|مرکزی بیورو، پروگریسو یوتھ الائنس|
وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سےدو روز قبل ایک بار پھر سے پنجاب کے بڑے شہروں جن میں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد، ملتان، گوجرانوالہ شامل ہیں سمیت اسلام آباد میں تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ تعلیمی ادارے بند کرنے کی وجہ کورونا کا پھیلاؤ بتایا گیا ہے۔ یاد رہے، اس سے پہلے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ 15 مارچ سے تعلیمی ادارے مکمل طور پر کھول دیے جائیں گے۔
کیا واقعی کورونا وباء پھیل رہی ہے؟ بالکل اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں ہزاروں وباؤں سمیت کورونا وباء بھی انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اور ریاستی اعدادوشمار سے کہیں زیادہ تعداد میں اموات ہو چکی ہیں اور مستقبل میں مزید ہوں گی۔ تو کیا اس کی وجہ تعلیمی اداروں کا کھلا رہنا تھا؟ کیا بازاروں، سڑکوں، ہوٹلوں، شادی ہالوں، گولف کلبز، سیاسی جلسوں و دیگر اجتماعات اور سٹیڈیمز وغیرہ میں عوام کے حجوم میں کورونا نہیں پھیلتا؟ یقینا پاکستان میں کورونا وباء ریاست کی انتہائی جاہلانہ اور عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں ہی پھیلی ہے جس کی ایک واضح مثال سیکرٹری ہیلتھ عامر اشرف خواجہ کا حالیہ بیان ہے جس میں موصوف کا کہنا تھا کہ’ہمیں مزید ویکسینیں خریدنے کی ضرورت نہیں، ہمارے لیے COVAX پروگرام کے تحت ملنے والی ویکسینیں ہی کافی ہیں۔ ہرڈ امیونیٹی کے ذریعے ہی ہم پاکستان میں اس وباء کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔‘ عوام کے قتل عام کو یقینی بنانے کی ان ریاستی پالیسیوں کے نتیجے میں پوری ریاستی مشینری پر قتل عام کے مقدمات درج ہونے چاہئیں، بلکہ ان سب جرنیلوں، سیاست دانوں، ججوں اور بیوروکریٹوں وغیرہ کو بیچ چوراہے پھانسی پر لٹکانا چاہئیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست فوری طور پر تمام غیر ضروری اخراجات جیسے سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ پیکجز دینا اور دفاع پر اخراجات کو ایمرجنسی کی صورت میں روک کر تمام وسائل کو نئی ویکسینیں خریدنے پر خرچ کرے۔ فوری طور پر تمام طلبہ، اساتذہ اور شعبہ تعلیم کے دیگر عملے کی ویکسینیشن کروائی جائے تا کہ تعلیمی عمل بار بار رکاوٹ کا شکار نہ ہو اور تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔
تعلیمی اداروں کو کھولنے اور بند کرنے کا جو ڈرامہ پچھلے ایک سال سے جاری ہے اس کی بنیادی وجہ ریاست کے پاس کوئی مستقل پالیسی نہ ہونا بلکہ کوئی بھی پالیسی سرے سے ہی نہ ہونا ہے۔ بالخصوص سکولوں اور کالجوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو فی الوقت ریاست کے پاس پالیسی کا مکمل طور پر فقدان نظر آتا ہے۔ لاک ڈاؤن کے عرصے میں سکول کے بچوں کی تو آن لائن کلاسز تک نہیں لی جا سکیں اور سکولوں کے کھلنے کے بعد بچوں کو دوبارہ الف سے شروع کرنا پڑا۔ کم و بیش یہی حال کالجز کا بھی تھا۔ اسی طرح اگر یونیورسٹیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو کورونا وباء کے آغاز سے لے کر اب تک یونیورسٹیوں کو متعدد بار کھولا اور بند کیا جاتا رہا جبکہ طلبہ سے پوری فیسیں وصول کی گئیں۔ ایسے میں متعدد بار دور دراز علاقوں سے طلبہ کو دوسرے شہروں میں آنا پڑتا اور ہاسٹل بند ہونے کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھانی پڑتیں۔ اس کے علاوہ میس میسر نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو کھانے کا خرچہ علیحدہ سے برداشت کرنا پڑا۔ یہ سب ایسے ماحول میں ہوا جب لاک ڈاؤن اور شدید معاشی بحران کی وجہ سے ان کے والدین کی آمدنی بہت کم ہو چکی تھی۔ اسی طرح طلبہ کے ساتھ اس عرصے میں بغیر سہولیات فراہم کیے آن لائن کلاسز کا ڈرامہ رچایا گیا اور ان سے بے تحاشہ فیسیں بٹوری گئیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب محکمہ تعلیم کے وزیر اور مشیروں کے پاس نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی تعلیم کیلئے پیسے تو پھر ان وزیروں اور مشیروں کے رہنے کا کیا جواز بچتا ہے؟ درحقیقت یہاں کے حکمرانوں کے اپنے بچے بیرون ممالک میں مکین ہیں اور وہیں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسی وجہ سے انہیں اس ملک کے شعبہ تعلیم کی ٹکے کی پرواہ نہیں۔ لہٰذا دیگر سرکاری اداروں سمیت تعلیم کے شعبے کو بھی اب مکمل طور پر سرمایہ داروں کو بیچا جا رہا ہے۔
ایسے میں جب ریاست کی جانب سے کھلے عام یہاں کے محنت کشوں پر وار کیے جا رہے ہیں اور تعلیم سمیت صحت اور دیگر تمام عوامی اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے اور انہیں تباہ و برباد کیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب یہاں مٹھی بھر حکمرانوں کی دولت اور عیاشیاں تیزی سے بڑھتی جا رہی ہیں، پورے ملک کے طلبہ کو منظم ہونا ہوگا اور ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا ہوگا۔ پچھلے ایک سال میں ہمیں ان تمام تر پالیسیوں کے خلاف طلبہ کے کئی احتجاج دیکھنے کو بھی ملے جن پر شدید ریاستی جبر بھی کیا گیا۔ مگر ان احتجاجوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہے۔ ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کرنے کیلئے ضروری ہے کہ ہر شہر میں موجود تعلیمی اداروں کے طلبہ کا آپس میں تعلق قائم ہو اور پھر ملک گیر سطح پر اس تنظیمی ڈھانچے کو بڑھایا جائے۔ ایک بار ملک گیر سطح پر طلبہ منظم ہوگئے پھر یہ ایک ایسی قوت بن جائیں گے اور ان حکمرانوں کی جیبوں سے نا صرف شعبہ تعلیم کیلئے پیسے نکلوانے میں کامیاب ہو ں گے بلکہ کیمپس کے اندر انتظامیہ کی غنڈہ گردی، ہراسمنٹ، بے روزگاری سمیت درپیش دیگر مسائل کا تدارک کرنے میں بھی کامیاب ہوسکیں گے۔ نا صرف یہ بلکہ یہاں کے ظالم حکمرانوں اور ان کے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہدکو آگے بڑھائیں گے۔