|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کشمیر|
5 اکتوبر کو جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کشمیر کی کال پر ایک روزہ کامیاب پہیہ جام وشٹر ڈاؤن ہڑتال نے حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزہ کر رکھ دیا ہے۔ یہ دن کشمیری محنت کش عوام کی بنیادی مسائل کے حل کی جدوجہد کے حوالے سے تاریخی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔
کشمیر میں جاری بجلی بلوں پر ناجائز ٹیکسوں کے خاتمے، آٹے کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے خلاف جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کشمیر کی تشکیل کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے پر پورے کشمیر کی عوام نے آج کشمیر کے تینوں ڈویژنوں کے دس اضلاع کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں میں مجموعی طور پر لاکھوں لوگوں نے خود رو انداز میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی۔ کشمیر کے محنت شک عوام نے آج ایک بار پھر اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ پورے نام نہادآزاد کشمیر میں عوام کمیٹیوں میں منظم ویکجان ہو کراپنے مسائل کے خاتمے کیلئے فیصلہ کن جدوجہد کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔
5 اکتوبر کی صبح کا آغاز سنسان شاہراہوں اور بازاروں سے ہوا۔ ایسے معلوم پڑ رہا تھا جیسے اس خطے سے لوگ ہجرت کر چکے ہیں اور اب یہاں سنسان شاہراہوں اور بازاروں کے علاوہ کوئی انسان موجود نہیں ہیں۔ اگرچہ کچھ مقامات پر رات بارہ بجے سے ہی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا تھا۔ لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے عوام کا سمندر چھوٹے بڑے شہروں میں اُمڈ آیا۔ دیہی علاقوں سے لوگ ریلیوں کی شکل میلوں پیدل چل کر شہری مراکز میں پہنچے اور تقریباً پورا دن سراپا احتجاج رہے۔
مظفرآباد سے اٹھ مقام، میر پور سے راولاکوٹ اور کوٹلی سے پلندری تک ”آوز دو، ہم ایک ہیں“، ”اسیران کو رہا کرو“، ”آٹا مہنگا ہائے ہائے“، ”بائیکاٹ بائیکاٹ، بجلی بلاوں کا بائیکاٹ“ اور دیگر نعروں سے آسمان گونجتا رہا۔
یہ بات بالکل واضح ہے اورشہر سے ملنے والی رپورٹس اور تصاویر میں بھی دیکھا جس سکتا ہے کہ ہر بار عوام کی شمولیت پہلے سے زیادہ ہوتی ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ عوام مزاحمتی واحتجاجی تحریک کے اندر تیزی سے منظم ہوتے جا رہے ہیں۔
شرکا احتجاج نے آج کے احتجاج میں 10 اکتوبر کے خواتین کے احتجاج، 17 اکتوبر کے طلبہ ریلیوں اور تحریک کے اگلے مرحلے میں طویل مدتی ہڑتالوں کی تیاریوں کو بھی زیربحث لایا۔
آج کے احتجاجوں میں مختلف شہروں میں خواتین اورسکول کے بچوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ تحریک میں خواتین کی منظم شمولیت کے حوالے سے آج کے دن میراگلہ بنجوسہ میں خواتین کی ایک بڑی میٹنگ کے بعد خواتین کی ایکشن کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو دیہی علاقوں کی خواتین کو منظم کرنے اور 10 اکتوبر کی کال کو کامیاب کرنے کیلئے پہلا قدم ثابت ہو گی۔
آٹے کی قیمتوں میں اضافے اوربجلی بلوں میں ٹیکسز کے خلاف شروع ہونے والی یہ تحریک آج گھر گھر میں پہنچ چکی ہے جس نے عوام کی وسیع تر پرتوں کو اپنی زد میں لے رکھا ہے۔
اس ملک کے سفاک حکمران ابھی بھی ہوش کے ناخن لینے کی بجائے ریاستی طاقت کے استعمال سے تحریک کو توڑنا چاہتے ہیں، لیکن وہ شاید ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معمول کے احتجاجوں سے بات اب بہت آگے نکل چکی ہے۔ اب کی بار تحریک جبر یا جھوٹے وعدوں سے نہیں ٹالی جا سکتی۔ عوام مطالبات کی منظوری تک نا قابل مصالحت جہدوجہد جاری رکھنے کیلئے پر عزم ہیں۔
بہر حال ہمیں مستقبل میں مزید ریاستی حملوں کیلئے بھی تیار رہنا ہوگا۔ اور ان سے لڑنے کیلئے جہاں عوامی اتحاد کو مزید پختہ کرنا ہوگا وہیں کشمیر کے نجی و سرکاری اداروں کے محنت کشوں کو بھی اس تحریک میں شامل کرنا ہوگا۔ اسی طرح اس احتجاجی تحریک باقی ملک میں پھیلانا ہوگا۔ کشمیر بھر میں آج کی ہڑتال بلاشبہ انتہائی طاقتور اور جاندار تھی مگر کامیابی حاصل کرنے اور حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمیں کشمیر بھر میں ایک ایسی ہڑتال کی جانب بڑھنا ہوگا جس میں نجی و سرکاری اداروں کے محنت کش بھی شامل ہوں اور وہ ایک روزہ کی بجائے غیر معینہ مدت کیلئے ہو؛ یعنی کہ ایک غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال۔
اس وقت پورے ملک میں شدید مہنگائی کے ساتھ ساتھ دیگر بے شمار مسائل میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ در حقیقت سرمایہ دارانہ نظام ہے اور کمیشن خور اور سامراج کی دلال پاکستانی ریاست کی محنت کش دشمن پالیسیاں ہیں۔ موجودہ معاشی بحران بھی سرمایہ دارانہ نظام کا ہی بحران ہے۔ اس سے مستقل بنیادوں پر نجات ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور منصوبہ بند معیشت کے قیام کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ لہٰذا کشمیر سمیت پورے ملک کے محنت کش عوام، طلبہ اور نوجوانوں کو سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کا حصہ بننا ہوگا۔
جینا ہے تو لڑنا ہوگا!