تضاد اور تبدیلی ناصرف سماج میں موجود ہے بلکہ فطرت بھی تضاد کی بدولت ہی ارتقاء پذیر ہے۔ مثلاً جیسی دنیا آج ہماری آنکھوں کے سامنے موجود ہے جس میں بلند و بالا عمارتیں، ہوائی جہاز، ٹیلی کمیونیکیشن اور جدید علاج کی سہولیات سمیت بے شمار دیگر عجوبے موجود ہیں، جہاں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں، بینک ہیں، بڑی بڑی فیکٹریاں ہیں اور ان سب کو چلانے کیلئے ماہرین موجود ہیں وغیرہ وغیرہ، دنیا آج سے تین سو سال پہلے ایسی نہیں تھی۔ اسی طرح اگر تاریخ کو مادی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ سماج میں طبقات بھی ہمیشہ سے موجود نہیں تھے بلکہ سماجی ارتقاء کے ایک مخصوص مرحلے پر طبقات کا ظہور ہوا۔
لاکھوں سال انسان ایک ایسے سماج میں رہا ہے جس میں طبقاتی تقسیم وجود نہیں رکھتی تھی۔ ایک ایسا سماج جس میں ذاتی ملکیت کا کوئی تصور موجود نہیں تھا۔ ایسے سماج کی بے شمار شہادتیں اور زندہ مثالیں موجود ہیں۔ قدیم اشتراکی سماج میں گزر بسر کے ذرائع شکار اور پھل وغیرہ اکٹھا کرناتھے۔ مادی حالات اور انتہائی قدیم اور ابتدائی شکل میں پیداوار کے ان ذرائع کی وجہ سے زائد پیداوار ممکن نہیں تھی۔
روزکی بنیاد پر شکار کرنا اور خوراک اکٹھی کرنا مجبوری تھی۔ ایسی صورتحال میں ذاتی ملکیت کا تصورتک ناممکن تھا۔ شکار چونکہ ایک اجتماعی سرگرمی تھی (ایک بندے کیلئے اکیلے شکار کرنا ناممکن تھا اور سب کو مل کر ہی شکار کرنا پڑتا تھا) لہٰذاسماج ان مادی بنیادوں کی وجہ سے اشتراکیت پر مبنی تھا۔ اس سماج میں عورتوں اور مردوں میں محنت کی تقسیم موجود تھی جس میں مردوں کی ذمہ داری شکار کرنا جبکہ عورتوں کی ذمہ داری بچوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتا تھا۔ یہ تقسیم اس وجہ سے نہیں تھی کہ عورتیں کمزور ہیں اور شکار جیسے عمل میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں بلکہ اس کی وجہ محض حیاتیاتی فرق تھا جس میں عورت کا دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے ابتدائی عرصے میں اس طرح کی سرگرمی میں حصہ لینا ممکن نہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو شکار پر ساتھ لے جانا خطرناک تھا۔لہٰذا عورتوں کی ذمہ داری ان بچوں کی دیکھ بھال تھی اور خاص طور پر اس عہد میں یہ عورت کی بڑائی سمجھی جاتی تھی کہ نئی نسل کی رکھوالی اس کی ذمہ داری تھی۔ اس سماج میں عورت کی قدر مرد کی نسبت زیادہ تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نئی انسانی نسل کو آگے بڑھانے اور اس کی دیکھ بھال کرنے والی عورت ہی تھی۔ چھوٹے چھوٹے قبیلوں کے اندر رہنے اور خاندان کے ادارے کے نہ ہونے کی صورت میں نئی نسل ماں کی نسبت سے پہچانی جاتی تھی نہ کہ مرد کی نسبت سے (جیسا کہ موجودہ دور میں ہے)۔ لہٰذا انسانی نسل کو بڑھانے میں عورت کی کلیدی اہمیت کی بدولت عورت کو سماج میں بالاتر رتبہ حاصل تھا۔ مگر اس سماج میں عورت مردوں کیساتھ وہ رویہ بالکل نہیں برتتی تھی جیسا موجودہ دور میں ان کے ساتھ برتا جاتا ہے بلکہ باہم جڑت اور اشتراک کے تحت مرد و زن رہتے تھے۔ قدیم اشتراکی سماج میں والد اور خاندان جیسے الفاظ موجود نہیں تھے ، حتیٰ کہ لفظ ماں کو سماجی رتبہ حاصل تھا اور وہ موجودہ دور کی طرح محض گھر یا خاندان تک محدود نہیں تھا۔ ہر رشتے کو ماں کی نسبت سے سمجھا جاتا تھا، حتیٰ کہ ابتدائی خداؤں میں ہمیں دیویاں نظر آتی ہیں۔
عورت پر جبر کی ابتداء
تکنیک میں ترقی کے ساتھ زراعت کا آغاز ہوا اور قدیم اشتراکی سماج کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہوا۔ زرعی انقلاب کے نتیجے میں پیداوار میں بھی اضافہ ہوا اور بالآخر ایک لمبے عرصے کے بعد انسان نے فصلوں اور سبزیوں کی صورت میں اپنی روزمرہ کی ضرورت سے زیادہ خوراک پیدا کی۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلی بار گلہ بانی کا بھی آغاز ہوا۔ زراعت کے ساتھ ساتھ جانوروں سے دودھ ، سفری سہولت اور گوشت بھی باآسانی حاصل کیا جاتا تھا ۔ان وجوہات کی بنیاد پر انسان نے ایک ہی جگہ پر مستقل بسنا شروع کی( جو پہلے ممکن نہ تھا کیونکہ شکار اگر ایک جگہ ختم ہوجاتا تھا تو انسانوں کو شکار کی تلاش میں دوسری جگہ ڈھونڈنا پڑتی تھی)۔ پیداوار کے اضافے کے ساتھ پہلی مرتبہ اب انسانی ذہن میں یہ سوال بھی اٹھا کہ اس زائد پیداوار کی ملکیت کس کی ہوگی۔
اس زائد پیداوار پر قبضے کیلئے بالآخر لڑائیوں کا آغاز ہوا اور انسانی تاریخ میں پہلی بارتکنیک اور ذرائع پیداوار کی ترقی کے ساتھ ذاتی ملکیت کا تصور ابھرا۔ ذاتی ملکیت کے آغاز کیساتھ مرد کا رتبہ عورت کی نسبت بڑھنے لگا ۔ اب اس برتری کو باقاعدہ قانونی و اخلاقی شکل دینا تھی۔ ایک جگہ پر مستقل رہائش، ذاتی ملکیت کے تحفظ اوراس کی اگلی نسل تک منتقلی وہ وجوہات تھیں جن کی بنیاد پر خاندان کا ادارہ وجود میں آیا۔ مادر سری سماج کا خاتمہ ہوا اور پدر سری سماج کا آغاز ہوا ،جس میں عورت کو ایک وقت میں ایک ہی مرد کے ساتھ شادی کی اجازت تھی۔اس عمل سے نئی نسل اب مرد کی نسبت سے پہچانی جانے لگی۔ فریڈرک اینگلز کے الفاظ میں:
’’اس طرح ایک طرف دولت کے بڑھنے کے ساتھ خاندان میں عورت کی نسبت مرد کا مقام زیادہ بڑھ گیا جبکہ دوسری جانب اسی طاقتور مقام کی بدولت اپنی اولاد کیلئے پرانے وارثتی نظام کے خاتمے کی شدید ضرورت پیدا ہوئی۔ بہر حال یہ تب تک ناممکن تھا جب تک نئی نسل ماں کی نسبت سے پہچانی جاتی تھی۔ لہٰذا ماں کی نسبت کا خاتمہ بہت ضروری تھا اور بالآخر اس کا خاتمہ کیا گیا۔ یہ خاتمہ عورت کی تاریخی شکست تھی۔‘‘
زائد پیداوار، غلاموں (زائد پیداوار پر قبضے کیلئے ہونے والی جنگوں اور لڑائیوں میں پکڑے جانے والے قیدی)، ذاتی ملکیت اور خاندان کی بدولت غلام داری نظام کا آغاز ہوا اور سماج دو طبقات میں تقسیم ہوگیا۔ اس طبقاتی نظام نے سماج میں عورت کے مقام کو مرد کی نسبت باقاعدہ کم تر کر دیا جو اب تک چل رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام اور عورت
طبقاتی سماج کے آغاز سے لے کر موجودہ دور تک، ارتقائی عمل مسلسل جاری رہا ہے۔ اس ارتقاء میں انقلابات کا کلیدی کردار رہا ہے۔ طبقاتی سماج کی چند ہزار سالہ تاریخ بے شمار انقلابات سے بھری پڑی ہے اور ان انقلابات کی بدولت انسانی سماج غلام داری سے نکل کر سرمایہ داری(موجودہ نظام) تک پہنچا ہے۔ اس ترقی میں کروڑوں محنت کشوں کی قربانیاں شامل ہیں۔ انقلابات کے ذریعے پرانے نظاموں کا خاتمہ اور نئے (ترقی پسند) نظاموں کا جنم تو ہوا مگر اس تمام تر عرصے میں طبقاتی نظام قائم و دائم رہا۔
سرمایہ دارانہ نظام طبقاتی نظام کی جدید ترین شکل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں اشیاء منڈی کیلئے پیدا کی جاتی ہیں جبکہ اس سے پچھلے نظاموں (غلام داری اور جاگیرداری) میں پیداوار منڈی کے تابع نہیں تھی۔ اس پیداوار میں بہت بڑا حصہ گھریلو پیداوار کا بھی تھا جس میں دستکاری(جوتے بنانا، کپڑے بنانا وغیرہ)، برتن سازی وغیرہ شامل تھے۔اس گھریلو پیداوار میں عورت کا حصہ بھی شامل تھا۔
سرمایہ دارانہ نظام نے اشیاء کے تبادلے کو عمومی کردار دے دیا (اب پیداوار بنیادی طور پر تبادلے کیلئے ہونا شروع ہوئی) جسکی وجہ سے بڑی صنعت نے آہستہ آہستہ گھریلو صنعت کی جگہ لینا شروع کر دی اور بالآخر سرمایہ دارانہ منڈی میں سستی محنت کی ضرورت نے عورت کو گھر سے باہر نکال دیا۔ اب عورت بھی مرد کی طرح اپنی قوت محنت بیچنے کیلئے منڈی میں شامل ہوگئی۔ اس سارے عمل میں جہاں عورتیں بڑی تعداد میں گھر سے باہر نکلیں اور اس کے ساتھ ساتھ مسلسل جدوجہد سے کچھ جمہوری حقوق بھی حاصلی کیے تو وہیں وہ جنسی تفریق کی وجہ سے براہ راست اپنی قوت محنت مردوں سے بھی سستی قیمت پر منڈی میں بیچنے پر مجبور ہوئی۔ وہ پیداواری عمل میں تو براہ راست شامل ضرور ہوئی مگر اپنا کھویا ہوا مقام( جو طبقاتی سماج کے آغاز میں اس سے چھن گیا تھا )واپس لینے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ یہ نام نہاد آزادی ایک ایسے سماجی حالات میں ملی جن میں ثقافتی طور پر سماج میں مردانہ شاونزم حاوی تھا جس کی بنیادی وجہ ذاتی ملکیت اور اسکی وجہ سے پدر سری سماج کا برقرار ہونا تھا۔ نتیجتاً سر مایہ دارانہ نظام میں عورت ایک شے کی حیثیت اختیار کر گئی اور منڈی میں مختلف اشیاء کی تشہیر کیلئے ایک آلے کے طور پر استعمال ہونا شروع ہو گئی۔ اسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں مرد کی نسبت عورت کا استحصال دوہرا ہوتا ہے۔جہاں ایک طرف عورت منڈی میں اپنی قوت محنت بیچتی ہے وہیں اسے بچے بھی پالنا ہوتے ہیں اور گھریلو کام بھی سر انجام دینا ہوتے ہیں۔ اگر عورت شادی شدہ ہے اور نوکری بھی کر رہی ہے تو اسے نوکری کیساتھ ساتھ گھریلو کام بھی دیکھنے ہوتے ہیں۔ اس صورت میں میاں بیوی دونوں کی اکٹھی آمدن سے ہی گھر چلتا ہے مگر بنیادی طور پر مرد ہی کمائی کرنے والا ہوتا ہے اور اس وجہ سے گھریلو برتری بھی اسے حاصل ہوتی ہے(عمومی طور پر) اور اکیلی ہونے کی صورت میں تو اس پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پھر اسے اکیلے ہی گھر بھی چلانا ہوتا ہے ،بچوں کو بھی پالنا ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ کمانا بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر موجودہ عالمی معاشی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں واضح نظر آتا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور غربت اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آئے روز سرمایہ داری کا نامیاتی بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ایسی صورتحال میں عورت کیلئے ایک گھٹیا ثقافتی معاشرے میں، جو شدید معاشی بحران کی لپیٹ میں ہو ا،اکیلے گھر چلانا انتہائی مشکل کام ہے جہاں اسے نوکری کر نے والی جگہ سے لے کر سماج میں ہر جگہ پست ثقافت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام میں بھی عورت کو آزادی نہیں ملی بلکہ محض غلامی کی شکل ہی تبدیل ہوئی ہے۔
ظلم کی بنیاد طبقاتی نظام ہے!
سرمایہ دارانہ نظام میں ظلم اور جبر کی مختلف شکلوں کے خلاف کئی تحریکیں اٹھیں اورمختلف رجحانات کا جنم ہوا ۔ ان رجحانات (قومی حق خود ارادیت، نسل پرستی کی مخالفت اور نسو انیت پرستی وغیرہ )میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ انکا خیال پرست فلسفہ ہے۔ یہی فلسفہ ہے جو ان کو غلط نتائج تک پہنچاتا ہے ۔ اسی فلسفے کی بنیاد پر وہ ظلم اور جبر کو ہی بنیادی مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس کا ذمہ دار انسان (ان کے مطابق) کو قرار دیتے ہیں۔ یہ موضوعی تجزیہ حتمی طور پر طبقاتی تقسیم پر پردہ ڈال دیتا ہے جو ایک سنگین غلطی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ظلم اور جبر موجود نہیں۔ظلم اور جبر مختلف اشکال میں بالکل موجود ہے مگر اس کی بنیاد لالچی انسانی ذہن نہیں بلکہ طبقاتی نظام ہے۔ مارکس وادی ظلم کی ہر شکل کی مکمل مخالفت کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس ظلم کی بنیاد طبقاتی نظام ہے اور اس کا مکمل اور مستقل خاتمہ بھی طبقاتی نظام کے خاتمے کیساتھ ہی ممکن ہے جس کیلئے طبقاتی بنیادوں پر اکٹھا ہونا نہایت ضروری ہے۔
مارکس وادیوں کے نزدیک مسئلہ فرد واحد نہیں بلکہ سماجی و معاشی حالات ہیں۔ انسانی ذہن انہی سماجی حالات میں پروان چڑھتا ہے اور نشونما پاتا ہے۔ لہٰذا جب تک ان سماجی حالات کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تب تک ظلم کی مختلف اشکال کا خاتمہ بھی ناممکن ہے۔ اسی طرح نسوانیت پرستی کے علمبردار بھی عورتوں پر ہونے والے جبر کا سارے کا سارا ملبہ مردوں اور مرد ذہنیت پر ڈال دیتے ہیں اور پدر سری سماج کو اسکا قصور وار ٹھہراتے ہیں جبکہ پدر سری سماج کے جنم کو بالکل نہیں سمجھتے۔ سماج میں موجود طبقاتی تضاد سے ناواقفیت ہی وہ بنیادی غلطی ہے جو ہر نتیجے میں اپنا اظہار کرتی ہے۔
یہ کارل مارکس کا درست میتھڈ (جدلیاتی مادیت) ہی تھا جس کی بدولت وہ سماج میں موجود طبقاتی تضاد کو سمجھ گیا تھا۔ اور اسی میتھڈ کی بدولت ہی وہ سرمایہ دارانہ نظام میں موجود استحصال کو ڈھونڈنے میں بھی کامیاب ہوا تھا۔ یہ مارکس ہی تھا جس نے بتایا کہ ہر نظام میں محنت کشوں کی محنت سے ہی سماج چلتا اور ترقی کرتا رہا ہے اور ہر نظام میں محنت کشوں کا ہی استحصال ہوتا رہا ہے۔ غلام داری اور جاگیرداری میں یہ استحصال واضح ہوتا تھا۔ غلام داری نظام میں تو غلام کی اپنی کوئی ملکیت تک نہیں ہوتی تھی اور وہ صرف آقاؤں کیلئے کام کرتا تھا۔ جاگیرداری میں مزارع کو بہر حال تھوڑی بہت ملکیت میسر ضرور آئی مگر اسے ہفتے میں چار یا پانچ دن جاگیردار کی زمین پر کام کرنا پڑتا تھا اور اپنی محنت سے پیدا کی ہوئی ساری کی ساری پیداوار واپس جاگیردار کے ہاتھوں میں دینا پڑتی تھی(جاگیرداری کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات تبدیل ہوتے چلے گئے)۔ یہ استحصال بھی واضح تھا۔ مگر سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کا استحصال واضح نہیں بلکہ چھپا ہوا ہے۔ مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’داس کیپیٹل(سرمایہ)‘‘ میں اس استحصال کا پردہ فاش کیا اور بتایا کہ پیداواری عمل میں مزدور جتنی قدرپیدا کرتا ہے اسے اتنی اجرت واپس نہیں ملتی اور وہ اپنی اجرت کی نسبت زائد قدر پیدا کرتا ہے۔ یہ زائد قدر سرمایہ دار کے پاس جاتی ہے جوخام مال اور دیگر خرچوں کو نکالنے کے بعد بچتی ہے۔ یہی سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کا استحصال ہے۔اور یہی وہ تضاد ہے جس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام میں بحرانات جنم لیتے ہیں۔
محنت کشوں کا اتحاد ہی واحد حل ہے
عورت پر ہونے والے جبر کو ناصرف مارکس وادی مانتے ہیں بلکہ اس کے ظہور اور ارتقاء کو درست معنوں میں سمجھتے بھی ہیں اور اسی وجہ سے اس کا درست حل بھی پیش کرتے ہیں۔ چونکہ عورت پر جبر کا آغاز ذاتی ملکیت اور طبقاتی نظام کے ساتھ ہوا تھا لہٰذا اس کا خاتمہ بھی ذاتی ملکیت اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ خواتین کی اپنے حقوق کی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس طبقاتی سماج اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف لڑنا ہوگا۔ صرف یہی وہ درست اور کارآمد طریقہ کار ہے جس کے ذریعے فتح حاصل کی جاسکتی ہے۔
’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ہر دور کے حکمران طبقے کا اپنا راج قائم رکھنے کیلئے سب سے پسندیدہ اور کارآمد طریقہ کار رہا ہے۔کیونکہ محنت کش، حکمران طبقے کی نسبت تعداد میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں اور سماج کو بھی انہی کی محنت ہی چلا رہی ہوتی ہے، لہٰذا حکمران طبقے کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ محنت کش طبقے کو تقسیم کر کے رکھے تاکہ اس میں طبقاتی شعور نہ اجاگر ہو جائے ۔ حکمران طبقے کو اس بات کا مکمل ادراک ہوتا ہے کہ محنت کشوں کے استحصال کی بدولت ہی اسکی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ بات محنت کشوں کو بھی پتہ ہے لہٰذا اس کی کوشش ہوتی ہے کہ محنت کشوں کو مصنوعی لڑائیوں میں ہی الجھائے رکھے اور اصل لڑائی (طبقاتی لڑائی) سے دور رکھے۔ جیسا کہ مضمون کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے ، حکمران طبقے کے اس گھناؤنے عمل میں حکمران طبقے کے دلال اپنی مکمل قوت کے ساتھ محنت کشوں کو تقسیم کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں(ان دلالوں میں نام نہاد انقلابی بھی شامل ہیں جو اسی حکمران طبقے کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں)۔ مارکس وادی محنت کشوں کو تقسیم کرنے کی ہر سازش کی سخت مخالفت کرتے ہیں خواہ وہ قومی ، نسلی ، مذہب یا پھر جنسی بنیادوں پر ہو۔
انقلاب روس مشعل راہ ہے!
حکمران طبقے کے دلال (قنوطی دانشور) سوشلزم کو ایک خیالی سماج قرار دیتے ہیں اور اپنے غلیظ پراپیگنڈے کے ذریعے محنت کشوں اور نوجوانوں کو بے شمار خیالی اور گھٹیا قسم کی مثالوں اور دلیلوں سے باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا سماج تخلیق نہیں کیا جا سکتا اور سوشلزم میں کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا جیسا کہ روسی انقلاب کے بعد روس میں بھی کچھ نہیں ہو پایا وغیرہ۔ خیر یہ ایک الگ مدعا ہے جس پر یہاں بات نہیں کی جاسکتی ۔ اس مضمون میں ہم روس انقلاب کی حاصلات کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش کریں گے، یعنی انقلاب روس میں خواتین کے مسئلے پر کیا پیش رفت ہوئی۔
انقلاب سے پہلے اگر روسی سماج میں عورتوں کی حالت پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہ واضح نظر آتا ہے کہ روس جیسے پسماندہ ملک میں جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق زراعت سے تھا، عورتوں کو مردوں کی ملکیت سمجھا جاتا تھا۔ روسی سماج پسماندہ روایات اور خاص طور پر چرچ کے زیر تسلط تھا اور روسی خواتین اس کا براہ راست نشانہ تھیں۔ 1897ء کی ایک رپورٹ کے مطابق محض 13.1 فیصد خواتین پڑھی لکھی تھیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روسی خواتین کی کیا حالت تھی۔ روس میں سرمایہ داری کے ارتقا اور خاص طور پر پہلی عالمی جنگ کی بدولت بہت ساری خواتین روسی لیبر فورس میں شامل ہوئیں۔ جن کا پھر 1917ء کے روسی انقلاب میں کلیدی کردار تھا، حتیٰ کہ روسی انقلاب کا آغاز بھی عورتوں نے ہی کیا تھا۔ عورتوں کے عالمی دن 8 مارچ (پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق 23 فروری) کو پیٹروگراڈ کی سڑکوں پر تقریباً ایک لاکھ محنت کش نکل آئے جن کو سڑکوں پر نکالنے کی تمام تر کمپین خواتین نے (خاص طور پر ٹیکسٹائل کے شعبے سے تعلق رکھنے والی محنت کش خواتین)کی تھی اور احتجاج کی کال بھی خواتین نے ہی دی تھی۔ ان احتجاجوں کا حتمی انجام اکتوبر انقلاب کی صورت میں ہوا جس میں محنت کش خواتین کا کلیدی کرادر تھا۔ انقلاب کے فوراً بعد ان تمام قوانین اور رسم و رواج کا خاتمہ کیا گیا جو عورتوں کو مردوں کے ماتحت کرتے تھے یا کم تر رکھتے تھے۔ مثلاً عورتوں کو آزادانہ گھومنے کی مکمل آزادی دے دی گئی جو انقلاب سے پہلے میسر نہیں تھی اوراس کیلئے عورت کو اپنے شوہر کی اجازت کی ضرورت ہوتی تھی۔ عورتوں کے اسقاط حمل کے حق کو تسلیم کیا گیا۔ شادی کے معاملے میں چرچ کا عمل دخل ختم کر دیا گیا اور اب شادی باہمی رضامندی یا رجسٹریشن کے ایک سادہ سے عمل کے ساتھ ممکن تھی۔ طلاق کے عمل کو انتہائی آسان بنایا گیا تا کہ خواتین کو اس میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے،حتیٰ کہ اس کیلئے دونوں فریقین کی رضامندی کی ضرورت بھی نہ تھی اور ایک فریق کے کہنے پر ہی طلاق ممکن تھی۔ غیر قانونی یا ناجائز اولاد کی سوچ کا بھی خاتمہ کر دیا گیا اور تمام بچوں کو قانونی درجہ دیا گیا۔ حاملہ ہونے کے دورانیے میں چھٹی کے ساتھ ساتھ تنخواہ بھی متعارف کرائی گئی۔ اس کے ساتھ خصوصی زچگی وارڈز بھی بنائے گئے۔ اسی طرح دیگر کئی اقدامات کیے گئے جن کے نتیجے میں عورتوں کو مردوں کے برابر سماج میں رتبہ ملا۔ اس دور کے لحاظ سے روسی خواتین ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی خواتین سے بھی زیادہ حقوق رکھتی تھیں، جس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ 1924ء میں نینا بینگ (Nina Bang)وہ پہلی خاتون تھی جو کسی بھی سرمایہ دارانہ ملک میں وزارت کے عہدے پر فائز ہوئی تھی (وزیر تعلیم)جبکہ 1917ء میں(سات سال پہلے) الیگزینڈرا کولنتائی مزدور ریاست کی پہلی سماجی بہبود کی کمیسار منتخب ہوئی تھی۔ اسی ایک مثال سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہوگا کہ جدید سرمایہ دارانہ ممالک کی خواتین اور مزدور ریاست کی خواتین کو میسر حقوق اور ان کے سماجی کردار میں کتنا فرق تھا۔
انقلاب روس کے تنہا رہ جانے، خانہ جنگی اور سٹالنزم کے ابھار کی بدولت انقلاب کی ان تمام تر حاصلات کو بچایا نہیں جاسکا مگر اس کے باوجود انقلاب روس (جو مزدور ریاست کا پہلا بڑا اور کامیاب تجربہ تھا) نے ثابت کیا کہ صرف طبقاتی بنیادوں پر جڑت بناتے ہوئے طبقاتی نظام کے خاتمے کی بدولت ہی ظلم اور جبر کی ہر صورت کا خاتمہ ممکن ہے۔عورت کی آزادی کے ساتھ ساتھ دیگر تمام مظالم اور سوالات کا حل صرف اور صرف ایک ایسے سماج میں ہی ممکن ہے جہاں تمام انسان شعوری طور پر سماج کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کر یں اور ایسا سماج صرف اس وقت ہی قائم کیا جاسکتا ہے جب طبقاتی تفریق کا خاتمہ کیا جائے گا۔ انقلاب روس آج بھی پوری دنیا کے محکوموں اور مظلوموں کیلئے مشعل راہ ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!