|تحریر: یاسر ارشاد|
3 فروری کو اسلام آباد کے ایک پر تعیش ہوٹل میں کشمیر پر منعقد ہونے والی ایک آل پارٹیز کانفرنس کے دوران صحافی حامد میر کی ایک تقریر کے مواد نے مسئلہ کشمیر کے مستقبل کی بحث کو کچھ گرما دیا ہے۔ اس کانفرنس کا انعقاد جماعت اسلامی کے زیر اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستان کی سبھی بڑی پارٹیوں کے نمائندے موجود تھے۔ حامد میر کی تقریر کا مواد ایسا کچھ نیا بھی نہیں تھا اگرچہ گزشتہ برسوں کے دوران ارباب اختیار کے کچھ اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں ہونے والی گفتگو کو ایسے وقت سامنے لایا گیا جب اس کی نہ تو کوئی ضرورت باقی بچی تھی اور نہ ہی اس میں کوئی صحافیانہ سنسنی کے لیے مواد باقی تھا۔ لیکن موصوف کی جھنجلاہٹ اور فرسٹریشن قابل ذکر بھی تھی اور ایسا بہت کچھ بتا بھی رہی تھی جو حامد میر نہیں بتا سکتا۔ حامد میر نے ایک انکشاف یہ کیا کہ 5 اگست 2019ء سے دو یا تین دن پہلے سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ میں وزیر اعظم آزاد کشمیر کو بلا کر یہ بتا دیا گیا تھا کہ ہندوستان اپنے زیر قبضہ علاقے کے حوالے سے کیا اقدامات کرنے جا رہا ہے اور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے ہندوستان کے ان اقدامات کا توڑ کرنے کے لیے کچھ تجاویز بھی دیں جنہیں رد کر دیا گیا اور انہیں بھی خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ حامد میر نے پاکستان کی حکومت اور بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے گلگت کو عبور ی صوبہ بنانے کے عمل کو بھی آئین پاکستان کی شق نمبر 257 کی صریحاً خلاف ورزی قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی آزادکشمیر کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی اور کنٹرول لائن کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی پر اتفاق رائے کے لیے جاری کوششوں کا بھی ذکر کیا گیا۔ ہندوستانی مقبو ضہ کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد یہ واضح ہو گیا تھا کہ کشمیر پر اسٹیٹس کو ٹوٹ چکا ہے اور اس فیصلے میں پس پردہ پاکستانی حکمرانوں کی رضا مندی ہونے کے حوالے سے بھی گفتگو زبان زد عام تھی۔ ہاں حامد میر کے انکشافات نے محض انہی حقائق کے بارے میں حکمران طبقے کے ان اجلاسوں کا احوال سب کے سامنے بیان کیا جن کو ابھی تک پوشیدہ رکھا گیا تھا اگرچہ حکمرانوں کے عمل سے یہ پہلے ہی واضح ہو چکا تھا۔ حامد میر کی تقریر میں سب سے دلچسپ پہلو وہ دہائیاں تھیں جو اس نے پیپلز پارٹی کے نمائندوں اور کشمیر کے وزیر اعظم کو دیں۔ ایک جانب اس نے پیپلز پارٹی کے نمائندوں کو دہائی دی کہ آپ کی پارٹی بنی ہی مسئلہ کشمیر پر تھی اس لیے آپ مہربانی کر کے کشمیر پر پاکستان کے سابقہ مؤقف کو نہ چھوڑیں اور دوسری دہائی اس نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کو دی، جو اس اجلاس میں موجود نہیں تھے، کہ آپ کی حکومت اب ختم ہونے والی ہے اب تو آپ ہمت کرکے پانچ اگست سے پہلے ہونے والے اس اجلاس کی تفصیلات کو صیغہ راز میں نہ رکھیں۔ اب یہ مسئلہ کشمیر پر سابقہ مؤقف سے ہمدردی تھی یا کشمیر کے وزیر اعظم سے دشمنی بحرحال حامد میر نے راجہ فاروق حیدر کا کشمیر کی سودے بازی میں شریک جرم ہونے کا راز بھی افشاں کر دیا۔
حامد میر کی اس تقریر سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستانی حکمران طبقات کے اکثریتی حصے مسئلہ کشمیر پر مؤقف اور پالیسی میں تبدیلی کے حوالے سے متفق ہیں اور اس جانب پیش رفت میں کچھ ثانوی نوعیت کے اختلافات ہیں جو جلد یا بدیر ختم ہو جائیں گے۔ لیکن خود حامد میر کی مسئلہ کشمیر پر پاکستانی حکمرانوں اور ریاست کے سابقہ مؤقف اور پالیسی سے دلچسپی اور لگاؤ بھی صرف ذاتی یا جذباتی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر بھی حکمران طبقات کے کچھ حصے موجود ہیں جن کی ہدایت پر حامد میر حکمرانوں کے اعلیٰ سطح اجلاسوں کے راز و نیاز کا بھانڈا چوکوں اور چوراہوں میں پھوڑرہا ہے۔ حامد میر کی جھنجلاہٹ اور فرسٹریشن اس بات کا اظہار ہے کہ جس موقف کو قائم رکھنے کی وہ بات کر رہا ہے اس کو حکمرانوں کے حلقوں میں زیادہ پذیرائی نہیں مل رہی اسی وجہ سے اس کے لہجے میں ایک شکست خوردہ تلخی کا عنصر زیادہ حاوی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہونے والی تبدیلیوں کے سلسلے کا جائزہ لیا جائے تو پانچ اگست 2019ء کے اقداما ت اس بات کا اعلان تھے کہ کشمیر پر اب تک چلی آنے والی صورتحال کاخاتمہ ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ تمام فارمولے اور منصوبے جو کشمیر کے مسئلے کا حل بتائے جا رہے تھے وہ بھی تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ بن چکے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے تمام سابقہ فارمولے ایک یا دوسرے طریقے سے اقوام متحدہ یعنی امریکی سامراج کی ثالثی سے جڑے ہوئے تھے۔ پاکستانی حکمران طبقات کا بظاہر مؤقف بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل تھا۔ اسی موقف کی بنیاد پر پاکستان کے حکمران طبقات نے کشمیر پر اپنے قبضے کو منافقانہ جواز فراہم کر رکھا تھا لیکن اب ایک تبدیل شدہ علاقائی اور عالمی صورتحال میں یہ سابقہ مؤقف ریزہ ریزہ ہو کر بکھر رہا ہے اور اندر سے ایک ننگا سامراجی قبضہ بے نقاب ہو رہا ہے۔ حامد میر اینڈ کو کو کشمیریوں کی آزادی یا ان پر ہونے والے ظلم و جبر سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ انہیں صرف اس ننگے پن کو ڈھانپنے کی تھوڑی سی فکر ہے جبکہ زیادہ دکھ مسئلہ کشمیر کی سابقہ حیثیت سے جڑے ان مالی مفادات کا ہے جن کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ پچھلے 73 سالوں سے کشمیری غلامی، تقسیم اور سامراجی ظلم وجبر کے ساتھ پسماندگی، جہالت، غربت اور بے روزگاری جیسے دیگر بے شمار مصائب کا شکار ہیں اور کشمیریوں کے انہیں زخموں کو بیچ کر اپنی تجوریاں بھرنے والے آج ماتم کناں ہیں؟ کشمیری پہلے بھی غلام اور تقسیم تھے اگرچہ یہ درست ہے کہ پانچ اگست کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سامراجی جبر کی جکڑ بندیاں مزید سخت کر دی گئی ہیں لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیری عوام اور نوجوانوں کو آزادی حاصل کرنے کے جن جھوٹے اور پر فریب فارمولوں اور منصوبوں کا آسرا دیا گیا تھا وہ بھی ختم ہو چکے ہیں۔
اسی طرح پاکستانی حکمران طبقات کے چہروں سے بھی کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا جھوٹا نقاب اتر چکا ہے جو جدوجہد آزادی کو درست بنیادوں پر استوار کرنے میں معاونت کرے گا۔ کشمیر کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی ایسے ہی ہے جیسے پہلے اگر کسی قیدی کو جیل میں بند کیا گیا تھا تو اسے اب ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں بھی پہنا دی جائیں۔ کشمیر پر ہند وپاک کے قبضے کے برقرار رہتے انتظامی تبدیلیوں کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے جیل میں قیدی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دی جائیں یا اس کو بالکل ہی قید تنہائی میں رکھا جائے۔ اگرچہ بیڑیاں پہنا دینا یا قید تنہائی میں رکھنا ایک قیدی کی اذیتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیتا ہے لیکن ان اذیتوں کے نہ ہونے کی صورت میں بھی وہ قید ہی ہوتا ہے۔ اب جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات کا ایک حصہ آزاد کشمیر اور گلگت کو صوبہ بنانے کے منصوبے پر جن خدشات کا اظہار کر رہا ہے ان کا تعلق کشمیر کی آزادی سے نہیں ہے نہ ہی ان کو صوبہ نہ بنانے کی صورت میں کشمیر کی آزادی کی جانب کوئی پیش رفت ہو رہی تھی جو اس صورت میں رک جائے گی۔ کشمیر پر سابقہ صورتحال ایک مخصوص عہد میں ہند و پاک کے قبضے کو جاری رکھنے کا ایک طریقہ تھا جو ایک تبدیل شدہ عہد میں ویسے جاری نہیں رہ سکتا تھا اسی لیے لازمی طور پر اس میں بھی تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سابقہ صورتحال میں کشمیرکی تقسیم مستقل نہیں تھی جو اب مستقل ہو جائے گی۔ یہ انتہائی سطحی تجزیہ ہے جس کا جواز صرف یہ ہے کہ سامراجی ممالک یا اداروں نے کشمیر کی متنازعہ حیثیت تسلیم کر رکھی تھی اسی لیے کشمیر کی تقسیم عارضی تھی۔ حقیقتاً اور عملاً فرق صرف یہ تھا کہ سات دہائیوں میں اس کو متنازعہ تسلیم کرتے ہوئے جس قبضے اور تقسیم کو برقرار رکھا گیا تھا اسی قبضے اور تقسیم کو قائم رکھا جا رہا ہے لیکن اس کو متنازعہ تسلیم کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ سبھی لوگ جو اس نئی صور ت میں تقسیم کو مستقل اور پہلے والی صورت کو عارضی سمجھتے ہیں وہ سامراجی ممالک اور اداروں کی منافقانہ بیان بازی اور سفارت کاری پر نہ صرف اندھا یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ انہی کے ذریعے آزادی کے حصول کا خواب دیکھ رہے تھے۔ کشمیر کے عوام ہند و پاک کے سامراجی قبضے کے خلاف ایک انقلابی جدوجہد کے ذریعے آزادی حاصل کر سکتے ہیں جس میں ان کی حمایت صرف اور صرف ہندو پاک کے محنت کش طبقات کر سکتے ہیں۔ پانچ اگست سے پہلے بھی آزادی کا راستہ یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔
اسی طرح گلگت کو صوبہ بنائے جانے یا آزادکشمیر کی انتظامی حیثیت میں تبدیلی لانے سے آزادی کی جدوجہد کے حوالے سے کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا۔ سامراجی ممالک کے یہ فیصلے جابرانہ اور غیر قانونی ہیں جن کی مذمت کرنا ضروری ہے لیکن یہ فیصلے خود سامراجی قبضے سے زیادہ مکروہ نہیں ہیں جس کی بنیاد پر یہ تما م فیصلے کشمیریوں پر مسلط کیے جاتے ہیں۔ اس لیے تمام خرابیوں کی اصل جڑ ایک یا دوسرا جابرانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ وہ سامراجی قبضہ ہے جس کے مکمل خاتمے تک یہ عمل جاری رہے گا۔
دوسری جانب اگر سامراجی ریاستوں کے حکمران طبقات کا کوئی ایک دھڑا کسی نئے فیصلے کی مخالفت کرتا ہے تو اس کا تعلق محکوموں کی غلامی سے نہیں ہوتا بلکہ وہ محض ایسا اپنا گروہی مفادات اور مقاصد کے پیش نظر کرتا ہے۔ درحقیقت پاکستان کے حکمران طبقات اور سرمایہ دارانہ ریاست سرمایہ داری نظام کے عالمی زوال اور تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی و علاقائی صورتحال کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش میں بے شمار تضادات کا شکار ہیں۔ عالمی سطح پر اور اس خطے میں طاقتوں کے توازن میں تیز ترین تبدیلیوں کے وقوع پذیر ہونے کا عمل جاری ہے اور اسی کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کی سابقہ حیثیت بھی تبدیل ہو چکی ہے مگر نئی صورتحال کو اپنا لینا پاکستانی حکمرانوں کے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو بھارت دشمنی اور کشمیر کی آزادی پر استوار کیا گیا تھا لیکن اب حالات یکسر بدل چکے ہیں جس میں کشمیر پر پرانے موقف کو قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ دوسری جانب نئے موقف کو اپنا نے سے ان نظریاتی بنیادوں کو شدید دھچکا لگ رہا ہے جس پر حکمران طبقات کے کچھ حصوں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ تمام صورتحال کا اہم پہلو یہ ہے کہ اس پورے خطے میں محنت کشوں، کسانوں، غریب عوام اور نوجوانوں کی انتہائی جرات مندانہ تحریکوں کا آغاز ہوچکا ہے۔ سیاسی عمل میں متحرک نوجوان اس عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ جدید نظریات کو محنت کشوں، کسانوں اور عوام کی وسیع تر پرتوں تک لے جاتے ہوئے برصغیر کے کسی بھی ایک حصے سے اس استحصالی نظام کے خاتمے کا آغاز کرتے ہیں تو یہ پورے بر صغیر سے سرمایہ داری کے خاتمے کا نقطہ آغاز بنے گا۔ کشمیر کے ہر حصے کے نوجوانوں کا بھی یہی تاریخی فریضہ ہے کہ وہ اپنی قومی آزادی کی لڑائی کو اس نظام کے خاتمے کی طبقاتی جنگ میں تبدیل کریں۔ کشمیریوں کی آزادی و نجات کا یہی واحد راستہ ہے!