|تحریر: سوزانا لوپیز اور اورا اوربے، ترجمہ: مشعل وائیں|
(یہ آرٹیکل Lucha De Clases کی جانب سے ( جو کہ آئی ایم ٹی کا ہسپانوی سیکشن ہے) خواتین کے عالمی دن سے پہلے لکھا گیا۔ اس سال بھی 8مارچ کو پورے سپین کے طول و عرض میں عورتوں کے حقوق اور جبر کے خلاف مظاہرے ہوئے جس میں لاکھوں مردوخواتین اور طلبہ نے شرکت کی۔)
8 مارچ خواتین کے عالمی دن پر یونینز کی جانب سے ایک مرتبہ پھر عام ہڑتال کا قانونی نوٹس جاری کیا گیا ہے جس کی کال فیمینسٹ تحریک کی طرف سے دی گئی ہے۔ پچھلے چند ماہ سے سپین کے طول و عرض میں زور وشور سے تیاریاں جاری تھیں اور امید کی جارہی ہے کہ یہ 2018 کے احتجاج سے زیادہ کامیاب احتجاج ہوگا۔
معاشی طور پر متحرک خواتین کی آبادی مرد وں سے تقریباً گیارہ اعشاریے کم ہے، اورباقی 90 فیصد جو کہ غیر متحرک ہیں ان کی اس صورتحال کا سبب یہ ہے کہ وہ گھریلو کام کر ر ہی ہیں۔ جز وقتی کام کرنے والوں میں 73 فیصد اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے رخصت لینے والے افراد میں 90فیصد خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ، مردوں میں بے روزگاری کی شرح 12.87 فیصدہے جبکہ عورتوں کے لیے یہ شرح 16.26 فیصد ہے ۔
محض چند اعداد و شمار ہی یہ دکھانے کے لیے کافی ہیں کہ عورتیں آج بھی مردوں کی نسبت نہایت غیر موافق صورتحال میں موجود ہیں، اور بطور محنت کش اور بطورعورت دہرا جبر برداشت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عورتوں نے اس جبر کو مزید برداشت کرنے سے انکار کردیا ہے اور 8 مارچ کا دن اب پورے سال کی جدوجہد کے اہم دنوں میں سے ایک ہے ۔
روزگار کی تلاش ہو یا کام کی جگہیں، محنت کش عورتوں کو ہر طرح کے تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر اگر ہم(خواتین) بچے پیدا کرنے کی عمر میں ہیں، جو کہ مالکان ہماری محنت پر اضافی اخراجات تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی ملٹی نیشنل کار پوریشنز نے ہمیں یہ ’’موقع‘‘ فراہم کرنا شروع کردیا ہے کہ ہم اپنی زندگی کے بیش قیمتی سالوں میں اپنی تولیدی قوت کو منجمد کر دیں تاکہ کام کاج کو جاری رکھا جاسکے اور اس کے بجائے ہم چالیس سال کی عمر کے بعد ماں بنیں، جب ہمارے پیشہ ورانہ کیریر مستحکم ہو جائیں۔ وہ ہمیں اس بات پر قائل کرتے ہیں کہ یہی آزادی ہے، لیکن حقیقت میں یہ صرف کاروباری مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔
وہ کمپنیاں جو محنت کش عورتوں کو یہ استحقاق دے رہی ہیں ان کی تعداد اب بہت کم ہے لیکن کیا وہ انہیں ماں بننے کی صلاحیت کو چھوڑنے پر مجبور بھی نہیں کر رہے؟ ظاہر ہے ہم اس حوالے سے تمام عورتوں کے فیصلوں کی حمایت اور عزت کرتے ہیں لیکن ہم جدیدیت کے بھیس میں اس پھندے کی مذمت کرتے ہیں، جس میں محنت کش خواتین کوایک زندگی منتخب کرنا پڑتی ہے کہ یا تو وہ خود کو گھریلو کام اور خاندان کے لیے وقف کردیں، یا اپنی خاندانی زندگی کو چھوڑ کہ دوسروں کے لیے منافع کمائیں، یا بیک وقت اپنے کام اور خاندان دونوں کی غلام بن جائیں۔ مختصر یہ کہ، ہمیں دو لاینفک نظاموں میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے: پدر سری اور سرمایہ داری۔
سرمایہ دارانہ نظام ہماری ساری پیداواری پوٹینشل کو کام کے لمبے اوقات کار سے نچوڑ لیتا ہے، عارضی نوکریاں ایک عام انسان کے لیے یہ نا ممکن بنا دیتی ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرسکے ، اور کام کی ایک ہی چال زندگی کی سست روی کو گہرا کرتے ہیں۔ جیسے ہی ایک عورت ماں بنتی ہے، اس کی عملی زندگی میں کی رکاوٹیں کئی گنا ہو جاتی ہیں۔ کام کرنے کے اوقاتِ کار میں کمی یا زچگی کی رخصت کا اصل مطلب سوشل سیکیورٹی کی مد میں ملنے والے وظیفے میں نمایاں کمی ہے، جس کے مستقبل میں پنشنز پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کیا ہم حقوق کی بات کر سکتے ہیں، جب ہمیں مجبور کیا جاتا ہو کہ آیا ہم نے بچے پیدا کرنے ہیں یا اپنی موجودہ تنخواہ(اجرتوں) اور (مستقل کی )پنشن کو برقرار رکھنا ہے؟
جارحیت کے خلاف بے بسی
لیکن ہمیں کام کی جگہوں پر اس دہرے جبر کو ہرگز برداشت نہیں کرنا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 2018ء میں صنفی تشدد کے 125,233واقعات پولیس میں درج ہوئے اور47 عورتوں کو قتل کی گئیں۔ اس کے علاوہ 2017ء میں ریپ کی2219 رپورٹس درج کی گئیں جن میں سے صرف 68 فیصد کی تحقیقات کی گئی۔
ہم ایک بے یار و مددگار کی سی صورتحال کا سامنا ہے جب ہم پر جسمانی، نفسیاتی اور جنسی طور پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ اس کا واضح اظہار ’’ دا وولف پیک‘‘ (The Wolf-pack)کیس سے ہوا جب گینگ ریپ کا نشانہ بنی ایک جوان عورت نے فرانکو آمریت سے ورثے میں ملے اس عدالتی نظام کو چیلنج کیا جس میں بلادکار کو بھی محض جنسی ہراسانی تصور کیا جاتا ہے۔ یاد کریں، ملزمان میں ایک سپاہی اور ایک سول گارڈ بھی شامل تھا ۔ان تمام کو جون 2018میں ضمانت پر رہا کردیا گیا، کیونکہ کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا اور ناوار کی عدالت یہ سمجھتی تھی کہ ثبوت مٹانے ، بھاگنے یا دوبارہ جرم کرنے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔ یہ انتہائی شرمناک ہے کیونکہ وولف پیک کے پانچ میں سے چار افراد ایک اور مقدمے میں نامزد تھے جس میں ان پر پوزوبلانکو کی ایک اور خاتون کو جنسی ہراسانی کے الزامات ہیں۔
خوانا ریواس نامی خاتون کا مقدمہ بھی ہمارے سامنے ہے جس پر ’’بچوں کو اغوا‘‘ کرنے کا الزام تھا، اس وقت جب وہ باپ کی مرضی و منشا کے بغیر اپنے دو بچوں کے ساتھ سپین چلی آئی، وہی باپ جس کو 2009ء میں اس کے ساتھ بدسلوکی کا مجرم ٹھہرایا گیا تھا۔ اس نے 2016ء میں دوبارہ اپنے سابقہ پارٹنر کی جانب سے تشدد کی شکایت کی ، مگر ترجمے کی شہولت نہ ہونے کے باعث اس درخواست کو اٹلی بھیج دیا گیا تھا اور پھر داخل دفتر کردیا گیا۔ اب، خوانا ایواس کے بچے ایک سال سے اپنے باپ کے ساتھ رہ رہے ہیں اور ان کی کفالت کے کیس کی تاحال شنوائی نہیں ہوسکی۔
محنت کش عورتیں، تارکین وطن یا وہ جو کم اجرت پر کام کر رہے ہیں، ان کو پولیس اور ججوں کے ہاتھوں مردانہ تعصبات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو کہ اکثر کیسوں میں ہماری شکاییات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ یہ چند مقدمات اس نام نہاد انصاف کے نظام کی اصلیت کا پردہ چاک کرنے کے لیے کافی ہیں: حکمران طبقے کے بنائے ہوئے نظام کا تحفظ۔
غریب عورتوں کی کمو ڈیفیکیشن
اگر ہم عورت پرجبر کی بات کریں تو ہم غلامی کی سب سے بدترین شکل کو ہرگز نظرانداز نہیں کر سکتے جس کا خواتین کو سامنا کرنا پڑتا ہے یعنی جسم فروشی۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 1لاکھ سے زائد عورتیں جسم فروشی پر مجبور ہیں جس کی وجہ انسانی سمگلنگ یا بدترین حالات زندگی ہیں۔ مارکسسٹ ہونے کے ناطے ہم جسم فروشی کو قانونی قرار دینے کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ اس کا مطلب ہزاروں عورتوں کی غلامی کو قانونی جواز فراہم کرناہوگا بنانا ہوگا جن کے پاس اپنی زندگی کی ڈور کو قائم رکھنے کے لیے اور کوئی چارہ نہیں۔
جسم فروشی کے ساتھ ساتھ گزشتہ سال میں سروگیٹ پریگنینسی کے گرد بھی بحث ابھری۔ اس عمل میں، ایک عورت پیسوں کے عوض اپنی کوکھ بھاڑے پر دیتی ہے جس میں کسی اور ماں باپ کا جنین نمو پاتا ہے۔ کچھ لبرلز سروگیسی کو ایسے جوڑے کے لیے ایک ’’بے غرض اور امدادی‘‘ عمل قرار دیتے ہیں جو خواہش کے باوجود ماں باپ نہیں بن سکتے۔ سٹیزن پارٹی کی رہنماالبرٹ ریویرا کے الفاظ میں، ’’اس سے زیادہ فیمینسٹ عمل بھلا کیا ہوسکتا ہے کہ ایک عورت دوسری عورت کو ماں بننے کے لیے لاغرض مدد کرے؟‘‘ تاہم، یکجہتی اور لاغرضی جیسے افعال میں رروپے پیسے کاکوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا۔
ایک بار پھر یہ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ ناصرف مرد بلکہ سرمایہ داری کی معذرت خواہان خواتین بھی عورت کی غلامی کو جدیدیت اور اصلاحات کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ثبوت کے طور پر سٹیزن پارٹی کے راہنماؤں اینیس آریمیداس اور بیگونا ویلاسیس کو سن سکتے ہیں۔
سروگیسی کے پیچھے طبقاتی جدوجہد کارفرما ہے: امیر مرد و خواتین اپنے جنین کی نمو کے لیے کسی غریب عورت کے رحم کو پیسوں کے عوض بھاڑے پر لیتے ہیں۔ جسم فروشی کی طرح اس عمل کے پیچھے بھی انتہائی ضرورت کارفرما ہے۔ وہ عورتیں جو اپنے رحم کو بھاڑے پر دے رہی ہے اگر ان کی مادی ضروریات کی تکمیل جا رہی ہوتی تو یہ سوچنا بھی محال ہوتا کہ وہ ایسے کسی عمل کا حصہ بنیں۔ ایسی کتنی امیر خواتین ہیں جو ’’جذبۂ ایثار‘‘ کے تحت اپنے رحم بھاڑے پر دیتی ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسے مادی حالات پیدا کرنے کے جدوجہد کرنی چاہیے کہ جس میں ہمیں ایک پر وقار زندگی گرارنے کے لیے اپنے جسموں کو شے (commodity) نہ بنانا پڑے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام محنت کش طبقے کے لیے روزگار کو یقینی بنایا جائے اور بے روزگاری کی صورت میں کم از کم اجرت کے برابر وظیفہ دیا جائے۔ صرف یہی راستہ ہے جس سے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہیں جو سرمایہ دارانہ اور پدر شاہانہ نظام میں موجود محنت کش عورتوں کی غلامی کا سرے سے خاتمہ کر دے گا۔
صرف خواتین کی جدوجہد؟
برابری کی جدوجہد صرف ایک جنس کا مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ ایک طبقے کا معاملہ بھی ہے۔ محنت کش طبقے میں ہمارے ساتھی ہمارے فطری اتحادی ہیں، نا کہ سرمایہ دار طبقے کی خواتین۔ وہ خود ہڑتال کے خیال کو مسترد کرتی ہیں۔ دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کی خواتین مظاہروں میں محض مجبوری سے شرکت کرتی ہیں، جو لاکھوں مرد اور عورتوں کے پدر شاہی کے خلاف نکلنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان کے مفادات سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ جڑے ہیں اور یہ اس کی محافظ ہیں، اور یہ خود (بحثیت ایک سرمایہ دار یا سیاستدان) ان اقدامات میں ملوث ہوا کرتی ہیں جو محنت کش خواتین پر جبر کا باعث بنتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم اس خیال کے حامی نہیں ہیں کہ مرد محنت کشوں اور کارکنوں کو 8 مارچ کو ہونے والی ہڑتالوں اور مظاہروں میں شریک نہیں ہونا چاہیے یا انہیں منظم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے۔ عورت کی جدوجہد کو لے کر ہمارے مرد ساتھیوں میں ابھی بھی موجود کچھ تعصبات سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنی جدوجہد کا حصہ بنا کر اپنے مسائل سے آگاہ کیا جائے۔
پچھلے سال ہونے والی ہڑتال اور مظاہروں سے یہ نتیجہ نکلا کہ محض خواتین کے تحرک سے ہم محنت کش اور نوجوان خواتین کے مسائل اور ضروریات کی درست ترجمانی نہیں کر سکتے۔ ہر جگہ مظاہروں میں نوجوان خواتین اور مرد امڈتے چلے آئے، اور دونوں کو علیحدہ علیحدہ رکھنے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا۔ یونیورسٹیوں میں ہونے والے ہڑتالی مظاہروں میں مرد اور خواتین طالب علموں نے برابر حصہ لیا۔ اور یقیناًفیکٹریوں اور کام کی جگہوں پر بھی ہڑتال کے ان جگہوں پر زیادہ اثرات مرتب ہوئے جہاں مرد بھی خواتین کے شانہ بشانہ کھڑے تھے، نہ کہ جہاں وہ اپنی خواتین ساتھیوں کے ساتھ ثانوی حیثیت میں شامل تھے۔
ہمیں کس طرح کی ہڑتال کی ضرورت ہے؟
ہمیں یاد ہونا چاہیے کہ پچھلے سال کی ہڑتال کا مختلف طریقہ کار سے اعلان کیا گیا تھا۔ ایک طرف چھوٹی چھوٹی یونینز نے 24 گھنٹوں کی ہڑتال کا اعلان کیا تھا، جبکہ بڑی یونینز CCOO اورUGT نے دو گھنٹے کے لیے کام بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس سال UGT اور CCOO نے قانونی طور پر 24 گھنٹوں کی ہڑتال درج کروائی ہے، ابھی تو وہ دو گھنٹے کام روکنے کی بات کر رہے ہیں مگر وہ ایک ’’پورے دن کی ہڑتال کے امکانات‘‘ کو بھی دیکھ رہے ہیں جس کے لیے وہ ’’قانونی راستہ مہیا کریں گے‘‘۔
یہ آگے کی طرف ایک بہت چھوٹا قدم ہے۔ اس سال 24 گھنٹوں کی ہڑتال کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بہت کم شک و شبہات ہوں گے، لیکن ایسی ایک ہڑتال کے واضح اعلان کی ضرورت ہے جس سے پورا ملک جام ہو جائے، مگر ہمیں ایسا دکھائی نہیں دیا۔ یہ تب ہی ہو پائے گا جب تمام یونینز اور فیمینسٹ تحریک ہڑتال کی جزیات پر اتفاق کرتے ہوئے مرد اور خواتین محنت کشوں کی شرکت کی واضح اپیل کریں اور مشترکہ مطالبات پیش کریں۔ مارکس وادی ہونے کے ناتے ہم مندرجہ ذیل مطالبات کا دفاع کرتے ہیں:
1۔مساوی کام مساوی اجرت پر۔
2۔16 ہفتوں کی بنا تبادلے کے زچگی اور دیکھ بھال کی چھٹی، عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے۔
3۔ایک 30 گھنٹوں پر مبنی کام کا ہفتہ، تاکہ کام اور ان کی خاندانی زندگی میں توازن رہے، اور عورتوں کو گھر کے کام کاج اور بچوں کی دیکھ بھال کے لیے ان کے کام کے اوقات میں کمی کرنے لیے مجبور نہ ہونا پڑے اور ان کی اجرتوں میں کمی نہ ہو۔
4۔ہر محلے اور کام کی جگہ پر سرکاری نرسریاں اور ڈائننگ ہال قائم کیے جائیں اور ان میں کام کے لیے کم سے کم 50 افراد رکھے جائیں۔
5۔گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی ان عورتوں کے لیے ایک رہائشی منصوبہ قائم کیا جائے جو حملہ آور کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں، اور اس مقصد کے لیے انہیں پولیس رپورٹ کی ضرورت نہ پڑے۔
6۔گھر میں کام کرنے والی عورتوں سے گھر کے باہر پیداواری کام لیا جائے، نہ کہ گھر کا کام کرنے پر اجرت دی جائے۔
7۔تمام بے روزگار خواتین کو کم از کم اجرت کے برابر معاوضہ دیا جائے۔
ان مطالبات کے حصول کے لیے صرف ایک کار آمد ہڑتال کے زریعے ہی ہم اس نظام سیدھا کر سکتے ہیں۔ اور اس جدوجہد سے ہم آخری لڑائی لڑنے کے لیے زیادہ بہتر مقام پر ہوں گے۔ اس طرح ہم نہ صرف ہم اس جبر سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے جو ہم پر عورت ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے بلکہ ہم اس سے ڈر سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیں گے جو ہمیں ایک محنت کش ہونے کی وجہ سے برداشت کرنا پڑتا ہے۔