|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: اختر منیر|
سپین کی سوشلسٹ پارٹی (PSOE) کا لیڈر پیڈرو سانچز بدعنوان میریانو راخوئے کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں ہرا کر وزیراعظم بن گیا ہے۔ سانچز نے کچھ سطحی سی تبدیلوں کا وعدہ تو کیا ہے مگر وہ راخوئے کی پاپولر پارٹی (PP) کے پیش کیے گئے بجٹ کو قائم رکھے گا۔ اس نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ ’’معاشی اور مالی ذمہ داری‘‘ اور ’’یورپی فرائض‘‘ احسن طریقے سے نبھائے گا۔
To read this article in English, click here
گرٹیل(Gurtel) کرپشن سکینڈل کا فیصلہ آنے کے بعد حکمران جماعت PP کی ساکھ گر گئی اور PSOE نے اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد دائر کر دی۔ پارلیمنٹ میں سوشلسٹ گروپ کے محض 84 ممبران تھے اور راخوئے کو شکست دینے کے لیے سانچز کو 176 ووٹ درکار تھے۔ بالآخر وہ 180 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ بائیں بازو کے گروپ یونیڈوس پوڈیموس (جس میں پوڈیموس، یونائیٹڈ لیفٹ اور کیٹالان اور گلیشین کے بائیں بازو کے اتحاد شامل ہیں) نے شروع ہی سے اپنے 67 ووٹوں کے ساتھ تحریک کی حمایت کا وعدہ کیا تھا۔ ERC اور PDECAT کے کیٹالانی قوم پرستوں نے بھی حمایت کا اعلان کیا۔
سانچز کو ابھی بھی باسک قوم پرست پارٹی PNV کے فیصلہ کن ووٹ درکار تھے، جنہوں نے ایک ہفتہ قبل سرمایہ کاری کی شکل میں مراعات لے کر PP اور سیوددانوس کے پیش کردہ بجٹ کی حمایت میں ووٹ ڈالے تھے۔ سانچز نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2018ء کے بجٹ کو نہیں چھیڑے گا، جس کی پچھلے ہفتے اس کے گروپ نے مخالفت کی تھی۔ PNV کی تحریکِ عدم اعتماد کی حمایت کے اعلان کے ساتھ ہی راخوئے کی قسمت کا فیصلہ ہو گیا۔
سانچز کی اقلیتی حکومت
اس موقع پر بھی پاپولر پارٹی(PP) کے پاس بچنے کا راستہ موجود تھا۔ اگر راخوئے استعفیٰ دے دیتا تو تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری نہ ہونے پاتی اور پارلیمنٹ کو نئے سرے سے حکومت بنانے کے عمل کا آغاز کرنا پڑتا۔ کل (ایک روز قبل) سہ پہر PP کے جنرل سیکریٹری کوسپیڈل نے اعلان کیا کہ راخوئے استعفیٰ نہیں دے گا۔ اس صورتحال میں تحریک عدم اعتماد کے ہی نتیجے میں پیڈرو سانچز وزیراعظم بن گیا اور اب اسے حکومت بنانا ہو گی۔
حکمران طبقے کی کبھی بھی یہ خواہش نہیں تھی۔ پیڈرو سانچز کے پاس 350 میں سے محض 84 ممبرانِ پارلیمنٹ ہیں اور اس نے بمشکل اکثریت حاصل کی ہے۔ وہ جو بھی پالیسیاں لاگو کرنا چاہے گا اسے ہر مرتبہ ہر معاملے پر پوڈیموس اور کیٹالان یا باسک قوم پرستوں سے جوڑ توڑ کرنا پڑے گا۔ سیوددانوس کے لیڈر البرٹ ریورا نے اسے ’’راکشس حکومت‘‘ قرار دیا۔ ظاہر ہے کہ دایاں بازو ایک ایسی حکومت کو دیکھ کر پاگل ہوا جا رہا ہے جس میں ’’انتہا پسند بائیں بازو‘‘ کی جماعت پوڈیموس، ’’جو سپین کو توڑنا چاہتے ہیں‘‘ (ERC اور PDECAT) اور ’’دہشت گردوں کے دوستوں‘‘ (باسک کی بائیں بازو کی قوم پرست پارٹی EHBildu نے بھی راخوئے کے خلاف ووٹ دیا) کے ووٹ شامل ہیں۔
PSOE کی اقلیتی حکومت کو دائیں بازو کی جانب سے خوفناک مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ابھی تک PP کے پاس سینیٹ میں مجموعی اکثریت موجود ہے جس کے بل پر انہیں قانون میں ترمیم یا اسے مسترد کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ یہ عدم استحکام کا باعث بنے گا۔
راخوئے کے کارآمد نہ رہنے کے بعد حکمران طبقے کی یہ خواہش رہی ہو گی کہ سانچز جلد از جلد قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرے جس سے کوئی مستحکم اتحاد تشکیل پا سکے جو ان کی ضرورت کے مطابق پالیسیاں لاگو کرے۔ یہ انتہا پسند لبرل جماعت سیوڈڈانوس کے لیے بھی بہتر راستہ ہے جو اس وقت رائے عامہ کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔ کچھ وقت سے حکمران طبقے کے کچھ دھڑے PP کی جگہ PSOE اور سیوڈڈانوس پر مشتمل کسی قسم کے اتحاد کو لانے سے متعلق ذہنی قلابازیاں لگا رہے ہیں۔
فوری طور پر انتخابات کروانا یقینی طور پر پیڈرو سانچز کے مفادات کے خلاف ہے کیونکہ رائے عامہ کے مطابق PSOE کی صورتحال بہت بری ہے۔ شیڈول کے مطابق اگلے انتخابات 2020ء میں ہوں گے، اس سے پہلے 2019ء میں علاقائی اور بلدیاتی انتخابات کا ایک دور ہو گا۔ سانچز نے کہا ہے کہ وہ اقلیتی حکومت بنائے گا مگر ایک مباحثے کے دوران اس نے قبل از وقت انتخابات کا بھی وعدہ کیا ہے۔ وہ شاید کچھ وقت عہدے پر رہ کر اپنی مقبولیت میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اور اس کی خواہش ہے کہ انتخابات تب کروائے جائیں جب یہ اس کے لیے موافق ہوں۔
دکھاوے کی اصلاحات
اس کا مطلب یہ ہے کہ شاید وہ کچھ دکھاوے کی اصلاحات کرے گا جن پر بہت کم یا بالکل پیسہ خرچ نہ ہو اور بنیادی مالیاتی پالیسی جوں کی توں چلتی رہے گی۔ وہ پہلے سے ہی دائیں بازو کے 2018ء کے بجٹ کو قائم رکھنے کا پابند ہے جس کی اس نے پچھلے ہفتے مخالفت کی تھی۔ اس کے علاوہ مالیاتی ذمہ داری اور یورپ سے متعلق اس کی کرائی گئی یقین دہانی کا واضح مطلب یہ ہے کہ کٹوتیوں اور ’’کفایت شعاری‘‘ کی پالیسیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آئے گی، جن میں 2014ء کے بعد سپین کی معاشی بڑھوتری کی وجہ سے معمولی کمی آئی ہے۔
PSOE کی اقلیتی حکومت بننے کے قریب آتے ہی ’’منڈیوں‘‘ میں مثبت رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ گولڈمین ساکس نے بیان جاری کیا ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے سرمایہ کاروں کو ’’پریشان‘‘ نہیں ہونا چاہیے۔ سٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی جو جمعرات کو بند ہونے کے مقابلے میں 2 فیصد اوپر گئی۔ ادھار لینے کی قیمت میں 100 پوائنٹس کی کمی آئی۔
اپنے سینے پر ترقی پسند ہونے کا تمغہ سجانے کے لیے ممکن ہے کہ وہ ’’Gag Law‘‘ کے کچھ سب سے غیر جمہوری پہلوؤں کا خاتمہ کر دے، تنخواہوں میں صنفی تفاوت کے خلاف کچھ اقدامات کرے اور یہاں تک کہ پنشنرز کی جانب بھی کچھ ٹکڑے اچھال دے جو پچھلے کچھ ماہ سے سڑکوں پر ہیں۔
کیٹالان کے خود ارادیت کے نازک مسئلے پر اس نے کہا کہ وہ کیٹالان کے نئے صدر قویم ٹورا سے ’’مذاکرات کی راہیں‘‘ کھولے گا مگر ہمیشہ ’’آئین اور کیٹالان کی خودمختاری کے قانون کی حدود میں رہتے ہوئے‘‘۔ ٹورا کی حکومت نے اپنے تمام جیل یا جلاوطنی میں موجود وزیروں کو تبدیل کر کے پہلے ہی سپین کی حکومت کی طرف سے بنائی گئی تمام حدود کو تسلیم کر لیا ہے۔ یہ درحقیقت یکم اکتوبر کے آزادی ریفرینڈم اور 21 دسمبر کے کیٹالان انتخابات میں عوام کی طرف سے دیے گئے مینڈیٹ کے ساتھ غداری ہے۔
ٹورا کو جمہوریہ کیٹالان کے وعدے پر منتخب کیا گیا تھا مگر ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی ہوئے ہیں کہ اس نے سپین کے آئین کی غیر جمہوری حدود کو قبول کر لیا ہے۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو کسی بھی قسم کے مذاکرات اس بات کی علامت ہوں گے کہ سپین کی حکومت فی الحال کیٹالان کے مسئلے سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے۔
پارلیمنٹ میں یونیڈوس پوڈیموس گروپ نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا ’’ہاں ہم کرسکتے ہیں‘‘ کے نعروں کے ساتھ خیرمقدم کیا اور پابلو اگلیسئیس نے پیڈرو سانچز کو انہیں حکومت میں شامل کرنے کا کہا:
’’میں امید کرتا ہوں کہ سانچز یہ بات جانتا ہے کہ 84 ممبران کے ساتھ حکومت کرنا تقریباً ناممکن ہے اور سپین کو ایک مستحکم حکومت کی ضرورت ہے جو یورپی یونین کو اعتماد میں لے سکے کہ وہ ایک ترقی پسند حکومتی پروگرام نافذ کر سکتی ہے اور اس کے لیے کم از کم 156 ممبران پر مشتمل اکثریت درکار ہو گی۔‘‘
یہ ایک گھمبیر غلطی ہے۔ ایک حکومت جو ’’یورپی یونین کو اعتماد میں لے‘‘ وہ کبھی بھی ’’ترقی پسند پروگرام‘‘ لاگو نہیں کر سکتی۔
عوامی جدوجہد سے کٹوتیوں کو شکست دو!
قابلِ نفرت، رجعتی اور بدعنوان PP حکومت کو گرانے کے لیے ووٹ دینا یقیناً ایک درست عمل تھا۔ راخوئے حکومت کے خاتمے پر خوشی منانی چاہیے۔ مگر ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ تمام اہم معاملات میں اس نے PSOE کی حمایت پر ہی انحصار کیا ہے۔ ایسا تب ہوا جب اس نے کیٹالان کے لوگوں کے جمہوری حقوق پامال کیے۔ تب بھی ایسا ہی ہوا کہ جب PP اور PSOE نے مل کر جلدی سے آرٹیکل 135 میں ترمیم کر ڈالی تاکہ مالیاتی کٹوتیوں کو آئین میں ٹھونسا جا سکے۔
اس بات کا فیصلہ پارلیمانی دباؤ کے ساتھ گلیوں اور سڑکوں پر عوام کی تحریک سے ہی ہو گا کہ PSOE کی حکومت سے کتنی مراعات چھینی جا سکتی ہیں۔ پورے ملک میں محنت کش عوام راخوئے کو ہٹائے جانے کا خیر مقدم کریں گے۔ کچھ غلط فہمیاں بھی ہوں گی کہ پیڈرو سانچز اہم تبدیلیاں لے کر آ سکتا ہے۔ یہ ایک ضروری تجربہ ہے۔
بائیں بازو کو ایسی خوش فہمیاں نہیں پالنی چاہیں بلکہ منظم ہوتے ہوئے اس تحریک کا آغاز کرنا چاہیے کہ PSOE حکومت معاشی پالیسی، جمہوری آزادی اور دوسرے معاملات میں حقیقی تبدیلی لے کر آئے۔ صرف عوام کا منظر عام پر آنا ہی پارلیمانی حساب کتاب میں بنیادی تبدیلی لا سکتا ہے۔
راخوئے کو شکست ہو گئی ہے۔ اس کی پالیسیوں کو صرف عوامی جدوجہد سے شکست دی جا سکتی ہے۔