سوویت یونین: منصوبہ بند معیشت اور سٹالنسٹ افسر شاہی کی جکڑبندی

|تحریر: آفتاب اشرف|

آج ساری دنیا سرمایہ داری کے زوال سے پیدا ہونے والے بحران کی لپیٹ میں ہے۔ کرۂ ارض کا کوئی ایک بھی ایسا سماج نہیں ہے جہاں لوگ تاریخی متروکیت کا شکار اس نظام کی چیرہ دستیوں نے تنگ نہ ہوں۔ چلی، عراق، لبنان، ایران، ہیٹی، ایکواڈور، سوڈان، الجزائر اورہانگ کانگ کی حالیہ تحریکوں اور انقلابی بغاوتوں سے لے کر فرانس، ہندوستان اور برازیل کی عام ہڑتالوں تک؛ ہر جگہ ہمیں سرمایہ داری کیخلاف عوامی غصے اور نفرت کا ایک آتش فشاں پھٹتا دکھائی دیتا ہے۔ اس تمام اتھل پتھل نے فوکویاما کے ”تاریخ کے خاتمے“ جیسے بیہودہ نظریات کو تاریخ ہی کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے ایک متبادل معاشی و سماجی نظام کی بحث کو پھر سے جنم دیا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ دانشورانہ حلقوں اور انٹیلی جنشیہ کے علاوہ محنت کش عوام کی ہر اول پرتیں بھی اس بحث کا حصہ بن رہی ہیں۔ لیکن، دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابتدائی مراحل میں موجود اس بحث پر سوویت یونین کے انہدام سے پیدا ہونے والی نظریاتی پراگندگی و بے راہ روی کے اثرات بھی موجود ہیں۔ خصوصاً طلبہ لیکن زندگی میں پہلی دفعہ سیاسی طور پر متحرک ہونے والے نوجوان محنت کش بھی متبادل کے حوالے سے انواع و اقسام کے نظریاتی ابہام کا شکار ہیں۔ ہمارے لیے یہ سب اچنبھے کا باعث نہیں کیونکہ ہم سمجھ سکتے ہیں کہ سیاسی افق پر نظر آنے والی بالشویک انقلابی پارٹیوں کی عدم موجودگی میں ایک طویل گراوٹ کے بعد جنم لینے والی اس بحث کا موجودہ مرحلے سے گزرنا ناگزیر ہے۔ لیکن، اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تجربات کی کٹھالی سے گزرتے ہوئے نہ صرف اس بحث میں شدت آئے گی بلکہ نجات کے لیے درکار درست سائنسی نظریات، یعنی مارکسزم لینن ازم کے لیے تڑپ بھی بڑھے گی۔ ایسے میں یہ مارکس وادیوں کا فریضہ ہے کہ اس نوجوان نسل کے ذہنوں میں موجود تمام سوالات اور اعتراضات کی درست اور جامع مارکسی وضاحت پر عبور حاصل کیا جائے تاکہ صبر کے ساتھ وضاحت کرتے ہوئے انہیں سماج کی انقلابی تبدیلی کے لیے جیتا جا سکے۔

اس حوالے سے جو سب سے اہم سوال پایا جاتا ہے وہ یقیناً سوویت یونین کے متعلق ہے۔ 1917ء کا انقلابِ روس، بلاشبہ، انسانی تاریخ کا عظیم ترین واقعہ تھا اور اپنی تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود سوویت یونین کا قیام محنت کش طبقے کی جانب سے ایک غیر طبقاتی سماج تعمیر کرنے کی بڑے پیمانے پر پہلی کوشش تھی۔ اس مناسبت سے سوویت یونین کو نوعِ انسان کی تاریخ کا سب سے غیر معمولی اور اہم تجربہ کہنا عین حقیقت پر مبنی ہوگا۔ لیکن بد قسمتی سے مخصوص داخلی اور خارجی حالات وواقعات کے تحت، جن پر ہم دیگر تحریروں میں سیر حاصل بحث کر چکے ہیں، انقلابِ روس افسر شاہانہ زوال پذیری کا شکار ہو گیا جسے ہم سٹالن ازم کے نام سے جانتے ہیں، جس کا حقیقی مارکسزم لینن ازم کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ سوویت یونین کا انہدام، درحقیقت، سٹالن ازم کا انہدام تھالیکن سامراجی ذرائع ابلاغ نے بڑی عیاری کے ساتھ اسے سوشلزم یا مارکسزم لینن ازم کی ناکامی بنا کر پیش کیا اور اس حوالے سے انتہائی جھوٹے پراپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کیا گیا جو کہ 28سال گزرنے کے باوجود مختلف شکلوں میں آج بھی جاری ہے۔ یہ اسی پراپیگنڈے کا اثر ہے کہ آج تبدیلی اور متبادل کی چاہ رکھنے والے نوجوانوں کی ایک قابل ذکر تعدادمارکسزم لینن ازم کی بجائے پوسٹ ماڈرن ازم، فرینکفرٹ سکول(مغربی مارکسزم)، نام نہاد کریٹیکل تھیوری اور اکیسویں صدی کے سوشلزم جیسے سطحی، جعلی اور شوگر کوٹڈعوام دشمن نظریات کی طرف مائل نظر آتی ہے۔ انہی نام نہاد ’نئے نظریات‘ کے زیر اثر،وہ سوویت یونین جیسے اہم ترین تجربے سے قیمتی و لازمی نتائج اخذ کرنے کی بجائے نہ صرف اسے بلکہ مارکسزم لینن ازم کو ہی بیک جنبش قلم رد کر دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ حالات کے تھپیڑے ناگزیر طور پر ان نوجوانوں کو نظریاتی سوالات کی طرف زیادہ سنجیدہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیں گے لیکن مارکسی کارکنان کو بھی علمی سہل پسندی چھوڑ کرمستقبل قریب میں ہونے والے ان سنجیدہ مباحثوں کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا۔ یہ تحریر اسی سلسلے کی ایک کاوش ہے جس میں ہم نے سوویت منصوبہ بند معیشت پر افسر شاہی کی آمرانہ جکڑ بندی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تضادات کا ایک مختصر جائزہ لیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ تحریر سوویت یونین کی معاشی و سماجی تاریخ یا بذات خود منصوبہ بند معیشت کی تفصیلی بحث نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد ٹھوس مثالوں کے ذریعے منصوبہ بند معیشت میں افسر شاہی کے پیداکردہ بگاڑ کو سمجھنا ہے تاکہ ایک طرف ہم سوویت یونین کے انہدام کا سبب بننے والے معاشی تضادات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکیں تو دوسری طرف منصوبہ بند معیشت کی فیصلہ کن کامیابی کے لیے مزدور جمہوریت کی ناگزیریت کا ٹھوس ادراک حاصل کر سکیں۔

منصوبہ بند معیشت کی حاصلات

سٹالن سے لے کر گورباچوف تک سوویت افسر شاہی کی ساری تاریخ عملیت پسندانہ ٹامک ٹوئیوں کے تحت موقع پرستی اورمہم جوئی کی دو انتہاؤں کے بیچ مسلسل جھولنے کا قصہ ہے

یہ کہنا فیشن بن چکا ہے کہ سوویت یونین کا تجربہ تو ناکام ہو گیا تھا۔ یہ درست ہے کہ سوویت یونین کا انہدام ہو گیا لیکن اس سے یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جا سکتی کہ اپنی لگ بھگ ستر سالہ زندگی میں منصوبہ بند معیشت کی بدولت روسی اور وسط ایشیائی سماج زار شاہی کی پسماندگی، غربت اور جہالت کی تاریکیوں سے نکل کر سوویت یونین کی شکل میں دنیا کی دوسری بڑی صنعتی و فوجی سپر پاور بن گیا تھا۔ ایک ایسا سماج جس کی شرح خواندگی سوفیصد تھی اور جہاں ہر شہری کو صحت کی مفت و معیاری سہولیات دستیاب تھیں۔ بے گھری اور بیروزگاری کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ ایک ایسا سماج جس میں اپنے زوال کے عہد میں بھی سائنس دانوں،انجینئرز، ڈاکٹرز اور ہنر مندوں کی تعداد پوری ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ دنیا سے زیادہ تھی۔ یہ منصوبہ بند معیشت ہی تھی جس کی پیداواری طاقت کے بلبوتے پر سوویت یونین نے نازی افواج کو تہس نہس کرتے ہوئے دنیا کو فاشزم کے قہر سے بچایا۔ پہلے سیٹلائٹ، پہلے جاندار اور پہلے انسان کو خلا میں بھیجنے کا کارنامہ سر انجام دیا۔ اور اہم بات یہ ہے کہ زار شاہی کی پسماندگی سے نکل کر دنیا کی دوسری بڑی صنعتی و فوجی طاقت بننے کا یہ سفر صدیوں میں نہیں بلکہ سامراج کی طرف سے مسلط کردہ وحشیانہ خانہ جنگی اور بعد ازاں دوسری عالمی جنگ کی زبردست تباہ کاریوں اور سامراجی معاشی ناکہ بندی کے باوجود محض چند دہائیوں میں طے کیا گیا تھا۔ یہاں عین مناسب ہو گا اگر ہمارے اپنے قارئین کے لیے کچھ اعدادوشمار پیش کریں جو سوویت یونین میں منصوبہ بند معیشت کی بدولت ہونے والی تیز ترین ترقی کا ایک عمومی خاکہ پیش کرتے ہیں۔

1913ء میں (زار شاہی کے تحت) روس میں کوئلے کی سالانہ پیداوار محض 29 ملین ٹن تھی جو کہ 1965ء میں (یعنی پہلے پانچ سالہ منصوبے کے آغاز کے 37 سال بعد) 578 ملین ٹن سالانہ ہو چکی تھی۔ 1913ء میں خام تیل کی سالانہ پیداوار 9.2ملین ٹن تھی جو 1965ء تک 243 ملین ٹن ہو چکی تھی۔ 1913ء میں پورا زار شاہی روس محض 1.9 بلین کلو واٹ آور سالانہ برقی توانائی پیدا کر رہا تھا لیکن 1965ء تک سوویت یونین میں بجلی کی سالانہ پیداوار 507 بلین کلو واٹ آور ہو چکی تھی۔ 1913ء میں خام لوہے اور سٹیل کی پیداوار 4.2 ملین ٹن سالانہ تھی جو 1965ء تک بڑھ کربالترتیب66 اور 91 ملین ٹن سالانہ ہو چکی تھی۔ 1913ء میں محض 15 سومشین ٹولز سالانہ بنائے جا رہے تھے جبکہ 1965ء میں سوویت یونین ہر سال 1لاکھ 85 ہزار مختلف اقسام کے مشین ٹولز بنا رہا تھا۔ 1913ء میں زار شاہی روس میں ٹریکٹر سازی کی صنعت سرے سے ناپید تھی جبکہ 1965ء میں سوویت یونین سالانہ 3.5لاکھ ٹریکٹر بنا رہا تھا۔ 1913ء میں سیمنٹ کی سالانہ پیداوار محض 1.5 ملین ٹن تھی جو کہ 1965ء تک بڑھ کر 72.4 ملین ٹن ہو چکی تھی۔ اسی طرح، کاغذ کی پیداوار، جو سماج کے ثقافتی و تعلیمی معیار کا بھی ایک نہایت اہم اعشاریہ ہے، 1913ء میں محض 2لاکھ ٹن سالانہ سے بڑھ کر1965ء میں 34لاکھ ٹن سالانہ ہو چکی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ ٹراٹسکی کے الفاظ میں:

”سوشلزم نے اپنی فتح کا ثبوت داس کیپیٹل کے صفحات پر نہیں بلکہ کرۂ ارض کے 1/6 ویں حصے پر مشتمل صنعتی میدان میں دیا ہے۔ ۔ ۔ جدلیات نہیں بلکہ سٹیل، سیمنٹ اور برقی توانائی کی زبان میں۔ “

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشلسٹ منصوبہ بندی کے اتنے زبردست پوٹینشل کے باوجود سوویت معیشت کیوں اپنے تضادات کے بوجھ تلے دب کر رہ گئی جو، بالآخر، سوویت یونین کے انہدام کا سبب بنے؟ اس کے دو بنیادی کارن تھے۔ پہلا ”ایک ملک میں سوشلزم“ کا رجعتی سٹالنسٹ نظریہ، جس کے تحت سٹالن اور افسر شاہی نے اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی مفادات کی خاطر عالمی سامراجی قوتوں سے سمجھوتہ کرتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کی مارکسسٹ لینن اسٹ پالیسی سے غداری کی اور پوری دنیا سے الگ تھلگ ایک ملک میں ’سوشلسٹ جنت‘ تعمیر کرنے کی یوٹوپیائی پالیسی اختیار کی۔ اس کا نتیجہ جہاں ایک طرف انقلاب روس کی قوم پرستانہ زوال پذیری کی صورت میں نکلا وہیں، دوسری طرف، سٹالنسٹ روس کے عکس پر بعد میں تخلیق ہونے والی مزدور ریاستیں (چین، شمالی کوریا، ویتنام، مشرقی یورپ وغیرہ) اپنے جنم سے ہی قوم پرستانہ مسخ شدگی کا شکار تھیں اور انہوں نے ابتدا سے ہی ”اپنے اپنے ملک میں اپنا اپنا سوشلزم“کی تعمیر جیسی بیہودہ پالیسی اختیار کی۔ دوسری طرف، ایک ملک میں سوشلزم کی پالیسی کے تحت سوویت معیشت ایسے بے شمار تضادات کا شکار ہو گئی جنہیں قومی سطح پر نہیں بلکہ عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام کے ذریعے صرف عالمی سطح پر ہی حل کیا جا سکتا تھا۔ ان مخصوص تضادات پر ہم دیگر تحریروں میں تفصیلی بحث کر چکے ہیں،لہٰذا، ابھی ہم چلتے ہیں سوویت انہدام کا کارن بننے والی دوسری اہم وجہ یعنی مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی اور منصوبہ بند معیشت پر افسر شاہانہ جکڑ بندی کی طرف جو اس تحریر کا موضوعِ بحث ہے۔ ابھی ہم نے سوویت منصوبہ بند معیشت کی حاصلات کے بارے میں بات کی تھی جو بلاشبہ انتہائی متاثر کن ہیں لیکن واضح رہے کہ یہ حاصلات منصوبہ بند معیشت کے پوٹینشل کی عکاسی کرتی ہیں نہ کہ افسر شاہی کے کسی کمال کی، بلکہ یہ کہنا عین درست ہو گا کہ یہ حاصلات افسر شاہی کی بدولت نہیں بلکہ اس کی جکڑ بندی اور اس سے جنم لینے والے تضادات، لوٹ کھسوٹ، ضیاع اور بحرانوں کے باوجود حاصل کی گئیں تھیں۔ افسر شاہانہ جکڑ بندی کے مقابلے میں مزدور جمہوریت کے تحت منصوبہ بند معیشت سے، اس سے کہیں کم سماجی قیمت پر کہیں زیادہ حاصلات لینا ممکن ہوتا۔ آئیے سوویت تاریخ سے چیدہ چیدہ مثالوں کے ذریعے ٹھوس طریقے سے یہ سمجھتے ہیں کہ افسر شاہی منصوبہ بند معیشت کا گلا کس طرح سے گھونٹتی تھی۔

افسر شاہی کی عملیت پسندانہ کوتاہ نظری

عملیت پسندی افسر شاہی کا خاصہ ہوتی ہے۔ نظریے اور تناظر کی راہنمائی کے بغیر وہ کسی بھی امر کی درست پیش بینی کرنے اور اس کی مناسبت سے بروقت اقدامات اٹھانے کی صلاحیت سے ہی محروم ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ عملی تجربات اور ان کے فوری نتائج کے زیر اثر ہی آگے بڑھتی ہے۔ مگر ان نتائج کو بھی صرف سطحی اور یک رخے انداز میں پرکھا جاتا ہے اور ان میں پوشیدہ تضادات سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، اگر کسی ایک تجربے کے فوری نتائج بہتر نکلے ہیں تو پھر اس تجربے کو ایک آفاقی فارمولا بنا کر ہر ایک شعبے اور صورتحال پر اندھا دھند لاگو کیا جاتا ہے، تاوقتیکہ مزید تجربہ ہی اس کی خامیوں اور محدودیت کو عیاں نہ کر دے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی اندھا شخص چیزوں کو ٹٹول ٹٹول کر چلنے کی کوشش کرے اور یہ تصور کرے کہ چونکہ پچھلی مرتبہ میں اپنے دائیں ہاتھ پر پڑی رکاوٹ سے الجھ کر نیچے گرا تھا، لہٰذا اب مجھے صرف اس طرف سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور یہی سوچتے ہوئے چند قدم بعد بائیں ہاتھ پڑی کسی چیز سے چوٹ کھا بیٹھے۔ اب ایک منصوبہ بند معیشت کی تو بنیاد ہی مستقبل کی ضروریات کا درست ادراک رکھتے ہوئے وسائل کے مناسب استعمال، پیداواری صلاحیت اور پیداوار میں اضافے کی شعوری منصوبہ بندی پر ہوتی ہے۔ اس کے لیے لازمی ہے کہ محنت کش طبقہ، جو بیک وقت پیداکار اور پیداوار کا استعمال کنندہ ہے، منصوبہ بندی کے پورے عمل میں بلا خوف و خطر شعوری طور پر شامل ہو۔ یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر محنت کش طبقے کی جمہوری شرکت کے بغیر منصوبہ بند معیشت کو افسر شاہانہ طریقے سے چلانے کی کوشش کی جائے تو اس کا حتمی نتیجہ کیا نکلے گا۔ سوویت منصوبہ بند معیشت کے ساتھ افسر شاہی کا یہی کھلواڑ تھا جو اس کے انہدام کا سبب بنا۔ سٹالن سے لے کر گورباچوف تک سوویت افسر شاہی کی ساری تاریخ عملیت پسندانہ ٹامک ٹوئیوں کے تحت موقع پرستی اورمہم جوئی کی دو انتہاؤں کے بیچ مسلسل جھولنے کا قصہ ہے۔ آئیے اس امر کو چند ایک مثالوں کے ذریعے مزید بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔

پہلے پانچ سالہ منصوبے (32-1928ء) کے دوران کی جانے والی زراعت کی جبری اجتماع کاری سوویت تاریخ پر ہمیشہ کے لیے ایک بد نما داغ بن کر رہ گئی ہے۔ مگر اس ظالمانہ مہم جوئی کا مارکسزم لینن ازم کے نظریات، بالشویک پارٹی اور انقلابِ روس کی روایات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ یہ افسر شاہی کی عملیت پسندانہ کوتاہ نظری کی ایک بہترین مثال ہے۔

انقلاب کے بعد سامراجی ممالک اور رجعتی شاہ پرست وائیٹ گارڈ کی طرف سے مسلط کی گئی خانہ جنگی کے دوران بالشویک حکومت کوفوجی مجبوریوں کے تحت ”جنگی کمیونزم“ کی پالیسی اپنانی پڑی۔ اس پالیسی کے تحت، کسانوں کی زرعی پیداوار کو بحق سرکار ان سے لے کر سرخ فوج، اہم صنعتوں کے محنت کشوں کی غذائی اور خام مال کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تاکہ نوزائیدہ مزدور ریاست کی جنگی کوششوں کو جاری رکھا جا سکے۔ یقینا، کسانوں کی ایک بھاری اکثریت رضاکارانہ طور پر یہ قربانی دینے کو تیار تھی کیونکہ وہ بخوبی سمجھتے تھے کہ ردِ انقلاب کی فتح کے نتیجے میں وہ اس زمین سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو انہیں انقلاب کی بدولت ملی ہے۔ مگر تین سالہ خانہ جنگی کی سختی اور بر بادی نے وقت کے ساتھ ساتھ کسانوں کی قابلِ ذکر پرتوں، خصوصاً کولاکوں (امیر کسانوں) اور درمیانے کسانوں میں اس پالیسی کے خلاف شدید غصے اور بیزاری کو جنم دیا۔ انہوں نے احتجاج کے طور پر کاشت میں بڑے پیمانے پر کمی کر دی جس کے نتیجے میں زرعی پیداوار تیزی سے گرنے لگی اور ملک میں قحط پھیلنے لگا۔ مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد یا دوسرے الفاظ میں بالشویک حکومت کے لیے خطرہ بنتے ان تمام تضادات کا سیاسی اظہار مارچ 1921ء میں ہونے والی کرونستاد بغاوت میں ہوا جس کا حصہ بننے والے زیادہ تر ملاح اور سپاہی کسانوں کے بیٹے تھے۔ لیکن اس وقت تک ویسے بھی خانہ جنگی تقریباً جیتی جا چکی تھی اور جنگی کمیونزم کی ایمرجنسی پالیسیوں کی مزید ضرورت نہ تھی۔ لہٰذا، تباہ حال مزدور ریاست کو زرعی پیداوار کی بحالی کے لیے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے ”نیو اکنامک پالیسی“(نیپ) کے تحت شہر اور دیہات (یعنی صنعت اور زراعت) کے بیچ منڈی کا رشتہ بحال کرنا پڑا۔ نیپ نے، اگرچہ، سوویت معیشت کو وقتی طور پر بہت سہارا دیا اور اس کے تحت زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا لیکن لینن اور ٹراٹسکی بخوبی سمجھتے تھے کہ یہ پالیسی (خصوصاً دیہاتوں میں) بورژوا عناصر کی بڑھوتری کا سبب بنے گی اور اگر معاملہ یونہی چلتا رہا تو یہ عناصر بہت جلد طاقتور ہو کر سوویت اقتدار کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ، زرعی پیداوار کی بحالی نے ایک نئے مظہر کو بھی جنم دیا جسے ٹراٹسکی نے”سیزرز(قینچی)کرائسس“ کا نام دیا۔ ہو یہ رہا تھا کہ ایک طرف زرعی پیداوار بحال ہو رہی تھی لیکن دوسری طرف سوویت صنعت، خانہ جنگی کے بعد آنے والی بہتری کے باوجود، بہت پسماندہ اور محدود تھی اور کسانوں کی زرعی اجناس کے ساتھ تبادلہ کرنے کے لیے سوویت ریاست کے پاس صنعتی اشیاء کی شدید قلت تھی جس کی وجہ سے کھلتی ہوئی قینچی کے دونوں پھلوں کی مانند زرعی پیداوار اور صنعتی پیداوار کی قیمتوں میں تفاوت بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ یہ بحران شہر اور دیہات کے مابین تضادات کو پھر سے مہمیز دے رہا تھا اور مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد میں نئی دراڑیں ڈال رہا تھا۔ مگر، نیپ کا خاتمہ اور ان تمام تر تضادات سے چھٹکارا مصنوعی طور پر حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیے لازمی تھا کہ سوویت ریاست کے صنعتی شعبے اور فزیکل انفراسٹرکچر کو تیز ترین بنیادوں پر تعمیر کیا جائے اور خاص کر بھاری صنعتوں کے قیام پر خصوصی توجہ دی جائے۔

1922-23ء میں لینن اور ٹراٹسکی کی بے شمار تقاریر اور تحریروں میں اس امر کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بالکل درست ہو گا کہ منصوبہ بندی کے تحت تیز ترین (مگر مہم جوئی کی حد تک نہیں) صنعت کاری کے معاملے پر ٹراٹسکی کی پوزیشن لینن سے بھی زیادہ ریڈیکل تھی۔ یہ ٹراٹسکی ہی تھا جس نے فروری 1921ء میں سٹیٹ پلاننگ کمیشن (گوسپلان) کے قیام میں ایک کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح، ٹراٹسکی کی تجاویز اور لمبے اصرار پر ہی لینن نے دسمبر 1922ء میں گوسپلان کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی حمایت کی تھی (لینن، کانگریس کے نام خطوط، مجموعہئ تصانیف، جلد36، صفحہ 593-611)۔ اپریل 1923ء میں رشین کمیونسٹ پارٹی کی بارہویں کانگریس میں ”تھیسز آن انڈسٹری“ کے نام سے اپنی رپورٹ میں ٹراٹسکی نے ہی پہلی دفعہ گوسپلان کے ذریعے ایک منصوبہ بند معیشت تعمیر کرنے کا تفصیلی خاکہ پیش کیا تھا۔ لیکن، چونکہ نیپ کے فوری نتائج اچھے مل رہے تھے، لہٰذا ابھرتی ہوئی افسر شاہی کا رویہ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کی جانب نہایت منفی تھا۔ جنوری 1924ء میں لینن کی وفات کے بعد افسر شاہی اور پارٹی میں اس کے نمائندوں یعنی سٹالن کے ٹولے کی اقتدار پر گرفت بڑھتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ہی عملیت پسندی کے تقاضوں کے تحت ان کی نیپ کی حمایت اور تیز رفتار منصوبہ بند صنعتکاری کی مخالفت بھی۔ اگلے چند سالوں میں ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کے خلاف سٹالن اور اس کے ٹولے کی پراپیگنڈہ مہم میں منصوبہ بند معیشت قائم کرنے کی تجاویز کا بھی خوب مذاق اڑایا گیا۔ ٹراٹسکی کو طنزاًیوٹوپیائی، اندھیرے میں چھلانگ لگانے کا شوقین، کمر توڑ صنعتکاری کا دلدادہ، صنعتی مہم جو اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا۔ منصوبہ بندترقی سے افسر شاہی کی چڑ کا یہ عالم تھاکہ 26-1925ء میں بھی بخارن، جو اس وقت سٹالنسٹ ٹولے کا ’نظریہ دان‘ تھا، روس میں کچھوے کی رفتار سے سوشلزم تعمیر کرنے کی باتیں کر رہا تھا، جبکہ، اپریل 1926ء میں ہونے والی ایک سنٹرل کمیٹی میٹنگ میں ٹراٹسکی پر طنز کرتے ہوئے سٹالن کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے نائیپر ہائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن تعمیر کرنا ایسا ہی ہو گا جیسے کوئی مزہک (غریب کسان) گائے کی بجائے گرامو فون خرید لے۔ واضح رہے کہ اس وقت تک نیپ کے تحت پروان چڑھنے والے بورژوا عناصر، خصوصاً، کولاک (جو اس وقت منڈی میں آنے والی 60 فیصد زرعی اجناس کے مالک تھے) اور مڈل مین پہلے ہی سوویت ریاست کو آنکھیں دکھانے لگے تھے اور دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر ریاست ان کی زرعی اجناس کی مناسب قیمت (کاغذی نہیں بلکہ گولڈ روبل میں) ادا نہیں کرتی یا انہیں بدلے میں مناسب مقدار اور معیار کی صنعتی اشیاء نہیں دیتی تو وہ کاشت میں کمی کرنا شروع کر دیں گے اور شہروں کو غلے اور صنعتوں کو خام مال کی سپلائی روک دیں گے۔ مزید برآں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر سوویت حکومت ان کے مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہے تو پھر بیرونی تجارت پر ریاستی اجارہ داری ختم کی جائے تاکہ وہ خود اپنی پیداوار کو یورپی منڈی میں برآمد کر کے منافع کما سکیں۔ لیکن، پیش بینی کی صلاحیت سے محروم افسر شاہی اس ابھرتے ہوئے خطرے کو بھانپنے سے بالکل قاصر تھی بلکہ ان کی پالیسی ان بورژوا عناصر کو خوش رکھ کر اپنا اقتدار قائم رکھنے کی تھی۔

اسی پس منظر میں، سٹالن نے ’کسانوں‘ کا اعتماد بحال کرنے کے نام پر،درحقیقت، کولاکوں کو خوش کرنے کی خاطر انقلاب کے بعد تمام زرعی زمین کو قانونی طور پر قومی ملکیت قرار دینے پر تنقید شروع کر دی اور زمین کی ڈی نیشنلائزیشن یا کم ازکم اس کے استعمال کے لیے لیز کی مدت چالیس سال تک بڑھانے کی باتیں کرنی شروع کر دیں۔ اسی اثنا میں، بخارن نے کولاکوں کی حمایت میں اپنا مشہور نعرہ ”امیر بنو!!“ دیا جس کے لیے یہ عجیب و غریب جواز دیا گیا کہ جیسے جیسے کولاک امیر ہوں گے، وہ سوشلزم کو قبول کرنے پر زیادہ آمادہ ہوتے جائیں گے۔ مگر افسر شاہی کی اس احمقانہ موقع پرستی سے حقیقت تو بدلنے والی نہیں تھی۔ 1927ء کے وسط تک کولاکوں، اوپری درمیانے کسانوں کی طرف سے کاشت میں کمی اور مڈل مینز کی طرف سے ذخیرہ اندوزی اور منڈی میں زرعی اجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرنے کا آغاز ہو چکا تھا۔ خام مال کی قلت کی وجہ سے نہ صرف صنعتی پیداوار کے بڑے پیمانے پر متاثر ہونے کا اندیشہ تھا بلکہ ایک نئے قحط کا خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا تھا۔ لہٰذا، مجبوراً افسر شاہی کوپہلے پانچ سالہ منصوبے کا ابتدائی مسودہ تیار کرنا پڑا۔ مگر ابھی بھی اس کی آنکھیں پوری طرح نہیں کھلی تھیں۔ یہ ابتدائی مسودہ افسر شاہی کی کوتاہ نظری اور قدامت پسندی کی ایک شاندار مثال تھا۔ میانہ روی اور توازن کے نام پر صنعت کاری میں سالانہ اضافے کی شرح کو انتہائی کم رکھا گیا تھا۔ یہاں تک کہ منصوبے کے آخری سال میں سوویت بجٹ کو کل قومی آمدن کا محض 16فیصد ہونا تھا جبکہ زار شاہی میں بھی یہ لگ بھگ 18فیصد ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ، کولاکوں کو خوش کرنے کے لیے انفرادی کاشت کاری کی ضرورت و اہمیت پر بھی خاصا زور دیا گیا تھا۔ مگر افسر شاہی اور سٹالن کے ٹولے کی تمام خوشامدیں بے کار گئیں۔

1928 ء کے آغاز میں کولاکوں نے شہروں کو غلے اور صنعتی خام مال کی سپلائی مکمل طور پر روک دی۔ شہروں میں بھوک منڈلانے لگی، صنعتوں کا پہیہ رکنے لگا۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہ وہی وقت تھا جب ٹراٹسکی اور لیفٹ اپوزیشن کو پارٹی سے نکال دینے کے بعد اب جلا وطن کیا جا رہا تھا۔ سال کے وسط تک نیپ کے تحت تخلیق ہونے والے ان بورژوا عناصر کا ہاتھ انقلاب کی گردن کو دبوچ چکا تھا۔ تب کہیں جا کر افسر شاہی کو ہوش آئی اور انہیں ادراک ہوا کہ اگر صورتحال یونہی رہی تو ان کا اقتدار خطرے میں پڑ جائے گا۔ گھبراہٹ کے عالم میں افسر شاہی نے ایک زبردست یو ٹرن لیا اور دوسری انتہا پر پہنچ گئی۔ راتوں رات کولاکوں کو انقلاب دشمن قرار دے دیا گیا اور ان کے فوری اور مکمل خاتمے کی باتیں ہونے لگیں۔ پانچ سالہ منصوبے کا مسودہ دوبارہ تیار کیا گیا۔ کل تک ”کچھوے کی رفتار سے سوشلزم کی تعمیر“ کی باتیں کرنے والوں نے اب دوسری انتہا پر جا کر کمر توڑ رفتار سے مہم جوئیانہ صنعت کاری اور بیس سے تیس فیصد سالانہ گروتھ کا ہدف طے کیا۔ ایک دن قبل تک انفرادی کاشتکاری کے گن گانے والے اب منصوبے کے اختتام تک 20 فیصدزرعی فارمز کو اجتماعی کاشت کاری کے تحت لانا چاہتے تھے۔ اور چونکہ، یہ سب فیصلے خالصتاً عملیت پسندانہ ٹامک ٹوئیوں کے تحت ہو رہے تھے، لہٰذا ان کے لیے کسی قسم کی کوئی نظریاتی، سیاسی و ثقافتی تیاری نہیں کی گئی تھی۔ یہاں تک کہ پارٹی کے اچھے خاصے عہدیداروں اور افسر شاہی کی درمیانی اور نچلی پرتوں کو بھی کچھ علم نہیں تھا کہ انہیں کس حد تک جانا ہے اور کہاں رکنا ہے۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ کولاکوں کے ساتھ ساتھ درمیانے کسانوں اوریہاں تک کہ چھوٹے کسانوں کی بڑی اکثریت کو بھی زراعت کی اس جبری اجتماع کاری کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا ایک اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1932ء تک 20 فیصد کی بجائے تقریباً 62 فیصد زرعی فارمزکی اجتماع کاری کی جا چکی تھی۔ اس افراتفری کے عالم میں چونکہ دیہاتوں میں کسی کو ٹھیک طرح سے پتا ہی نہیں تھا کہ حکومت آخر کرنا کیا چاہتی ہے، لہٰذا کسانوں میں بڑے پیمانے پر سراسیمگی پھیل گئی اور وہ سمجھے کہ حکومت ان کو الاٹ شدہ زمین اور مال مویشی سمیت سب کچھ ان سے چھیننے کے درپے ہے۔ کسی پیشگی سیاسی و ثقافتی تیاری کی عدم موجودگی اور مہم جوئی پر اتری ہوئی شتر بے مہار افسر شاہی کی حرکتوں نے ان افواہوں میں بڑی حد تک حقیقت کا رنگ بھی بھر دیا۔ کسانوں نے اپنا انتقام کاشت روک کر، کھڑی فصلوں کو برباد کر کے، غلے کے ذخائر کو آگ لگا کر اور سب سے بڑھ کرلائیو سٹاک کو فوری طور پر کھال اور گوشت وغیرہ کے حصول کے لیے ذبح کر کے لیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق، اس پورے عمل کے دوران ملک میں گھوڑوں کی تعداد میں 55 فیصد، گائے بھینسوں کی تعداد میں 40 فیصد، فارمی سوروں کی تعداد میں 55 فیصد اور بھیڑ بکریوں کی تعداد میں 66 فیصد کمی ہوئی۔ زرعی خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے صنعتی پیداوار شدید متاثر ہوئی اور غلے کی قلت سے پڑنے والے قحط نے لاکھوں جانیں نگل لیں۔ لیکن معاملہ یہاں پر رکا نہیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ بے تحاشا سماجی ومعاشی قیمت پر جبری اجتماع کاری تو کر لی گئی تھی لیکن سوویت ریاست کے پاس نہ تو ان اجتماعی فارموں کے لیے ٹریکٹرز، مشینی ہل اور دیگر زرعی آلات، کھاداور برقی توانائی جیسے مادی وسائل تھے اور نہ ہی ان فارمز کو درکار مشین آپریٹرز،مکینکس اور ماہرین زراعت۔ صرف دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے اختتام (1937ء) تک ہی ان فارمز کی اکثریت کو درکار سہولیات ریاست کی طرف سے مہیا ہو سکیں اور اس دوران زرعی پیداوار زبر دست گراوٹ کا شکار رہی۔ بحیثیت مجموعی، سوویت زراعت کو اس دھچکے سے مکمل طور پر سنبھلنے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ زراعت کی اس افسر شاہانہ جبری اجتماع کاری نے سوویت سماج پر انمٹ منفی اثرات چھوڑے اور اس پورے عرصے میں ہونے والا جانی نقصان آج بھی بورژوازی کو مارکسزم لینن ازم کے خلاف بے بنیاد اور غلیظ پراپیگنڈہ کرنے کا جواز مہیا کرتا ہے۔ لیکن یہ سب نہ ہوتا اگر 24-1923ء میں ہی سوویت معیشت کی منصوبہ بند ہمہ جہت تعمیر کا آغاز کر دیا جاتا۔ تیز(مگر مہم جوئی کی حد تک نہیں) صنعتکاری اور فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر کی جاتی جس سے نہ صرف نیپ کو بتدریج رول بیک کرنے بلکہ عملی مظاہرے کے ذریعے کسانوں پر اجتماع کاری کے فوائد ثابت کرتے ہوئے انہیں بتدریج اس طرف راغب کرنے کے لیے درکار مادی وتکنیکی وسائل بھی مہیا ہوتے۔

سٹالنسٹ افسر شاہی کی عملیت پسندی کا خمیازہ صرف زراعت کو ہی نہیں بلکہ سوویت معیشت کے ہر شعبے کو بھگتنا پڑا۔ چونکہ پہلے کئی قیمتی سال ضائع کر دیے گئے تھے اور اب زراعت کی بھی تیزی کے ساتھ جبری اجتماع کاری کی جا رہی تھی، لہٰذا صنعتکاری کے معاملے میں بھی مہم جوئی کا ہونا ناگزیر تھا۔ بھاری صنعتوں کے قیام اور فزیکل انفراسٹرکچر کی تعمیر کے بڑے بڑے منصوبے پلان تو تیار کر لیے گئے مگر اتنی جلد بازی میں کہ ان کی تعمیر کے لیے نہ تو وسائل تھے اور نہ ہی سرمایہ۔ بوکھلاہٹ میں مہم جوئی پر اتری ہوئی افسر شاہی نے اس صورتحال کا حل پہلے ہی قحط اور پیداواری گراوٹ سے پریشان محنت کش طبقے کی پیٹھ پر مزید بوجھ لاد کر نکالا۔ مثال کے طور پر غلے اور دیگر زرعی اجناس کا جو ذخیرہ ریاست کے پاس تھا اسے ملک میں شدید ضرورت ہونے کے باوجود یورپی منڈی میں برآمد کر دیا گیا تا کہ وہاں ان اجناس کی چڑھی ہوئی قیمتوں کا فائدہ اٹھا کر فارن ایکسچینج کمایا جا سکے جسے پھر بیرونی ممالک سے بھاری صنعتوں کے لیے مشینری اور ٹیکنالوجی وغیرہ درآمد کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ مگر اس سے ملک میں پڑا قحط مزید شدت اختیار کر گیا اور پوری کی پوری آبادیوں کا صفایا ہو گیا۔ اسی طرح، کمر توڑ رفتار سے صنعتکاری، جو اب ماضی کی موقع پرستانہ غلطیوں کی وجہ سے مجبوری بن چکی تھی، کرنے کے لیے درکار سرمائے کی کمی کو پورا کرنے کے لیے افسر شاہی نے اندھا دھند کاغذی نوٹ چھاپنے شروع کر دیے اور اس امر کے دفاع میں یہ جاہلانہ جواز دیا گیا کہ ایک منصوبہ بند معیشت میں آپ جتنے مرضی نوٹ چھاپ لیں، افراطِ زر نہیں ہو گا۔ اس پالیسی کے تحت 1928ء میں سوویت یونین میں زیرِ گردش کاغذی کرنسی 1.7 ارب روبل سے بڑھ کر 1932ء کے اختتام تک 8.4 ارب روبل تک جا پہنچی۔ اس کے نتیجے میں افراطِ زر میں کتنا اضافہ ہوا، اس کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1924ء میں ایک روبل 13 فرانک(فرانسیسی کرنسی) کے برابر تھا جبکہ 1935ء میں ایک روبل کے بدلے صرف 3فرانک حاصل کیے جا سکتے تھے۔

جلاوطنی سے ٹراٹسکی نے اس مظہر پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ایک مستحکم اور سوویت معاشی حقائق کی درست عکاسی کرنے والا، روبل ہی وہ واحد پیمانہ ہے جس کے ذریعے ہم درست طور پر یہ تعین کر سکتے ہیں کہ پلان کس حد تک ہمارے تخمینوں کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ صرف اسی کے ذریعے اخراجات اور قومی آمدن میں اتار چڑھاؤ کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے، قیمتوں کا درست تعین کیا جا سکتا ہے اور سوویت پیداوار کی قیمتوں کا متعلقہ اشیا کی عالمی منڈی میں قیمتوں کے ساتھ موازنہ کر کے یہ جانچا جا سکتا ہے کہ سوویت معیشت میں مؤثر پن اور افزودگیٔ محن کی صورتحال کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے قابو افراطِ زرکسی فرد کی محنت، اس کی اجرت اوراس کی قوتِ خرید کے بیچ تعلق کو بھی تباہ کر دیتا ہے جس کا لازمی نتیجہ کام میں اس فرد کی عدم دلچسپی اور بیگانگی کی صورت میں نکلتا ہے جو کہ پھر ناگزیر طور پرافزودگیٔ محن کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہو تی ہے۔ اس آخری مسئلے کا حل نکالنے کے لیے افسرشاہی نے یہ اعلان کیا کہ وہ روبل میں اجرتوں کی ادائیگی کی بجائے محنت کشوں کو راشن کارڈ دے گی جسے دکھا کر وہ اپنی ضرورت کی اشیاء حاصل کر سکتے ہیں اور اس بنیاد پر یہ احمقانہ دعویٰ کیا گیا کہ سوویت یونین میں ”تقسیمِ کار کے بورژوا قانون“ (یعنی اہلیت کے مطابق دینا) کا خاتمہ کر دیا گیا ہے جیسے محض راشن کارڈ جاری کرنے سے ریاستی سٹورز پر خود بخود اشیائے استعمال کی بہتات ہو جانی تھی۔ اس پر ٹراٹسکی نے افسر شاہی کو یاد دہانی کرائی کہ مارکس کے مطابق قانون کبھی بھی دی گئی مادی حدود وقیود سے بالاتر نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے تقسیمِ کار کا بورژوا قانون نہ صرف عبوری عہد (جس میں سوویت یونین تھا) بلکہ سوشلزم میں بھی لاگو ہو گا، تاوقتیکہ ذرائع پیداوار کی عالمی سطح پر سوشلسٹ تنظیم نو سے وہ پیداواری افراط تخلیق نہ ہو جائے جس کی بنیاد پر عمومی قلت کا خاتمہ کرتے ہوئے لوگوں کو ان کی ضرورت کے مطابق دیا جا سکے۔ ٹراٹسکی کی یہ تمام اور دیگر تنقید پہلے پانچ سالہ منصوبے کے عملی تجربے سے بالکل درست ثابت ہوئی۔ اگرچہ، محنت کش طبقے کی تمام تر قربانیوں کے نتیجے میں بحیثیت مجموعی صنعتی پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا لیکن یہ اضافہ ہوائی تخمینہ جات، قیمتوں کے غلط افسرشاہانہ تعین، مسلسل بریک ڈاؤنز، وسائل کے بے تحاشا ضیاع، کوالٹی کے شدید مسائل، محنت کشوں کی بددلی اور سب سے بڑھ کر جدید ٹیکنالوجی میں تمام تر سرمایہ کاری کے باوجود مغربی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم افزودگیٔ محن جیسے تضادات لیے ہوئے تھا۔ عملی تجربے کی مار کھانے کے بعد افسر شاہی نے بھی مجبوراً اپنی پالیسیاں تبدیل کیں۔ 1935ء میں دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے دوران نئے نوٹوں کی چھپائی روک دی گئی اور زیرِ گردش کرنسی میں بھی بتدریج کمی کی جانے لگی جس سے روبل نسبتاً مستحکم ہوا۔ اسی طرح، راشن کارڈ کا بھی خاتمہ کرتے ہوئے واپس روبل، جو اب حقیقی قدر کا حامل بنتا جا رہا تھا، کی صورت میں اجرتوں کی ادائیگی کا آغاز کیا گیاجس نے محنت کشوں کی کام میں دلچسپی اور نتیجتاً سوویت صنعت کی افزودگیٔ محن کو پہلے سے بہتر کیا۔ اجتماعی فارموں پر کسانوں کی حد درجہ بیگانگی اور پیداوار سے عدم دلچسپی کو ختم کرنے کے لیے بھی افسر شاہی کو اپنی مہم جوئی سے بیک ٹریک کرنا پڑا اور 1934ء سے انہیں اجتماعی فارمز پر اجتماعی رقبے کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے انفرادی قطعہ زمین بھی الاٹ کیے جانے لگے جس سے حاصل ہونے والی پیداوار پر ان کا مکمل تصرف تھا کہ چاہیں تو اسے خود استعمال کریں یا پھر ریاست کونسبتاً بہتر طور پر متعین کردہ قیمت پر بیچ دیں۔ یہ تمام بیک ٹریکنگ وقت اور مادی حالات کا تقاضا تھی، لہٰذا اس سے صورتحال میں نسبتاً بہتری بھی ہوئی لیکن یہ کرتے ہوئے بھی کئی ایک معاملوں میں افسر شاہی دوسری انتہا پر جانا شروع ہو گئی جس کی ایک واضح مثال صنعت میں کمتر افزودگیٔ محن کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے 1935ء کے اواخر میں شروع کی گئی ”سٹاخانوف تحریک“ تھی جس کا حصہ بننے والے محنت کشوں کوکام کے اوقات کار کی بجائے پیس میل پیمنٹ یعنی پیداوار کے مطابق اجرت دی جاتی تھی۔ یہ تقسیم کار کے بورژوا قانون کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال ہونے والا سب سے ظالمانہ طریقہ کار ہے جس میں مجبور محنت کش زیادہ اجرت کے چکر میں اپنی ذہنی و جسمانی صحت کو نظر انداز کر کے خود بخود اندھا دھند کام کرتے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ افسر شاہی نے اس سٹاخانوف سسٹم کو ”سوشلسٹ تقسیمِ کار کا نظام“ کہہ کر متعارف کروایا۔ کہاں ”شاک برگیڈ ازم“ (آسان الفاظ میں چھانٹے بازی کے ذریعے کام کروانا) اور راشن کارڈ کی ایک انتہا اور کہاں سٹاخانوف تحریک کی دوسری انتہا۔

سوویت افسر شاہی کی پوری تاریخ ہی عملیت پسندانہ زگ زیگز کرتے ہوئے دو انتہاؤں کے بیچ جھولنے پر مشتمل ہے کیونکہ یہ نامیاتی طور پر نظریاتی پیش بینی کرتے ہوئے درست اقدامات بر وقت اٹھانے کی صلاحیت سے ہی عاری تھی۔ سٹالن کے بعد افسر شاہی کی گرفت میں ایک جدید صنعتی منصوبہ بند معیشت کے بڑھتے ہوئے تضادات پر قابو پانے کے لیے خروشچیف کی علاقائی بنیادوں پر معیشت کو ڈی سنٹرالائز کرنے کی کوشش، برژنیف کی اقتدار میں آ کر ابتدائی طور پر کی گئی ری سنٹرالائزیشن، پھر برژنیف کے تحت ہی کوسائجن-لائبر مین اصلاحات کے تحت فیکٹری کی سطح پر مینیجرز کو آزادی دینے جیسے (یعنی ڈی سنٹرالائز کرنے) اقدامات اور پھر ان اقدامات کے نتیجے میں پروان چڑھنے والے بورژوا رجحانات سے افسر شاہی کا اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر پھر واپس ری سنٹرالائزیشن کا رخ کرنا، پھر گوربا چوف کے دور میں معاشی جمود توڑنے کے لیے دوبارہ سے ساری فلم کا الٹا چلنا، یہ سب اندھی ٹامک ٹوئیاں افسر شاہی کے اسی نامیاتی خاصے کی ہی عکاسی کرتی ہیں۔ اسی اندھے پن نے حتمی طور پر سوویت یونین کے انہدام میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

افسر شاہی کے داخلی تضادات

سوویت افسر شاہی کا سب سے بنیادی تضاد تو سوویت محنت کش طبقے کے ساتھ تھا جس کی پیٹھ پر وہ سوار تھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ افسر شاہی داخلی طور پر بھی شدید تضادات کا شکار تھی۔ سینئر پارٹی عہدیداروں سے لے کر افسر شاہی کی نچلی پرتوں تک، لاکھوں افراد پر مشتمل یہ اپریٹس بیک وقت افقی (تنخواہوں، بونس، مراعات اور اختیارات کے لحاظ سے) اور عمودی (شعبے یا محکمے کے لحاظ سے) طور پر شدید تقسیم کا شکار تھا۔ پارٹی پولٹ بیورو کی ترجیحات کے مطابق، سٹیٹ پلاننگ کمیشن (گوسپلان) افسر شاہی کے ہی مختلف حصوں اور پرتوں سے ملنے والے وسائل، پیداواری صلاحیت اور ضروریات کے تخمینے کی روشنی میں پانچ سالہ منصوبہ تیار کرتا تھا، جس کے آؤٹ پٹ ٹارگٹس پھر مختلف شعبوں کی متعلقہ وزارتوں کے سپرد کیے جاتے تھے اور ساتھ ہی انہیں پیداوار کے لیے درکار ان پٹس بھی مختص کر دیے جاتے تھے۔ وزارتی افسر شاہی سے پھر یہ پلان محکمہ جاتی افسر شاہی کے پاس پہنچ جاتا تھا اور حتمی طور پر اس کی مختلف پرتوں سے گزرتا ہوا فیکٹری یا کسی بھی انٹر پرائز کی افسر شاہی تک۔ اوپر سے لے کر نیچے اور نیچے سے لے کر اوپر تک افسر شاہی کی ہر پرت (افقی تقسیم) کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ پلان کے اعدادوشمار اور تخمینوں کے ساتھ کچھ اس طرح سے جوڑ توڑ کرے کہ نہ صرف اس کے بونس اور مراعات میں زیادہ سے زیادہ اضافہ ہو بلکہ کیرئیر کے آگے بڑھنے کی راہیں بھی ہموار ہو جائیں۔ اسی طرح، عمودی تقسیم مختلف شعبوں کی وزارتوں اور ان کے ماتحت محکموں کی افسر شاہیوں کے بیچ دوسروں کی قیمت پر اپنے شعبے کی افسر شاہی کے لیے زیادہ سے زیادہ مالی و سیاسی مفادات حاصل کرنے کی مسلسل جنگ کا سبب بنتی تھی۔ ہر شعبے میں اپنی ”امپائر بلڈنگ“ کا رجحان پایا جاتا تھا اور پانچ سالہ منصوبے کو بھی انہی مفادات کی عینک سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی ساری کھینچا تانی کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ پلان کے ان پٹ اور آؤٹ پٹ ٹارگٹس گوسپلان میں بیٹھے بیوروکریٹس کی فائلوں میں تو بڑی خوبصورتی سے برابر ہو جاتے تھے مگر جیسے جیسے پلان نیچے اترتا تھا، وہ اس بھاری بھر کم افسر شاہانہ اپریٹس کی دھند میں گم ہوتا جاتا تھا اور پولٹ بیورو، گوسپلان اور ٹاپ وزارتی افسر شاہی کے لیے حقیقی صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جاتا تھا۔ اس سب کا نتیجہ پلان کے بار بار اپنے ٹارگٹس سے ڈی ریل ہونے، وسائل اور پیداواری قوتوں کے بے تحاشا ضیاع، کہیں بلا ضرورت پیداوار تو کہیں پیداواری قوت ہونے کے باوجود مصنوعی قلت، معیار اور جدت کاری کے مسائل اور دیگر انواع اقسام کے تضادات کی صورت میں نکلتا تھا جو سوویت معیشت اور عوام کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتے تھے۔ آئیے اب ذرا گراؤنڈ لیول پر جا کر ٹھوس مثالوں کے ذریعے سمجھتے ہیں کہ ان تضادات کا عملی اظہار کیسے ہوتا تھا۔

افسر شاہی میں موجود افقی تضادات کا سب سے زبردست اظہار افسر شاہی کی تمام تر بالائی پرتوں اور فیکٹری یا انٹر پرائز لیول کی افسر شاہی کے مابین تضادات کی صورت میں ہوتا تھا۔ گوسپلان، وزارتی اور محکمہ جاتی لیول کی افسر شاہی کی کوشش ہوتی تھی کہ پلان ٹارگٹس بڑے سے بڑے ہوں اور انہیں کم سے کم ان پٹ کے ذریعے پورا کیا جائے بلکہ کسی طرح ٹارگٹس سے زیادہ پیداوار کی جائے کیونکہ ان کے بونس، ترقیاں اور مستقبل میں ان کے شعبے کوباقی شعبہ جات کے مقابلے میں ملنے والے مالی فوائد اور سیاسی اثرو رسوخ میں اضافے کا دارومدار اس امر پر تھا جبکہ دوسری طرف پیداوار کے دوران پیش آنے والے عملی مسائل سے ان کا براہ راست کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اس کے علاوہ، چونکہ یہ افسر شاہی کی بالائی پرتیں تھیں، لہٰذا ٹارگٹس پورا نہ کر سکنے کی صورت میں بھی ان کی بچت ہو جاتی تھی۔ اس کے بر عکس، انٹر پرائز لیول کی افسر شاہی یا فیکٹری مینیجرز کی کوشش ہوتی تھی کہ آؤٹ پٹ ٹارگٹس کم سے کم ہوں جبکہ ان کے لیے مختص کردہ وسائل(ان پٹس) زیادہ سے زیادہ ہوں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پلاننگ سٹرکچر کے مطابق بالائی افسر شاہی کے برعکس انٹر پرائز مینیجرزکی ترقی، تنخواہوں، مراعات اور بونس میں اضافے کا دارومدار بڑے ٹارگٹس لینے یا ٹارگٹس سے زیادہ پیداوار کرنے کی بجائے پیداوار کے عمل کو بغیر کسی بریک ڈاؤن کے مسلسل جاری رکھتے ہوئے دیے گئے ٹارگٹس کو ہر صورت حاصل کرنے میں تھا۔ ایسا نہ کر سکنے کا نتیجہ سٹالن کے دور میں قید یا سزائے موت جبکہ اس کے بعد کے زمانے میں بونس کے خاتمے، کھڈے لائن لگائے جانے اور کیرئیر کی تباہی کی صورت میں نکلتا تھا۔ لہٰذا، جہاں ایک طرف بالائی افسر شاہی اکثر اوقات غیر حقیقی اور بلا ضرورت بڑے ٹارگٹس نیچے تھوپنے کی کوشش کرتی تھی، وہیں انٹرپرائز مینیجرز بھی اپنے بچاؤ اور مفادات کے لیے ہر قسم کے داؤ پیچ آزماتے تھے۔ اکثر اوقات وہ اپنی فیکٹری کی پیداواری صلاحیت کے متعلق غلط فیڈ بیک دیتے تھے اور اسے جان بوجھ کر کم رپورٹ کرتے تھے تا کہ انہیں پروڈکشن ٹارگٹس کم ملیں۔ اسی طرح، ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کو مختص کیے جانے والے ان پٹس کرنٹ پروڈکشن سائیکل کی ضرورت سے زیادہ ہوں تا کہ ایک تو وہ پیداوار میں کسی بریک ڈاؤن کی فکر سے آزاد ہو سکیں اور دوسرا وہ کچھ ان پٹس بچا کر اپنے پاس ذخیرہ کر لیں تاکہ مستقبل میں بڑے پروڈکشن ٹارگٹ ملنے یا ان پٹس کی ترسیل میں کسی رکاوٹ جیسی ناگہانی آفت سے نمٹا جا سکے۔ لیکن، اس تمام گھن چکر میں جہاں ایک طرف بہت ساری پیداواری صلاحیت بیکار پڑی ضائع ہوتی رہتی تھی وہیں دوسری طرف ان پٹس کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے نہ صرف وسائل کا ضیاع بڑھتا تھا بلکہ معیشت میں وسائل کی مصنوعی قلت بھی پیدا ہو جاتی تھی۔ اسی طرح، پلاننگ سٹرکچر کے مطابق کسی بھی انٹرپرائز کے پروڈکشن ٹارگٹس میں سالانہ اضافے کا مقداری تعین کرنٹ پروڈکشن سائیکل میں اس کی کارکردگی کی بنیاد پر کیا جاتا تھا، جو عمومی طور پر کرنٹ سائیکل میں اس کی پیداوار سے 10 سے 30 فیصداضافے پر مبنی ہوتا تھا۔ لہٰذا، انٹر پرائز مینیجرز جان بوجھ کر پلان کے پہلے ایک یا دو سالوں میں پروڈکشن ٹارگٹس بڑے مارجن سے مس کرتے تھے۔ اس پر ان کی سرزنش ضرور ہوتی تھی لیکن اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ آئندہ کے تین یا چار سالوں کے لیے ان کے پروڈکشن ٹارگٹس کم ہو جاتے تھے جنہیں پھر وہ بآسانی پورا کر کے زبر دست بونس حاصل کرتے تھے۔

محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول کی عدم موجودگی میں افسر شاہانہ منصوبہ بندی کی ایک اور بڑی خامی یہ تھی کہ پلان ٹارگٹس کی تکمیل کسی یک رخے پیمانے مثلاً وزن، تعداد یا قیمت سے ناپی جاتی تھی۔ انٹر پرائز مینیجرز بھی بس ٹارگٹ پورا کرنے کے چکر میں اسی ایک پیمانے کو مد نظر رکھتے تھے۔ مثلاً، اگر وزن کو پیمانہ بنایا گیا ہے تو پھر بننے والی پراڈکٹ بڑی، بھدی، بھاری اور بے ہنگم ہوں گی تا کہ کم سے کم یونٹ بناکرجلد از جلد اور کم سر درد کے ساتھ پلان ٹارگٹ کو پورا کیا جا سکے۔ اگر پیمانہ قیمت کا ہے تو جان بوجھ کر مہنگے ان پٹس کی ڈیمانڈ کی جائے گی اور پروڈکشن کے لیے افادیت سے قطع نظر مہنگے ترین ڈیزائنز کو چنا جائے گا۔ اگر پیمانہ تعداد کا ہے تو پھر کوالٹی کو نظر انداز کر کے اندھادھند ٹارگٹ تعداد پوری کی جائے گی، چاہے بننے والی آدھی پراڈکٹ بیکار ہی کیوں نہ ہو۔ آسان الفاظ میں، اگر کسی جوتا ساز فیکٹری کو سالانہ بیس ہزار جوتے بنانے کا ٹار گٹ ملا ہے تو اس کا مینیجر صرف یہ تعداد پوری کرنے کے درپے ہو گا، چاہے بننے والے تمام جوتے صرف دائیں پیر کے ہی کیوں نہ ہوں۔ اس سب کا نتیجہ انتہائی وزنی گھریلو سازو سامان، بے ہنگم صوفوں، استعمال کے پہلے سال میں پھٹ جانے والے ٹی وی سیٹس اور ریاستی سٹورز میں دیگر بیکار اشیائے استعمال کی بھر مار کی صورت میں نکلتا تھا۔ یقینا، ٹاپ افسر شاہی کسی فوری ضرورت یا ترجیح کے تحت چند ایک شعبوں پر سپاٹ لائٹ ڈال کر وقتی طور پر ان میں بہت اچھے نتائج بھی حاصل کر لیتی تھی، لیکن بحیثیت مجموعی، اس ساری صورتحال کا نتیجہ وسائل کے زبردست ضیاع کا سبب بنتا تھا۔

افسر شاہی میں موجود عمودی تقسیم بھی بے تحاشا مسائل پیدا کرتی تھی۔ 1939ء میں سوویت معیشت کے 39 آفیشل شعبہ جات تھے جن کی 15 وزارتیں تھیں۔ 1971ء تک معاشی شعبہ جات کی تعداد 162 ہو چکی تھی اور ساتھ ہی اسی حساب سے نئی وزارتیں بھی بن چکی تھیں۔ سٹالن کے دور میں معیشت نسبتاً سادہ تھی اور بھاری صنعتوں اور فزیکل انفراسٹرکچر کے قیام پر مشتمل ابتدائی مراحل سے گزر رہی تھی۔ اسی لیے، اسے گوسپلان میں بیٹھے بیوروکریٹس کے ذریعے چلانا نسبتاً آسان تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے معیشت وسیع، جدید اور پیچیدہ ہوتی گئی، اسے گوسپلان کے ذریعے براہ راست ڈائریکٹ کرنا مشکل ہوتا گیا۔ یہی وجہ تھی کہ خروشیف اور برژنیف کے دور میں معاشی تضادات پر قابو پانے اورگروتھ کو بڑھانے کی خاطر عملیت پسندانہ انداز میں ڈی سنٹرالائزیشن اور ری سنٹرالائزیشن کے مابین جھولنے کے باوجود عمومی رجحان ڈی سنٹرالائزیشن کی طرف ہی بڑھتا گیا۔ 1983ء تک، گوسپلان صرف 6 ہزار پروڈکشن ٹارگٹس دینے کا ذمہ دار تھاجبکہ وزارتوں کے پاس 24 لاکھ پروڈکشن ٹارگٹس دینے کی ذمہ داری تھی۔ وزارتوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے مرکزی سطح پر پلاننگ کا تانا بانا بکھرنا شروع ہو گیا اور مختلف وزارتوں کی اپنی اپنی امپائر بلڈنگ کے چکر میں معیشت کی ”ڈیپارٹمنٹلائزیشن“ بڑھتی چلی گئی۔ خام مال، ایندھن اور کیپیٹل گڈز (پیداوار میں استعمال ہونے والی مشینری)کی ایلوکیشن کے لیے مختلف وزارتوں کی آپس میں اور گوسپلان کے ساتھ کھینچا تانی ہمیشہ چلتی رہتی تھی۔ ہر وزارت کی افسر شاہی اپنے مالی و سیاسی مفادات کے پیش نظر اپنے لیے بہترین وسائل چاہتی تھی، چاہے کسی مخصوص وقت میں ان کی زیادہ ضرورت یا افادیت کسی دوسرے شعبے میں ہو اور مقصد کے حصول کے لیے اعدادوشمار میں ہر قسم کے ہیر پھیر کیے جاتے تھے۔ مگر، دوسری طرف جیسے جیسے سوویت معیشت جدید ہوتی گئی اور اس کے مختلف شعبوں کا انحصار ایک دوسرے پر بڑھتا گیا، ویسے ہی مختلف وزارتوں کے بیچ کرس کراسنگ اور پیداواری عمل کی اوور لیپنگ بھی بڑھتی گئی۔ مگر مفادات پر مبنی افسرشاہی کے داخلی تضادات کی وجہ سے یہ سب کچھ معاشی طور پر مؤثر انداز میں ہونے کی بجائے ایک انتہائی بے ہنگم طریقے سے ہو رہا تھا جس کا نتیجہ پلاننگ کے راستے میں سرخ فیتے کی بڑھتی ہوئی رکاوٹوں کی صورت میں نکل رہا تھا۔ مثال کے طور پر کٹی ہوئی عمارتی لکڑی کی تیاری میں 70 اور سیمنٹ، اینٹوں اور دیگر بنیادی تعمیراتی سامان کی تیاری میں 60 مختلف وزارتیں اور محکمے ملوث تھے۔ اسی طرح، مشین ٹولز کی پیداوار میں 11 مختلف وزارتوں جبکہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں 5 وزارتوں کا عمل دخل تھا۔ اس ساری صورتحال سے معیشت کو کس طرح نقصان پہنچ رہا تھا، اس کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب وسط ایشیا میں قدرتی گیس کے بہت بڑے ذخائر دریافت ہوئے تو وہاں پر کنوؤں کی کھدائی کا آغاز کرنے میں ہی سات سال لگ گئے کیونکہ اس کے لیے 27 مختلف وزارتوں اور محکموں کی منظوری درکار تھی اور یہ ابھی سوویت حکومت کے لیے ایک انتہائی ترجیحی سیکٹر کا قصہ ہے۔

افسر شاہی کے افقی تضادات کی طرح عمودی تضادات کے دیگر نتائج بھی سوویت عوام اور معیشت کے لیے نہایت تباہ کن ثابت ہوتے تھے۔ پلان ٹارگٹس کی تکمیل کو ماپنے کے یک رخے پیمانے اور افسر شاہانہ مفادات، یہاں بھی عوامی ضروریات کو نظر انداز کرنے کا سبب بنتے تھے۔ مثال کے طور پر، اگر گوسپلان اور تعمیرات کی وزارت کی جانب سے سوویت آذر بائیجان کے محکمہئ تعمیرات کو یہ پلان ٹارگٹ ملا ہے کہ انہوں نے پانچ سالہ منصوبے کے دوران آذر بائیجان میں اتنی نئی تعمیرات کرنی ہیں جن میں کل ملا کر دو ملین ٹن سٹیل استعمال ہو جائے تو پھر محکمہ جاتی افسر شاہی عوامی ضروریات سے قطع نظر ایسی تعمیرات کو ترجیح دے گی جن میں سٹیل کی کھپت زیادہ سے زیادہ ہو اور دوسرے تعمیراتی سامان اور خام مال کی کھپت کم سے کم ہو تا کہ کم سے کم مجموعی ان پٹس کے ساتھ پلان ٹارگٹس پورے کر کے بلکہ ان سے آگے بڑھ کر، بڑے بونس، مراعات اور ترقیاں حاصل کی جا سکیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ سوویت آذر بائیجان کے بیابانوں میں، مختلف دوردراز دریاؤں اور گھاٹیوں پر سنسان پڑے رہنے والے سٹیل کے بڑے بڑے پلوں کی بہتات ہو جائے گی جبکہ عوام کی حقیقی ضرورت، مثلاً،نئے ہسپتالوں یا ہاؤسنگ یونٹس کی تعمیر، تشنہ رہ جائے گی۔ اسی طرح، منصوبہ بندی، پیداوار اور تقسیم کار پر محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول کی عدم موجودگی میں یہ ناممکن تھاکہ ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل مفاداتی کھینچا تانی میں مصروف ان سینکڑوں وزارتوں اور ان کے ذیلی محکموں کی افسر شاہی ایک جدید معیشت کے مختلف شعبوں کے بیچ درکار ہم آہنگی اور بیلنس کو تخلیق کر پاتی۔ مثلاً، اگر زرعی شعبہ پلان ٹارگٹ کو پورا کرتے ہوئے گندم کی زبردست پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو پتا چلتا تھا کہ اتنے گودام ہی نہیں ہیں جہاں سرپلس غلے کو سٹور کیا جا سکے۔ جب وزارت تعمیرات سے رجوع کیا جاتا تھا تو وہ کہتے کہ نہ تو انہیں اس بارے میں گوسپلان سے کوئی ٹارگٹس موصول ہوئے اور نہ ہی زرعی شعبے کی متعلقہ وزارتوں کی جانب سے ان کے ساتھ یہ معاملہ پہلے ڈسکس کیا گیا ہے۔ ،یقینا، بھاری بھرکم اپریٹس کی پیدا کردہ دھند سے دوسرے شعبوں کے بارے میں پیدا ہونے والی لاعلمی کا اس معاملے میں ایک اہم کردار ہوتا تھا لیکن اکثر اوقات اس لاعلمی کے پیچھے افسرشاہی کی مفاداتی کھینچا تانی بھی موجود ہوتی تھی۔ لیکن، اس سب کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ سرپلس غلہ کھلے آسمان تلے پڑا سڑتا رہتا تھا اور آخر کار ضائع ہو جاتا تھا۔ اسی طرح، اگر تمباکو کی فصل اچھی ہوئی ہے تو پتا چلتا تھا کہ اتنے سگریٹ بنانے کے لیے رولنگ پیپر تو ہے ہی نہیں۔ ایک جگہ شاندار قسم کا بس اسٹیشن تو بن گیا ہے لیکن آس پاس کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں کی کئی سال مرمت نہیں ہو سکی۔ ایک نئی کوئلے کی کان نے کام کرنا شروع کر دیا لیکن پھر پتا چلا کہ نکالے ہوئے کوئلے کو ٹرانسپورٹ کرنے کے لیے ٹرکوں کی درکار تعداد تو اس جگہ کے متعلقہ محکمے کے پاس ہے ہی نہیں۔ پلان میں ٹریکٹر بنانے کا ٹارگٹ تو پورا کر لیا گیا لیکن پھر پتا چلا کہ تکنیکی تعلیم کی وزارت نے ان کے لیے درکار مکینک اور ڈرائیور تو تیار ہی نہیں کیے، لہٰذا، اب جب تک وہ تیار نہیں ہو جاتے، ٹریکٹرز بیکار کھڑے رہیں گے۔

سرمایہ دارانہ معیشت میں تو منڈی کا اندھا میکنزم ہوتا ہے جو سرمائے کے ارتکاز اور شرحِ منافع میں بڑھوتری کی خاطر اپنے تمام تر انتشار، ضیاع، ہلاکت خیزی، عوام دشمنی، جنگوں، زائد پیداوار کے بحرانوں، پیداواری قوتوں کی بربادی، اجارہ داریوں کے جابرانہ اثر ورسوخ اور ماحولیاتی تباہی کے باوجود بہر حال کسی نہ کسی حد تک اوپر زیر بحث لائے گئے مسائل کو قابو میں رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر،اگر کوئی فیکٹری پیداوار کے معیار میں اپنے مد مقابلوں سے پیچھے رہ جائے گی، منافع کے نقطہ نظر سے مؤثر پیداوار نہیں کرے گی یا افزودگیٔ محن بڑھانے کی دوڑ میں اپنے مد مقابلوں سے پیچھے رہ جائے گی تو اس کا نتیجہ اس کے دیوالیہ ہو کر بزنس سے آؤٹ ہو جانے کی صورت میں نکلے گا۔ لیکن، ایک منصوبہ بند معیشت میں منڈی کے اس سفاکانہ انسان دشمن میکنزم کی جگہ انسان دوست شعوری منصوبہ بندی لے لیتی ہے جس کے ذریعے ان تمام مسائل کا خاتمہ کرتے ہوئے معیشت کو عوامی ضروریات اور امنگوں کے مطابق چلایا جاتا ہے، مگر، ظاہر ہے کہ اس کے لیے مزدور جمہوریت کا ہونا لازمی ہے۔ غالباً، ہمیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی میں منصوبہ بند معیشت پر افسر شاہانہ جکڑ بندی کس قدر انتشاراور قیمتی وسائل، پیداوار اور پیداواری صلاحیتوں کے ضیاع کا باعث بنتی ہے۔ گو کہ اس تمام تر جکڑ بندی کے باوجود سوویت منصوبہ بند معیشت انسان دشمن سرمایہ دارانہ معیشت سے کہیں آگے کا قدم تھی۔

معیار اور جدت کاری کا مسئلہ

ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ منصوبہ بند معیشت پر بطور پیداکار اور استعمال کنندہ، محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول کی عدم موجودگی میں پلان کی تکمیل ماپنے کے یک رخے پیمانے کس طرح سے پیداوار کے معیار کو متاثر کرنے کا سبب بنتے تھے۔ لیکن یہاں پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس مسئلے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ سوویت یونین تکنیک میں پسماندہ تھا۔ سٹالن کے دور میں ابتدائی تین پانچ سالہ منصوبوں کے لیے اہم جدید ترین ٹیکنالوجی اور بھاری مشینری باہر سے درآمد کی گئی تھی لیکن اسی دوران ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ (R&D) میں بھاری سرمایہ کاری بھی کی گئی اور سوویت یونین میں سائنس دانوں، مختلف شعبوں کے ماہرین اور ہنر مندوں کی بھی ایک بڑی تعداد تیار ہوئی جنہوں نے سوویت سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیادیں رکھیں۔ یہ سلسلہ سٹالن کے بعد بھی جاری رہا اور ایک وقت آنے پر سوویت یونین ٹیکنالوجی میں کم و بیش مغربی سرمایہ دارانہ ممالک کا ہم پلہ بن چکا تھا اور یہاں تک کہ چند مخصوص شعبوں میں ان سے ایک قدم آگے بڑھ چکا تھا۔ یہ جدید سوویت ٹیکنالوجی ان شعبوں، مثلاً اسلحہ سازی اور خلائی دوڑ وغیرہ، میں بخوبی اپنا اظہار بھی کرتی تھی، جہاں سرد جنگ کے دوران، سرمایہ دارانہ دنیا کے ساتھ مخاصمت میں افسر شاہی کو اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے معیار کی ضرورت ہوتی تھی۔ ہر فوجی ماہر بخوبی جانتا ہے کہ کس طرح دوسری عالمی جنگ میں سوویت T-34 ٹینکوں نے اپنے سے کہیں مہنگے جرمن ٹینکوں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ کس طرح ویت نام کی فضاؤں میں سوویت مگ 21 لڑاکا طیاروں نے اپنے انتہائی مہنگے امریکی مد مقابل F-4 فینٹم طیاروں کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ کس طر ح 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی بحریہ کے سوویت ساختہ بحری جہاز شکن میزائلوں نے پاکستان کے مغربی ساختہ جنگی بحری جہازوں کو آناً فاناً سمند ر کی تہہ میں اتار کر جدید بحری جنگ کا رخ ہی موڑ کر رکھ دیا۔ کس طرح 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر ی ائر ڈیفنس کے سوویت ساختہ طیارہ شکن میزائلوں نے اسرائیلی فضائیہ کے جدید ترین امریکی اور یورپی ساختہ لڑاکا طیاروں کو مکھیوں کی طرح مار گرایا۔ باقی اے کے47 کلاشنکوف کے سادہ استعمال اور مؤثر پن کا تو ایک زمانہ مداح ہے۔ اسی طرح، 1980ء کی دہائی میں مدار میں بھیجا جانے والا خلائی سٹیشن ”میر“ ٹیکنالوجی کا ایک ایسا شاہکار تھا کہ جب سوویت انہدام کے بعد پہلی مرتبہ امریکی خلاباز اس میں گئے تو اس کی جدت کو دیکھ کر دنگ ہی رہ گئے۔ اکثر لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ سوویت یونین کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں امریکہ سے بہت پیچھے تھا۔ یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے ہم صرف سادہ سا سوال پوچھتے ہیں کہ کیا میر جیسا ملٹی ماڈیولر خلائی سٹیشن جدید ترین کمپیوٹر کنٹرولز اور پرو گرامنگ کے بغیر کام کر سکتا تھا؟ اسی طرح، سوویت مشین ٹولز اور بھاری صنعتوں میں استعمال ہونے والی کیپیٹل مشینری بھی جدت اور بلند معیار کی حامل ہوتی تھی۔

لیکن، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سوویت یونین میں بننے والے جوتے کیوں ناقص ہوتے تھے؟ ٹی وی سیٹ کیوں بیکار ہوتے تھے؟ کاریں کیوں بھدی ہوتی تھیں؟ ریڈیو کیوں جلد خراب ہو جاتے تھے؟ اور یہ کہ جہاں ایک طرف ہر چند سال بعد اسلحے کے نئے اور جدید ترین ماڈل متعارف کروائے جاتے تھے، وہیں دوسری طرف، کپڑوں، جوتوں، کاروں اور دیگر اشیائے استعمال کا ایک ہی ڈیزائن یا ماڈل دہائیوں تک چلتا تھا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ تھی کہ یہ سب کچھ سوویت عوام نے استعمال کرنا ہوتا تھا اور چونکہ منصوبہ بندی اور پیداوار کے پورے عمل میں ان کی رائے اور نگرانی سرے سے شامل ہی نہیں ہوتی تھی، لہٰذا اشیائے استعمال کے معیار کو بہتر بنانے اور ان کی پیداوار میں جدت کاری لانے میں افسر شاہی کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ افسر شاہی کے آمرانہ رویے، کرپشن، لوٹ کھسوٹ، مراعات، ضیاع اور بے حسی بھی محنت کشوں میں اپنی محنت کے پھل سے محرومی کے احساس، بیگانگی اور کام میں عدم دلچسپی کا موجب بنتے تھے جس کا نتیجہ صنعت اور زراعت میں مسلسل بھاری سرمایہ کاری کے باوجود کمتر افزودگیٔ محن اور پیداوار کے معیار میں گراوٹ کی صورت میں نکلتا تھا۔ افزودگیٔ محن کے مسئلے پر ہم آگے چل کر تفصیلی بحث کریں گے لیکن فی الحال ہم اپنی توجہ اشیائے استعمال کی پیداوار میں جدت کاری نہ ہونے کی ایک اور اہم وجہ یعنی افسر شاہی کی مختلف پرتوں کے مفادات پر مبنی داخلی تضادات پر مرکوز کرتے ہیں۔

تمام صنعتی ماہرین یہ جانتے ہیں کہ جب بھی کوئی نئی ٹیکنالوجی، کسی پراڈکٹ کا بالکل نیا ماڈل یا ڈیزائن متعارف کروایا جاتا ہے تو اسے ناگزیر طور پر کچھ ابتدائی تکنیکی مسائل سے گزرنا پڑتا ہے جو کچھ وقت لے کر ہی ٹھیک ہوتے ہیں۔ صنعتی زبان میں انہیں ٹیکنالوجی کے ”دانت نکالنے کے مسائل“ (Teething Problems) کہا جاتا ہے۔ مگر ہر افسر شاہی کی طرح، سوویت افسر شاہی بھی اپنے جوہر میں قدامت پسند تھی اور افسر شاہانہ پلاننگ سٹرکچر کچھ ایسا تھا کہ سوائے اسلحہ سازی، خلائی دوڑ، کیپیٹل مشینری اور آئل اینڈ گیس وغیرہ، جیسے چند ترجیحی شعبہ جات کے کہیں بھی پیداوار میں جدت کاری لانے کا کوئی صلہ نہیں ملتا تھا۔ انٹر پرائز مینیجرز کی پوری توجہ یک رخے پیمانوں کے تحت آؤٹ پٹ ٹارگٹس کو پورا کرنے اور بریک ڈاؤنز سے بچنے پر مرکوز ہوتی تھی کیونکہ ان کے مفادات اسی کے ساتھ منسلک تھے۔ ایسی صورتحال میں اپنے ناگزیر ٹیتھنگ پرابلمز کی وجہ سے جدت کاری لانے کی کوشش کرنا الٹا کیرئیر کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ یہ پیداوار میں بریک ڈاؤنز،حل کے لیے وقت طلب نئے تکنیکی چیلنجز اور نتیجتاً، آؤٹ پٹ ٹارگٹس کو مسلسل مس کرنے جیسے مسائل کا سبب بن سکتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ چند ایک ترجیحی شعبہ جات کو چھوڑ کر سوویت سائنس دانوں، انجینئرز اور ہنر مندوں کے سائنسی وتکنیکی کارناموں کا بحیثیت مجموعی سوویت معیشت اور خاص کر اشیائے استعمال بنانے والی صنعت کو بہت کم فائدہ ہوتا تھا۔ اس امر کا ایک ٹھوس اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970ء کی دہائی میں سوویت یونین میں ہونے والی ہر چار نئی سائنسی و تکنیکی ایجادات میں سے صرف ایک کو اگلے دو سالوں میں پیداواری عمل میں استعمال کیا جاتا تھا جبکہ امریکہ اور مغربی جرمنی میں چار میں سے تین ایجادات اس عرصے میں پیداواری استعمال میں آ چکی ہوتی تھیں۔ اسی طرح، سوویت یونین میں اکثر نئی ٹیکنالوجی کے ایجاد کے سال اور اس کے صنعت میں استعمال کے بیچ کا دورانیہ امریکہ کے اسی دورانیے کے مقابلے میں دس سال تک زیادہ ہوتا تھا۔

کمتر افزودگیٔ محن کا مسئلہ

مارکسز م کا ہر طالبعلم جانتا ہے کہ حتمی تجزئیے میں کسی بھی طرز پیداوار کی کامیابی کا دارومدارافزودگیٔ محن میں مسلسل اضافے یا دوسرے الفاظ میں وقتِ محن کی زیادہ سے زیادہ بچت پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ افسر شاہانہ جکڑ بندی کے باوجود منصوبہ بند معیشت کے تحت مطلق معنوں میں افزودگیٔ محن میں بہت اضافہ بھی ہوا۔ مگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے مقابلے میں کمتر افزودگیٔ محن وہ مستقل بیماری تھی جس سے سوویت یونین پہلے پانچ سالہ منصوبے سے لے کر اپنے انہدام تک جان نہیں چھڑا سکا۔ پہلے تین منصوبوں (41-1928ء) کی حد تک تو کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ چند ایک اہم شعبوں کے لیے باہر سے جدید مشینری اور ٹیکنالوجی درآمد کرنے سے قطع نظر، بحیثیت مجموعی، سوویت معیشت تکنیکی اعتبار سے ابھی پسماندہ ہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ، سوویت محنت کش بھی ابھی ہنر اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں مہارت کے معاملے میں یورپی اور امریکی محنت کشوں سے پیچھے تھے۔ لہٰذا، اس پورے عرصے میں سوویت معیشت کی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے مقابلے میں کمتر افزودگیٔ محن کی ذمہ داری بڑی حد تک ان دو عوامل پر ڈالی جا سکتی ہے حالانکہ ان عوامل کے ساتھ ساتھ اس کے پیچھے جبری اجتماع کاری، قحط، افراطِ زر، راشن کارڈ جیسی بیکار بیہودگی، سماجی انتشار اور شدید افسرشاہانہ جبر جیسے عوامل سے پھیلنے والی بیگانگی اور کام سے عدم دلچسپی کا بھی ایک اہم کردار تھا۔ مگر 70-1960ء کی دہائی تک تو، بحیثیت مجموعی، سوویت معیشت جدت کاری کے راستے میں حائل تمام تر افسرشاہانہ رکاوٹوں کے باوجود تکنیک کاری میں ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک سے زیادہ پیچھے نہ تھی۔ مگر، افزودگیٔ محن میں بڑے فرق کا مسئلہ جوں کا توں برقرار تھا۔ یہاں تک کہ وہ ترجیحی شعبے جن میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی عالمی تقا بل میں جدید ترین تھی، وہاں بھی افزدوگیئ محن ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی نسبت کم تھی۔ زرعی شعبے کی صورتحال تو اس معاملے میں خاص طورپر نہایت خراب تھی، حالانکہ سٹالن کے دور کے برعکس 1950ء کی دہائی کے وسط سے لے کر کم و بیش انہدام تک اس شعبے میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی تھی۔

1913ء میں زار شاہی کے تحت روسی صنعت کی افزودگیٔ محن امریکی صنعت کے 25 فیصد کے برابر تھی۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبے کے اختتام تک یہ امریکی صنعت کے 40 فیصد کے برابر ہو چکی تھی۔ واضح رہے کہ بڑے پیمانے پر منصوبہ بند صنعت کاری کی وجہ سے اس وقت سوویت یونین کی بھاری صنعتوں کا مجموعی سالانہ آؤٹ پٹ امریکی بھاری صنعت سے کچھ زیادہ کم نہیں تھا لیکن افزودگیٔ محن کے معاملے میں فرق بہت زیادہ تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے عرصے میں بھی افزودگیٔ محن میں اضافہ جاری رہا۔ 60-1955ء کے دوران یہ صنعتی شعبے میں 6.5 فیصد سالانہ تھا جو 65-1961ء کے دوران کم ہوکر4.6فیصد سالانہ ہو گیامگر پھر بھی، بحیثیت مجموعی، اس تمام عرصے میں سوویت اور امریکی صنعت کی افزودگیٔ محن کے بیچ فرق کم ہوا اور 1965ء تک سوویت صنعت کی افزودگیٔ محن امریکی صنعت کے 65 فیصد کے برابر ہو چکی تھی۔ لیکن ابھی بھی یہ ایک بڑا فرق تھا اور وہ بھی ایک ایسی افسر شاہی کے لیے جو سوشلزم کی ’مکمل تعمیر‘ کے بعد اب کمیونزم کی تعمیر کی بڑھکیں لگا رہی تھی۔ مگر 1975ء کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی اور 80-1975ء کے عرصے میں یہ سالانہ اضافہ کم ہو کر لگ بھگ 3.4 فیصد تک آ گیا اور 1982ء تک یہ صرف 2.5 فیصد رہ گیا تھا۔ اس کا نتیجہ سوویت اور امریکی صنعت کی افزدوگیئ محن کے درمیان فرق کے واپس بڑھنے کی صورت میں نکلا۔ 1980ء کے اوائل تک سوویت صنعت کی افزودگیٔ محن، امریکی صنعت کے صرف ایک تہائی کے برابر رہ گئی تھی یا دوسرے الفاظ میں ایک جتنے وقت میں، ایک جیسے ان پٹس کے ساتھ ایک امریکی محنت کش ایک سوویت محنت کش سے تقریباً 3 گنا زیادہ پیداوار کر رہا تھا۔ اگرچہ، بے تحاشا سرمایہ کاری کے نتیجے میں 1970ء کی دہائی میں سوویت یونین دنیا میں گندم کا سب سے بڑا پیدا کنندہ بن چکا تھا لیکن اس کے باوجود زرعی شعبے میں افزودگیٔ محن کی صورتحال صنعت سے بھی کہیں زیادہ خراب تھی، جس کا ایک اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1970ء کی دہائی میں سوویت یونین کے 26 فیصد کے برعکس امریکی لیبر فورس کا صرف 4.6 فیصد حصہ زرعی شعبے میں کام کر رہا تھا، لیکن، اس کے باوجود امریکہ کی مجموعی زرعی پیداوار سوویت یونین سے تقریباً 6 گنا زیادہ تھی، حالانکہ، سوویت یونین کے پاس بھی زرخیز زرعی زمین کی کوئی کمی نہیں تھی۔ 1982ء تک صورتحال مزید بگڑ چکی تھی اور جہاں امریکہ کا ایک زرعی محنت کش 40 افراد کے لیے خوراک پیدا کر رہا تھا، وہیں ایک سوویت زرعی محنت کش بمشکل 6 افراد کے لیے خوراک پیدا کرنے کے قابل تھا۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ 80-1970ء کی دہائی میں بھی، اگرچہ بحیثیت مجموعی، سوویت معیشت کی تکنیک کاری امریکی اور مغربی یورپی معیشت سے پیچھے ہی تھی لیکن اس کے باوجود یہ فرق اتنا بڑا نہیں تھا جس سے افزودگیٔ محن کے معاملے میں اتنے بڑے تفاوت کی وضاحت کی جا سکے اور ابھی سوویت افزودگیٔ محن کے مندرجہ بالا تمام اندازے بھی نہایت خام ہیں اور غالب امکانات ہیں کہ حقیقی صورتحال اس سے بھی بدتر تھی۔ اس معمے کی اصل وجہ یہ ہے کہ افزودگیٔ محن میں اضافے کے لیے صرف جدید تکنیک کاری ہی کافی نہیں ہوتی۔ اس کے لیے محنت کشوں کی کام میں دلچسپی کا ہونا بھی لازمی ہے۔ مگر سوویت یونین چاہے مسخ شدہ ہی سہی، لیکن ایک مزدور ریاست تو تھی اور اس میں مستقل ملازمتوں کی فراہمی اور بیروزگاری کا خاتمہ ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل تھااور یہ، بلاشبہ، اکتوبر انقلاب کی سب سے قابلِ فخر حاصلات میں سے ایک تھا۔ ایسے سماج میں محنت کشوں کی اپنے کام میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے دو عوامل کا ہونا بہت ضروری تھا۔ ایک تو بحیثیت مجموعی منصوبہ بندی اور پیداوار کے عمل پر ان کا جمہوری کنٹرول تاکہ وہ منصوبہ بند معیشت کو عوامی ضروریات کی مناسبت سے ترتیب دے سکیں، اور دوسرا تقسیمِ کار پر جمہوری کنٹرول تاکہ مشترکہ عوامی مفادات کے لیے ہونے والی لازمی کٹوتی کے بعد ہر ایک کو تقسیمِ کار کے بورژوا قانون کے مطابق یعنی اس کی اہلیت کے مطابق مل سکے۔ سوویت یونین میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ افسر شاہانہ آمریت کے باعث محنت کش طبقہ منصوبہ بندی، پیداوار اور تقسیمِ کار کے پورے عمل میں کہیں شامل ہی نہیں تھا۔ سوویت محنت کش جب افسر شاہانہ منصوبہ بندی کی عوامی ضروریات سے بیگانگی کو دیکھتے تھے، اپنی اور افسر شاہی کی تنخواہوں میں تفاوت کو دیکھتے تھے، ان کے بونس اور مراعات کو دیکھتے تھے، ان کے لیے بننے والے خصوصی ہاؤسنگ یونٹس، ہسپتالوں اوردرآمد شدہ لگژری اشیا ء سے بھرے سپیشل سٹورز کو دیکھتے تھے اور سب سے بڑھ کر ان کی کرپشن، لوٹ کھسوٹ، ہیرا پھیریوں اور ان کے ہاتھوں وسائل، پیداوار اور پیداواری قوتوں کے زبردست ضیاع کو دیکھتے تھے، تو یہ احساس کہ اس طفیلیہ پرت کی وجہ سے وہ اپنی محنت کے پورے پھل سے محروم ہیں، ان کے دل ودماغ کو نفرت، غصے، بد دلی اور بیگانگی سے بھر دیتا تھا۔ تمام تر بھاری سرمایہ کاری کے باوجود سوویت معیشت کے کمتر افزودگیٔ محن کے مستقل مسئلے کی اصل وجہ یہی تھی۔ کسی سوویت فیکٹری ورکر نے ہنستے ہوئے کہا تھا کہ ”وہ (افسر شاہی) ہمیں تنخواہ دینے کی ڈرامہ بازی کرتے ہیں اور جواب میں ہم کام کرنے کی“۔ اگر چہ، ازراہِ مذاق کی گئی اس بات میں کچھ مبالغہ آرائی بھی شامل ہے لیکن کسی حد تک یہ جملہ، سوویت معیشت کی اس تلخ حقیقت کی درست غمازی بھی کرتا ہے۔ ٹراٹسکی نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ”ایک منصوبہ بند معیشت کے لیے مزدور جمہوریت کوئی اضافی چیز نہیں بلکہ اسی طرح ضروری ہے جیسے انسانی جسم کے لیے آکسیجن۔ “

قیمتوں اور اخراجات کا درست تعین۔ ۔ ۔ مگر کیسے؟

سرمایہ دارانہ نظام میں اشیاء کی قیمتوں (قدر کا نہیں) کا تعین منڈی میں طلب اور رسد کے بیچ کھینچا تانی سے ہوتا ہے۔ لیکن، مارکس یہ وضاحت کرتا ہے کہ ایک کلاسیکی آزاد منڈی میں کس طرح ایک لمبے عرصے میں کسی بھی شے کی اوسط قیمت اس کی قدرِ اصل کے آس پاس ہی رہتی ہے، اگرچہ، آج کی اجارہ دارانہ سرمایہ داری میں نام نہاد آزاد منڈی ہر گز بھی ’آزاد‘ نہیں ہے، لہٰذا مارکس کی یہ بات اجارہ داری کے عہد میں عملی طور پر صرف جزوی حد تک ہی لاگو ہوتی ہے۔ لیکن سوویت یونین تو ایک سرمایہ دارانہ معیشت نہ تھی بلکہ سرمایہ داری اور سوشلزم کے بیچ عبوری عہد میں موجود ایک منصوبہ بند معیشت تھی جس میں بڑی حد تک منڈی کا خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ جن چند ایک شعبوں کے بیچ جزوی طور پر منڈی کا رشتہ موجود تھا وہاں بھی یہ سخت ریاستی کنٹرول میں تھا۔ ریاستی ملکیت میں موجود قدرتی ذرائع اور زرعی فارمز سے پیدا ہونے والے خام مال، ہیوی انڈسٹری کی تقریباً تمام پیداوار، کوآپریٹواجتماعی فارمز اور ایکسپورٹ کے لیے بننے والی کیپیٹل مشینری کے علاوہ باقی تمام کیپیٹل گڈز کی پیداوار کموڈٹیز کے طور پر نہیں بلکہ قدرِ استعمال کے طور پر ہوتی تھی اور پلان کی ضروریات کے مطابق، گوسپلان اور مختلف وزارتوں کے بیچ باہم مشاورت سے ان کی مختلف شعبوں کو ڈائریکٹ ایلوکیشن کی جاتی تھی۔ ہاں، پلان کے ہی متعین کردہ آؤٹ پٹ ٹارگٹس کے تحت لائٹ انڈسٹری میں بننے والی زیادہ تر اشیائے استعمال، کوآپریٹو اجتماعی فارمز اور ان میں موجود کسانوں کے ذاتی استعمال کے قطعوں کی زیادہ تر زرعی پیداوار کموڈٹی کریکٹر رکھتی تھی، مگر چونکہ، تمام ہول سیل اور زیادہ تر ریٹیل ٹریڈ ریاستی ملکیت میں تھی، لہٰذا ان کموڈٹیز کی قیمتوں کا تعین منڈی کے میکینزم کے تحت نہیں بلکہ سٹیٹ پرائس کمیٹی (گوسکومسین) کی ہدایات کے مطابق ہوتا تھا۔ لیکن، یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منڈی کے میکینزم کی عدم موجودگی میں قیمتوں کا درست تعین کیسے کیا جا سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب پر جانے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ایک منصوبہ بند معیشت میں پیداوار کی قیمتوں کے درست تعین کی ضرورت سرمایہ دارانہ معیشت سے بھی زیادہ ہوتی ہے، کیونکہ ایک منصوبہ بند معیشت میں یہ سب سے اہم پیمانہ ہے، یہ جاننے کے لیے کہ پیداوار کتنے مؤثر انداز میں کی جا رہی ہے اور اسے مزید بہتر کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، قیمتوں کا درست تعین ہی معیشت کی افزودگیٔ محن کو ماپنے کی بنیاد بنتا ہے۔ ایک مستحکم اور معاشی حقائق کی درست عکاسی کرنے والی کرنسی کے ساتھ مل کر یہ منصوبہ بند معیشت کے مؤثر پن اور افزودگیٔ محن کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں کے ساتھ درست تقابلی جائزے کی بنیاد بھی بنتا ہے، جو کہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں منصوبہ بند معیشت اپنے نقائص کو دیکھ کر انہیں دور کرتے ہوئے مزید بہتری کی جانب بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح، قیمتوں کے درست تعین کے بغیر پلان کے اخراجات کا درست تخمینہ لگانا اورریاستی بجٹ کی درستگی ناممکن ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ، قیمتوں کے درست تعین کے بغیر منصوبہ بندی کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے اسے مزید مؤثر اور تعقلی بنانا ناممکن ہے۔ اب ایک منصوبہ بند معیشت میں قیمتوں کا درست تعین کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ افزودگیٔ محن اور شرحِ پیدوار کو مدنظر رکھتے ہوئے لیبر اور مینجمنٹ کے اخراجات، خام مال کے استعمال اور مشینری کی گھسائی سمیت تمام لاگتِ پیداوار کا درست اور دیانت دارانہ حساب کتاب رکھ کر۔ مگر اوپر سے لے کر نیچے تک لوٹ کھسوٹ، ضیاع، غبن اور ہیر پھیر کی گندگی میں لتھڑی ہوئی افسر شاہی کی ڈکشنری میں درستگی اور دیانت داری جیسے الفاظ کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کیونکہ اگر افسر شاہی ایسا کرتی تو نہ صرف اس کی تمام تر نااہلی اور طفیلیہ کردار کا پول کھل جاتا، بلکہ محنت کشوں پر یہ بھی واضح ہو جاتا کہ کل پیداوار کا کتنا بڑا حصہ اس کی موٹی تنخواہوں، بھاری بونسوں اورخصوصی مراعات کی نذر ہو جاتا ہے، جبکہ وہ خود پیداکار ہونے کے باوجود اپنی محنت کے پھل سے بڑی حد تک محروم رہتے ہیں۔ لہٰذا ایسا کرنا افسر شاہی کی موت تھی اور وہ کسی صورت مرنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے علاوہ مزدور جمہوریت کی عدم موجودگی میں گراؤنڈ لیول کے معاشی اور پیداواری حقائق سے افسر شاہی کی بے خبری (انفارمیشن پرابلم) بھی قیمتوں کے درست تعین کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ تھی۔ لہٰذا، سوویت معیشت میں افسر شاہی کی جانب سے قیمتوں کا تعین پیداواری حقائق کی بجائے مبہم اندازوں، خام غیر حقیقی فارمولوں، اپنی مراعات، عیاشیوں، غبن اور ضیاع کو چھپانے کی خاطر ہیرا پھیری سے لبریز اعدادوشمار اور اقتدار قائم رکھنے کی سیاسی ضروریات کے تحت ہوتا تھا۔ اب، ذرا خود سوچیے کہ جب گوسکومسین (1980ء تک) 2لاکھ نئی قیمتوں کے سالانہ اضافے کے ساتھ تقریباً 20 کروڑ مختلف اشیا کی قیمتوں کا ان بنیادوں پر تعین کرتی ہو گی تو منصوبہ بند معیشت کے ساتھ کیسا کھلواڑ ہوتا ہو گا۔ اپنی ہی پیدا کی ہوئی اس دھند میں گم ہو کر افسر شاہانہ مرکزی پلاننگ اپنی سمت کھوتی جا رہی تھی۔ نہ وہ اپنی خامیوں کو جان سکتی تھی، نہ ہی ٹھیک سے اپنے مؤثر پن اور افزودگیٔ محن کو ماپ سکتی تھی اور نہ ہی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں کے ساتھ اپنا درست تقابلی جائزہ کر سکتی تھی۔ نتیجتاً، معیشت کی بڑھتی ہوئی وسعت اور پیچیدگی کے ساتھ نہ صرف وہ اپنے آپ کو بہتر کرنے بلکہ تعقلی پیداوار کرنے کی صلاحیت ہی مکمل طور پر کھو بیٹھی۔

افسر شاہانہ منصوبہ بندی کا بحران

1928-40ء تک کے عرصے میں سوویت معیشت کا اوسط گروتھ ریٹ 14فیصد تھا۔ یاد رہے کہ اسی عرصے میں سرمایہ دارانہ دنیا شدید معاشی کساد بازاری (گریٹ ڈپریشن) کا شکار تھی۔ 60-1950ء تک کے عرصے میں یہ کم ہو کر 10.3 فیصد پر آگیا، اگرچہ ابھی بھی یہ متاثر کن تھا۔ 65-1960ء کے عرصے میں یہ مزید کم ہو کر 6.5 فیصد جبکہ 75-1970ء تک 5.8 فیصد پر آگیا۔ واضح رہے کہ یہ وہ تمام عرصہ تھا(74-1945ء) جب عالمی سرمایہ داری اپنی تاریخ کے سب سے لمبے اور غیر معمولی ابھار میں تھی۔ 80-1975ء تک صورتحال مزید بگڑ چکی تھی اور سو ویت گروتھ ریٹ مزید کم ہو کر تقریباً 4 فیصد تک آ چکا تھا جبکہ انہدام سے پہلے کے سالوں میں یہ بمشکل 3 فیصد تھا۔ یہ تمام اعدادو شمار ایک نہایت ہی بنیادی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ سٹالن کے قبل از جنگ دور میں جب سوویت یونین میں ابھی ایک جدید صنعتی معیشت کے قیام کی بنیادیں رکھی جا رہی تھیں، مجموعی طور پرمعیشت ابھی نسبتاً سادہ تھی، صنعت کاری اپنے ابتدائی مراحل میں تھی اور زیادہ تر بھاری صنعتوں کے قیام پر مشتمل تھی، تب یہ ممکن تھا کہ ان ابتدائی مراحل میں موجود منصوبہ بند معیشت کو افسر شاہانہ آمریت کے تحت بھی ترقی دی جا سکے، اگرچہ مزدور جمہوریت کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ سماجی و معاشی قیمت پر ہی سہی۔ یہی وجہ ہے کہ اس تمام عرصے میں سوویت افسر شاہی نے پیداواری قوتوں کی بڑھوتری میں جزوی طور پر ایک ترقی پسندانہ کردار ادا کیا جس کا ٹراٹسکی نے بھی برملا اعتراف کیا۔ لیکن ساتھ ہی اس نے یہ چیتاؤ نی بھی دی کہ جیسے جیسے منصوبہ بند معیشت آگے بڑھے گی، مزید وسعت، جدت، تنوع اور پیچیدگی اختیار کرے گی، ویسے ویسے اسے افسر شاہانہ انداز میں ترقی دینا تو دور کی بات چلانا بھی مشکل تر ہوتا جائے گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں معیشت کی ترقی وقت کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کے جزوی طور پر ترقی پسندانہ کردار کو بھی ختم کر دے گی اور افسر شاہانہ جکڑ بندی منصوبہ بند معیشت کے لیے مطلق بیڑیوں کا روپ دھار لے گی، جس کا نتیجہ پیداواری قوتوں کی تباہی کی صورت میں سامنے آنے لگے گا۔ گروتھ ریٹ کے پہلے دیے گئے اعدادوشمار پر صرف ایک نظر ڈالنے سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ وقت نے ٹراٹسکی کی پیش بینی کو بالکل درست ثابت کیا۔

1950ء کی دہائی کے اختتام تک، سوویت یونین ایک جدید صنعتی معیشت بن چکا تھا جس کی مختلف اقسام کی 2 لاکھ سے زائد صنعتیں ہر سال دسیوں لاکھ انواع اقسام کی اشیاء بنا رہی تھیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی افسر شاہی اپنا جزوی طور پر ترقی پسندانہ کردار بھی کھو چکی تھی اور ماضی کی بلند شرحِ ترقی ایک سائے کی طرح اس کے ہاتھ سے پھسلنے لگی تھی۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا افسر شاہی کو اس حقیقت کا کوئی احساس نہیں تھا اور کیا انہوں نے اپنے تئیں اس سے نپٹنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ ایسا سو چنا غلط ہوگا۔ افسر شاہی کو بخوبی ادارک تھا کہ اس کا اقتدار، مراعات اور عیاشیاں اسی منصوبہ بند معیشت کی بنیاد پر قائم ہیں اور اگر وہ اسے مزید ترقی نہیں دے پاتی تو یہ سب کچھ خطرے میں پڑ جائے گا۔ لہٰذا، اپنے ہی پیدا کردہ تضادات پر قابو پانے کے لیے افسر شاہی نے بہت سے پینترے بدلے، بار بار عملیت پسندانہ ٹامک ٹوئیاں ماریں، وحشیانہ جبر سے لے کر اصلاحات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ان مسائل پر قابو پانے کی کوشش کی، معیشت کی انتظامی ساخت کے ساتھ مختلف تجربے کیے گئے، 1960ء کی دہائی سے عالمی تجارت میں بھی حصہ لینا شروع کیا، اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کیا گیا، مگر حتمی تجزئیے میں یہ سب کچھ بیکار گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی افسر شاہی بذات خود تمام مسائل کی جڑ تھی اور اس کے پیدا کردہ تضادات کو اس کی جکڑ بندی کی حدود میں رہتے ہوئے اور اس کے ہی تجویز کردہ طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔

سٹالن نے اپنے دور میں سوویت عوام پر جبر کرنے اور انقلاب کی یاد داشت رکھنے والی ہر اول سماجی پرت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کے داخلی تضادات کو قابو میں رکھنے کے لیے بھی جی پی یو کے فائرنگ سکواڈز کا اندھا دھند استعمال کیا تھا۔ چونکہ، معیشت ابھی ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھی اور نسبتاً سادہ تھی، لہٰذا یہ طریقہ کسی حد تک کارگر بھی رہا۔ معیار، ضیاع اور سماجی انتشار کے شدید مسائل سے قطع نظر، منصوبہ بندی کے آؤٹ پٹ ٹارگٹس کم از کم مقداری حوالے سے ضرور حاصل کیے جاتے رہے۔ 1940ء کی دہائی کا پہلا نصف، دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں، اور دوسرانصف، برباد سوویت سماج کی تیز ترین تعمیرِ نو میں گزر گیا۔ اس تمام عرصے کے غیر معمولی حالات نے افسر شاہی کے داخلی تضادات اور ان کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو وقتی طور پر پس منظر میں دھکیل دیا۔ مگر 1950ء کی دہائی کے اوائل تک افسر شاہی کے داخلی تضادات کھل کر سامنے آنے لگے تھے اور سٹالن ماضی کے تجربے کے تحت ایک بار پھر بڑے پیمانے پر فائرنگ سکواڈز کے استعمال کا سوچ رہا تھا۔ مگر اب کی بار حالات مختلف تھے۔ سوویت معیشت اب اس حد تک وسعت، جدت اور تنوع اختیار کر چکی تھی کہ اوپر سے اندھا دھند ڈنڈا چلا کر اس کے تضادات کو قابو میں نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ مزید برآں، سوویت عوام بھی پہلے ابتدائی پانچ سالہ منصوبوں کے دوران افسر شاہی کی وجہ سے پیدا ہونے زبردست سماجی انتشار، اس کے بعد دوسری عالمی جنگ اور پھر تعمیرِ نو کے اس سارے عرصے میں بری طرح تھک چکے تھے۔ وہ ایک بہتر اور پر سکون زندگی چاہتے تھے اور اس کے حصول کے لیے ان کی برداشت جواب دے رہی تھی۔ افسر شاہی کا ایک پورا دھڑا تھا جو بخوبی یہ سمجھ رہا تھا کہ اگر اس ساری کیفیت میں سٹالن نے ڈنڈا چلانے کی کوشش کی تو پورا نظام ہی زمین بوس ہو سکتا ہے۔ مگر اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی مارچ 1953ء میں سٹالن کی موت ہوگئی (یا شاید اسے قتل کر دیا گیا)۔ سٹالن کی موت کے بعد کچھ عرصے کھینچا تانی جاری رہی اور پھر اقتدار افسر شاہی کے سٹالن مخالف دھڑے کے پاس آ گیا جس کی قیادت خروشچیف کر رہا تھا۔ خروشچیف نے بر سر اقتدار آنے کے بعد باقاعدہ طور پر نام نہاد ”ڈی سٹالنائزیشن“ کا آغاز کیا۔

یہ، درحقیقت، افسر شاہی کے تمام جرائم کا سارا ملبہ فردِ واحد (سٹالن) پر ڈال کر بحیثیت مجموعی افسر شاہی کے اقتدار کو قائم رکھنے یا دوسرے الفاظ میں سٹالن کے بغیر سٹالن ازم کو چلانے کی ہی ایک کوشش تھی1؎۔ اقتدار پر افسر شاہی کی گرفت کو دوام بخشنے کی خاطر محتاط انداز میں تھوڑی بہت سیاسی آزادیاں دی گئیں لیکن اس امر کا خاص خیال رکھا گیا صورتحال کنٹرول سے باہر نہ ہو اور سوویت عوام معاشی فیصلہ سازی کے عمل سے باہر ہی رہیں۔ 1956ء میں جب ہنگرین عوام نے بغاوت کرتے ہوئے اپنی افسر شاہی کے اقتدار کو چیلنج کرنے اور منصوبہ بند معیشت کو اپنے جمہوری کنٹرول میں لینے کی کوشش کی، تو ماسکو سے اس کا جواب سٹالن کے دور کی خون آشام سفاکی سے ہی دیا گیا۔ بہر حال، سوویت عوام میں پنپتی بغاوت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے محنت کشوں کی تنخواہوں اور عوامی سہولیات میں قابل ذکر اضافہ کیا گیا۔ بھاری صنعتوں کے ساتھ ساتھ پہلی دفعہ لائٹ انڈسٹری پر بھی توجہ دی گئی تا کہ عوام کے لیے زیادہ تعداد میں اشیائے استعمال بنائی جا سکیں جن کی کھپت کو بڑھانے کے لیے اس شعبے کو بھاری سبسڈیاں بھی دی گئیں۔ زرعی شعبے میں بھی بھاری سرمایہ کاری کا آغاز کیا گیا۔ ان تمام اقدامات کا مقصد صر ف اور صرف افسر شاہی کے اقتدار کو طول دینا تھا۔ خروشچیف کے بعد برژنیف کے دور میں بھی، وقتاً فوقتاً، گنجائش کے مطابق (جو وقت کے ساتھ کم ہوتی گئی) اس قسم کے اقدامات اٹھائے جاتے رہے تا کہ افسر شاہی کسی طرح اقتدار سے چمٹی رہ سکے۔ مگر، اصل درد سر تو وہ تمام تضادات تھے جو بذات خود منصوبہ بند معیشت پر افسر شاہانہ جکڑ بندی کا نتیجہ تھے، جن پر ہم پہلے کی گئی تمام بحث میں تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں۔ اب افسر شاہی ان کے حل کے لیے رضاکارانہ طور پر اقتدار چھوڑنے اور معیشت کو محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں دینے پر تو آمادہ نہیں ہو سکتی تھی، تو پھر ان پر قابو پانے کے لیے اس نے کس طرح کے اقدامات اٹھائے؟

باریکیوں اور ثانوی تفصیلات میں جائے بغیر اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ مزدور جمہوریت کے بغیر سوویت معیشت کے مؤثر پن، پیداوار کی کوالٹی اور افزودگیٔ محن کو بڑھانے، قیمتوں کے بہتر تعین، جدت کاری کو مہمیز دینے اور ضیاع کی روک تھام کے لیے افسر شاہی کا عمومی رجحان مارکیٹ ریفارمز کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ گروتھ ریٹ میں مسلسل کمی کے ساتھ ساتھ افسر شاہی کے بڑے حصے اور سماج کی دیگر مراعات یافتہ پرتوں (سائنس دان، انجینئرز، ڈاکٹرز، ترجیحی شعبہ جات کے اعلیٰ ہنر یافتہ محنت کش، اکیڈیمکس وغیرہ) میں یہ سوچ جڑ پکڑتی گئی کہ مسائل کا حل یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کو ریاستی ملکیت میں ہی رکھتے ہوئے مر کزی پلاننگ کا کردار نہایت کم کر دیا جائے۔ ریاستی ایلوکیشن اور تقسیمِ کار کی بجائے منڈی کو مکمل طور بحال کیا جائے۔ تمام اشیاء کی پیداوار کموڈٹیز کے طور پر ہو اور سٹیٹ پرائسنگ کا خاتمہ کرتے ہوئے منڈی میں طلب اور رسد کے تحت ہی ان کی قیمتوں کا تعین ہو۔ علاقائی، شعبہ جاتی اور خاص کر انٹر پرائز لیول پر متعلقہ مینجمنٹ کو آزادی دی جائے کہ وہ خود ان پٹس خریدیں، خود سے پیداوار کے ٹارگٹس لیں اورخود اس کی فروخت کی ذمہ داری لیں۔ اس مقصد کے لیے انٹر پرائز کو منافع کمانے کی بھی اجازت ہو جو اس کی ملکیت ہو گا اور جس میں مینجمنٹ کے بڑے حصے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کو بھی تھوڑا بہت حصہ دیا جائے گا۔ اس طرح سے انٹر پرائزز نہ صرف ریاستی سبسڈیوں پر اپنا انحصار ترک کرسکیں گی بلکہ مینجمنٹ اور کسی حد تک محنت کشوں کو بھی معیار بڑھانے، جدت کاری لانے، افزدوگیئ محن بڑھانے یا آسان الفاظ میں پیداواری عمل کو مزید مؤثر بنانے کی ترغیب ملے گی اور جو انٹر پرائز ایسا نہ کر سکے، اس کے ریاستی قرضوں اور سبسڈیوں کے سہارے قائم رہنے سے اس کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہے، بشرطیکہ، اس کا تعلق کسی سٹریٹیجک شعبے سے نہ ہو۔ ایک مزدور ریاست میں ذرائع پیداوار کی ریاستی ملکیت اور منڈی کے میکینزم کے اس بیہودہ ملغوبے کو عرف عام میں ”مارکیٹ سوشلزم“ کہا جاتا ہے۔

اگرچہ، یہ سارا رجحان ایک دن میں تخلیق نہیں ہوا لیکن خروشچیف کی معاشی اصلاحات سے لے کر برژنیف کے عہد میں ہونے والی کوسائجن- لائبر مین اصلاحات اور گوربا چوف کی ”پرسٹرائیکا“ تک یہی رجحان ارتقا پذیر رہا۔ اسی طرح، اس رجحان کا عملی اطلاق بھی کوئی سیدھی لکیر کا عمل نہیں تھاکیونکہ یہ ناگزیر طور پر افسر شاہی اور سماج میں ایسے نیم بورژوا عناصر کو بڑھاوا دیتا تھا جو سرمایہ داری کی طرف واپسی کے نیم شعوری حامی تھے اور ان عناصر کی بڑھوتری سے افسر شاہی کے سخت گیر حصے درست طور پر اپنے اور بحیثیت مجموعی افسر شاہی کے اقتدار کو خطرے میں محسوس کرتے تھے۔ اور پھران سخت گیر حصوں کی جانب سے ڈالے جانے والے دباؤ کا نتیجہ نام نہاد اصلاحات کے رول بیک کیے جانے اور ری سنٹرالائزیشن کی صورت میں نکلتا تھا۔ لیکن ان نام نہاد سخت گیروں کے پاس بھی افسر شاہانہ منصوبہ بندی کے تضادات کا کوئی حل موجود نہیں تھا کیونکہ یہ بھی اصلاح پسندوں کی طرح مزدور جمہوریت کے دشمن تھے۔ لے دے کر ان کے پاس موجود واحد فارمولا اوپر سے اندھا دھند ڈنڈا چلانے کا ہی تھا مگر لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ایک جدید اور پیچیدہ صنعتی معیشت کو اس طرح سے چلانا ناممکن ہے۔ مارکیٹ ریفارمز کے تحت ڈی سنٹرالائزیشن اور ڈنڈا گیر ری سنٹرالائزیشن کے، ان دونوں افسر شاہانہ رجحانات کی کھینچا تانی جاری رہی اور گزرتے وقت کے ساتھ سوویت معیشت پہلے بیان کیے گئے تمام تر افسرشاہانہ تضادات کے بوجھ تلے دبتی چلی گئی، اگر چہ، سوویت انہدام سے پہلے کے سالوں تک، نام نہاد سخت گیر دھڑا بھی مارکیٹ اصلاحات کی ’’افادیت“ پر قائل ہو چکا تھا اور اس کا اختلاف صرف ان اصلاحات کی رفتار اور سیاسی آزادیوں کے معاملے تک رہ گیا تھا۔

1970ء کی دہائی میں تیل، قدرتی گیس اور سونے کی ایکسپورٹ، جن کا سوویت یونین دنیا میں بالترتیب پہلا اور دوسرا بڑا پیدا کنندہ تھا، سے حاصل ہونے والے زرِ مبادلہ سے معیشت کو کسی نہ کسی طرح چالو رکھا گیا،مگر 1980ء کی دہائی میں ان اشیاء کی عالمی منڈی میں قیمتیں گر گئیں اور یہ سہارا بھی جاتا رہا، جبکہ، دوسری طرف اسی عرصے میں سرد جنگ کی بڑھتی ہوئی مخاصمت کی وجہ سے سوویت یونین کے فوجی اخراجات میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ 1985ء تک معاشی جمود اپنی انتہاؤں کو چھو رہا تھا، پیداواری عمل بڑی حد تک رک چکا تھا، سماجی انتشار زوروں پر تھا، افسر شاہانہ تضادات کے بوجھ تلے پورے نظام کا تانا بانا بکھر نا شروع ہو گیا تھا۔ ایسی صورتحال میں گھبرا کر جب گوربا چوف کی قیادت میں افسر شاہی کے اصلاح پسند دھڑے نے معیشت کو تحرک دینے کے لیے پرسٹرائیکا اور گلاسنوسٹ کے نام سے تیز لبرل ڈی سنٹرالائزیشن اور مارکیٹ ریفارمز کرنے کی کوشش کی تو افسر شاہی اور سماج کی دیگر مراعات یافتہ پرتوں میں دہائیوں سے پنپنے والے تضادات ایک زبر دست دھماکے سے پھٹ گئے اور یہ دھماکہ سوویت یونین کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔

سوویت یونین کاا نہدام، منصوبہ بند معیشت کا خاتمہ اور سرمایہ داری کی طرف واپسی ایک بد ترین سانحہ تھا، ایک درد ناک المیہ تھا۔ سابقہ سوویت یونین کے محنت کش عوام کے لیے یہ سب کسی نہایت ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھا۔ واضح رہے کہ سرمایہ دارانہ و سامراجی پراپیگنڈے کے بالکل برعکس سوویت عوام کی ایک بھاری اکثریت سوویت یونین اور منصوبہ بند معیشت کے خاتمے کی ہرگز خواہشمند نہیں تھی۔ وہ تو اپنے عظیم سوویت دیس سے پیار کرتے تھے۔ ان کی نفرت تو غاصب افسر شاہی سے تھی۔ اس سے وہ چھٹکارا پانا چاہتے تھے اور درست طور پر یہ سمجھتے تھے کہ حالات کو اس نہج تک لانے کی ذمہ دار افسر شاہی ہے۔ وہ منصوبہ بند معیشت کے زبر دست حامی تھے۔ بھلا عوام کبھی مفت علاج، تعلیم، رہائش اور مستقل روزگار جیسی سہولیات کے مخالف ہو سکتے ہیں۔ ہاں، لیکن وہ یہ ادارک بخوبی رکھتے تھے کہ منصوبہ بند معیشت اب افسر شاہانہ جکڑ بندیوں میں مزید نہیں چل سکتی اور اسی لیے افسر شاہی کی اقتدار سے بیدخلی نہایت ضروری ہے۔ لیکن بد قسمتی سے نہ ہی اس وقت کی عالمی صورتحال سوویت محنت کشوں کے حق میں تھی اور نہ ہی ان کے پاس اپنی خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹراٹسکی جیسا کوئی لیڈر اور لیفٹ اپوزیشن جیسا کوئی سیاسی پلیٹ فارم تھا۔ بہر حال، انہدام کے فوراً بعدہی پورا خطہ بد ترین غربت، بھوک ننگ، لاعلاجی، بے گھری اوربیروزگاری کی لپیٹ میں آ گیا۔ یہاں تک کہ لوگوں کی اوسط عمر میں زبر دست کمی واقع ہوئی اور خطے کی آبادی گھٹنا شروع ہوگئی۔ وہ سماج جو اپنے اعلیٰ علمی وثقافتی معیار کی وجہ سے جانا جاتا تھا، منظم جرائم کا گڑھ بن گیا۔ جسم فروشی کی لعنت پھر سے نمودار ہو گئی۔ پیداواری قوتوں کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تباہی ہوئی۔ سابقہ سوویت یونین کے دیو ہیکل ریاستی اثاثوں کی لوٹ سیل نے مافیا سرمایہ داروں کے ایک طبقے کو جنم دیا جو آج تک روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کی عوام کا خون جونک کی طرح چوس رہا ہے۔ اور یہ کوئی اتفاق نہیں کہ اس رجعتی سرمایہ دار طبقے کا جنم سابقہ سوویت افسر شاہی کے بطن سے ہی ہوا تھا۔ ا سی طرح، بورژوا جمہوریت کی تمام تر لفاظیوں سے قطع نظر انہدام کے بعد روس کا صدر بننے والا بورس یلسن اور موجودہ صدر ولادیمیر پیوٹن بھی اسی افسر شاہی کا حصہ تھے۔ ٹراٹسکی نے بالکل درست پیش بینی کی تھی کہ اگر سوویت محنت کش طبقہ ایک سیاسی انقلاب برپا کر تے ہوئے، افسر شاہی کو اقتدار سے بیدخل کرنے اور ریاست اور معیشت پر اپنا جمہوری کنٹرول قائم کرنے میں ناکام ہو گیا تو وقت گزرنے ساتھ افسر شاہانہ جکڑ بندی سوویت یونین کے زوال اور سرمایہ داری کی طرف واپسی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔

سوویت یونین کی بیلنس شیٹ۔ ۔ ۔ گھوڑا بمقابلہ اسٹیم انجن

کہتے ہیں کہ اسٹیم انجن کے ابتدائی دور میں ایک انجن ڈیزائنر کو تیز رفتار گھوڑے پالنے والے کسی شخص نے ریس کا چیلنج دے دیا۔ ڈیزائنر نے وہ چیلنج قبول کر لیا۔ مقررہ دن پر جب ریس شروع ہوئی تو گھوڑا آنا فاناً بھاگنے لگا جبکہ اسٹیم انجن وہیں کھڑا تھر تھراتے ہوئے اسٹیم پریشر بناتا رہا۔ آخر کار انجن بھی چل پڑا اور آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگا۔ جیسے جیسے ریس آگے بڑھی انجن گھوڑے کے قریب تر آتا گیا۔ شکست سامنے دیکھ کر سٹیج پر بیٹھے گھوڑے کے مالک کے پسینے چھوٹنے لگے۔ مگر اچانک انجن میں کوئی فنی خرابی آ گئی اور وہ رفتار کھونے لگا۔ لیکن گھوڑا سرپٹ بھاگتا رہا اور ریس جیت گیا۔ ریس کے اختتام پر گھوڑے کے مالک نے ڈیزائنر کو اس کے انجن کے متعلق کوئی طنزیہ جملہ کہا۔ اس پر ڈیزائنر نے مسکراتے ہوئے کہا، ”تمہارا گھوڑا جتنا تیز بھاگ سکتا تھا، بھاگ چکا ہے۔ ۔ ۔ جبکہ میرے انجن نے تو ابھی بھاگنا شروع کیا ہے۔ ۔ ۔ “

ڈیزائنر کی بات بالکل درست تھی۔ گھوڑے میں تیز رفتاری کا جتنا پوٹینشل تھا، وہ اس کا اظہار کر چکا تھا جبکہ اسٹیم انجن نے تو اپنے پوٹینشل کی محض ایک ہلکی سی ابتدائی جھلک ہی دکھائی تھی۔ یہ بتانے کی غالباً ضرورت نہیں کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ گھوڑے اور اسٹیم انجن میں سے کس کے حق میں سنایا۔ اسی طرح، جب آج ہم ایک 747 جمبو جیٹ کو سینکڑوں مسافروں کے ساتھ دسیوں ہزار فٹ کی بلندی پر اڑتے ہوئے ایک براعظم سے دوسرے تک جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوتی لیکن کم ہی لوگ یہ جانتے ہیں کہ جب رائٹ برادران نے 1903ء میں اپنا پہلا تجرباتی طیارہ اڑایا تھا تو وہ محض 10 فٹ کی بلندی تک پہنچ سکا تھا اور 12 سیکنڈ بعد صرف 120 فٹ کا فاصلہ طے کر کے کریش لینڈ کر گیا تھا۔ اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم نام نہاد ’سیانے لوگوں‘ نے ان کا بڑا مذاق اڑایا تھا لیکن دونوں بھائی اپنی دھن کے پکے تھے۔ پھر سب نے دیکھا کہ وقت نے کس کو ٹھیک ثابت کیا۔

یہی بات ہم سوویت یونین کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں۔ بلاشبہ دنیا کا سب سے ترقی یافتہ سرمایہ دار نہ ملک یعنی امریکہ صنعت، تکنیک، پیداوار، معیار اورافزودگیٔ محن سمیت ہر معاملے میں سوویت یونین سے آگے رہامگر امریکہ نے پوری دنیا میں لوٹ مار اور سامراجیت کرتے ہوئے، خود اپنے محنت کش طبقے کا زبردست استحصال کرتے ہوئے ترقی کا یہ سفر کوئی دوسو سال میں طے کیا تھا۔ جبکہ، سوویت یونین تمام تر سامراجی سازشوں اور افسر شاہانہ مسخ شدگی جیسے مسائل کے باوجود ایک غیر طبقاتی سماج کی حیثیت سے ترقی کرتے ہوئے محض چند دہائیوں میں ہی دنیا کی دوسری بڑی صنعتی و فوجی طاقت بن گیا اور وہ بھی کسی بیرونی لوٹ کھسوٹ کے بغیر۔ امریکی سرمایہ داری نے جو مادی ترقی حاصل کی ہے وہ بلاشبہ متاثر کن ہے، لیکن، یہ وہ سب کچھ ہے جو سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جا سکتا تھا۔ سرمایہ داری میں اس سے زیادہ کا پوٹینشل ہی نہیں ہے۔ جبکہ سوویت یونین کی صورت میں تو منصوبہ بند معیشت نے اپنے اندر پنہاں پوٹینشل کی پہلی جھلک دکھائی ہے۔ سوویت یونین تو محض ایک آغاز تھا۔ منصوبہ بند معیشت کا پہلا تجربہ تھا۔ اور اگر اس نقطہ نظر سے اسے دیکھا جائے تو یقینا، یہ بنی نوع انسان کی آج تک کی تمام ایجادات، تمام تخلیقات کے پہلے تجربات سے کہیں زیادہ کامیاب ہوا۔ ہم جانتے ہیں کہ مایوس اور بد ظن ہو جانے والوں اور اسی طرح مفاد پرستوں اور نام نہاد سیانے لوگوں کو ان تمام باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، لیکن ہمیں ان کی پروا بھی نہیں ہے۔ ہمارا مخاطب تو وہ نوجوان اور محنت کش ہیں جوسرمایہ داری کی چیرہ دستیوں سے تنگ ہیں اور ایک حقیقی متبادل کی تلا ش میں سرگرداں ہیں۔ ان کے لیے سوویت یونین کے تجربے سے سیکھنے کوبہت کچھ ہے۔ یقین کیجیے کہ 70 سالوں سے زائد عرصے پر محیط اس داستان سے لازمی نتائج اخذ کیے بغیرسرمایہ داری سے چھٹکارا پانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ آج انقلابِ روس والا زمانہ نہیں رہا۔ یقینا، آج اگر کسی ملک میں سوشلسٹ انقلاب ہوتا ہے تو اس کی خبر پوری دنیا کو ہفتوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں ہو گی۔ آج سوشل میڈیا اور دیگر جدید و عوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعے کامیاب انقلاب کے عوام دوست سوشلسٹ اقدامات کی خبر راتوں رات دنیا کے اربوں محنت کشوں تک پہنچ جائے گی۔ آج اس انقلاب کے تنہا رہ جانے کے امکانات ایک صدی قبل کے انقلابِ روس سے کہیں کم ہوں گے۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ پچھلے 30 سالوں میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ، اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا جیسی ایجادات کے عام ہو جانے سے درحقیقت ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے چلانا لینن اور ٹراٹسکی کے دور سے کہیں آسان ہو چکا ہے۔ انہی بنیادوں پر ہمیں یقین ہے کہ جب فینکس (phoenix)کی طرح سابقہ سوویت یونین کی راکھ سے دنیا کے کسی بھی خطے میں ایک نیا سوویت یونین جنم لے گا تو وہ عالمی سوشلسٹ سماج کے قیام کا نکتہ آغاز ثابت ہو گا۔

عظیم سوویت یونین کو سرخ سلام!!!
سوویت محنت کشوں کو سرخ سلام!!!
آگے بڑھو۔ ۔ مارکسزم لینن ازم کے راستے پر۔ ۔
پورے کرۂ ارض پر ایک نئے اور جمہوری سوویت یونین کے قیام کی جانب!!


نوٹس:

1؎ 1990ء کی دہائی میں سٹالنسٹوں کی جانب سے سوویت انہدام کی توجیہہ پیش کرنے کے لیے ایک انتہائی سطحی’تھیوری‘ پیش کی گئی جس کے مطابق یہ سب سٹالن کے بعد بر سر اقتدار آنے والے سوویت قائدین خصوصاً خروشچیف کی ’ترمیم پسندی‘ کا نتیجہ تھا۔ اس نقطہ نظر کے مطابق سٹالن کے دور تک سوویت یونین میں سب کچھ بالکل ٹھیک چل رہا تھا مگر اس کی موت کے بعدپارٹی کی صفوں میں موجود خروشچیف جیسے سامراج نواز ترمیم پسند بر سر اقتدار آ گئے اور انہوں پارٹی لائن کو ’تبدیل‘ کر دیا اور یہ امر حتمی طور پر سوویت یونین کے انہدام کا موجب بنا۔ درحقیقت، یہ سب کسی گھٹیا سازشی تھیوری، جو سٹالنسٹ سوچ کا ایک طرہئ امتیاز ہے، کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جس کے مطابق سٹالن کے دور میں تعمیر کیا گیا ایک ’مکمل سوشلسٹ سماج‘ کسی ایک یا چند افراد کی سازشوں کے نتیجے میں برباد ہو گیا۔ اس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ سوویت یونین کے انہدام سے ان حضرات نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اپنے غلط نظریات کی وجہ سے یہ اس المیے کا کارن بننے والی حقیقی تاریخی، مادی و نظریاتی وجوہات کو سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں۔ بالکل ویسے جیسے خروشچیف نے سٹالنسٹ افسر شاہی کی تمام تر تباہ کن اور انقلاب دشمن پالیسیوں کا سارا ملبہ فردِ واحد (سٹالن) پر ڈال کر، درحقیقت، سٹالن ازم کو بچانے اور افسر شاہی کے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کی تھی، ایسے ہی آج یہ لوگ سوویت انہدام کا سارا ملبہ چند ایک افراد پر ڈال کر سٹالن ازم کی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری نظر میں سٹالن کی موت سے افسر شاہی کی پالیسیوں میں کوئی ایک بھی معیاری تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی، سوائے اس کے کہ اسے چند ایک تقریروں میں برا بھلا کہا گیا تھا اور چوراہوں سے اس کے مجسمے ہٹا لیے گئے تھے۔ ان ’ترامیم‘ کے علاوہ مرحلہ وار انقلاب، ایک ملک میں سوشلزم، سرمایہ دارانہ طاقتوں کے ساتھ پر امن بقائے باہمی اور معیشت و سماج پر افسر شاہی کی آمرانہ جکڑ جیسی بنیادی سٹالنسٹ پالیسیاں جوں کی توں قائم رہیں یعنی سٹالن ازم برقرار رہا مگر سٹالن کی تصاویر اور مجسموں کے بغیر۔ اسی طرح، خروشچیف، برژنیف اور گوربا چوف سے لے کر ٹیٹو اور ڈینگ ژیاؤ پنگ تک، کی ’اصلاحات‘،درحقیقت، اس معاشی بند گلی سے نکلنے کی افسر شاہانہ کوشش تھیں جس میں سوویت یونین اور مشرقی یورپ سے لے کر چین تک کی سٹالنسٹ ریاستیں پھنس گئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ سٹالن ازم سے دستبردار ہو تے ہوئے ریاست و معیشت کاکنٹرول محنت کش طبقے کو سونپ کر یہ افسر شاہیاں خود کشی تو نہیں کر سکتی تھیں،لہٰذا، افسر شاہانہ منصوبہ بندی کے بڑھتے ہوئے تضادات پر قابو پانے کے لیے ناگزیر طور پر ان کا رجحان مارکیٹ ریفارمز کی طرف بڑھتا چلا گیا۔ یعنی اس نام نہاد ترمیم پسندی کی جڑیں بھی سٹالن ازم کے تضادات اور بحران میں ہی پیوست تھیں۔ اسی لیے، سوویت یونین کا انہدام سٹالن کے بعد ہونے والی کسی ترمیم پسندی کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ سٹالن ازم کا انہدام تھا اور اس کی مارکسزم لینن ازم دشمن پالیسیوں کی ناکامی کا تاریخی ثبوت تھا۔

مزید پڑھیں:

ایک ملک میں سوشلزم کا رجعتی سٹالنسٹ نظریہ

Comments are closed.