|تحریر: ایسیائس یاوری، ترجمہ: ولید خان|
20 جون 2021ء سے عسلویہ کے تیل اور گیس کے شعبے سے منسلک محنت کشوں نے ہڑتال شروع کی۔ اس کے بعد پورے ایران میں تیل اور گیس کے محنت کشوں نے اس ہڑتال میں شمولیت اختیار کرنا شروع کی۔ اس وقت سو سے زیادہ ہڑتالیں جاری ہیں اور ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ محنت کشوں کے مطالبات میں 20 دن کام کے بعد 10 دن آرام (10-20 سکیم)، پورے سیکٹر کے 1.2 کروڑتمن کی مساوی کم از کم اجرت اور ٹریڈ یونین حقوق شامل ہیں۔ ان مطالبات کو ہائیڈروکاربن سیکٹر اور پورے محنت کش طبقے میں بھرپور پذیرائی مل رہی ہے۔ تیل اور گیس کے محنت کشوں سے ولولہ حاصل کرتے ہوئے ریلوے کے تعمیراتی کام کرنے والے محنت کش، ٹرک ڈرائیور اور اسٹیل ورکرز ہڑتالیں کر رہے ہیں۔ اس دوران پنشن صارفین، اساتذہ، میڈیکل سٹاف اور کسانوں کی ہڑتالیں بھی جا ری ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہڑتال شروع کرنے کے بعد محنت کشوں کی ہڑتال آرگنائزنگ کونسل نے وضاحت کی کہ ”ہماری ہڑتال ایک تنبیہی ہڑتال ہے اور یہ ایک ہفتہ جاری رہے گی۔ 29 جون کو ہم اپنے سرکاری ساتھیوں (حکومتی سرپرستی میں ریاستی یونینز) کے ساتھ شامل ہوں گے۔ انہوں نے احتجاجوں کا اعلان کر رکھا ہے“۔ اس دن سے صوبہ خوزستان کی اکثریت ریفائینریز اور کئی آئل فیلڈز نے ہڑتال میں شمولیت اختیار کر رکھی ہے اور نتیجتاً ہڑتال دیہاڑی دار مزدوروں سے آگے پھیل چکی ہے۔ 25 جون تک ہڑتال 44 کام کی جگہوں تک پھیل چکی تھی اور 28 جون تک تہران، مرکزی، خوزستان، فارس، آزربائیجان، رضوی خراسان اور دیگر علاقوں میں 60 سے زیادہ کام کی جگہوں کے محنت کش شامل ہو چکے ہیں۔
ایلام پیٹرولیم پلانٹ کے ایک محنت کش نے بتایا کہ وہ ہڑتال میں کیوں شامل ہوا ہے۔ ”ہمارے حالات ناقابلِ برداشت ہیں۔ کب تک ہم تنخواہوں کے بغیر زندہ رہیں؟ وہ دیگر سرکاری محنت کشوں کی طرز پر ہمارے ساتھ کنٹریکٹ پر دستخط کیوں نہیں کرتے؟ ہم میں سے کچھ کا آٹھ سال سے زیادہ کام کا تجربہ ہے لیکن ہمیں ابھی بھی پارٹ ٹائم کنٹریکٹ پر رکھا جا رہا ہے“۔ ملکی سطح کی ہڑتال نے انتہائی جنگجو موڈ کو جنم دیا ہے۔ مثلاً ماھشھر میں ایک ہڑتالی محنت کش کا کہنا تھا کہ ”اس ہڑتال کو جاری رہنا چاہیئے اور اسے شاہ کے آخری دنوں میں جاری تحریک کی طرح آگے بڑھانا ہوگا“۔
اھواز کے سٹیل ورکروں نے ہڑتال کی حمایت میں اپنے اعلامیے میں ملک گیر سطح پر ایکشن کا مطالبہ کیا ہے: ”یہ جدوجہد محنت کشوں اور بے روزگاروں کے مستقبل کے لئے مشعلِ راہ ہے“ اور ”ہم اپنے کامریڈز (سٹیل ورکرز) سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایک متحد جدوجہد کے لئے کام کریں، ان ہڑتالوں میں حصہ لیں۔ ہمیں ثابت کرنا چاہیئے کہ ہمیں وعدے نہیں بلکہ آج کی تاریخ میں ایک اچھی زندگی چاہیئے۔ ایک غیر یقینی مستقبل سے ہمارا کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ آج ہماری جدوجہد کا ایک ہی ہدف ہے اور وہ ہے سماج اور اپنے حالاتِ زندگی میں تبدیلی“۔
سرکاری یونینز نے پارلیمنٹ پر دباؤ ڈال کر مذاکرات کروانے کے لئے احتجاجوں کا پلان بنایا ہوا تھا۔ اب ہڑتال کے دباؤ میں اپنے لائحہ عمل کو تیز کر تے ہوئے انہیں دھمکی دینی پڑی ہے کہ اگر 30 جون تک ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو وہ ملک گیر سطح کی ہڑتال میں شمولیت اختیار کر لیں گے۔ یہ ہڑتال اور اس کے مطالبات ایرانی محنت کش طبقے کو متحد کر رہے ہیں جس میں ہفت تاپے ٹریڈ یونین، اھواز سٹیل یونین، ما ریوان اورسروآباد کنسٹرکشن یونین، مختلف اساتذہ تنظیموں، پنشن صارفین تنظیموں اور دیگر کی جانب سے تیزی کے ساتھ یکجہتی پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔
ان میں سے کئی تنظیموں نے حال ہی میں ہڑتالیں اور احتجاج کئے ہیں۔ اساتذہ کے ایک گروہ نے اپنے یکجہتی اعلامیے میں وضاحت کی کہ محنت کش طبقے کے مشترکہ مفادات اس کے اتحاد کی بنیاد ہیں۔ ”آج محنت کشوں اور تمام محنت کرنے والوں کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ بڑھتا استحصال اور نجکاری کی پالیسیاں ہیں جن میں ٹھیکیدار سب سے زیادہ منافع کماتے ہیں جبکہ سماج کی اکثریت پر غربت اور لاچارگی مسلط کر دی جاتی ہے۔ یہ پالیسیاں فیکٹری مزدوروں سے آگے بڑھ کر تعلیمی، میڈیکل اور سروسز سیکٹر کے محنت کشوں پر استحصال اور جبر مسلط کر رہی ہیں“۔
ہڑتال کی جنگجو قیادت
ملا آمریت ایرانی عوام کی لاچارگی کو استعمال کرتے ہوئے محنت کشوں کی اکثریت کوعارضی کنٹریکٹ اپنانے پر مجبور کر رہی ہے جن میں سے کچھ کو دیہاڑی دار مزدور بنایا جا رہا ہے۔ اسے خاص طور پر ایرانی معیشت کے سب سے منافع بخش ہائیڈروکاربن سیکٹر میں مسلط کیا جا رہا ہے جسے کئی سال پہلے معاشی فری زونز میں ڈال دیا گیا تھا تاکہ سرمایہ دار تمام لیبر قوانین سے آزاد ہوں۔ ہائیڈرو کاربن محنت کش ان فری ٹریڈ زونز کو قانونی غلامی سمجھتے ہیں اور ان کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ملا آمریت ہمیشہ تیل اور گیس کے محنت کشوں سے خوفزدہ رہی ہے کیونکہ یہ محنت کش طبقے کے سب سے زیادہ جنگجو حصوں میں سے ایک ہیں اور اس لئے ان پر خوفناک جبری کنٹرول مسلط کئے گئے ہیں تاکہ ٹریڈ یونین سرگرمیوں کو دبایا جا سکے۔ اس کے باوجود پچھلے سال اگست میں تیل اور گیس کے محنت کشوں کی ایک ملکی سطح کی ہڑتال اضطراری طور پر پھٹ پڑی اور 300 سے زیادہ کام کی جگہوں پر ہزاروں محنت کشوں نے اس میں شرکت کی۔ بدقسمتی سے ہڑتال کو سرکاری یونین کی بیوروکریسی نے آمریت کے کھوکھلے وعدوں پر ختم کر دیا تھا۔
اس وقت سے سرکاری یونین میں ایک بڑھتی اقلیت یہ نتیجہ اخذ کر رہی ہے کہ ان کی قیادت کرپٹ ہے اور پچھلے سال دسمبر سے وہ تیل اور گیس کے شعبے میں ایک ملک گیر ہڑتال کی مہم چلا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت تحریک کی کوئی قومی قیادت موجود نہیں ہے اور زیادہ تر محنت کشوں نے اضطراری طور پر ہڑتال میں شمولیت اختیار کی ہے۔ کئی مواقعوں پر تحریک کے اضطراری کردار کا نتیجہ یہ رہا ہے کہ کچھ جگہوں پر ورکروں کی اقلیت ہڑتال پر جارؤتی ہے جس کا فائدہ پھر سرمایہ دار اٹھاتے ہیں اور محنت کشوں کے اتحاد کو کمزور کر کیے ان پر جبر میں اضافہ کر دیتے ہیں۔
سال 2020ء کے موسمِ خزاں کی ہڑتالوں کو ایک دفع پھر دہرانے کی بجائے۔۔سرکاری بیوروکریسی نے ہڑتال ہائی جیک کرکے ختم کر دی تھی۔۔ہڑتالی آرگنائزنگ کونسل نے واضح کیا ہے کہ ”آگے بڑھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ محنت کش اپنی کونسلوں (ہڑتالی کمیٹیوں) کے ذریعے اپنے فیصلے خود کریں“ اور ”ہمیں ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کسی قسم کی تقسیم اور سازش کا سدِ باب کرتے ہوئے ایک متحد جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے“۔
یہ درست ہے۔ آج ایرانی محنت کش طبقے کی بغاوت کئی راستوں سے آگے بڑھ رہی ہے۔ ملا آمریت اور اس کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دینے والی قوت بن کر ابھرنے کے لئے ان تمام راستوں کو متحد ہو کر ایک لشکرِ جرار بننا ہو گا۔ تیل اور گیس کے محنت کش وہ نکتہ اتحاد ثابت ہو سکتے ہیں جس کے گرد پورا محنت کش طبقہ متحد ہو جائے۔ لیکن یہ کام کرنے کے لئے لازم ہے کہ تیل اور گیس کے محنت کش پہلے اپنے پورے سیکٹر کو مطالبات کے ایک مشترکہ پروگرام پر متحد کرتے ہوئے اس ہڑتال کو ایک حقیقی ملک گیر سطح کی ہڑتال میں تبدیل کر دیں۔ سرکاری یونینز کے اندر اور باہر محنت کشوں کو ہڑتالی کمیٹیوں میں منظم کر تے ہوئے ان کو ملک گیر سطح پر جوڑ کر عام ممبران کی ایک طاقتور تنظیم تخلیق کی جا سکتی ہے جو بیوروکریسی کو پیروں تلے روندتے ہوئے ایک مشترکہ پروگرام اور ایکشن پلان پر متحرک ہو۔