|تحریر: جو اٹارڈ، ترجمہ: یار یوسفزئی|
امریکہ کے مختلف صنعتی شعبہ جات اس مہینے ہڑتالی لہر (جس کا نام اکتوبر کی مناسبت سے ’سٹرائیک توبر‘ رکھا گیا ہے) کی ضد میں آ گئے ہیں، جن میں شعبہ صحت سے لے کر تعمیراتی شعبہ؛ کارپینٹری سے لے کر کوئلے کی کان کنی کا شعبہ؛ میڈیا سے لے کر مواصلات کا شعبہ؛ سنیک فوڈز سے لے کر اناج کے شعبے شامل ہیں۔ مجموعی طور پر، اس مہینے ہڑتال کرنے کے حق میں 1 لاکھ محنت کشوں نے ووٹ ڈالا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پرانی یونین افسر شاہی کی جانب سے کئی شعبوں میں محنت کشوں کی جدوجہد کو روکا گیا ہے، مگر اب وہ محنت کشوں کے ابھرتے ہوئے لڑاکا پن کے دباؤ میں آ رہے ہیں جو وباء کے معاشی بحران کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہیں جبکہ مالکان کے منافعے اوپر جا رہے ہیں۔
پچھلے 18 مہینوں سے جاری شدید اتھل پتھل نے پورے نظام پر لرزاں طاری کر دیا ہے، اور امریکی محنت کش طبقے کی جدوجہد کے اہم موڑ کے لیے راستہ ہموار کر رہا ہے۔
ابھرتی لہر
اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اور بہت بڑی قربانیاں دے کر، شعبہ صحت کے محنت کش اب اپنی اجرتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کیلیفورنیا میں ’کیسر پرمانینتے‘ کے 24 ہزار نرس اور دیگر ملازمین نے اس مہینے ہڑتال کرنے کی حمایت کی، جن کے ساتھ اوریگون میں کام کرنے والے ’کیسر‘ کے مزید 10 ہزار ملازمین بھی شامل ہیں۔
ہڑتال کا فیصلہ نئے کنٹریکٹ کے خلاف کیا گیا، جس کے مطابق موجودہ عملے کی اجرتوں میں 1 فیصد کا حقیر اضافہ کر کے نئے آنے والے ملازمین کی اجرتوں میں 26 سے لے کر 39 فیصد کٹوتی کی جائے گی۔
یہ نام نہاد دو درجوں کا سسٹم (جس کا رجحان امریکی منڈی میں بڑھ رہا ہے) محنت کشوں کو آپسی مقابلہ بازی میں لگا کر مالکان کی مدد کرتا ہے۔ اس دوران، ’کیسر‘ نے 2021ء کی دوسری سہ ماہی میں 3 ارب ڈالر کمائے ہیں۔
غیر کاروباری کمپنی ’کیتھولک ہیلتھ‘ کے 2 ہزار 500 نرس اور ملازمین نے بھی بفیلو، نیویارک میں عملے کی قلت، کم اجرتوں اور پنشن پر حملوں کے خلاف ہڑتال کی۔ یہ ہڑتال وورسسٹر، میساشوسٹس کے اندر سینٹ ونسینٹ ہسپتال میں جاری نرسز کی ہڑتالوں کے علاوہ تھیں۔
حکومتی نا اہلی اور غفلت کے باعث کرونا وباء نے امریکہ کو خصوصی طور پر متاثر کیا ہے۔
نتیجتاً، شعبہ صحت کے محنت کش بھرے ہوئے ہسپتالوں کے اندر شدید دباؤ میں آ گئے تھے۔ شعبہ صحت کے ایک سابقہ محنت کش نے گارڈین سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ”ہمیں اوور ٹائم اور ہنگامی کام کرنے کی کوئی اجرت نہیں دی گئی“، اس کا کہنا تھا کہ 2020ء کا سال 24 گھنٹوں کی شفٹوں میں پلک جھپکتے گزر گیا۔
ان نا قابلِ برداشت حالات، جس میں کرونا کے باعث شعبہ صحت کے 3 ہزار 600 محنت کشوں کی اموات بھی واقع ہوئیں، کا نتیجہ عملے کی قلت کی صورت نکلا ہے۔ چنانچہ باقی رہنے والوں کے اوپر دباؤ مزید بڑھ چکا ہے، خاص کر اس موسمِ گرما میں ’ڈیلٹا‘ قسم کی نئی لہر کے باعث۔
’یونائیٹڈ نرسز ایسوسی ایشن آف کیلیفورنیا‘/ ’یونین آف ہیلتھ کیئر پروفیشنلز‘ کی صدر ڈینیز ڈنکن کا کہنا تھا کہ ”ہمارے ساتھیوں کی قوتِ برداشت جواب دے چکی ہے، جو ذہنی بیماریوں اور صدموں کی شکایت کر رہے ہیں۔ ہم ایک یونین کی حیثیت سے نرسنگ کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔“
اس دوران، معیشت کے دوبارہ کھلنے سے بعض شعبوں کے اندر مانگ میں اضافہ آیا ہے؛ البتہ منافعے کمانے والے مالکان ہی ہیں، جبکہ محنت کش مزید غربت اور بے یقینی کی حالت میں دکھیلے جا رہے ہیں۔
مثال کے طور پر، کاشت کاری کا سامان تیار کرنے والی کمپنی ’جان ڈیرے‘ توقعات کے مطابق اس سال اپنی تاریخ کا سب سے بڑا منافع یعنی 6 ارب ڈالر کمائے گی۔ اس 61 فیصد اضافے کے باعث سی ای او جان سی مے نے اپنی سالانہ تنخواہ 1 کروڑ 50 لاکھ ڈالر مقرر کی ہے، جو ایک اوسط ملازم کی تنخواہ سے 220 گنا زیادہ ہے۔
محنت کشوں کے سامنے 12 ستمبر کو پیش کئے جانے والے کنٹریکٹ میں ایسی اجرتیں تجویز کی گئیں جو بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتیں؛ علاج معالجے کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، کرایوں کی ادائیگی کی مہلت کا خاتمہ، نئے ملازمین کی پنشن میں کمی اور اوور ٹائم کے مواقع کم کرنا اس کے علاوہ ہے۔
جان ڈیرے کے 19 سالہ ملازم کرس لارسن، جو یونائیٹڈ آٹو ورکرز کا کارکن ہے، نے بجا طور پر اس پیشکش کو ”منہ پر طمانچہ“ قرار دیا، جس کے جواب میں آئیووا، الینوس اور کنساس کے 10 ہزار مزدوروں میں سے 99 فیصد نے ہڑتال کے حق میں رائے دی اور نئے کنٹریکٹ کا مطالبہ کیا۔
کئی پیشکشوں کے مسترد ہونے کے بعد، اور یونین قیادت کی چال بازی کے باوجود، 14 اکتوبر کو سارے محنت کشوں نے واک آؤٹ کیا۔
اپریل کے مہینے سے، الاباما میں کوئلے کی کانوں کے 1 ہزار محنت کش وارئیر میٹ کے خلاف ہڑتال پر ہیں۔ اس کمپنی نے وباء کے دوران مانگ میں کمی کے باعث ہونے والے نقصان کا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالنے کی کوشش کی، جس نے کم تنخواہوں اور کام کے بد تر حالات پر مبنی نئے کنٹریکٹ پیش کیے۔
آج ساری دنیا میں بڑی صنعت کو چلانے کے لیے درکار کوئلے کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، مگر مالکان ان حالات میں بھی شدید استحصال سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔
ہڑتال توڑ غنڈوں نے یونائیٹڈ مائن ورکرز آف امریکہ (یو ایم ڈبلیو اے) کے کارکنان کو ڈرا دھمکا کر ان کے اوپر حملے کیے ہیں، اور مختلف مواقعوں پر ان کی احتجاجی صفوں کے اوپر گاڑیاں چڑھائی ہیں، جس کے نتیجے میں متعدد کارکنان زخمی ہوئے ہیں۔
بہرحال کان کنی کے محنت کش ثابت قدم ہیں۔ وارئیر میٹ کے دفاتر کے باہر احتجاج میں ’یو ایم ڈبلیو اے‘ کے ایک کارکن ڈیڈرک گارنر کا کہنا تھا:
”مجھے ان دھمکیوں کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔حال میں اٹھائے گئے اقدامات آپ کے مستقبل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ چناچہ اگر آپ ابھی کھڑے نہیں ہوں گے تو بعد میں گر جانا آپ کا مقدر ہوگا۔“
1,100 #WarriorMet mineworkers in Alabama have been on strike for the last 6 months. @MineWorkers
— Jorge Martin ☭ (@marxistJorge) October 14, 2021
member Dedrick Garner speaking on attacks on the picket lines in Brookwood which have put several strikers in the hospital. Video @palantemami https://t.co/8VU5bV38vQ
5 اکتوبر سے کیلوگ (فوڈ مینوفیکچرنگ کمپنی) کے چار مختلف کارخانوں کے باہر بھی 1 ہزار 400 محنت کش ہڑتال کر رہے ہیں۔ 2020ء میں لاک ڈاؤن کے دوران اناج کی خریداری میں 8 فیصد سے زائد کا خصوصی اضافہ ہوا، اُس سال کیلوگ کے سی ای او سٹیون کیہیلین کی سالانہ آمدنی تقریباً 1 کروڑ 16 لاکھ ڈالر رہی۔
اس کے باوجود کیلوگ نے بیٹل کریک، مشیگن میں واقع کارخانے سے ”کام کو زیادہ مؤثر بنانے“ کے بہانے 212 محنت کشوں کو بر طرف کر دیا، اور ’بی سی ٹی جی ایم انٹرنیشنل یونین‘ کو دھمکی دی کہ ہڑتال کرنے کی صورت وہ مزید برطرفیاں کر کے میکسیکو کے شہریوں کو نوکری پر رکھیں گے۔
مزید برآں، کیلوگ کے مالکان کم از کم اجرت کے قوانین کو توڑ کر چھٹیوں کے بونس پر حملے کر رہے ہیں، جبکہ پرانے اور نئے آنے والے ملازمین کی اجرتوں اور دیگر عطیات میں تفریق متعارف کروا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے حالات میں کیا جا رہا ہے جبکہ کمپنی محنت کشوں کو منافعے کے ایک ایک قطرے کے لیے نچوڑ رہی ہے۔
بی سی ٹی جی ایم کے مقامی صدر ٹریور بائیڈل مین، جو بیٹل کریک میں موجود کیلوگ کارخانے کا ملازم ہے، کا کہنا تھا کہ ”ایک سال قبل، جب ہم وباء کے دوران ہفتے کے سات دن اور دن کے 16 گھنٹے کام کر رہے تھے تو ہمیں ہیرو کہا گیا۔ ابھی لگ رہا ہے کہ ہم ہیرو نہیں رہے۔ آپ بہت جلد ہیرو سے زیرو بن سکتے ہو۔“
اس کا مزید کہنا تھا:
”ہمیں ہفتہ وار چھٹی نہیں میسر۔ ہم ہفتے کے سات دن بس کام کرتے رہتے ہیں، بعض اوقات 100 سے 130 دن تک لگاتار۔ مشینیں بھی 28 دنوں تک چلتی رہتی ہیں اور پھر تین دنوں کے لیے صفائی کی غرض سے انہیں روک دیا جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ مشینری سے بھی بد تر برتاؤ کیا جاتا ہے۔“
#Striketober Workers at Kellog's cereal maker went on strike on Oct 7 against a two-tiered benefit system. Hear about their conditions: pic.twitter.com/RPyN0TlRkX
— Jorge Martin ☭ (@marxistJorge) October 14, 2021
وباء کے دوران سرمایہ دار اشرافیہ کی جانب سے ’کلیدی محنت کشوں‘ کی منافقانہ پذیرائی کے بعد، یہ حالیہ حملے امریکی محنت کشوں کے شعور میں تبدیلی لانے کا باعث بن رہے ہیں؛ خصوصاً جبکہ معاشی ’بحالی‘ کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
اس کا نتیجہ مزاحمت کا رجحان بڑھنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔
اوپر دی گئی مثالوں میں، کیلیفورنیا میں مواصلات کے محنت کش؛ ٹیکساس میں ذرائع نقل و حمل کے محنت کش؛ مینیسوٹا کے سرکاری ملازمین؛ الینوس میں ریستورانوں کے محنت کش؛ کنیکٹیکٹ میں گروپ ہوم کے محنت کش؛ ہارورڈ اور کولمبیا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل محنت کش اور پورٹلینڈ میں بیکری کارخانے کے محنت کش شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں ان سب نے ہڑتال کیے ہیں۔ مزدوروں کا یہ تحرک سطح کے نیچے موجود محنت کش طبقے کے غم و غصّے کی جانب اشارہ ہے، جو دہائیوں سے جاری کٹوتیوں اور دھوکہ دہی کے باعث پنپ رہا ہے، اور بالآخر کرونا کے اثرات سے پڑنے والی دراڑوں میں سے باہر آ رہا ہے۔
ہڑتالوں کو روکنے کی کوششیں
یونین قیادتیں محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی طاقت کو اپنے قابو میں لانے کی کوشش کر رہی ہیں، جنہوں نے کئی بڑے معرکوں کو ضائع کیا ہے۔
وباء کے باعث نیٹ فلیکس، ہولو، ڈزنی اور ایمازون کے منافعوں میں کافی اضافہ ہوا تھا، کیونکہ وہ گھروں میں لاک ڈاؤن کے سبب پھنسے ہوئے ناظرین کو لا محدود انٹرٹینمنٹ فراہم کر رہے تھے۔
نام نہاد ’نئے میڈیا‘ کی پروڈکشنز نے بڑی بڑی فلموں کا ریکارڈ توڑ ڈالا، جیسا کہ ایمازون پرائم نے نئی ’لارڈ آف دی رنگز‘ سیریز ریلیز کرنے کے اعلان سے 46 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کمائے ہیں۔
مگر ایمازون جیسی کمپنیاں، فلم اور ٹی وی کے ’روایتی‘ عملے کے مقابلے میں، محنت کشوں کو سستے داموں اور کم تحفظات کے ساتھ ملازمت پر رکھنے کے حوالے سے امریکی حکومت کو قائل کرنے میں کامیاب رہیں۔
اس کے علاوہ، ہالی ووڈ کے محنت کشوں کے لیے بنائے گئے کھانے کے قانون کے مطابق (جس میں 80 کی دہائی سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی) ہر 6 گھنٹے بعد انہیں ایک گھنٹہ وقفہ دیا جاتا ہے، جبکہ بڑی کمپنیاں اس وقفے کو ہڑپ کر شوٹنگ جاری رکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔
پروڈکشن عملے کے ایک رکن نے محنت کشوں کی حمایت کرنے والے ایک گروپ ’مور پرفیکٹ یونین‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا:
”میں نے اس سال ایک ایسے شو میں کام کیا جس کی ایک قسط 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی تھی، جس کو پروڈیوس کرنے والی کمپنی (ایمازون) کا سی ای او ابھی ابھی خلاء سے ہو کر آیا ہے، اور ہم سے 6 مہینوں تک روانہ 16 گھنٹے کھانے کے وقفے کے بغیر کام کروایا گیا۔“
https://twitter.com/marxistJorge/status/1448679989726093317?ref_src=twsrc%5Etfw%7Ctwcamp%5Etweetembed%7Ctwterm%5E1448679989726093317%7Ctwgr%5E%7Ctwcon%5Es1_&ref_url=https%3A%2F%2Fwww.marxist.com%2Fstriketober-sleeping-giant-of-us-labour-movement-begins-to-stir.htm
محنت کش کام کی جگہ پر آنکھ لگنے اور بھوک سے بے ہوش ہونے کی شکایت کر رہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں ذہنی و جسمانی تھکاوٹ کے باعث ایک ہالی ووڈ محنت کش ٹریفک حادثے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا؛ جیف بیزوس کی جیبیں بھرنے کا مہلک نتیجہ۔
نچلی سطح کے کارکنان تقریباً متفقہ طور پر ہڑتال کے حق میں تھے، مگر اس کے باوجود 18 اکتوبر کو آخری لمحے میں ’ٹی ایس ای انٹرنیشنل الائنس‘ اور میڈیا مالکان کے بیچ مذاکرات کے بعد ہڑتال کو منسوخ کیا گیا۔
مذاکرات کے اندر اجرتوں میں 3 فیصد اضافہ طے پایا، اگرچہ جولائی 2021ء میں افراطِ زر میں سالانہ 5 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اوقاتِ کار 10 گھنٹے مقرر کیا گیا، اگرچہ دیگر شعبوں کے مقابلے میں یہ اب بھی کافی زیادہ ہے۔
کھانے کے مناسب وقفے نہ دینے پر کمپنیوں کے اوپر جرمانے عائد کیے گئے ہیں مگر ڈزنی اور ایمازون جیسی کمپنیوں کے مطابق لمبی شوٹنگ کے دوران اس قسم کے جرمانے معمولی بات ہے۔
ان مذاکرات میں فلم اور ٹی وی کے محض 40 ہزار محنت کش شامل ہیں، یعنی باقی ہزاروں محنت کشوں کی بات ہی نہیں کی گئی ہے۔
یہ ’رعایتیں‘ ان حاصلات کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں جو ’آئی اے ٹی ایس ای‘ کے اراکین کو منظم طریقے سے متحرک کرنے کی صورت حاصل کی جا سکتی تھیں، اور ہالی ووڈ کے موٹے خنزیر ان کو دیکھ کر یقیناً سکھ کا سانس لیں گے۔
اس دوران، نارتھ ویسٹ کارپینٹرز یونین کے 2 ہزار محنت کشوں نے ستمبر میں ہڑتال کا آغاز کیا۔
ان محنت کشوں کا کہنا ہے کہ ان کی اجرتوں میں ضرورت کے مطابق اضافہ نہیں کیا گیا، جبکہ ان کے پنشن فنڈ میں 20 کروڑ ڈالر کی کمی کی گئی ہے، ایک ایسے وقت میں جب 2020-21ء کے دوران سیئٹل اور مغربی واشنگٹن میں تعمیرات کے شعبے کے اندر تاریخ کی سب سے بڑی ترقی دیکھنے کو ملی۔
کئی موقعوں پر یونین افسر شاہی نے ہڑتال شروع ہونے سے پہلے ختم کرنے کی کوشش کی، جنہوں نے مالکان کے ساتھ حقیر معاہدوں پر اتفاق کر کے کھلے عام ہڑتالی تحرک روکنے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں عام محنت کشوں کے بیچ غم و غصّہ پھیل گیا۔
آرٹ فرانسسکو، جو عام محنت کشوں پر مشتمل لڑاکا ’پیٹر جے میکگوائر گروپ‘ کا چیئر ہے، نے کہا کہ یونین قائدین نے احتجاج کے لیے تعمیرات کے خالی مقامات چنے اور مائکروسافٹ ویسٹ سائیڈ ریڈمونڈ کیمپس میں احتجاج منعقد کرانے سے انکار کر دیا، جو مغربی ساحل پر تعمیرات کا سب سے بڑا مقام بن چکا ہے۔
اس کے نتیجے میں مائکروسافٹ پراجیکٹ پر کام کرنے والے محنت کشوں اور قائدین کے بیچ شدید بحث و تکرار ہونے لگی اور عنقریب تھا کہ ہاتھا پائی شروع ہو جاتی، جب بالآخر قیادت نے ریڈمونڈ پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
مگر نچلی سطح سے اس دباؤ کے باوجود، جب محنت کشوں نے پچھلے مذاکرات کی مخالفت کی تو تین ہفتوں پر محیط یہ ہڑتال اجرتوں میں 10.02 ڈالر فی گھنٹہ مقرر کر کے ختم کروائی گئی۔
اگرچہ یہ ایک بڑی رعایت تھی مگر یونین کے ہزاروں کارکنان کی توقعات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں تھا۔
جیسا کہ فرانسسکو نے ایک حالیہ انٹرویو میں بجا طور پر نشاندہی کی، امریکی یونین افسر شاہی بڑی بڑی تنظیموں کو یونین کے طور پر نہیں بلکہ مذاکرات کے مہرے کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔
قیادت اپنا کردار یہی سمجھتی ہے کہ بند کمروں میں مالکان کے ساتھ قابلِ احترام بحث مباحثے کر کے باہمی رضامندی سے رعایتیں حاصل کی جائیں۔ انہوں نے طبقاتی جدوجہد ترک کر کے ”مزدوروں اور انتظامیہ کی شراکت داری“ کا راستہ اپنایا ہے۔
1980ء کی دہائی میں جب ریگن حکومت نے ’پیٹکو‘ ائیر لائن کی ہڑتال کو تاریخی شکست دی تھی، جو نچلی سطح کی مزدور تحریک پر کاری ضرب تھی، اس کے بعد سے یونین قائدین منظم محنت کش طبقے کو قابو میں رکھنے کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو انہیں سرمایہ داری کی محفوظ حدود کے اندر برقرار رکھتے ہیں۔
اس عمل کے اندر 2008ء میں سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کے بعد شدت آئی ہے، جب مزدور قائدین نے محنت کش طبقے کو کٹوتیوں اور آسٹیریٹی کے خلاف مزاحمت کرنے سے روکے رکھا۔
حکمران طبقے کی خدمت کے صلے میں یونین افسر شاہی کو نوازا جاتا رہا ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں میں، ’یو اے ڈبلیو‘ قیادت کی ایک پرت کو خیانت کرنے اور صنعت کے بڑے مالکان میں سے ایک فیاٹ کرائسلر سے رشوت لینے میں ملوث پایا گیا ہے۔
البتہ 2018ء میں ویسٹ ورجینیا کے اندر عام اساتذہ نے ہزاروں کی تعداد میں ٹریڈ یونین افسر شاہی کو مسترد کرتے ہوئے طاقتور اور لڑاکا ہڑتال منظم کی۔
یہ ایک اہم موڑ تھا اور امریکہ بھر کے محنت کشوں کے لیے متاثر کن تحریک تھی۔ اس کے بعد صنعتی سرگرمی میں ہلچل مچ گئی، جس میں 2019ء کی جنرل موٹرز والی ہڑتال بھی شامل ہے۔
اس سلسلے میں وباء کے باعث خلل آیا، مگر اب امریکی مزدور تحریک اپنا تاریخی کردار ادا کرنے کے لیے دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
عام محنت کش بمقابلہ یونین افسر شاہی
وباء کے اثرات نے عام محنت کشوں کو نہ صرف مالکان، بلکہ طبقاتی مفاہمت کرنے والی قیادت کے بالمقابل کھڑا کر دیا ہے۔
یو اے ڈبلیو کے قائدین نے مالکان کے ساتھ حقیر معاہدے کر کے جان ڈیرے کی ہڑتال بار بار روکنے کی کوشش کی۔ اس کے خلاف ذیلی کارکنان نے شدید مزاحمت دکھائی۔
واٹرلو، آئیووا، یو اے ڈبلیو لوکل 838 کے اجلاس میں ممبران نے یونین کی جانب سے منظور کیے گئے معاہدے کا دو ٹوک جواب اپنی ٹی شرٹس پر ”ہر گز نہیں“ چھاپ کر دیا۔ ایک ممبر نے مبینہ طور پر مائیکروفون لے کر کہا کہ بھاڑ میں جائے یہ معاہدہ۔
بعد میں یونین قائدین نے آخری وقت میں فیس بک پوسٹ کے ذریعے ہڑتال منسوخ کرنے کی کوشش کی، جنہوں نے پرانے کنٹریکٹ کے ایکسپائری کی رات (یکم اکتوبر) کو مذاکرات جاری رکھنے کا اعلان کیا اور کہا کہ تمام ممبران ”کل کام کرنے تشریف لائیں“۔
یہ ہڑتال روکنے کی کھلے عام کوشش تھی جسے لازمی طور پر ذیلی دباؤ نے مسترد کرنا تھا۔
ایک ممبر نے پوسٹ پر کمنٹ کرتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار کیا کہ ”یہ بیانیہ کدھر گیا کہ ’اشتعال دلانے پر ہڑتال کی جائے گی‘؟ اشتعال انگیزی سے یونین کی کیا مراد ہے؟؟ کیا ہم اپنی شرٹس پر یہ چھاپ دیں کہ ’دھمکی ملنے پر پیچھے ہٹیں گے‘؟“
قیادت اور عام محنت کشوں کے بیچ اس تصادم کی وجہ یو اے ڈبلیو اور مالکان کے درمیان پچھلے سالوں کے دوران ہونے والے معاہدے ہیں، جس سے کام کے حالات اور اجرتیں بد سے بد تر ہوتی گئی ہیں، خصوصاً نئے ملازمین کے لیے۔
اپنی یونین کی قیادت کے رویے سے تنگ آ کر نچلی سطح کے ممبران اب یونائیٹ آل ورکرز فار ڈیموکریسی (یو اے ڈبلیو ڈی) کے تحت منظم ہو کر ایک ممبر، ایک ووٹ سسٹم کے ذریعے یونین کی نئی قیادت منتخب کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
بہرحال، اگر اس قسم کا سسٹم لاگو کر بھی دیا جاتا ہے تو قومی سطح کے یونین انتخابات کی کمپئین کے لیے پیسے درکار ہوں گے، جس کا فائدہ موجودہ قیادت ہی اٹھا پائے گی۔ یونین کے اختیارات سنبھالنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں موجود، اس کے لیے ممبرشپ کو ہر جگہ پر منظم ہونا پڑے گا۔
’دی ٹیمسٹرز‘ یونین، جس نے 1990ء کی دہائی میں ایک ممبر ایک ووٹ سسٹم اپنایا تھا، کے اندر بھی مزاحمت کرتی ہوئی نئی لہر اور پرانی افسر شاہی کے بیچ جدوجہد دیکھنے کو مل رہی ہے، جو یونین کے صدارتی انتخابات کے لیے بالترتیب ’ٹیمسٹر یونائیٹڈ‘ اور ’ٹیمسٹر پاور‘ کے تحت منظم ہیں۔
ٹیمسٹر یونائیٹڈ (جسے ’اوز‘ بھی کہا جاتا ہے) کے قائد شان او برائن کی جانب سے پیش کی جانے والی سلیٹ کو ابھی تک زیادہ حمایت ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
او برائن موجودہ صدر جیمز ہوفا کے خلاف موجود غصّے کی وجہ سے ابھر کر سامنے آیا ہے، جس نے یونائیٹڈ پارسل سروس کے ساتھ مذاکرات کر کے ڈلیوری ڈرائیوروں کو عارضی کنٹریکٹ پر رکھنے کا معاہدہ کیا۔
ہوفا نے ہمیشہ ٹیمسٹر کے محنت کشوں کی صنعتی جدوجہد میں قیادت کرنے سے بھی انکار کیا ہے، جو مالکان کے ساتھ بند کمروں میں معاہدے کرنے کا حامی ہے۔
جیسا کہ اوز کے ناظم کین پاف کا کہنا تھا: ”ہم ایسی یونین نہیں چاہتے ہیں جو ممبران کو یہ کہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہم ایسی یونین چاہتے ہیں جو کہے، ’جب ممبران لڑنا چاہیں گے، ہم ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں گے۔“‘
اوز کی فتح یقینی طور پر امریکی محنت کش طبقے کے لیے آگے کا قدم ہوگا۔ امریکی مزدور تحریک کی صفوں میں واضح طور پر لڑنے کی خواہش ابھرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے، اور پرانی افسر شاہی کے غلبے کو للکارنے کے لیے زیادہ لڑاکا پرتیں سامنے آ رہی ہیں۔
آنے والے عرصے میں ان نئے قائدین کا امتحان ہوگا۔ آخر میں، ان کی کامیابی کا انحصار اس پر ہوگا کہ انفرادی مالکان کے ساتھ ساتھ سارے سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
بدلتا شعور
وباء کے دوران کروڑوں محنت کشوں سے مشترکہ دشمن یعنی کرونا کے خلاف متحد ہو کر ”قومی مفاد کی خاطر“ قربانیاں دینے کی اپیل کی گئی۔ زیادہ تر کے پاس دو راستے تھے، اپنی صحت خطرے میں ڈال کر کام پر جائیں یا حکومتی امداد پر گزارہ کریں۔
انہیں شدید نقصانات اٹھانے پڑے، جیسا کہ ہسپانوی فلو کی نسبت کرونا سے زیادہ امریکی موت کا شکار ہوئے۔ بوسیدہ اور لالچی سرمایہ داروں اور ان کے سیاسی نمائندوں، جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس تباہی کو دیکھتے رہے، کے خلاف بڑی تعداد میں غصّہ پروان چڑھا ہے۔
آج، اگرچہ وباء کی شدت میں کمی نظر آ رہی ہے مگر منافعوں میں اضافہ ہو رہا ہے، اور اس کے باوجود ہر جگہ پر محنت کشوں کے کندھوں کے اوپر رکھے جانے والے بوجھ میں کمی نہیں آ رہی، جس کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ ایسا ہنگامی حالات کے پیشِ نظر کیا جا رہا ہے۔
مزید برآں، بڑھتے ہوئے افراطِ زر سے حالاتِ زندگی مسلسل زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔ در حقیقت وباء سے پہلے والے عرصے کے مقابلے میں اجرتیں (افراطِ زر کی مناسبت سے) کم سطح پر ہیں، جن میں پچھلے سال کے دوران تیز رفتار کمی دیکھنے کو ملی ہے۔
اس لیے اگرچہ اخبارات بحالی کی باتیں کر رہے ہیں لیکن محنت کش خاندانوں کو کوئی بہتری نظر نہیں آ رہی۔ سماج کے امیر ترین افراد کی دولت میں بے تحاشا اضافہ ہوتا دیکھ کر، جنہوں نے امریکہ میں وباء کے دوران اپنی دولت میں 1.8 کھرب ڈالر کا اضافہ کیا، امریکی عوام کی بڑھتی ہوئی تعداد نے فیصلہ کیا ہے کہ بہت ہو چکا۔
اس صورتحال سے محنت کش طبقے کی متعدد پرتیں جدوجہد کے میدان میں اتر رہی ہیں، تاکہ کام کے حالات کو بہتر بنانے کی لڑائی لڑیں اور اپنے حقوق کا مطالبہ کریں۔
ان کے لڑاکا پن میں یہ دیکھ کر مزید اضافہ ہوا ہے کہ معاشی بحالی کے نتیجے میں مصنوعی قلت سامنے آئی ہے، جس پر ہم نے ایک اور مضمون میں بات کی ہے۔ اس نسل کے محنت کشوں کو پہلی دفعہ احساس ہو رہا ہے کہ اس نظام کو چلانے والے وہ خود ہیں، نہ کہ مالکان۔
ہمیں ان حالیہ واقعات کی مبالغہ آرائی نہیں کرنی چاہئیے۔ امریکہ میں یونین کی ممبرشپ تاریخی کم ترین سطح پر ہے (2021ء میں اس کے اندر اضافہ ہوا مگر کم پیمانے پر)، اور یہ ہڑتالیں آنے والے کئی گنا بڑے واقعات کا محض پیش خیمہ ہیں۔
ڈیموکریٹس اس لڑاکا توانائی کو اپنے قابو میں کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تاریخ میں ہمیشہ یونین افسر شاہی کا ساتھ دے کر محنت کشوں کو جدوجہد کرنے سے روکا ہے۔
جو بائیڈن نے نوشتہ دیوار پڑھ کر منظم ہونے کے ایکٹ (پرو ایکٹ) کی تجویز دی ہے۔ اس کی مدد سے محنت کشوں کے منظم ہونے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا اور یونین کو قائم کرنے سے روکنے والے وہ قوانین کمزور ہوں گے جو 27 ریاستوں میں موجود ہیں۔ بائیڈن کو پتہ ہے کہ یہ تجویز سینیٹ میں منظور نہیں ہوگی۔
اگر یہ منظور ہو بھی جائے تو اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس سے ٹافٹ ہارلے جیسے یونین مخالف قوانین کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ در حقیقت، اس قانون کا اولین مقصد محنت کش طبقے کے بڑھتے ہوئے لڑاکا پن کو ماند کر کے انہیں موجودہ افسر شاہی، ڈیموکریٹس، نیشنل لیبر ریلیشنز بورڈ اور قانونی دائرہ کار کے قابو میں کرنا ہے۔
امریکی محنت کش طبقے کو سنجیدہ لڑاکا تنظیموں اور قائدین کی ضرورت ہے۔ اس سے محنت کش اپنا زور آزمانے اور مختلف جدوجہدوں کو یکجا کرنے کے اہل ہو جائیں گے، اور کم از کم 1 ہزار ڈالر ہفتہ وار اجرت (جس میں افراطِ زر کی مناسبت سے اضافہ ہو)، بلند معیار کے علاج معالجے کی سہولت اور سب سے بڑھ کر اپنی سیاسی پارٹی قائم کرنے جیسی بڑی فتوحات حاصل کر سکیں گے۔
اس حوالے سے عوامی تنظیموں اور پورے سماج میں شدید خواہش پائی جا رہی ہے۔ ستمبر 2020ء میں گیلپ کے سروے کے مطابق 65 فیصد افراد (34 سال سے کم 77 فیصد افراد) کا کہنا تھا کہ وہ یونین کے حق میں ہیں، جو پچھلے 53 سالوں میں یونین کی سب سے بڑی حمایت ہے۔
اس کے علاوہ محنت کشوں کی اکثریت 34 سال سے کم عمر کے ہیں، مگر ان میں سے زیادہ تر یونین میں شامل نہیں ہیں۔ جیسے جیسے حالاتِ زندگی مزید بد تر ہوتے جائیں گے، اس پرت کی زیادہ سے زیادہ تعداد جدوجہد کرنے پر مجبور ہوگی۔ ان لڑاکا محنت کشوں میں سے زیادہ تر عوامی تنظیموں کے ذریعے اپنے مفادات کی خاطر لڑنا بہتر سمجھیں گے۔
یونین میں شامل ہونے کے بعد وہ ان بزدل اور ہتھیار ڈالتے مزدور قائدین کے خلاف مزاحمت کا حصّہ بنیں گے، اور یونینز کو اوپر سے لے کر نیچے تک طبقاتی جدوجہد کے حقیقی آلے میں تبدیل کرنے کی لڑائی لڑیں گے۔
مجموعی طور پر ہم امریکی مزدور تحریک کی تاریخ میں نئے باب کا آغاز ہوتا دیکھ رہے ہیں۔