|تحریر: ولید خان|
نومبر کے آغاز میں پاکستانی کمپنی ائیر لِفٹ کی 12 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کروانے کا بڑا چرچا رہا۔ کمپنی کے مالکان کے مطابق ان کا ہدف روایت سے ہٹ کر نجی کمرشل ٹرانسپورٹ کو موبائل ایپ کے ذریعے فروغ دینا ہے۔ یہ کمپنی اور اس کا ماڈل عالمی کمپنیوں Uber اور AirBnB کے ماڈل سے ماخوذ ہے جبکہ کمپنی CEO خود امریکہ میں کھانا ڈلیوری کی سب سے بڑی کمپنی DoorDash کا تجربہ یافتہ ہے۔ پاکستان میں بھی Food Panda کے نام سے ایک انٹرنیشنل کمپنی بطور ملک کی سب سے بڑی کھانا ڈلیوری کمپنی کام کر رہی ہے جس کے مزدور پچھلے مہینے اجرتوں میں کٹوتیوں کے خلاف کراچی میں احتجاج بھی کرتے رہے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں پوری دنیا اور پاکستان میں ایسی کمپنیوں اور سروسز میں بکثرت اضافہ ہوا ہے جن میں گھر کے کام کاج سے لے کر ڈلیوری سروسز، کار مکینک سے لے کر میڈیکل سروسز، کسی شہر میں نجی گھر میں کرایہ دے کر چھٹی گزارنے سے لے کر آن لائن ڈیجیٹل اور میڈیا سروسز تک، غرضیکہ بے شمار خدمات ایک بٹن دبانے پر مہیا کی جا رہی ہیں۔ ان سب میں جو بات مشترک ہے وہ یہ کہ ایک تو یہ سروسز آن لائن اور موبائل ایپس کے ذریعے دی جا رہی ہیں اور کوئی بھی شخص ان میں رجسٹر ہو کر یہ سروسز لینے اور دینے کا مجاز ہوسکتا ہے۔ سرمایہ دار اور ان کے کرائے کے دانشور اس طریقہ کار کو ”جدید سرمایہ داری“، ”کاروبار کرنے کا جدید طریقہ کار“، ”نئی معیشت“ اور نام نہاد ”دیہاڑی دار سرمایہ داری“ جیسے لطیف نام دے رہے ہیں۔ اب کسی کو مستقل روزگار کی ضرورت نہیں بلکہ ہر شخص اپنی مرضی کا روزگار اور کام کے اوقاتِ کار کا تعین کرنے میں آزاد ہے۔ وہ دن چلے گئے جب مالک اور مزدور کا براہِ راست تعلق ہوتا تھا، ان کے نزدیک اب یہ تعلق انٹرنیٹ کے ذریعے زیادہ جدید اور انسان دوست ہو چکا ہے اور ہر شخص ایک کاروباری بن چکا ہے۔ لیکن یہ سب دراصل ہے کیا اور اس کا معیشت، مزدور اور سماج سے کیا تعلق بنتا ہے؟ کیا واقعی سرمایہ دار اتنے اچھے ہو گئے ہیں کہ وہ صارف کو سستی اور مثالی سہولیات فراہم کرنا چاہتے ہیں اور ان کا مقصد منافع کمانے کے بجائے بیروزگاروں کی فوج کو روزگار فراہم کرنا بن چکا ہے؟ ان سوالوں کے جواب مزدور تحریک اور سرمایہ داری کی نئی غلاظت کو سمجھنے کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
”جدید سرمایہ داری“ اور پرانا استحصال
جب سے موبائل ایپس کے ذریعے سروسز دینے کا کام شروع ہوا ہے تب سے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ اگر اس انڈسٹری کا قریب سے معائنہ کیا جائے تو اس کے دو حصے دیکھنے کو ملتے ہیں یعنی ”Sharing“ (حصہ داری) اور ”On Demand“ (حسبِ مطالبہ)۔ اول الذکر میں سفری سہولیات، رہائش، اشیائے استعمال وغیرہ میں وقتی حصہ داری کی سہولت موجود ہے جبکہ بعد الذکر میں اشیائے خوردونوش کی ڈلیوری، گھر کے کام کاج کے لیے امداد، گھر پر ابتدائی طبی چیک اپ وغیرہ کی فراہمی موجود ہے۔ ان ایپس میں صارف اور سہولت کار (مزدور) رجسٹر ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ عام طور پر براہِ راست سروس اور اجرت کا تبادلہ کر سکتے ہیں جبکہ کمپنی کا کام ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا اور سروسز کی قیمتوں کا تعین کرنا ہے۔ عام طور پر دونوں اقسام کو اکٹھا گردانا جاتا ہے لیکن مندرجہ بالا مثالوں سے ثابت ہے کہ ان میں بنیادی فرق بھی موجود ہے۔ ایک کا تعلق ملکیت کی حصہ داری سے ہے اور دوسرے کا تعلق سروسز سے ہے۔ ظاہر ہے کہ اس ٹیکنالوجی اور اس کے منظم استعمال میں بے پناہ امکانات موجود ہیں جیسے خالی پڑے گھر یا ایسے گھر جن کا ایک مخصوص حصہ ہی تمام عمر زیرِ استعمال ہوتا ہے ان کا احسن استعمال یا بے پناہ سروسز کی باہم ڈلیوری۔ لیکن سرمایہ داری کے انحطاط اور تباہی کے دور میں یہ جدید ٹیکنالوجی مزدوروں کے خوفناک استحصال اور آنے والے وقت میں پوری محنت کی منڈی کو دیہاڑی داری میں تبدیل کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
کارل مارکس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ”سرمایہ“ میں سرمایہ داری کی تشریح یوں کی تھی کہ یہ اشیا کی پیداوار اور تبادلے کا عالمی نظام ہے۔ شے یا تو کوئی مال ہے یا کوئی سروس ہے جس کا مقصد تبادلہ ہے۔ اشیاء اور سروسز تو طبقاتی سماج میں ہمیشہ موجود رہی ہیں لیکن سرمایہ داری میں ان کی پیداوار اور تبادلہ آفاقی ہو چکا ہے۔ اسی سے نجی ملکیت جڑی ہوئی ہے کیونکہ اشیاء یا سروسز کا سب سے پہلے ایک مالک ہونا ضروری ہے جو دوسروں کے ساتھ ان کا تبادلہ کرے۔ پیسہ اور ادھار اس نظام کو احسن طریقے سے چلانے کے اوزار ہیں تاکہ تبادلہ کہیں مسئلے کا شکار نہ ہو۔ تیسری چیز مسابقت ہے جس میں ہر سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ محنت کش طبقے کا زیادہ سے زیادہ استحصال کر کے منافع خوری کی جا سکے۔یعنی سرمایہ داری کے بنیادی ستون اشیاء (یا سروسز)کی پیداوار اور تبادلہ، نجی ملکیت، منڈی، پیسہ اور قرض، منافع اور سرمائے اور اجرتی مزدوری کا باہمی تعلق ہے۔
اس حوالے سے تمام تر شور شرابے کے باوجود یہ واضح ہے کہ دیہاڑی داری کوئی نیا مظہر نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری میں منافع کمانے اورمزید استحصال کرنے کا ایک نیا طریقہ کار ہے۔ آپ کی کوئی ملکیت ہے تو آپ اس کو مخصوص وقت کے لئے کرائے پر دے دیں یا آپ کو کسی سروس کی ضرورت ہے تو پیسے کے بدلے اسے حاصل کر لیں۔ یعنی نئی بوتل میں وہی پرانی شراب بیچی جا رہی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہوشربا منافع کمانے والی کمپنیاں اپنے اوپر ایک نیا لیبل چسپاں کر کے آنے والے دور کی امین بننے میں لگی ہوئی ہیں جبکہ سرمایہ داری کو ازلی اور ابدی ثابت کرنے والے دانشور سرمایہ داری کی جدت اور ”انسان دوستی“ کے گن گا رہے ہیں۔ گو کہ ایک وقت میں جب یہ شعبہ اور ایپس شروع ہوئی تھیں تو ان کا زیادہ تر مقصد روایتی منڈی سے باہر کمیونٹی شیئرنگ کے ذریعے سہولیات مل بانٹنا تھا۔ لیکن حتمی طور پر کوئی بھی شے یا سروس سرمایہ داری سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی۔ اسے جلد یا بدیر منڈی میں آ کر منافع کے حصول کا ذریعہ بننا پڑے گا ورنہ وہ فنا ہو جائے گی۔
مارکس نے نشاندہی کی تھی کہ سرمایہ دار کا منافع قدرِ زائد یا کام کرنے والے مزدور کی غیر ادا شدہ اجرت سے حاصل ہوتا ہے جبکہ کسی بھی شے کی حقیقی قدر اس پر صَرف ہونے والی لازمی سماجی انسانی محنت سے طے ہوتی ہے۔ اس حوالے سے یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اپنے صحت مند دور میں سرمایہ دار فیکٹری میں کام کرنے والے کسی مزدور کی قوتِ محنت کو خرید کر اس کی غیر ادا شدہ اجرت (قدرِ زائد) کو ہڑپ کر کے اپنا منافع کماتا تھا۔ آج یہ نام نہاد جدت سے لبریز کمپنیاں محض کسی کرائے میں یا سروس کے لئے دیے جانے والے پیسے میں سے ایک مخصوص حصہ لے کر منافع بنا رہی ہیں۔ یعنی کوئی نئی قدر پیدا نہیں ہو رہی بلکہ صرف کرایہ وصولی ہو رہی ہے۔ لاکھوں افراد کی ذاتی استعمال کی ملکیت کو منڈی کے لیے نجی ملکیت میں تبدیل کر دیا گیا ہے تاکہ سرمایہ دار اس کی نئی شکل سے منافع حاصل کر سکیں۔ پھر ماضی کا سرمایہ دار منافع کے مخصوص حصے کو پیداواری قوت کو بڑھانے (یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری)اور نئی فیکٹریاں لگانے (جس سے نیا روزگار حاصل ہوتا ہے) میں استعمال کرتا تھا جبکہ یہ کمپنیاں منافع کا ایک مخصوص حصہ محض اشتہار بازی، اپنے نیٹ ورک اور منڈی میں حصہ داری کی ترویج اور اسٹاک مارکیٹ میں اپنے شیئرز کی قدر میں بڑھوتری کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ اس کا خوفناک اثر یہ پڑ رہا ہے کہ جہاں بیروزگار نوجوان کمپنیوں کی تعین کردہ کم سے کم اجرت پر کسی ایک کام کے لئے آپس میں مسابقت کی جنگ لڑ رہے ہیں تو وہیں پر ذاتی استعمال کی ملکیت رکھنے والے افراد کی ذہنیت کرایہ مالکان کی بنتی جا رہی ہے۔ اس کی مثال AirBnB اور Uber ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں اور رہائش کی کمی کے باعث اور طویل عرصہ ایک مخصوص کرایہ پر گھر دینے کے بجائے مالکان اب مختصر عرصے کے لئے گھر کا ایک حصہ کرائے پر دے کر مالکان مہنگے داموں کرایہ وصول کر رہے ہیں جبکہ پبلک ٹرانسپورٹ کی دگرگوں حالت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گاڑی مالکان دیہاڑی پر ذاتی گاڑی لگا کر کمائی کر رہے ہیں۔ لیکن اس کی بنیاد شدید معاشی ابتری، بیروزگاری اور کم اجرتی روزگار ہے جو ان مالکان کو اپنی ذاتی استعمال کی اشیاء کمرشلائیز کرنے پر مجبور کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف کمپنیاں ان مسائل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے تحاشا منافع کما رہی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ایسی کمپنیوں کا کرائے پر دی جانے والی ملکیت کی دیکھ بھال سے کوئی تعلق نہیں، یہ اخراجات پھر مالکان کے حصے میں ہی آتے ہیں جس سے طویل عرصے میں ان کو حاصل ہونے والا نیٹ کرایہ بہرحال قابلِ ذکر حد تک گھٹ جاتا ہے۔
اسی طرح اگر حسبِ مطالبہ کمپنیوں جیسے Food Panda, Cheetay, Bykea وغیرہ کو دیکھا جائے تو ان میں اپنی سواری کے ساتھ کام کرنے والے مجبور بیروزگار ”ملازم“ نہیں بلکہ ”خود کار ملازم“ ہیں یعنی ان کی ٹریننگ، پینشن، زیرِ استعمال سواری کی دیکھ بھال، صحت کی سہولیات، بروقت پروموشن وغیرہ غرضیکہ مستقل روزگار سے جڑے تمام لوازمات کی کمپنی پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ مزدور صرف کمپنی کی تعین کردہ اجرت پر کام کریں گے اور بس! اس اجرت کے تعین کرنے میں بھی ”خودکار ملازم“ کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
اس حوالے سے یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ نام نہاد ”سماجی ماڈل“ کے بجائے اس صنعت سے جڑی تمام کمپنیاں بغیر کسی ذمہ داری یا مثبت سماجی کردار کے صرف ہوشربا منافع بٹورنے میں مصروف ہیں اور یہیں جھوٹ کا پلندہ کھل جاتا ہے کہ یہ سرمایہ داری میں کوئی ”جدت“ ہے۔
لیکن یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟
مارکس وادیوں پر تواتر سے یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ہر سماجی مظہر کو فوراً سے معیشت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا بلکہ انہوں نے معیشت کی بنیادپر تعمیر ہونے والے سماجی رشتوں (خاندان وغیرہ) اور بالائی ڈھانچوں (ریاست، مذہب، افکار، فلسفہ) کو ہمیشہ ملحوظِ نظر رکھا اور ان کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا۔ لیکن حتمی تجزیے میں معیشت کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔ یہ کوئی حیران کن امر نہیں کہ یہ کمپنیاں اور سروسز 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد کھمبیوں کی طرح نمودار ہوئی ہیں۔ بحران کی بنیاد زائد پیداوار ہے جس کے مطابق منڈی میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ پیدا کردہ اشیا ہضم کر سکے۔ اس کی وجہ قرضوں کے دیو ہیکل غبارے کا پھٹنا، مزدوروں کی اجرتوں میں تاریخی کمی اور بیروزگاری ہیں۔ اس سب سے ایک طرف تو سرمایہ دار فیکٹریاں بند کرنے اور نئی صنعت کاری سے پرہیز کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بیروزگار ہونے والے افراد یا کم اجرتی مزدوروں کی کثرت کی وجہ سے منڈی کی قوت خرید مزید کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ ایک خوفناک گھن چکر بن چکا ہے جو سرمایہ داری کو نئی تباہیوں کی طرف گھسیٹے چلا جا رہا ہے۔ بڑھتی بیروزگاری اور کم اجرتی روزگار ایک مستقل لعنت بن چکے ہیں جن میں مزدوروں کی ایک فوج کم از کم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور ہے۔ حسبِ مطالبہ سروسز کی مانگ کا مطلب یہ نہیں کہ ساری عوام ہڈ حرام ہو چکی ہے بلکہ اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ ایک عام انسان دو وقت کی روٹی کے گھن چکر میں ایسا پھنس چکا ہے کہ اس کے پاس کسی چیز کے لئے وقت نہیں ہے۔
اگر ٹیکنالوجی اسے اپنے لئے چار بے فکری کے لمحات نکالنے کا موقع دے رہی ہے تو وہ فوراً اس پر جھپٹ پڑتا ہے۔ اگر رات 9 بجے آفس سے گھر پہنچتے تک کھانا ڈلیوری سروس کسی جگہ رک کر کھانا کھانے یا گھر جا کر شدید بھوک میں کھانا بنانے کا وقت بچا سکتی ہے تو اسے کیوں نہ استعمال کیا جائے؟ سرمایہ داری کا پرانا مقولہ ہے کہ وقت پیسہ ہے لیکن یہ سرمایہ دار کے لئے ہے۔ مزدور کے لئے وقت ایک آسائش بن چکا ہے۔ اور یہاں سرمایہ داری کا ایک انتہائی عجیب و غریب اور مکروہ تضاد واضح ہوتا ہے کہ ایک طرف تو بیروزگاروں کی فوج موجود ہے جو کام کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی روزگار حاصل نہیں کر پا رہی اور دوسری طرف روزگار پر لگے مزدور زیادہ سے زیادہ کام، کم سے کم اجرت پر کرنے پر مجبور ہیں۔
’ہر شخص کاروباری بن چکا ہے‘، یہ بھی انتہائی قابلِ نفرت جھوٹ ہے۔ ذاتی ملکیت کرائے پر وہی دے سکتا ہے جس کے پاس یہ ملکیت موجود ہو۔ اس ملکیت کے حامل لوگ پہلے معززین میں شمار کیے جاتے تھے اور اپنی ذاتی استعمال کی اشیا کو کاروبار کے لیے وقف کرنے پرہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے اور معاشرے میں اسے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن معاشی بحران نے ان نام نہاد سفید پوشوں کو بھی منڈی کی قوتوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے اور وہ بھی اپنی گاڑی اور گھر کرائے پر دے رہے ہیں۔ بلکہ ایسے افراد کی بہت بڑی تعداد خود بھی اس منڈی میں مزدور بن چکی ہے اور یہ لوگ ڈرائیور بن کر زائد آمدن حاصل کرنے کی کوشش میں دن رات مصروف نظر آتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، اس طریقہ کار سے درمیانہ طبقہ تیزی سے محنت کشوں کی صف میں شامل ہوتا جا رہا ہے اور شدید معاشی بحران کے باعث خود کو بد ترین استحصال کے لیے بڑے مگرمچھوں کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہے۔ یہ مگر مچھ صرف صارف اور مالک میں رابطہ استوار کروانے کی بھاری قیمت وصول کرتے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اوبر کمپنی چند سالوں میں ہی صفر سے شروع کرتے ہوئے اب تقریباً100 ارب ڈالر مالیت کی کمپنی بن چکی ہے اور دیگر کمپنیاں بھی اسی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنی اجارہ داری کو بھی تقویت دے رہی ہیں اور منڈی میں موجود چھوٹی مچھلیوں کو نگلتی جا رہی ہیں۔ جیسے اوبر نے حال ہی میں ”کریم“ کمپنی کوتین ارب ڈالر میں خرید لیا تھا۔ اس اجارہ داری کے باعث ان کے استحصال میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ محنت کشوں کی زیادہ محنت کے عوض انتہائی کم اجرتیں دینے لگتے ہیں۔
ان کمپنیوں پر یہاں کسی بھی قسم کے مزدور قوانین لاگو نہیں کیے جا رہے اور نہ ہی ان پر ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان اداروں کے تمام محنت کش منظم ہو کر اس بد ترین استحصال کیخلاف احتجاج کریں اور اس نا انصافی کیخلاف آواز بلند کریں۔ اس شعبے سے وابستہ مختلف کمپنیوں کے مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ایک مشترکہ لڑائی کو منظم کیا جا سکے۔ حال ہی میں فوڈ پانڈا کے محنت کشوں نے ایک بہت ہی اہم قدم اٹھایا ہے اور اس کمپنی کے بد ترین استحصال اور کام کے انتہائی غیر مناسب حالات کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ اس کو مزید منظم کرتے ہوئے دوسری کمپنیوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ان کمپنیوں سے مستقل نوکری کا مطالبہ کرنا ہوگا اور ساتھ ہی سوشل سکیورٹی، اولڈ ایج بینیفٹ اورصحت اور تعلیم سمیت دیگر تمام بنیادی ضروریات کی اپنے ملازمین کوفراہمی بھی ان کمپنیوں کی ذمہ داری ہے جس پر یہ پورا نہیں اتر رہیں۔ ان سرمایہ داروں کے منافعوں سے اپنے حقوق چھیننا آج کے محنت کشوں کا بنیادی فریضہ ہے جس میں دیگر اداروں کے مزدوروں کو بھی ان کمپنیوں کے محنت کشوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ان مسائل کا حتمی حل سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے ہی جڑا ہوا ہے جو اس تمام تر استحصال کی جڑ ہے۔
مستقبل کیا ہے؟
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، منافع ایک مزدور سے لوٹی گئی قدرِ زائد ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی نے سرمایہ داری کے تابوت میں ایک نیا کیل ٹھونک دیا ہے۔ جدید روبوٹِکس، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ایک ایسا سماج تعمیر کیا جا سکتا ہے جس میں انسان مکمل طور پر اعصاب شکن محنت سے آزاد ہو سکتا ہے اور آٹومیشن کی بڑھوتری سے اشیاء کی کثیر پیداوار کم ترین قوتِ محن صرف کر کے حاصل کی جا سکتی ہے یعنی قلت کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن مسئلہ نجی ملکیت، قومی ریاست اور پیداوار برائے منافع ہے۔ پچھلے دس سالوں میں سرمایہ داروں نے منافع کے حصول اور بحران کی قیمت محنت کش طبقے سے وصول کرنے کے لئے خوفناک حملے کئے ہیں جو اب مستقل جاری رہیں گے۔ ان میں لیبر قوانین کا بتدریج خاتمہ، مستقل روزگار کا خاتمہ، نجکاری، سماجی اخراجات میں کٹوتیاں اور ٹیکسوں کی بڑھتی بھرمار شامل ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے حاصل کردہ انٹرنیٹ اور موبائل ایپس کے ذریعے امکانات اور آٹومیشن کے ثمرات خود سرمایہ دار طبقہ روکے ہوئے ہے کیونکہ وہ اس ٹیکنالوجی کو صرف اپنی منافع خوری کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اور اس حوالے سے آنے والے وقت میں سرمایہ دار منافع کے حصول کے لئے کیا خوفناکیاں پھیلا سکتے ہیں اس کا تصور کرتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
دیہاڑی داری کو اگر نجکاری اور ٹیکنالوجی سے جوڑا جائے تو نتیجہ سوائے عوام کے معاشی اور سماجی قتلِ عام کے کچھ نہیں نکلتا۔ آج نیم بیروزگار اور کم ہنر یافتہ افراد کا خوفناک استحصال کیا جا رہا ہے۔ ذرا سوچئے! کل کو ہسپتال، سکول، ریلوے، ائر لائنز، ٹرانسپورٹ، بجلی گھر وغیرہ ہر چیز بیچ دی جاتی ہے، بیروزگاروں کی ایک نئی فوج منڈی میں پھینک دی جاتی ہے تو اس ٹیکنالوجی کو سرمایہ دار کیسے استعمال کرے گا؟ برطانیہ میں زیرو آور(صفر گھنٹے) کنٹریکٹ میں ہم نے اس کی جھلک دیکھی ہے۔ پھر کسی بھی مزدور کو کہا جائے گا کہ ہفتہ میں اتنے دن یا اتنے گھنٹوں کے لئے یہ کام ہے اور اس کی گھنٹہ وار اجرت یہ ہے۔ اب بولی لگاؤ کہ کون کام کرے گا؟ ایک ایپ میں ہزاروں لاکھوں مزدور بھوک سے بچنے کے لئے ایک دوسرے پر کام کے لئے مسابقت میں جہاں اجرتوں کو مسلسل گھٹاتے جائیں گے وہیں پر بغیر کسی ٹریننگ کے صارف کے لئے رحمت کے بجائے زحمت بن جائیں گے۔ ایک ہی مزدور کہیں کمپیوٹر پر کچھ گھنٹوں کے لیے ٹائپ کر رہا ہوگااور دوسرے دن چند گھنٹوں کے لیے کھانا ڈلیور کر رہا ہوگا۔ اسی طرح کہیں پر الیکٹریشن کا کام اور کہیں پر نرس کا کام کر رہا ہوگا۔ اس سب میں سرمایہ دار تو کہیں زیادہ منافع کمائے گا اور اس مزدور کی اجرت کا بڑا حصہ ہڑپ کر لے گا۔ لیکن مزدور کو نہ مستقل روزگار مل سکے گا اور نہ ہی کسی مخصوص کام کا تجربہ اور ہنر۔اس کے علاوہ وہ روزگار کے لیے ان ہی سرمایہ داروں کا مرہون منت رہے گا۔ منڈی میں جہاں اس کو روزگار کے حصول کے لیے پہلے سینکڑوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا اب ہزاروں اور لاکھوں سے کرنا پڑے گا اور اجرتوں کا رجحان بھی نیچے کی جانب رہے گا۔
پچھلے دس سالوں میں عالمی سرمایہ دار طبقے نے ثابت کیا ہے کہ وہ زائد پیداوار کی موجودگی میں حقیقی پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا بلکہ پہلے سے موجود مزدوروں کو بھی بیروزگار کر دیا جائے گا۔ پراپرٹی، کرنسی، اسٹاک مارکیٹ وغیرہ میں سٹہ بازی اور صبح پیسہ لگا کر شام تک منافع اکٹھا کرنا ہی اب سرمایہ دار طبقے کا کردار بن چکا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کھربوں ڈالر وں کے انبار پر بیٹھے ہیں لیکن اس پیسے کو استعمال نہیں کر رہے۔ اگر کر رہے ہیں تو غیر پیداواری شعبوں میں منافع کے حصول کے لئے کر رہے ہیں جیسے ہمیں اس دیہاڑی دار سرمایہ داری میں راتوں رات اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ 26 بڑے سرمایہ داروں کے پاس پوری دنیا کی نصف آبادی کے برابر دولت موجود ہے اور دوسری طرف دنیا کی اکثریت روزانہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہی ہے۔ نظام اپنی آخری حدود کو پہنچ کر صرف بھوک، ذلت، تباہی اور بربریت دینے کے ہی قابل رہ گیا ہے۔
سوشلسٹ انقلاب۔۔ عہد کی ضرورت
سرمایہ داری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں پیداوار سماجی ہے اور منافع نجی۔ پیداوار انسانی فلاح و بہبود کے بجائے منافع کے حصول کے لئے ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی اتنی ترقی کر چکی ہے کہ آٹومیشن پر مبنی محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں ایک منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہر قسم کی قلت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ذرائع پیداوار اور قدرتی وسائل کو اجتماعی طور پربروئے کار لاتے ہوئے تمام ضروریاتِ زندگی اور اشیائے صرف کی فراوانی پیدا کی جا سکتی ہے۔ بھوک، بیماری اور افلاس قصہ پارینہ بن جائے گا۔ انٹرنیٹ اور ہر شخص کی جیب میں موجود موبائل مستقبل کی نوید ہے کہ کیسے پیداوار پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول اس تمام کام کو منظم کر سکتا ہے۔ سرمایہ داروں کی تجوریاں کھول کر اور بینکاری کو قومیا کر نئے پیداواری شعبے کھولے جا سکتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ بحران اور اس میں ہونے والی آٹومیشن سے بیروزگار ہونے والے مزدوروں کو نئی صنعتوں، نئے شعبوں، نئے افکار کے لئے ٹریننگ دی جا سکتی ہے۔ فراغت کی آسائش کے ذریعے ہر شخص اپنی بھرپور ذہنی اور جسمانی نشونما کر سکے گا۔ سب سے بڑھ کر انسانی سماج سے محنت اور سرمائے کا تضاد ختم کر کے انسان بلند تر پیمانے پر اپنے حقیقی تضاد (فطرت) کو فتح کرنا ہی اپنا نصب العین بنائے گااورتسخیرِ کائنات کی نئی منزلوں کی جانب بڑھے گا۔