|تحریر: راب سیول، ترجمہ: یار یوسفزئی|
جنگ، وباء اور تحفظاتی پالیسیوں کے مسلسل طوفان میں گھِر کر عالمی معیشت شدید ہنگاموں کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ مہنگائی اور کساد بازاری کا خطرناک ملاپ سرمایہ داری کے سر پر منڈلا رہا ہے۔ یہ حالات ہر جگہ پر انقلابی سماجی دھماکوں کو جنم دیں گے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
”ہم اب ایک بالکل نئی دبیا میں جی رہے ہیں“ (ہینری کیسنجر، 9 مئی 2022ء)
روس یوکرین جنگ کی وجہ سے دنیا بھر کی مارکیٹیں خوف میں ہیں اور کئی ہفتوں سے سٹاک ایکسچینجوں میں شیئرز کی قیمتیں مسلسل گراوٹ کا شکار ہیں، مہنگائی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے، چین میں دوبارہ لاک ڈاؤن لگائے جا رہے ہیں، اور ایک نئے بحران کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔
ایف ٹی ایس ای آل FTSE ورلڈ انڈیکس (دنیا بھر کی سٹاک ایکسچینجوں کی رپورٹ پیش کرنے والے ایک اشاریے) کے مطابق 2008ء میں جب مورٹگیج کا بحران لیہمن برادرز کمپنی کے انہدام اور عالمی مالیاتی بحران کا باعث بنا تھا، اس کے بعد سے سٹاک مارکیٹ میں اب سب سے لمبی مندی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
دنیا بھر کی سٹاک ایکسچینجوں میں اس قسم کی غیر یقینی صورتحال حکمران طبقے کو خوفزدہ کرتی قنوطیت کا اظہار ہے۔ ارب پتی سرمایہ کار وارن بفے کے مطابق: ”ہم 2008ء کے دہرائے جانے یا اس سے بھی بد تر بحران کے آنے سے کچھ زیادہ دور نہیں کھڑے۔“
پکٹیٹ ایسیٹ منیجمنٹ (سوئس ملٹی نیشنل نجی بینک ’پکٹیٹ گروپ‘ کی ایک شاخ) کے چیف پالیسی ساز لوکا پاؤلینی نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا: ”مارکیٹوں کی اس گراوٹ کی وجہ محض شرحِ سود میں اضافہ نہیں ہے، (بڑی معیشتوں میں) کساد بازاری کا خطرہ اس حوالے سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی معیشت کا ایک دیوہیکل حصّہ بنیادی طور پر سکڑ رہا ہے۔“
خوش فہمیوں کا خاتمہ
پچھلے سال بعد از وباء معاشی بحالی کے حوالے سے نظر آنے والی خوش فہمیوں اور جوش و خروش کا مکمل طور پر خاتمہ ہو چکا ہے۔ بظاہر لگ رہا تھا کہ ایک بحران کو قابو کر لیا گیا ہے مگر اب اس کی جگہ تیزی کے ساتھ ایک اور بحران نمودار ہو رہا ہے۔ اس صورتحال نے بڑی بڑی کمپنیوں کے بورڈ رومز میں ہلچل مچا دی ہے۔
جیسا کہ برطانوی سرمایہ داری کے نمائندہ فنانشل ٹائمز نے حالیہ عرصے میں پر وضاحت کی:
”پچھلے سال کئی معیشت دان 2022ء میں مضبوط معاشی بحالی کی توقع کر رہے تھے۔ کہا جا رہا تھا کہ کرونا کے بعد کاروبار مکمل طور پر فعال ہو جائیں گے۔ صارفین اپنی جمع شدہ پونجی اس سیاحت اور سرگرمیوں پر خرچ کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں گے جس سے وہ وباء کے دور میں محروم رہے تھے۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ ایک نیا ’رورنگ ٹوینٹیز (Roaring 20s)‘ ہوگا، جس طرح 1918ء میں انفلوئنزا کی وباء آنے کے بعد 1920ء کی دہائی میں بحالی دیکھنے کو ملی تھی۔“ (2 مئی 2022ء)
ان کا کہنا تھا کہ ایسی معاشی ترقی بڑھوتری اور خوشحالی کے ایک نئے عہد کا آغاز کرے گی۔ مگر یہ سارے اونچے دعوے مختصر عرصے میں ہی زمین بوس ہو گئے ہیں۔ ’رورنگ ٹوینٹیز‘ کی بجائے سرمایہ داری کو نئی عالمی معاشی گراوٹ کا سامنا ہے۔
جیسا کہ رچرڈ نکسن کے دور میں امریکی وزیرِ خارجہ رہنے والے ہینری کیسنجر نے کہا ہے، ہم ایک بالکل نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ گہرے ہوتے بحران کا عہد ہے، جہاں پرانی روایات سر کے بل کھڑی کر دی گئی ہیں۔ اینگلز کے الفاظ میں ”تعقل، عدم تعقل میں تبدیل ہو چکا ہے“ سطح کے نیچے موجود سرمایہ داری کا بحران، جس پر وہ اپنے خیال میں قابو پا چکے تھے، دوبارہ پوری شدت کے ساتھ سطح پر ابھر آیا ہے۔
جیسا کہ فنانشل ٹائمز کے حالیہ اداریے میں لکھا گیا تھا:
”اس ہفتے، معیشت کا باجا دھیمے غمگین سُر بجانے لگ گیا، کیونکہ ترقی یافتہ عالمی معیشتوں کو لگنے والے دھچکوں کی گونج توقعات سے زیادہ لمبی اور اونچی رہی ہے۔ معیشت کے بارے میں ایک ہفتے قبل آپ کے چاہے جو بھی خیالات رہے ہوں، مگر اب آپ کو پہلے سے زیادہ پریشان ہونا چاہیے۔“
سٹیگ فلیشن
معاشی پیشین گوئیوں میں مسلسل مایوسی نظر آ رہی ہے۔ اس سال عالمی معیشت سے زیادہ تر معیشت دان محض اوسط 3.3 فیصد بڑھوتری کی توقع کر رہے ہیں، جبکہ یوکرین جنگ سے پہلے جنوری میں 4.1 فیصد کی توقع کی جا رہی تھی۔
افراطِ زر کی شرح میں اضافے، جس کی لمبے عرصے سے توقع نہیں کی جا رہی تھی، نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، جس کے باعث کرنسیوں کی قدر میں کمی ہو رہی ہے، قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور معیارِ زندگی میں گراوٹ آ رہی ہے۔
اس سال عالمی افراطِ زر میں اب 6.2 فیصد اضافے کے امکانات ہیں، جو جنوری میں بتائے جانے والے متوقع اضافے میں 2.25 فیصد کا اضافہ ہے۔
امریکہ کے اندر اپریل کے مہینے میں افراطِ زر 8.3 فیصد تک پہنچ گیا، اور اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ پیشینگوئیوں کے برعکس امریکی معیشت پہلی سہ ماہی میں سکڑنے کی طرف گئی ہے۔
کئی معیشتوں کو ’سٹیگ فلیشن‘ (معیشت کی شرحِ نمو جمود کا شکار ہوتے ہوئے افراطِ زر میں اضافہ) اور حتیٰ کہ ’سلمپ فلیشن‘ (معاشی گراوٹ کے ہوتے ہوئے افراطِ زر میں اضافہ) کا سامنا ہے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق ”2022ء میں سٹیگ فلیشن کے یہ دھچکے پوری دنیا کو اثر انداز کر رہے ہیں۔“
یہ عالمی منڈی کی بڑھتی ہوئی جڑت کی عکاسی ہے، خاص کر جیسا کہ پچھلے 30 سال کے دوران دیکھا گیا۔ تمام ممالک پہلے کبھی نہ دیکھے گئے انداز میں ایک دوسرے پر منحصر ہیں، جس کے باعث معاشی اثرات سب کے اوپر پڑنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ’عالمگیریت‘ کے یہی معنی رہ گئے ہیں۔
شیر کی پیٹھ سے اترنے کی کوشش
مرکزی بینک استحکام واپس آنے کی امید کر رہے ہیں۔ مگر ان کی پیشینگوئیاں، ہمیشہ کی طرح، حد سے زیادہ رجائیت پسندی پر مبنی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ محض ’عبوری‘ اور ’عارضی‘ ہوگا۔
ان کے سطحی خیالات، چاہے کینشین ازم ہو یا مانیٹری ازم، نے ان کو سرمایہ داری کی حقیقی صورتحال دیکھنے سے اندھا کر دیا ہے۔ مگر اب وہ کنویں اور کھائی، یعنی سرمایہ داری کے تضادات کے بیچ پھنس کر رہ گئے ہیں۔
کئی سالوں تک سرمایہ داری پر پیسوں کی بارش کی جاتی رہی، جس نے اس نظام کو مصنوعی طور پر سہارا دیے رکھا۔ 2008ء کے بعد سے حکمران طبقے نے معیشت میں بے تحاشا پیسہ انڈیلنا شروع کیا، اور شرحِ سود کو تاریخی کم ترین سطح پر رکھا تاکہ مزید کسی کساد بازاری کا راستہ روکا جا سکے۔ اگرچہ وہ اپنے فوری ہدف میں کامیاب ہو گئے مگر سرمایہ دارانہ نظام کو اس عمل کی لَت لگ گئی۔ اب ہم اس کے نتائج دیکھ رہے ہیں، جہاں حکمران طبقہ دیر ہونے کے بعد معاشی سرگرمیوں کو کم کرنے اور پچھلی دہائی کی پالیسیاں روکنے پر مجبور ہے۔
پیسوں کے اس بہاؤ کا نتیجہ کافی پہلے افراطِ زر میں اضافے کی صورت نکلنا چاہیے تھا۔ مگر عالمی معیشت کی صورتحال نے اس کو قابو میں رکھا۔ البتہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے۔ اور لاک ڈاؤن ختم ہونے، جس کے فوری بعد یوکرین کی جنگ بھی شروع ہو گئی ہے، کے باعث افراطِ زر میں اضافہ ہونا شروع ہوا۔
چنانچہ حکمران طبقہ بیتابی سے کسی قسم کی ’معمول‘ کی واپسی کی کوشش کر رہا ہے، سٹیمولس پیکجز اور کم ترین شرحِ سود کو قابو کر کے، جن کو مزید اسی طرح برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ افراطِ زر میں شدید اضافے کے باعث فیڈرل ریزرو اور بینک آف انگلینڈ شرحِ سود بڑھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ دیگر مرکزی بینک بھی یہی راستہ اپنائیں گے، جن میں یورپی مرکزی بینک پہلے نمبر پر ہوگا۔
تاریخی بلند ترین سطح کے قرضوں کو کم کرنے کی ضرورت ہے، مگر معاشی گراوٹ کو مشتعل کیے بغیر۔ کسی نہ کسی طرح سستے قرضوں کے دور کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ مگر یہ آسان نہیں ہوگا۔ یہ ایسا ہے جیسے بھوکے شیر کا نوالہ بنے بغیر اس کی پیٹھ سے اترنے کی کوشش کرنا۔
مایوس کن امکانات
موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر، شرحِ سود میں اضافہ اور سٹیمولس پیکیجز میں کمی گہری گراوٹ کا باعث بن سکتے ہے۔ زیادہ تر کاروباروں کو سستے قرضوں کی بدولت زندہ رکھا گیا ہے۔ اور ان میں کمی کا مطلب ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے مترادف ہوگا، جس کا نتیجہ وسیع پیمانے پر دیوالیہ پن کی صورت نکلے گا۔
مگر افراطِ زر کے پیشِ نظر بینکار محض یہی اقدامات کر سکتے ہیں۔ مگر ماضی کی طرح بھی اگر سب کچھ جاری رکھا گیا تو وہ بھی تباہ کن ہے، جس سے افراطِ زر میں شدید اضافہ ہوگا اور بحران مزید گہرا ہوگا۔
جیسا کہ نیویارک یونیورسٹی سٹرن سکول آف بزنس کے پروفیسر نے خبردار کیا: ”مرکزی بینک اپنی پالیسیوں میں اتنا بھی رد و بدل نہیں کر سکتے کہ قرض اور سٹاک مارکیٹ میں مالیاتی بحران پیدا ہو۔“ مگر ان کے پاس آگے بڑھنے کے لیے زیادہ راستے نہیں ہیں۔
مستقبل کے امکانات مایوس کن ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے وضاحت کی:
”تمام ممالک میں کساد بازاری کا خطرہ اب بہت بڑھ چکا ہے۔ شاید بہت دیر ہو چکی ہے، افراطِ زر کا جِن چراغ سے باہر آ چکا ہے اور اسے واپس قید کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی کو کساد بازاری کی ضرورت ہے۔ مگر اس کے برعکس، پالیسی ساز بہت محتاط رہیں گے اور کوئی بھی قدم اٹھانے میں سستی کا مظاہرہ کریں گے، اور افراطِ زر کو معیشت کی رگ رگ میں پھیلنے دیں گے، جس کے نتائج اتنے ہی برے نکلیں گے۔
”ہم سب جس راستے پر چلنا چاہ رہے ہیں وہ بہت تنگ ہے اور انہی معاشی تباہیوں کے بیچ میں سے ہو کے گزرتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہم گہری معاشی گراوٹ کے بغیر افراطِ زر کی شدت کا خاتمہ کر لیں گے، مگر بہر حال اس کے امکانات اب انتہائی کم ہی ہیں۔“ (15 اپریل 2022ء)
نازک بحالی
ماضی میں اس قسم کے بحرانات پوری صدی میں شاذ و نادر دیکھنے کو ملتے تھے، مگر اب ان کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ معاشی ترقی اور گراوٹ کے دورانیے کی نئی طرز ہے۔
کرونا وباء آنے سے قبل، عالمی سرمایہ دارانہ معیشت پہلے ہی سست روی کا شکار تھی، جب تحفظاتی پالیسیوں کی بڑھوتری اور زائد پیداوار مختلف شعبوں کو متاثر کر رہی تھی۔ کرونا وائرس نے بحران کو مزید زہر آلود کر دیا، جس کے باعث نظام کے تضادات مزید شدید اور گہرے ہو گئے۔
سرمایہ دارانہ منڈی کی سپلائی چین میں کئی جگہ رکاوٹیں آئیں، جس سے پیداوار اور رسد دونوں میں خلل پڑا۔ نتیجتاً معیشت کے بڑے بڑے شعبے بند ہو گئے، اور مانگ (Demand) انہدام کا شکار ہوئی۔ کروڑوں محنت کشوں کو برطرف کیا گیا یا انہیں اجرت سمیت رخصت دی گئی، جس سے معاشی گراوٹ میں مزید اضافہ ہوتا گیا۔
اس کے باعث منڈیاں، تجارت اور سپلائی چین، یعنی عالمی معیشت کی بنیادوں میں شدید خلل واقع ہوا یا وہ مکمل منجمد ہو گئیں۔
جس بحران کا آغاز زائد پیداوار کے بحران سے ہوا تھا، وہ بعد میں سرمایہ دارانہ معیشت کے کئی شعبوں کے لاک ڈاؤن اور بندش کا باعث بنا۔ نتیجتاً، 2020ء میں، دنیا کے 90 فیصد ممالک میں معاشی سرگرمی سکڑنے کی طرف گئی۔ اس بحران کی شدت دونوں عالمی جنگوں، 1930ء کی دہائی کی عظیم کساد بازاری، اور 2008-09ء کی عالمی معاشی گراوٹ سے زیادہ تھی۔ مثلاً برطانوی معیشت میں 300 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی گراوٹ دیکھنے کو ملی۔
ظاہر ہے، اس قسم کا انہدام مسلسل جاری نہیں رہتا۔ ایک مخصوص مرحلے پر بحالی کا آنا ناگزیر تھا، جس کو بڑی حد تک پہلے کبھی نہ دیکھے گئے ریاستی سٹیمولس پیکیجز نے سہارا دیا۔ اس بحالی کو نئے عہد کا آغاز قرار دیا گیا۔ جمع شدہ مانگ بار اور ریستورانوں میں، اور سیر و سیاحت پر خرچ ہونے لگی تھی، جس کے نتیجے میں مضبوط معاشی بحالی کی توقع کی جا رہی تھی۔ بلاشبہ معیشتوں میں ایک وقت تک بحالی دیکھنے کو ضرور ملی۔ کئی ممالک کی معیشتیں قبل از وباء والی سطح پر پہنچ گئیں۔ مگر یہ بحالی سپلائی چین کی مسلسل رکاوٹوں یا اس کی مکمل بربادی کا شکار ہوتی رہی، جو اس بحران کا ورثہ تھا۔ ’بروقت‘ پیداوار (جس میں گوداموں میں خام مال ذخیرہ کرنے کی بجائے عین وقت پر ڈلیوری کے ذریعے بچت کے تحت فیکٹریوں کو چلایا جارہا تھا)، جو پچھلی دہائیوں میں سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافہ کرتی رہی تھی، ’بے وقت‘ کا انتشار بن گئی جب کلیدی صنعتوں اور شعبوں کی پیداوار میں قلت کی وجہ سے رکاوٹ آئی۔ اس قلت کے سبب قیمتوں میں مزید اضافہ ہونے لگا اور افراطِ زر میں نئے سرے سے شدت آنے لگی۔
جنگ اور معاشی گراوٹ
پوری عالمی صورتحال انتہائی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہو گئی ہے۔ عالمی تجارت کی باہمی جڑت، جو ماضی کے اندر بڑی معاشی ترقی کی باعث بنی تھی، اپنی الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ کسی ایک ملک میں رونما ہونے والا ایک واقعہ دیگر ممالک پر بھی شدید اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ مثلاً، چین میں لگائے جانے والے لاک ڈاؤن، جس سے برآمدات براہِ راست متاثر ہو رہی ہیں، عالمی تجارت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔
اسی طرح دیگر عناصر، چاہے وہ بعد از وباء والے مسائل ہوں، یوکرین کی جنگ ہو، سیاسی دھچکے ہوں یا دیگر ’حادثات‘ ہوں، بھی سرمایہ دارانہ نظام کو فیصلہ کن انداز میں متاثر کر سکتے ہیں۔ آج، یوکرین کے تنازعے نے واقعات کے ایک ایسے سلسلے کو جنم دیا ہے جس کے وسیع پیمانے پر سیاسی، سفارتی، سماجی اور معاشی طور پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔یہ جنگ روس اور نیٹو ممالک بالخصوص امریکہ کے بیچ پراکسی جنگ بن چکی ہے، جس میں مغربی سامراج اربوں ڈالر کے ہتھیار یوکرین سپلائی کر رہا ہے۔ اس کے ہر جگہ پر شدید اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عالمی معیشت سے روس کو تنہا کرنے کی غرض سے لگائے جانے والی معاشی پابندیوں کے انتہائی برے نتائج برآمد ہوں گے۔
خصوصاً امریکی اور برطانوی احمق سامراج اس قسم کے نتائج کے حوالے سے اندھے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ روس کو شکست دینے کی خاطر کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر ان کے اقدامات بحران کی شدت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ عمومی طور پر قیمتوں میں اضافے کا سبب بنا ہے، جبکہ ہر جگہ پر افراطِ زر شدت اختیار کر رہی ہے۔ اگر یورپ برآمد ہونے والی روسی گیس کو روک دیا گیا، جس کا بعض مطالبہ کر رہے ہیں، تو اس کا نتیجہ فوری معاشی گراوٹ کی صورت دیکھنے کو ملے گا، جس کا آغاز جرمنی سے ہوگا۔ معاشی پابندیاں، جو جنگ ہی کا ایک طریقہ ہوتا ہے، اس صورتحال کو مزید بگاڑ رہی ہیں۔ نتیجتاً، صارفین کی مانگ میں مزید کمی ہو رہی ہے اور سرمایہ کاری روکی جا رہی ہے، جو عالمی معیشت کو نئی گراوٹ کی جانب دھکیل رہی ہے۔
معاشی قوم پرستی
یہ تمام عناصر جدلیاتی طور پر آپس میں منسلک ہو کر بحران میں شدت کا باعث بن رہے ہیں۔ وہ تمام عناصر جو ماضی میں سرمایہ داری کے اندر بہتری لانے کا سبب بنے تھے، اب سماجی و معاشی تباہی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔
فنانشل ٹائمز کے ایڈیٹر مارٹن وولف کا کہنا تھا:
”جنگ پہلے سے ہی رکاوٹوں کی شکار دنیا کے راستے میں مزید رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ افسوس کہ اب ہم دوبارہ منقسم، بد نظم اور پُر خطر دنیا کی جانب بڑھ رہے ہیں۔“ (26 اپریل 2022ء)
عالمی معیشت مختلف بلاکس میں تقسیم ہو رہی ہے، اور مغرب کی جانب سے روسی توانائی کی سپلائی روکنے اور اس کی مالیاتی منڈیوں تک رسائی روکنے کی کوششوں کے باعث عالمی منڈی کی سپلائی چین ٹوٹ رہی ہے۔
ہم عالمی جنگوں کے درمیانے عرصے کی طرح معاشی قوم پرستی کے دور میں داخل ہو گئے ہیں، جو مزید اس بات کا اظہار ہے کہ نجی ملکیت اور قومی ریاستیں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن چکی ہیں۔
آئی ایم ایف کے چیف معیشت دان پئیغ اولیویے گوغانشا نے ان دیوہیکل تبدیلیوں کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:
”اگر دنیا کئی مختلف بلاکس میں تقسیم ہو گئی تو ہمیں آپس میں جڑی ہوئی ان بہت ساری معیشتوں اور سپلائی چینز کو کھونا پڑے گا جو ہم نے تعمیر کی ہیں۔۔۔اور کچھ ایسا تعمیر کرنا پڑے گا جو زیادہ تنگ نظر ہو اور جس کا دائرہ کار کم ہو۔“
اس کا مزید کہنا تھا کہ ”اس صورت میں اضافی اخراجات ہوں گے اور نقصانات اٹھانے پڑیں گے، اور اس کا نتیجہ پیداوار کے بنیادی اخراجات کے اضافے کی صورت بھی نکلے گا کیونکہ ماضی کی طرح کم اخراجات پر یہ ممکن نہیں ہوگا۔“
”اگر ہماری دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہو گئی تو میں نہیں جانتا کہ آئی ایم ایف کس طرح چل سکے گا۔ کیا یہ ایک ایسا ادارہ بن جائے گا جو ایک بلاک کے لیے کام کرے گا مگر دیگر بلاکس کے لیے نہیں؟ یہ دنیا کے مختلف حصوں میں کیسے کام کرے گا؟ بہت ساری وجوہات کی بنا پر ایسی صورتحال کی خواہش نہیں کی جا سکتی۔“
سرمایہ داری کی محدودیت
موجودہ بحران دوسری عالمی جنگ کے بعد بنائے گئے ڈھانچے کی باقیات کو متاثر کر رہا ہے، جس سے سرمایہ دارانہ نظام کی محدودیت بے نقاب ہو رہی ہے۔
فنانشل ٹائمز نے وضاحت کی، ”حریفوں کے خلاف فنانس استعمال کرنے کا عمل عالمی سیاست اور معیشت کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔“
”سرد جنگ کے بعد والے دور کے حوالے پیش کیے جانے والے مفروضوں میں سے زیادہ تر اپنی الٹ میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ ایک زمانے میں عالمگیریت کو تنازعات روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جب سابقہ دشمن ایک دوسرے پر انحصار کرنے کے باعث قریب ہوتے جاتے۔ مگر اب عالمگیریت اس کی بجائے نیا میدانِ جنگ بن چکا ہے۔“ (6 اپریل 2022ء)
یوکرین کی جنگ نے وسیع پیمانے پر تباہی مچا کر کسی قسم کی بحالی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ محض توانائی کی قیمتوں میں دیوہیکل اضافہ ہی حالات کو شدید خراب کرنے کے لیے کافی ہے۔ البتہ، اس کے علاوہ یوکرین اور روس کے اندر گندم اور اناج کی پیداوار میں کمی خوراک کی قیمتوں میں شدید اضافے کا باعث بن رہی ہے، جس کے سیاسی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔
جیسا کہ فنانشل ٹائمز نے خبردار کیا تھا: ”جب 2008ء میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا، یہ عرب بہار اور بالآخر شام کی خانہ جنگی کے لیے چنگاری ثابت ہوئی۔ یوکرین کے اوپر روسی حملے نے ایسے بحران کے بیج بو دیے ہیں جس کے اثرات یورپی سرحدوں سے باہر بھی محسوس ہوں گے۔“ (5 مارچ 2022ء)
انقلابی نتائج
بورژوازی نے اپنی ہی حرکتوں سے گویا کسی اژدھا کو نیند سے بیدار کر دیا ہے۔ انہوں نے استحکام یا توازن کے تمام امکانات کو ختم کر دیا ہے، جس کے باعث ہر جگہ پر سرمایہ دارانہ تضادات مزید گہرے ہو گئے ہیں۔
اپنے پروپیگنڈے پر یقین رکھتے ہوئے، انہوں نے سرمایہ دارانہ بحران کو اس حد تک شدید کر دیا ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
یہ ساری صورتحال عالمی سطح پر طبقاتی جدوجہد کے طاقتور ابھار کی بنیاد ڈال رہی ہے۔ افراطِ زر میں اضافہ معیارِ زندگی میں گراوٹ کا باعث بنے گا اور مہنگائی میں دیوہیکل اضافہ کرے گا۔ محنت کش طبقے کے سامنے لڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
پہلی عالمی جنگ کے بعد لیون ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ ”مہنگائی کا بڑھنا تمام ممالک کے اندر انقلابی مرکب کا سب سے طاقتور جزو ہے۔“ یہی وہ عنصر تھا جس نے 1970ء کی دہائی میں طبقاتی جدوجہد کو نئی بلندیوں تک اُبھارتے ہوئے انقلابی واقعات کی راہ ہموار کی۔ یہ عمل عنقریب دوبارہ دیکھنے کو ملے گا۔۔۔مگر پہلے سے بہت بڑے پیمانے پر۔
جیسا کہ آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کریستالینا جورجیوا نے خبردار کیا: ”تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ بھوک اکثر سماجی عدم استحکام اور تشدد کو جنم دیتی ہے۔“
یہ معاشی ترقی یا گراوٹ نہیں ہوتی جو انقلاب کو ابھارتی ہے، بلکہ یہ ان دونوں کا درمیانہ عرصہ ہوتا ہے، جو شعور کے اوپر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔ حالیہ عرصے میں کافی آتش گیر مواد جمع ہواہے۔ اور ان میں مسلسل مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ماضی کے استحکام کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
اینگلز نے برطانوی محنت کش طبقے کی 40 سالہ نیند کے بارے میں بتایا تھا، جس کے بعد 1890ء کی دہائی میں مزدور تحریک پھٹ کر سامنے آئی۔ اس نے طبقاتی جدوجہد، جنگ اور انقلاب کے نئے عہد کا آغاز کیا۔
آج بڑے سرمایہ دارانہ ممالک کے اندر طبقاتی جدوجہد کے زوال، جو تین دہائیوں سے زیادہ عرصے تک رہا، کا بالآخر خاتمہ ہو رہا ہے۔ جب جنگ کی دھند ہٹے گی، اور سرمایہ دارانہ بحران کی حقیقت ہر ملک کے محنت کش محسوس کرنے لگیں گے، تب کروڑوں محنت کش اور نوجوان طبقاتی جدوجہد کے میدان میں اتریں گے۔ طبقاتی جدوجہد کے اندر نئی تازہ پرتیں شامل ہونے جا رہی ہیں، جو ماضی کی شکستوں سے بے داغ ہیں۔ بحران کے پیشِ نظر، کئی افراد لڑاکا اور حتیٰ کہ انقلابی نتائج اخذ کرنے کی طرف جائیں گے۔
سرمائے کے کلیدی پالیسی ساز مارٹن وولف کا یہ اظہارِ افسوس کہ ہم ”دوبارہ منقسم، بد نظم اور پُر خطر دنیا کی جانب بڑھ رہے ہیں“، حکمران طبقے کو آنے والے واقعات کے حوالے سے سنجیدہ تنبیہہ ہے۔
وہ اس کا نام لینے کی جرأت نہیں کر رہا مگر وہ جس چیز کی بات کر رہا ہے وہ انقلاب ہے۔ دیکھنے کے اہل تمام افراد کو نظر آ سکتا ہے کہ ہم جس دور میں داخل ہو چکے ہیں، اس کی یہی خصوصیات ہیں۔