|تحریر: فارورڈ، ترجمہ: پارس جان|
ان دنوں سری لنکا میں 1953ء کی ہڑتال کے بعد کی سب سے شاندار جدوجہد جاری ہے۔ اس جدوجہد کی طاقت نے کابینہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت کے اتحایوں نے پارلیمان میں اپنی غیر جانب داری کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی اثنا ء میں مرکزی بنک کے گورنر کیبرال نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وہ گروہ جو اگلی صدارت کے خواب دیکھا کرتے تھے، انہوں نے پہلے تو ساری جدوجہد کو یہ کہہ کر مشکوک کرنے کی کوشش کی کہ قیادت کون کرے گا اور ذمہ داری کون سنبھالے گاوغیرہ وغیرہ؟ لیکن تحریک اتنی طاقتو رہے کہ وہ اب خود تحریک میں شمولیت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اب وہی خود مظاہرین سے اپیل کر رہے ہیں کہ رکنا نہیں ہے!
اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے اس جدوجہد نے سری لنکا میں سماجی و سیاسی دھارے پر اہم اثرات مرتب کئے ہیں۔ بہت سے حکمران، جس نسل پرستی اور مذہبیت کو اقتدار میں آنے اور برقرار رہنے کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، جدوجہد کے مراحل میں پہلے ہی مسترد ہوچکے ہیں۔ خاص طور پر موقع پرست اور نسل پرست بدمعاش جس ”سنہالا بدھ اسٹ“ کی مضحکہ خیز نمائش کیا کرتے تھے اور راجا پکشا جس کی پشت پناہی کیا کرتے تھے وہ مکمل طور پر عریاں ہوچکی ہے۔ جدوجہد نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عوام اپنی سیاسی پارٹیوں سے الگ ہو کر بھی اپنے مطالبات کے لیے آواز بلند کرسکتے ہیں اور عوام کی طاقت، سب سے زیادہ طاقتور حکمرانوں کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتی ہے۔
تاہم ان تمام عقائد کے باوجود بدقسمتی یہ ہے کہ سری لنکا کے ٹریڈ یونین لیڈرز اتنی طلسماتی اور طاقتور عوامی تحریک کے دنوں میں بھی متحد ہو کر ایک عام ہڑتال کی کال دینے میں ناکام رہے ہیں۔ صرف ایک عام ہڑتال کی بھرپورتوانائی سے ہی حکومت بنیادوں سے لرزسکتی ہے اور اس کے خاتمے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ صرف اسی صورت میں ہی عوامی مظاہروں کو کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دس روزہ جدوجہد میں ایک عام ہڑتال یا حتیٰ کہ ایک ٹوکن ہڑتال تک کی کال دینے کی ناکامی نے ٹریڈ یونین قیادت کی پسماندگی اور کمزوری کو عیاں کردیا ہے۔
1953 ء میں صورتحال اس کے برعکس تھی، اس وقت جدوجہد ہڑتالوں کے ایک سلسلے سے شروع ہوئی تھی۔ اُس وقت سیلون ورکرز فیڈریشن نے ہڑتال میں اہم ترین کردارا داکیا تھا۔ ماضی کی انتہائی لڑاکا جدوجہد کی تاریخ کے تناظر میں آج ٹریڈ یونین قیادت کا جمود بہت مایوس کن ہے۔
محنت کشوں کی وسیع تر اکثریت بہرحال موجودہ جدوجہد سے بھرپور حمایت اور یکجہتی کا اظہار کر رہی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ لاکھوں نوجوان محنت کش ان احتجاجوں کا حصہ بن رہے ہیں۔ لیکن محنت کش طبقے پر جو قیادت مسلط ہے وہ اسے ایک طبقے کے طور پرمیدانِ عمل میں اترنے سے باز رکھے ہوئے ہے۔ صرف محنت کش طبقے کی تحریک ہی جدوجہد کو اُس کی اصل طاقت اور مقام دے سکتی ہے اور یونین لیڈران بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ لیکن وہ اس توانائی کو متحرک کرنے سے اس لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ انہیں اس کے نتائج کا اندازہ ہے۔ کچھ یونینز اس بات سے بھی خوف زدہ ہیں کہ محنت کشوں کو جدوجہد میں شامل کرنے سے ان سیاسی گروہوں کے ایجنڈے کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے جو صدارت کے حصول کی جدوجہد میں کوشاں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب محنت کش جدوجہد میں اتر آئے تو قائدین اس جدوجہد کی منزل کا تعین کرنے کے اہل نہیں ہوں گے، بلکہ محنت کش نظام کے خاتمے کی جانب بڑھیں گے۔
حکومت نے اب کرائے کے بندوں کے ساتھ حکومت کے حق میں مظاہرے منظم کرنا شروع کردیئے ہیں۔ اگرچہ ان سرگرمیوں کے شرکاء کی تعداد بہت کم ہے لیکن یہ واضح ہوچکا ہے کہ ان کا مقصد مصنوعی تنازعات بناکر مسلح قوتوں کو موجودہ جدوجہد کے خلاف حرکت میں آنے کا جواز مہیا کرنا ہے۔ راجا پکشا کے ایک بڑے گماشتے ٹسا کٹیارچی کے ا س مجرمانہ بیان کہ ”وقت آگیا ہے کہ مظاہرین سے پرتشدد طریقوں سے نمٹا جائے“ کو اسی حوالے سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ تحریک کو کچلنے کی ان تمام سازشوں کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہے، ہر حال میں عام ہڑتال کی کال دی جائے۔ محنت کشوں کو متحرک کرنا ہی ہر رجعتی اقدام کا موثر جواب ہوتا ہے اور موجودہ حالات میں یہ زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔
مزدور تحریک کو ہڑتالوں کے ذریعے احتجاجی مظاہروں میں شمولیت اختیار کرنا ہوگی اور میدان جنگ میں داخل ہونے سے باز رکھنے کی اپنے قائدین کی تمام کاوشوں کو ناکام بنانا ہوگا۔ سری لنکا کی ٹریڈیونین تحریک میں اس طرح کے اقدامات کرنے کی قوت اور جرات موجود ہے۔