|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
نام نہاد آزاد کشمیر کے محنت کش عوام نے نو ماہ پہلے مہنگی بجلی اور مہنگے آٹے کے خلاف عوامی تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک کے آغاز سے ہی محنت کش عوام نے مہنگی بجلی اور مہنگے آٹے کے حکومتی اقدامات کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے بجلی بلوں کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
نام نہاد آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژن میں بجلی بلوں کا بائیکاٹ اور عوامی دھرنے جاری ہیں۔ تحریک کی نمائندہ کمیٹی ”جوانٹ عوامی ایکشن کمیٹی“ کے پلیٹ فارم سے متعد بار بہت بڑے عوامی احتجاج، شٹر ڈاؤن و پہیہ جام ہڑتال کی گئی ہے۔ سماج کی ہرپرت سے بلا تخصیص لاکھوں لوگوں نے ان مظاہروں اور ہڑتالوں میں پوری قوت سے شرکت کر کے کاسہ لیس اپاہج حکومت کے خلاف جنگ کا طبل بجایا ہے۔
عوامی تحریک کے اس بڑھتے ہوئے تحرک کو دیکھ کر حکومت نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے تینوں ڈویژنوں پر مشتمل ذیلی کمیٹیوں کی مشاورت سے ”چارٹر آف ڈیمانڈ“ کو مرتب کر کے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے ذریعے حکومتی کمیٹی کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس چارٹر آف ڈیمانڈ کے بنیادی نقات میں مہنگے آٹے پر سبسڈی، پانی سے بننے والی بجلی کی پیداواری لاگت پر (2.59 روپے) پر فراہمی، اور مراعات یافتہ اشرافیہ کی مراعات کا خاتمہ شامل ہیں۔
اس چارٹر آف ڈیمانڈ پر حکومتی کمیٹی اور جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان متعد بار مذاکرات ہوئے۔ مذاکرات کے اس طویل عمل میں محنت کش عوام نے بجلی بلوں کا بائیکاٹ پوری شد و مد سے جاری رکھا۔ حکومت نے طویل مذاکرات کے ذریعے اس عوامی تحریک کو سبوتاژ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ البتہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی اس سارے مذاکراتی عمل کے دوران عوام کو مذاکراتی پیش رفت پر خاطر خواہ انداز میں اعتماد میں لینے سے قاصر رہی۔ سوائے اس کے، کہ حکومتی کمیٹی اور عوامی کمیٹی کے مابین چار ٹر آف ڈیمانڈ پر اظہار رضامندی کا ایک دستخطی ایگریمینٹ، جس میں ماسوائے بجلی کے مسئلہ کے، باقی چارٹر پر حکومتی کمیٹی نے اظہار رضامندی کیا۔ بجلی کی پیداواری لاگت پر فراہمی کے نقطے کو حکومت پاکستان سے اٹھانے پر مشروط قرار دیا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے اس رضامندی کو آفیشل نوٹیفیکیشن کی صورت میں کرنے کے لئے دباؤ بڑھتا رہا اور حکومتی کمیٹی اس پر وقت مانگتی رہی۔
اس تمام صورت حال کے دوران عوام بجلی بلوں کا بائیکاٹ کرتے ہوئے مرکزی ایکشن کمیٹی کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہونے کے ساتھ ساتھ اس طویل مذاکراتی عمل کی بے ثمری پر جوائنٹ عوامی کمیٹی کے تنقیدی پہلو کو بھی زیر بحث لا تی رہی۔ عوامی دباؤ کے پیش نظر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی نے حکومتی کمیٹی کو 5 فروری 2024ء کی ڈیڈ لائین دی کہ 5 فروری سے پہلے نوٹیفیکیشن کیا جائے بصورت دیگر 5 فروری کو مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی۔
نام نہاد آزاد کشمیر کی حکومت 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر مناتی ہے۔ اس تناظر میں کمیٹی کی طرف سے ہڑتال کی کال حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ایک موثر آلہ تھی۔ خاص طور پر جب یہ عوامی تحریک بلاتخصیص عوام کی مختلف پرتوں پر مشتمل ہے اور اس میں 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے والی پارٹیوں کے کارکنان بھی شامل ہیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے 5 فروری کے دن کو ہڑتال کے انتخاب پر حکومت نے اپنے کاسہ لیسوں کی ملی بھگت کے ساتھ تحریک کو تقسیم کرنے کے لیے کمیٹی پر شدید دباؤ ڈالا کے یوم یکجہتی کشمیر کو کسی بھی صورت عوامی حقوق کے دن میں نہ تبدیل کیا جائے اور ہڑتال کی کال واپس لی جائے۔
تاہم کمیٹی اپنی اس کال پر ڈٹی رہی مگر اسی تسلسل میں 5 فروری کی ہڑتال سے ایک دن پہلے حکومتی کمیٹی نے جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو مذاکرات میں مصروف کر دیا۔ جبکہ دوسری طرف محنت کش عوام حسب روایت تحریک کو منطقی انجام پر پہنچانے کے لیے پوری قوت کے ساتھ ہڑتال کی تیاری کر بیٹھی تھی۔
4 فروری کو جب تحریک ہڑتال کی تیاری میں جوبن پر تھی تو رات گئے ایک کمزور نوٹیفیکیشن منظر عام پر آیا جو عوامی امنگوں کے اور چارٹر آف ڈیمانڈ کے برخلاف تھا۔ اس میں آٹے پر سبسڈی کی بجائے ٹارگیٹیڈ سبسڈی کا ڈھونگ رچایا گیا اور بجلی کے مدعے کو پس پشت ڈال دیا گیا۔
اس نوٹیفیکیشن کے بدلے میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے پہیہ جام کال واپس لے لی گئی تاہم شٹر داؤن مظاہرے اور بجلی بلوں کا بائیکاٹ جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا۔ اس کمزور نوٹیفیکیشن کی منظوری پر عوام نے حکومت کے ساتھ ساتھ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
تاہم 5 فروری کی کال پر کشمیر کے تینوں ڈویژن، بالخصوص پونچھ ڈویژن سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مظاہروں میں شریک ہوئے۔ راولاکوٹ، پلندری، خیرپور، کوٹلی، ڈڈیال، باغ اور مظفرآباد میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔ مکمل شٹر ڈاؤن اور 95 فیصد پہیہ جام بھی ہوا۔ شدید سرد موسم کے باوجود لوگوں کا سمندر برف کا سینہ چیرتے ہوئے احتجاج کے لئے نکل پڑا۔ مظاہروں میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اس کمزور فیصلے کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور آٹے پر ٹارگیٹیڈ سبسڈی کو یکسر مسترد کر دیا گیا۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو ببانگ دہل متنبہ کیا گیا کہ کمیٹی کو یہ مینڈیٹ عوام نے دیا ہے اور اگر کمیٹی چارٹر آف ڈیمانڈ پر من و عن عمل درآمد نہیں کرواتی تو عوام یہ مینڈیٹ واپس لے لے گی۔
نام نہاد آزاد کشمیر کے محنت کش عوام کی نو ماہ سے جاری یہ تحریک شعوری طور پر اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ اگر کوئی کمیٹی رہنما بنیادی چارٹر آف ڈیمانڈ سے منحرف ہو کر محنت کش کے عوامی حقوق پر شب خون مارکر حکومتی کاسہ لیسی کرے گا تو عوام اسے نشان عبرت بنائیں گے۔
5فروری کو کشمیر بھر کے عوام نے حکومتی دھونس اور دھوکا دہی کے ساتھ ساتھ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کی غیر سنجیدگی اور کمزوریوں کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عوام اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پُر عزم ہے اور لڑائی کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پوری طرح تیار اور سنجیدہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قیادت جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ کمیٹیوں کو علاقائی سطح سے بالائی سطح تک از سرے نو منظم کرتے ہوئے فیصلہ کن لڑائی کی تیاری کرے۔
حکمرانوں کی دھوکہ دہی کو بے نقاب کرتے ہوئے عوام کی قوت پر یقین کرنا ہو گا۔ متعد بارکی ایک روزہ ہڑتال سے مسائل حل نہیں ہو ر،ہے تو ایک طویل مدتی غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرے گی۔ محنت کش عوام کی جدوجہد کے ذریعے سے جیتی گئی حاصلات خطے بھر کے عوام کے لیے جدو جہد کی نئی راہیں متعین کرنے کا باعث بنے گی۔
حکومتی دھوکہ دہی اور تاخیری ہتھکنڈے۔۔۔نامنظور!
ٹارگیٹیڈ سبسڈی کی جعلسازی۔۔۔نامنظور!
محنت کش عوام کی تاریخی جدوجہد۔۔۔زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہو جاؤ!