سری لنکا: نیا صدر پرانا نظام

|تحریر: بین کری، ترجمہ: فرحان رشید |

سری لنکا میں 21 ستمبر کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج کو عالمی میڈیا نے اس طرح پیش کیا کہ ”مارکسی رجحان کے حامل صدر نے سری لنکا کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی“۔ یہ سرخیاں غلط ہیں، لیکن حقائق اتنے ہی سنسنی خیز ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

پہلی بار، 1948ء میں آزادی کے بعد سے سری لنکا پر حاوی دو جماعتوں سے ہٹ کر کسی پارٹی نے صدارت حاصل کی۔ پرانی سیاست، پارٹیاں اور خاندان، پرانے تمام بدمعاش اور جونکیں جو 76 سال سے سری لنکا کا خون چوس رہے تھے، سب کے نام بیلٹ پیپر پر موجود تھے اور عوام نے ان سب کو بُری طرح مسترد کر دیا۔

پرانے حکمران طبقات، اپنی دولت اور طاقت کی تمام برتری کے باوجود مکمل طور پر ذلیل و خوار ہو گئے۔ 2019ء میں، گوٹابایا راجاپکشا نے 51 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس ہفتے کے آخر میں، اس کے بھتیجے نامال راجاپکشا نے شرمناک 2.5 فیصد ووٹ حاصل کیے!

رخصت ہونے والا صدر رانیل وکرما سنگھے، جسے راجاپکشا خاندان کی پوری انتخابی مشین کی حمایت حاصل تھی، اور جو برسرِ اقتدار ہونے، حکمران طبقے کے لبرل پسندیدہ ہونے، اور آئی ایم ایف بیل آؤٹ کا ”کامیاب“ معاہدہ کرنے کی حیثیت سے تمام برتری رکھتا تھا، اس کا حال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں رہا اور اسے صرف 17 فیصد ووٹ ملے۔

ہر وہ چیز جو اسٹیبلشمنٹ، سابقہ اشرافیہ، اور ان چند خاندانوں سے وابستہ تھی جو دہائیوں سے جزیرے پر حکمرانی کر رہے تھے اور اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے تھے، کو عوام نے مسترد کر دیا۔

ان کی جگہ، ہم نے انتہائی قابلِ ذکر سیاسی تبدیلیاں دیکھیں۔ ایک نسل پہلے، جنتا ویمکتی پیرامونا (JVP، ”پیپلز لیبریشن فرنٹ“) نے خود کو ایک ”مارکسی-لیننی“ پارٹی کہا تھا۔ اس کے کارکنان کو قتل کیا گیا، پابندِ سلاسل کیا گیا، اور جلاوطن کیا گیا جب انہوں نے ریاست کے خلاف نہ صرف ایک بلکہ دو ناکام ”نوجوان بغاوتوں“ کی قیادت کی۔ اس ہفتے کے آخر میں، JVP کے ووٹ 3.6 فیصد سے بڑھ کر 42 فیصد ہوئے، اور اس کے امیدوار انورا کمارا دسانائیکے (AKD) کے لیے صدارت حاصل کی۔

یہ شروع میں واضح کر دینا ضروری ہے کہ آج JVP کا اس جماعت سے بہت کم تعلق ہے جو یہ کبھی ہوا کرتی تھی۔ یہ اب بھی ہتھوڑا اور درانتی کو بطور پارٹی علامت استعمال کرتی ہے، لیکن یہ اس کے کسی عہد کے ”انقلابی“ ماضی کی ایک مدھم سی بازگشت ہے۔

اس کا قائد، نیا صدر، مہینوں سے سفیروں، بینکاروں اور کاروباری شخصیات سے ہاتھ ملا رہا ہے۔ اس نے خون چوسنے والے قرض دہندگان اور آئی ایم ایف کو یقین دلایا ہے کہ اس کی صدارت کے تحت ملک ان کے ساتھ ”شراکت داری“ میں آگے بڑھے گا، ایک ایسی ”شراکت داری“ جو خچر اور اس کے سوار، یا شاید شیر اور ہرن کے تعلق سے مشابہت رکھتی ہے۔

لیکن اس کے باوجود، انتخابات کے قریب آتے ہی پرانی حکمران اشرافیہ نے اس ”انتہا پسند“ جماعت اور اس کے ”پرتشدد“ ماضی کے بارے میں خوب شور مچایا۔ ایسا کر کے انہوں نے صرف اس جماعت کی عوامی نظر میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ حیثیت کو مزید مضبوط کیا، جو اسٹیبلشمنٹ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور مکمل طور پر تباہ کرنے کی خواہاں ہے۔

شعور میں مکمل اتھل پتھل

اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سرمایہ داری کے تحت نام نہاد ”جمہوریت“ کتنی تنگ اور محدود ہے، تو سری لنکا پر ایک نظر ڈالیں۔ پانچ سال پہلے عوام کو ایک محدود فہرست میں سے کسی نام کے سامنے نشان لگانے کو کہا گیا تاکہ یہ فیصلہ کیا جا سکے کہ ان پر کون حکمرانی کرے گا۔

یہ فیصلہ ISIS کے خوفناک دہشت گرد حملوں کے فوراً بعد کیا گیا تھا۔ نتیجہ وہی نکلا جیسا توقع کی جا رہی تھی: گوٹابایا راجاپکشا کی بھاری اکثریت سے کامیابی، جس کی ساری مہم قوم پرستی، سنہالا-بدھ مت کے تعصب اور ”قومی سلامتی“ کی پاگل پن کی حد تک نعرے بازی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس نے 51 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

2019ء کے انتخابات کے بعد، جو صرف وقتی موڈ کا ایک جزوی عکس تھے، اور ایک محدود خاندانی جماعتی نظام کے ذریعے مسخ شدہ تھے، سری لنکا نے وبا، قومی دیوالیہ پن، انقلاب، اور اسی صدر کی فرار جیسی بڑی تبدیلیاں دیکھی ہیں!

اس ہفتے کے آخر میں، راجاپکشا خاندان دوبارہ میدان میں آیا۔ اس بار انہوں نے نوجوان شہزادے اور گوٹابایا کے بھتیجے، نامال راجاپکشا کو میدان میں اتارا۔ اسے صرف 2.5 فیصد ووٹ ملے، اس خاندان کو ایک صریح اور حق بجانب ذلت نصیب ہوئی۔

اس ہفتے کے آخر کے انتخابات کا نقشہ دیکھیں: وہی علاقے جہاں پچھلے انتخابات میں راجاپکشا خاندان کو بھاری حمایت ملی تھی، اب انہوں نے بھاری اکثریت سے ایک نام نہاد ”سابقہ مارکسسٹ“ کو ووٹ دیا!

اس میں ایک سبق پوشیدہ ہے۔ 2019ء میں، سطحی اور مایوس کن تجزیہ نگاروں نے سری لنکا کے بظاہر مایوس کن، رجعت پسند اور نسل پرست ووٹرز پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ راجاپکشا کی جیت کے بعد، انہوں نے پُراعتماد طور پر پیش گوئی کی تھی کہ سری لنکا ایک طویل عرصے تک رجعت پسندی، یہاں تک کہ ”فاشزم“ کے دور میں داخل ہو چکا ہے۔

اسی نوع کے سطحی تجزیہ کاروں نے امریکہ میں ٹرمپ کے ووٹرز، فرانس میں لی پین کے ووٹرز، اور بھارت میں مودی کے ووٹرز کو ناقابلِ اصلاح رجعت پسند قرار دیا تھا۔

لیکن سری لنکا میں، وہی ووٹرز جنہوں نے راجاپکشا خاندان کو اقتدار تک پہنچایا تھا، اب انہیں اس طرح گرا چکے ہیں کہ ان کی بحالی کا تصور کرنا مشکل ہے۔ اگر تجزیہ نگار کچھ سیکھنے کے قابل ہیں تو سبق یہ ہے کہ یہ جزوی تصویریں صرف ان پیچیدہ عوامل کی ہلکی سی جھلک پیش کرتی ہیں جو لاکھوں لوگوں کے ذہنوں میں چل رہے ہیں، اور بڑے واقعات ایک خاص مرحلے پر ناگزیر طور پر شعور کو مکمل طور پر بدل دینے کا باعث بنتے ہیں۔

AKDکیوں جیتا اور کہاں وہ نہیں جیت سکا

بورژوا انتخابات شعور کے اس مرحلے کا جزوی عکس پیش کرتے ہیں جس سے سماج گزر رہا ہوتا ہے۔ گہرائی میں جا کر دیکھیں تو یہ نتائج ایک پیچیدہ تصویر پیش کرتے ہیں۔ AKD کی جیت قابل ذکر ہے، لیکن اسے مکمل اور متفقہ حمایت نہیں ملی۔

انتخابی نقشہ واضح طور پر دکھاتا ہے کہ کن خطوط پر ووٹر تقسیم ہیں۔ شمال اور مشرق میں، جہاں تامل اور مسلمان اکثریت میں ہیں، اور سنٹرل ہائی لینڈز کے باغاتی علاقوں میں جہاں بھارتی تامل ایک اہم قوت ہیں، وہاں AKD نہیں بلکہ SJB کے ساجد پریماداسا نے انتخابات میں برتری حاصل کی۔ کولمبو میں بھی، جہاں آبادی کا ایک تہائی حصہ سنہالا اکثریت پر، ایک تہائی تاملوں پر اور ایک تہائی مسلمانوں پر مشتمل ہے، دسانائیکے پریماداسا سے پیچھے رہے۔

سنہالا عوام میں اکثریت نے JVP کے دسانائیکے کو ووٹ دیا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہیں وضاحت کی ہے، یہ ایک منفی ووٹ تھا، پرانی جماعتوں اور خاندانوں کے خلاف ایک ووٹ۔ لیکن JVP ایک پرانی جماعت ہے جس کی ایک طویل اور متنازعہ تاریخ ہے، خاص طور پر سری لنکا کی اقلیتوں کے حوالے سے۔

در حقیقت، JVP نے 2005ء میں مہندا راجاپکشا کی تاملوں کے خلاف آپریشن اور بربریت کی مہم کی حمایت کی تھی، جب وہ صدر منتخب ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اقلیتی گروہوں میں ”رانیل راجاپکشا“ حکومت کے خلاف منفی ووٹ JVP کے حق میں نہیں گیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے بڑے پیمانے پر دائیں بازو کی اپوزیشن جماعت SJB کو ووٹ دیا، کیونکہ وہ واحد آپشن ان کو میسر تھا جو حکمران جماعتوں کے خلاف اسی طرح کے ردِعمل کا اظہار کر سکتا تھا، اگرچہ اس کے لیڈر ساجد پریماداسا کے لیے وہ زیادہ جوش و خروش نہیں رکھتے۔

دسانائیکے، JVP اور پارٹی کا انتخابی اتحاد نیشنل پیپلز پاور (NPP) نے JVP کے ماضی، خاص طور پر پارٹی کے باغیانہ ”کمیونسٹ“ حصے سے خود کو دور کرنے کے لیے بہت کچھ کیا ہے! انہوں نے واضح کیا ہے کہ وہ اب ایک ”ذمہ دار“، سنٹرگراؤنڈ کی جماعت ہیں۔ لیکن JVP کی سنہالا-بدھ مت کے تعصب پر مبنی تاریخ پر کوئی معافی یا ندامت کا اظہار نہیں کیا گیا۔

نسلی تفریق کو عبور کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو جوڑنے کے لیے طبقاتی بنیاد پر عوام کو متحد کرنے کی کوئی اپیل نہیں کی گئی، جن کے مشترکہ مصائب گزشتہ دو سالوں میں انتہائی اذیت ناک ہو چکے ہیں۔ یہی وہ اہم عنصر تھا جس نے JVP/NPP کی کامیابی کی صلاحیت کو محدود کر دیا، جسے پہلے ہی ان کے مشتبہ ماضی نے روک رکھا ہے۔

دسانائیکے نے ان لوگوں کو یقین دلایا ہے جو واقعی فیصلہ سازی کرتے ہیں، یعنی سرمایہ داروں کو، کہ اس کا پروگرام ذمہ دارانہ ہو گا، جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا احترام شامل ہو گا، اور شاید قرض کی تنظیم نو کے سخت پہلوؤں میں سے کسی ایک یا دو میں ترمیم کی جائے گی، لیکن دوسری صورت میں یہ یقینی بنائے گا کہ قرض دہندگان اپنی رقم حاصل کریں۔

پارٹی کے پروگرام کا تمام زور ”بدعنوانی کے خلاف لڑائی“ اور ”گُڈ گورنینس“ پر ہے۔ سیاسی بدعنوانی کو ختم کر کے، جو کہ سری لنکا جیسے ملک میں عام ہے، AKD نے عوام کو یقین دلایا کہ اس کی حکومت تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، اور کچھ سماجی پروگراموں میں سرمایہ کاری کر سکے گی، تاکہ سخت اقتصادی اقدامات کے اثرات کو کم کیا جا سکے، جبکہ عوامی مالیات اور اقتصادی استحکام کی بحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔

یہ بالکل بے معنی ہے۔ سری لنکا کا موجودہ بحران عالمی سرمایہ داری کے عمومی بحران کا نتیجہ ہے۔ اقتصادی بحالی صرف اسی وقت ہو گی جب کٹوتیوں اور مزدور طبقے پر حملوں کے ذریعے مزدوری کے اخراجات کو اس ذلت آمیز حد تک کم کر دیا جائے کہ بین الاقوامی سرمائے کو اچھے منافع کی ضمانت دی جا سکے۔

دسانائیکے کا پروگرام، جو کہ عوام کے غیض و غضب کو سرمایہ داری کی بجائے ”بدعنوانی“ کی طرف متوجہ کرتا ہے، آئی ایم ایف اور بڑے قرض دہندگان کے کانوں کے لیے خوشگوار شادیانہ ہے۔ لیکن پھر بھی یہ لوگ اس بات سے ڈرتے ہیں کہ عوام، جو کہ پرانی حکمران اشرافیہ کے خلاف اپنے دیے گئے دھچکے سے اعتماد حاصل کر چکے ہیں، ایسی توقعات رکھیں گے جو NPP کے کھوکھلے پروگرام سے کہیں آگے ہوں گی۔

یہی مسئلہ ہے جب آپ کا پروگرام کھوکھلا ہو: عوام اس میں اپنے تصور کے مطابق کسی بھی قسم کا مواد بھر سکتے ہیں۔

مستقبل کے امکانات

آگے کیا توقع کی جا سکتی ہے؟ سب سے پہلے، JVP /NPP کو اس فتح کے بعد اپنی طاقت کو مستحکم کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑے گی۔ AKD نے پارلیمنٹ تحلیل کر دی ہے اور نئے پارلیمانی انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ یہ ایک مقبول اقدام ہے۔ راجاپکشا کے زیرِ تسلط سابقہ پارلیمنٹ ملک کے حقیقی جذبات کے ساتھ بالکل مطابقت نہیں رکھتی۔

لیکن NPP کے سامنے متعدد رکاوٹیں ہیں۔ دسانائیکے کی فتح اتنی قائل کرنے والی نہیں تھی جتنی کہ انہیں امید تھی۔ تمام مذکورہ وجوہات کی بنا پر، وہ حقیقت میں 1978ء کے بعد وہ پہلا سری لنکن صدر ہے جو 50 فیصد سے زیادہ پہلے نمبر کے ترجیحی ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

یہ صورتحال اس کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔ اگر NPP آنے والے پارلیمانی انتخابات میں ممبران پارلیمنٹ کی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، جو کہ یقینی نہیں ہے، تو فوری طور پر ایک بحران سر اٹھا سکتا ہے۔ اگر یہ سب سے بڑی پارٹی کے طور پر ابھرتی ہے لیکن اکثریت سے محروم رہتی ہے تو یہ یا تو مکمل طور پر حکمرانی کرنے میں ناکام ہو گی، روزِ اول سے بحران زدہ حکومت، یا یہ اتحاد میں شامل ہونے پر مجبور ہو گی۔

لیکن یہ اتحاد کس کے ساتھ کیا جائے گا؟ غالباً ان ہی غلیظ، موروثی پارٹیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ، جن کی بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ان کا انسدادِ بدعنوانی پروگرام بکھر جائے گا۔

پرانی حکومتی اشرافیہ اب اپنے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیے آنے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ایک ہو رہی ہے۔ رانیل وکرما سنگھے کی UNP اس وقت ساجد پریماداسا کی SJB کے ساتھ مشترکہ طور پر پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے پر بات چیت کر رہی ہے۔

وہ ہر ممکن کوشش کریں گے۔ AKD اور JVP/NPP بھی ایسا ہی کریں گے۔ انہیں اس بات کا نقصان ہے کہ ان کے پاس وسیع پیمانے پر موروثی سیاست سے جڑے پرانے کارکنان پر مبنی پارٹی مشین نہیں ہے۔ ہم AKD کی جانب سے پارٹی کی جیت کے امکانات بڑھانے کے لیے چند علامتی اقدامات کی توقع کر سکتے ہیں، جیسے کہ حال ہی میں تمام عالیشان وزارتی گاڑیوں کی واپسی کا اعلان، جو حکومتی اشرافیہ کی عیش و عشرت کی علامت ہیں۔

لیکن JVP/NPP کے لیے اصل مسئلہ اس وقت شروع ہو گا جب وہ واقعی یہ انتخابات جیت جائیں اور اکثریت حاصل کریں۔ یہ فتح دو سخت سالوں کے بعد عوام کے حوصلے کو بڑھا چکی ہے۔ وہ نئی حکومت پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ کچھ ایسا فراہم کرے جو سابقہ بدعنوان حکومت کے سب سے بدعنوان افراد کی گرفتاری جیسے علامتی اقدامات سے بڑھ کر ہو۔

ان کا ارادہ غیر ملکی سرمایہ داروں اور داخلی اشرافیہ کی دولت کے خلاف کارروائی کرنے کا نہیں، جنہوں نے واقعی ملک کو دیوالیہ کر دیا ہے۔ اس دوران، آئی ایم ایف کے پاس واپس جانے کے لیے بہت دباؤ ہو گا تاکہ قرض کی تنظیم نو پر دوبارہ مذاکرات کیے جا سکیں اور سخت ترین کٹوتیوں کی شرائط کو ختم کیا جا سکے۔

پارٹی نے اس سوال پر ایک غیر واضح مؤقف برقرار رکھا ہے۔ انہیں یقیناً یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آئی ایم ایف سے بہتر شرائط کی توقع نہیں کر سکتے، جبکہ یہ عوام کی شدت سے خواہش ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف اس کا متحمل ہو سکتا ہے، لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر، وہ رانیل وکرماسنگھے کی رخصت ہونے والی حکومت کے ساتھ طے پائے گئے معاہدے کے بعد کوئی مزید رعایت نہیں دے سکتے۔ ایسا کرنا دنیا کے درجنوں ممالک میں موجود دیوالیہ پن کا سامنا کرنے والے مظلوم عوام کے لیے ایک طاقتور پیغام بھیجے گا، کہ انقلاب مثبت نتائج دیتا ہے۔

ان لوگوں کے لیے جو ایمانداری سے یہ خیال رکھتے ہیں کہ AKD اور JVP/NPP کامیابی سے ایک معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کر سکتے ہیں، ہم یونان کی مثال پیش کرتے ہیں۔

وہاں، یونانی عوام نے سائریزا کی بائیں بازو کی حکومت کو منتخب کیا جس کا پروگرام AKD کے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کی شرائط پر دوبارہ مذاکرات کے پروگرام سے کئی درجے کم مبہم تھا۔ مذاکرات کے بعد، جن میں سائریزا نے عوام کو متحرک کرنے کی ہمت کی، آئی ایم ایف نے یونانی عوام کو سرکشی کی سزا دینے کے لیے بہت سخت شرائط عائد کیں، اور سائریزا ہار مان گئی۔ اس غداری کے نتیجے میں، یونانی سرمایہ داروں کی روایتی جماعت، دی نیو ڈیموکریسی، دوبارہ اقتدار میں آنے میں کامیاب رہی۔

سری لنکا کی حکومت کو بھی ”اچھے ارادوں“ کی بنیاد پر آہ و بکا کر کے ان سامراجی اداروں اور خون چوسنے والے قرض دہندگان کی خیر سگالی حاصل کرنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔

اے کے ڈی کی انتخابی فتح 2022ء کے سری لنکن انقلاب کا ایک پھل ہے۔ راجاپکشا خاندان اور رانیل وکرما سنگھے کے دور میں، حکمران طبقے نے زبردست جبر کے ذریعے حکمرانی کرنے کی کوشش کی۔ اب، JVP/NPP کے ذریعے، وہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے اور میٹھے وعدوں اور ابہامات کے ذریعے حکمرانی کرنی ہو گی۔ اپنے صدر کے طور پر افتتاحی تقریر میں، AKD نے کہا: ”ہمارے لوگ ہر روز سورج نکلنے پر ایک خواب دیکھتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ”کل آج سے بہتر ہو گا!“

جی ہاں، یہ واقعی دلکش الفاظ ہیں، اور یہ سری لنکن عوام کی بہت ہی معمولی امید کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن آپ کی پارٹی کا پروگرام ایسی کسی چیز کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام، جس کا تم دفاع کر رہے ہو، صرف ایک تاریک تر مستقبل کا وعدہ کرتا ہے۔

سری لنکا کے محنت کش طبقے کو وعدوں اور میٹھے الفاظ کے نئے دور سے گزرنا ہو گا، جس سے اس کی قیادت مزید انقلابی نتائج اخذ کرے گی۔ نہ صرف پرانی سیاسی پارٹیاں بلکہ پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہو گا۔

صرف قرض کی ضبطگی اور مقامی حکمران طبقے اور غیر ملکی سرمائے کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی عوام اس ڈراؤنے خواب سے نجات پا سکتے ہیں جس میں انہیں دھکیلا گیا ہے۔ یہ راستہ، جو صرف باشعور محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک انقلابی پارٹی ہی اختیار کر سکتی ہے، پورے برصغیر میں سوشلسٹ انقلاب کی راہ ہموار کرے گا۔ یہ پورا خطہ اس وقت انقلابی غصے سے اُبلتی ہوئی ایک بھٹی ہے۔

Comments are closed.