تحریر: |پارس جان|
5 جولائی 1977 ء کو پاکستان کی تاریخ میں یومِ سیاہ کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ ویسے تو پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے ہر روز ایک یومِ سیاہ کی حیثیت ہی رکھتا ہے۔ نصف کے لگ بھگ آبادی جو دن میں ایک بار کھانا کھاتی ہے، ان کے لئے سارے دن ایک ہی جیسے ہیں۔ کروڑوں بیروزگاروں کے لئے ہر طلوع ہونے والا سورج بھڑکتا ہوا دوزخ ہی ہوتا ہے جس میں ان کے خواب جل بُھن کر خا کستر ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی قوتِ محنت اور خون پسینہ بیچنے کے بعد بھی تنخواہوں سے محروم رہنے والے محنت کشوں کے لئے ہر شام، شامِ غریباں نہیں تو اور کیا ہے۔ دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ، پانی کی قلت اور قابلِ علاج بیماریوں کے ہاتھوں گُھٹ گُھٹ کر مرنے والے خواتین و حضرات کے شب و روز کب بدلتے ہیں۔ لاکھوں گھروں میں تو آئے روز صفِ ماتم بچھی ہی رہتی ہے۔ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی معصومانہ خواہشات پوری نہ کر سکنے والے غریب اور متوسط طبقے کے لئے تو عید اور شب برات جیسے نام نہاد خوشی کے عوامی تہوار بھی کسی یومِِ سیاہ سے کم نہیں۔ ان تلخ روزمرہ معمولات کے باوجود کچھ دن واقعی ایسے بھی ہوتے ہیں جو نسلِ انسانی کو غیر معمولی اور نا قابلِ تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ واقعات جو بظاہر حادثات کی شکل میں اپنا اظہار کرتے ہیں برسوں سے سماج کی کوکھ میں پل رہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے بعد آئندہ نسلوں کی زندگیوں پر اَنمٹ نقوش ثبت کر جاتے ہیں اور ان کی درست تفہیم اور ادراک سے انتہائی اہم اور موثر اسباق سیکھے جا سکتے ہیں۔ 1977 ء کا 5 جولائی بھی ایک ایسا ہی غیر معمولی دن تھا جس کا زخم 39 سال بعد بھی ناسور بن کر رِ س رہا ہے ۔
اس روز 1968-69 ء کے انقلاب کی یادگار بن جانے والی ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کی حکومت کا تختہ الٹ کر ضیا ء الحق مسندِ اقتدار پر براجمان ہو گیا تھا۔ یہ اس انقلاب کی طاقت اور دباؤ ہی تھا جس نے ذوالفقار علی بھٹو کو اس ملک کی تاریخ کی واحد معاشی و سیاسی اصلاحات کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ان تمام تر اصلاحات کے باوجود اقتدار پر اقلیتی طفیلیے طبقے کی اجارہ داری ہی برقرار رہی اور ریاست کا کردار سرمایہ دارانہ ہی رہا۔ مزدور طبقے کی بغاوت سے گھائل یہ بورژوا ریاست ایک زخمی درندے کی طرح اور بھی زیادہ وحشت ناک ہو گئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نظریاتی ابہام کے باعث اپنا مخصوص طبقاتی کردار ہی ادا کیا اور جب جب اور جہاں جہاں انقلاب کی باقیات نے اصلاحات کی حدود سے تجاوز کر کے ریاست کے طبقاتی کردار کو چیلنج کرنے کی کوشش کی تو ذوالفقار علی بھٹو نے بورژوا ریاست کے دفاع میں مزدوروں اور قوم پرست انقلابی تحریکوں کو بھی خون میں نہلانے میں رتی بھر توقف تک نہیں کیا۔ وہ ایک بورژوابونا پارٹسٹ کی طرح سماج میں طبقاتی توازن کو اس نہج اور سطح پر رکھنا چاہ رہا تھا جہاں دونوں متحارب طبقات کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار کو طوالت بخشی جا سکے۔ اپنے ان اہداف کے حصول کے لئے اسے نا گزیر طور پر 71 ء کی جنگ کی شکست خوردہ اور اخلاقی طور پر بوسیدہ ریاست کو دوبارہ اس قابل کرنا پڑا کہ اسے اقتدار کی ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔ وہ خوش فہمی کا شکار تھا کہ وہ ریاست کو بڑ ی چالاکی سے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہا ہے لیکن ریاست دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے بڑی مہارت سے اسے استعمال کر رہی تھی۔ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کی بد مستی میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسی شاخ کو کاٹ دیا جس پر وہ بیٹھا ہوا تھا۔ مزدور تحریک جوں جوں پسپا ہوتی گئی ریاست کو ذوالفقار علی بھٹو کی ضرورت کم پڑتی گئی اورریاست کے سامراجی آقا بھی انقلاب کی اس علامت کو عبرت بنانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ جونہی طبقاتی توازن فیصلہ کن انداز میں بورژوازی کے حق میں ہوا تو ان کی نمائندہ ریاست نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت پر کاری ضرب لگا دی اور 5 جولائی 1977ء کو ملک میں تیسرا مارشل لا نافذ کر دیا۔
یہ مارشل لاء نہ صرف پاکستان پیپلز پارٹی بلکہ خود ریاست اور پاک فوج کے ارتقا اور زندگی کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا۔ پاک فوج نے عدلیہ کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو اس کے منطقی انجام تک پہنچا دیا۔ تب سے اب تک سیاست میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کا کردار مسلسل بڑھتا چلا گیا۔ فوج نے اپنے اس غیر آئینی اور متجاوز کردار کو جِلا بخشنے کے لئے عدلیہ، بیورو کریسی اور دیگر اداروں کو وقتاً فوقتاً ربڑ سٹیمپ کی طرح استعمال کیا۔ بد عنوان سیاستدانوں، قبائلی سرداروں، نو دولتیوں، بکاؤ دانشوروں، ضمیر فروش ادیبوں، وحشی ملاؤں، خصی سرمایہ داروں اور مکروہ جاگیرداروں سمیت سب نے اپنی خدمات تھوک اور پرچون میں سامراجی دلالوں اور ریاستی بھیڑیوں کو حسبِ منشا فروخت کیں۔ لیکن سیاست میں فوج کا یہ بے پناہ اثرو رسوخ بذاتِ خود کچھ بھی نہیں تھا بلکہ معیشت میں فوج کی سرپرستی میں کالے دھن کی لا محدود سرائیت کا بالواسطہ اظہار تھا جس نے ایک کلاسیکل سیکولر قومی ریاست کی تعمیر کے خواب کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی تھی۔ فوج کا معیشت اور سیاست دونوں میں کلیدی کردار دونوں میں سے مقصد کونسا تھا اور کونسا ذریعہ تھا(یا دونوں بیک وقت مقصد بھی تھے اور ذریعہ بھی ) یہ کہنا تو بہت مشکل ہے لیکن بہرحال دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے۔ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور ہی محال تھا۔ پاکستانی سماج نے اس ریاستی مہم جوئی کی قیمت منشیات، کلاشنکوف، جہاد، فرقہ واریت،طالبان، لسانیت، دہشت گردی اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی صورت میں چکائی۔ وقفے وقفے سے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اسے چاہ کر بھی سرمایہ دارانہ بنیادوں پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ حال ہی میں امجد صابری کے قتل نے ’دہشت گردی کے خاتمے‘ کی تمام تر خوش فہمیوں کا ایک دفعہ پھر قلع قمع کر دیا ہے۔ ’ضربِ عضب‘ کا ڈھول اتنا پیٹا گیا ہے کہ وہ دونوں طرف سے پھٹ گیا ہے ۔ کالے دھن کے دیمک نے ریاست کو اندر سے اتنا کھوکھلا کر دیا ہے کہ سماج پر ریاست کی رِٹ ہوا میں معلق ہو کر رہ گئی ہے۔ ریاست کی اپنی رِٹ بحال کرنے کی ہر کوشش سے ریاست کا دیوالیہ پن پہلے سے زیادہ عیاں ہو جاتا ہے۔ افغان مہاجرین پر گزشتہ چار عشروں کے جرائم کا ملبہ ڈال کر حقائق کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ 5 جولائی کو بوئی گئی فصل کاٹنے کا وقت قریب آ گیا ہے۔
گزشتہ تین سالوں سے راحیل شریف کو ایسا مسیحا قرار دیا جا رہا تھا جو فوج کے مورال کو بلند کرتے ہوئے ’پاک فوج کو سلام‘ کی فضا کومعجزاتی طور پر سازگار بنانے میں سنجیدہ بھی ہے اور ماہر بھی۔ اس کی دیانتداری، احتساب پسندی اور غیر جانبداری کو سب سے زیادہ بکنے والی جنس بنا دیا گیاتھا۔ سڑکوں اور شاہراہوں پر کوکا کولا اور موبی لنک وغیرہ سے زیادہ ’جنرل راحیل شریف‘ کے پوسٹرز اور سائن بورڈز آویزاں کر دیئے گئے تھے۔ ہر نیوز چینل پرآج بھی کم و بیش ہر وقت روبوٹ نما شکلوں کے منہ سے اس کے قصیدوں کے فوارے پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اور تو اور ISPR گانوں، ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی ایک پروڈکشن فرم میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ان ڈراموں اور فلموں کا ہیرو ظاہر ہے کہ راحیل شریف ہی کو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر راحیل شریف کے دیومالائی کردار اور کرشماتی شخصیت کے بارے میں کئے گئے پروپیگنڈے کے ایک ایک لفظ کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تب بھی دہشت گردی کے خاتمے، ضربِ عضب کی کامیابی، ریاست کی رِٹ کی بحالی اور بد عنوانی کے خاتمے جیسے خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتے۔ در اصل اس تمام تر پروپیگنڈے کے پسِ پردہ مفروضہ اپنی بنیاد میں ہی غلط ہے۔ کسی بھی سماجی مظہر کو کسی ایک فرد یا ادارے کے تابع نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی مظہر کی حرکت اور ارتقا کے اپنے ہی قوانین ہوتے ہیں۔ ان قوانین کو سائنسی بنیادوں پر سمجھ لینے والے افرادہی اس کی تبدیلی کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ پاک فوج کی رگ وپے میں کالا دھن اس حد تک سرائیت کر چکا ہے کہ اب کوئی بھی ’شریف النفس‘ کسی بھی طرح کی ’تطہیر‘ کے ذریعے پاک فوج کے کردار، ’نصب العین‘ اور منطقی انجام کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
ریاست کے اس بحران میں صرف فوج ہی نہیں بلکہ تمام ادارے عملاً بوسیدہ ہو چکے ہیں۔ عدلیہ کو ہی لے لیجئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد سے عدلیہ نے ہمیشہ فوج کی بی ٹیم کا کردار ہی ادا کیا ہے۔ لیکن جوں جوں بحران شدت اختیار کرتا گیا تو عدلیہ اور فوج کے تعلقات میں بھی اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آئے۔ پرویز مشرف اور افتخار چوہدری کے مابین اختلافات کوئی ذاتی یا اصولی لڑائی کے عکاس نہیں تھے بلکہ دو اداروں کے باہمی تعلقات کے ہچکولے لیتے ہوئے توازن کی غمازی کر رہے تھے۔ غیر سرکاری معیشت کا حد سے بڑھا ہوا حجم ایک دوسرے پر انحصار کے باوجود کسی حد تک آزادانہ گروہی اور ادارہ جاتی مفادات کی تشکیل کرتا ہے جس کی وجہ سے دوستی اور دشمنی کے معیارات اور پیمانے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ریاست کی رِٹ کی بحالی کے سنجیدہ اور ’مخلص‘ دعویدار کبھی کبھی عدلیہ کے ذریعے فوج کی گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے ’نسخہ کیمیا‘ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں عدلیہ کی طرف سے رینجرز کی پیٹرول پمپس وغیرہ کے کاروبار میں شراکت داری پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ اس کے بعد سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے بیٹے کے اغوا نے بھی صورتحال کو مزید گھمبیر کر دیا ہے۔ اس سے ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے جیسے یہ کوئی اچنبھے کی بات تھی اور ابھی حال ہی میں موصوف جج کو اس کی اطلاع ملی تھی۔ حالانکہ رینجرز اور خود فوج کی کاروباری سرگرمیاں اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ عدلیہ کے کاروباری مقاصد اور عزائم بھی شہ سرخیوں کا حصہ رہ چکے ہیں۔ افتخار چوہدری کے بیٹے ارسلان افتخار کے ملک ریاض کے ساتھ تجارتی معاشقے اور پھر بریک اپ کا معاملہ بھی زیادہ پرانا نہیں ہوا ہے۔ در حقیقت یہ تمام لڑائیاں ISI اور MI کے آپسی اور دیگر اداروں کے ساتھ مالی تنازعات کا عملی اظہار ہی ہوتی ہیں۔ آخری تجزیے میں یہ معیشت ہی ہوتی ہے جو ریاستی امور کا تعین کرتی ہے اور پاکستان جیسے ممالک کے معاملے میں یہ کالی معیشت ہی ہے جو افراد اور اداروں کے کردار کا تعین کرتی ہے۔
میڈیا جو گزشتہ دو دہائیوں میں ریاست کے ایک اہم ستون کے طور پر سامنے آیا ہے، کے بھی پاک فوج کے ساتھ انتہائی گہرے اور دیرینہ تعلقات ہیں۔ وقتی طور پر ان میں جتنا بھی تعطل آ جائے لیکن آخری تجزیے میں نام نہاد آزاد میڈیا خاکی وردی کے چپڑاسی سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ماضی میں جیو نیوز پر لگنے والی پابندیاں در اصل خفیہ اداروں کے باہمی یا دیگر علاقائی یا بین الاقوامی ایجنسیوں کے ساتھ مسلسل دست و گریبان ہونے کی وجہ سے بے قابو ہوتی ہوئی صورتحال کی پیداوار تھیں۔ ابھی حال ہی میں بول چینل اور EXACTکا سکینڈل بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے جو مالی مفادات کے ٹکراؤ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اسی طرح بیورو کریسی نیچے سے لے کر اوپر تک گل سڑ چکی ہے۔ انکم ٹیکس، ایکسائز، کسٹم، ریونیو، ہائی ویز، شہری انتظامیہ، پولیس اور دیگر تمام اداروں کی حالت بھی نا قابلِ اصلاح حد تک دگر گوں ہے۔ اس ریاست میں کسی بھی قسم کی ’پیوند کاری‘ کے ذریعے معمولی سے معمولی اصلاحات کی گنجائش بھی ناپید ہو چکی ہے۔
5 جولائی کے شب خون کا دوسرا اہم متاثر فریق پاکستان پیپلز پارٹی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے چند سال بعد تک نصرت بھٹو کی قیادت میں بھر پور مزاحمت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں ریاست اور سامراج کے ساتھ عملی سمجھوتوں کا ایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع کر دیا تھا۔ نظریات کو ہمیشہ کے لئے خدا حافظ کہہ دینے کے بعد اقتدار کے لئے بار بار فوجی اشرافیہ کی خوشنودی کے حصول کو ہی سیاست کا واحد مقصد قرار دے دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے قاتلوں کو تمغہ جمہوریت سے نوازا گیا۔ طالبان کی بنیاد بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ان کی مکمل آشیرباداور صلاح سے رکھی گئی۔ لیکن ان سب سمجھوتوں کے باوجود بھی ریاست نے ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں میں ٹشو پیپر کے طور پر استعمال کر کے باہرپھینک دیا۔ ’مفاہمت‘ کی اسی یکطرفہ اور رجعتی پالیسی نے بالآخر بے نظیر بھٹو کی بھی جان لے لی۔ آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کو عملاً ریاست کی ’بغیر وردی‘ بی ٹیم میں تبدیل کر دیا۔ جس کے بدلے میں پہلا ’پنج سالہ‘ جمہوری جشن خیرات کے طور پر ملا۔ لیکن اس جمہوریت کے گل پوش لبادے کی آڑ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری کی قیادت میں کرپشن اور لوٹ مار کی انتہا کر دی۔ نوکریوں کی خریدو فروخت، بھتہ خوری، چور بازاری اور لینڈ مافیا کی غنڈہ گردی اپنی انتہاؤں کو پہنچ گئی تھی۔ آصف علی زرداری نے کرپشن کو ایک آرٹ کا درجہ دے دیا ۔ سیاست میں باقاعدہ طور پر کارپوریٹ برانڈ کو متعارف کروایا اور پارٹی کو جاگیرداروں، نو دولتیے سرمایہ داروں اور جرائم پیشہ افراد کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ بے نظیر بھٹو کی ’مفاہمت‘ کی پالیسی کو نئے معنی دیئے گئے جو شاید اس پالیسی کا منطقی نتیجہ ہی تھے کہ ’ آؤ، سرمایہ کاری کرو، کماؤ، حصہ دو اور نکل جاؤ‘۔ اس روش نے پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک عوامی روایت کے طور پر گلہ گھونٹ کر اسے بسترِ مرگ پر پہنچا دیا۔
جیسے راحیل شریف کی مصنوعی مقبولیت کا واویلا کر کے ریاست اپنے موضوعی بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے، ایسے ہی بلاول زرداری کو بھٹو بنا کر اور اس سے انقلابی اداکاری کروا کے پیپلز پارٹی کے قائدین، مشیران اور ان کے سامراجی و ریاستی آقا پیپلز پارٹی کو دوبارہ مستقبل میں ممکنہ عوامی بغاوتوں کو زائل کرنے کے لئے قابلِ استعمال بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں ابھی تک کی تمام سنجیدہ کوششیں بھی مضحکہ خیز شکل اختیار کر گئی ہیں۔ جہاں ایک طرف عوامی مقبولیت کے گراف کو دوبارہ اوپر کرنے کے لئے بائیں بازو کی نعرے بازی ہی واحد آپشن رہ گئی ہے وہیں پیپلز پارٹی کی لوٹ مار اور دھونس دھاندلی کا گراف اتنا اوپر چلا گیا ہے کہ اپنی لوٹ مار کے تحفظ اور نام نہاد احتسابی عمل سے بچنے کے لئے ریاستی اداروں کی چاپلوسی اور خوشامد کی پہلے سے کہیں زیادہ بڑے پیمانے پر ضرورت پڑ رہی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ موجودہ قیادت کے لئے پہلے کی نسبت دوسری آپشن زیادہ اہم اور اولین ترجیح ہے۔ پانامہ لیکس کے بعد جہاں کسی حد تک پیپلز پارٹی کو سیاسی فائدہ ہوا تھا ساتھ ہی ڈاکٹر عاصم کی ویڈیو انکشافات کے منظرِ عام پر آنے کے بعد پیپلز پارٹی دوبارہ دفاعی پوزیشن پر جانے پر مجبور ہوئی ہے۔ لیکن فوج اور ن لیگ کی حکومت کے مابین چینی سرمایہ کاری اور خارجہ پالیسی کے گرد ہونے والی ’سرد جنگ‘ میں بہر حال پیپلز پارٹی کی ’خفیہ‘ خدمات کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یوں پیپلز پارٹی کی نام نہاد ریڈیکل نعرے بازی کی حتمی نکیل پھر GHQ کے ہاتھ میں ہی ہو گی۔ وہ جتنی ڈھیل دیں گے، وقت آنے پر زیادہ تیز اور زور آور چابک بھی استعمال کریں گے۔
محنت کش عوام گزشتہ چالیس برسوں سے جاری اس ڈرامے سے مکمل طور پر اکتا چکے ہیں۔ ایک بالکل تازہ دم اور نئی نسل جوان ہو چکی ہے جو عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کو بغور دیکھ بھی رہی ہے اور اس سے اہم نتائج اخذ بھی کر رہی ہے۔ وہ راحیل شریف، بلاول بھٹو، عمران خان، ڈاکٹر قدیر اور طاہر القادری وغیرہ کے جھانسے میں آنے والی نہیں ہے۔ عمران خان کی عوامی حمایت بھی بڑھنے کی بجائے مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں پختونخواہ کے صوبائی بجٹ میں مدرسہ حقانیہ کے لئے جاری کی گئی مالی امداد نے ایک دفعہ پھر ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان ایک پارٹی قائد سے زیادہ ISPR کا وفادار اور ترجمان ہی ہے۔ ’پاک سر زمین ‘کے بعد ’کشور و ناہید‘ بھی آجائیں تو لوگ ان کے حقیقی چہرے پہچانتے ہیں۔ طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن کے غریبوں کا خون کب تک بیچ سکتا ہے۔ اس کے جھوٹ اور ’فنکاریاں‘ خود نمبر ون کی دوڑ کے باعث الیکٹرانک میڈیا کے ہاتھوں ہی ننگے ہو چکے ہیں۔ بلا ول بھٹو کے بعد چاہے آصفہ اور بختاور کے تجربے بھی کر لئے جائیں کوئی افاقہ ہونے والا نہیں۔ عوام کسی سنجیدہ اور حقیقی متبادل کی تلاش میں ہیں۔ نجکاری اور لوڈشیڈنگ وغیرہ کے خلاف چھوٹی چھوٹی تحریکوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو وقتی تعطل اور پسپائیوں کے باوجود آگے بڑھے گا۔ تمام سیاسی قیادتوں کی بے نقابی کے بعد اگر فوج دوبارہ کسی 5 جولائی کی مرتکب ہوتی ہے تو اندر سے ٹوٹ کر بکھر جائے گی اور عوامی ریلہ اسے بہا لے جائے گا۔ لیکن منظم بالشویک قیادت کی عدم موجودگی میں یہ عوامی ریلہ بے قابو ہو کر انتشار اور ہولناک تشدد کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ سیاسی کارکنوں اور محنت کش عوام کے لئے 5 جولائی کے شب خون کا حقیقی سبق یہی ہے کہ منظم ڈھانچوں والی انقلابی پارٹی کے بغیر ذوالفقار علی بھٹو جیسی دیو قامت قیادت بھی انقلاب تو درکنار خود اپنی جان بچانے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ 39 سال بعد یہ 5 جولائی پھر ہم سے انقلابی پارٹی کی تعمیر کے عزم کی تجدیدِ نو کا تقاضا کر رہا ہے۔