|تحریر: کارلوس ریکارڈو مارکویز، ترجمہ: یار یوسفزئی|
انقلابِ روس نے تمام فنون کے اندر تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھایا، بالخصوص سینما کے اندر، جس کو زیگا ورتوف اور سرگے آئزنسٹائن جیسی شخصیات نے نئی بلندیوں تک پہنچایا، جو فلم کو طبقاتی جدوجہد کا ہتھیار سمجھتے تھے۔ اگرچہ سوویت یونین کی سٹالنسٹ زوال پذیری اس کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوئی، مگر فلم سازی کے میدان میں اکتوبر انقلاب کے ورثے کو آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
1917ء کا انقلابِ روس انسانی تاریخ کی عظیم ترین تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کو دیوہیکل ثقافتی پسماندگی کا سامنا کرنا پڑا تھا: انقلاب سے قبل روسی عوام بے تحاشا استحصال اور ثقافتی پسماندگی کے تحت جی رہے تھے۔ 8 سے 50 سال کی آبادی کا 80 فیصد اَن پڑھ تھا؛ اور وسطی ایشیاء کے اندر کئی زبانوں کے حروفِ تہجی بھی ترتیب نہیں دیے گئے تھے۔ انقلاب کے پہلے سالوں کے دوران سخت معاشی مشکلات کے ساتھ اس دیوہیکل ثقافتی پسماندگی کا ورثہ بھی موجود تھا۔
شروع کے سالوں میں انقلاب فن کو ترجیح دینے کا اہل نہیں تھا، پھر بھی آغاز سے ہی یہ عوام کو ان کی پسماندہ حالت سے نکالنے کی تگ و دو میں تھا، اور پہلا سہارا تعلیم کا لیا گیا۔ بھوکے بچے پہلی دفعہ سکول جانے لگے، البتہ ان سکولوں میں سہولیات کا فقدان تھا، جہاں ہر پانچ بچوں کے لیے ایک پنسل ہوا کرتا تھا۔ انقلاب نے دانشوروں کی بہترین پرتوں کو اپنی جانب مائل کیا، جن کی اولین صفوں میں نوجوان تھے۔
ان حالات میں فنکاروں اور ذہین شخصیات کی ایک کہکشاں پروان چڑھی، جس کے سماج کے اوپر مثبت اثرات مرتب ہوئے۔ ہر فنکارانہ میدان کے اندر نئی انقلابی پیش رفتیں دیکھنے میں آئیں۔ سینما، جس نے زار شاہی کے عرصے میں کوئی خاص ترقی نہیں کی تھی، عظیم بلندیوں کی جانب بڑھنے لگا۔
سوویت مونتاژ: سینما کو انقلابِ روس کا تحفہ
زار شاہی اور سرمایہ داری کا صفایا کر دیا گیا تھا، اور آزادی کی ایک ایسی فضا قائم ہو گئی تھی جس کی عکاسی فنکار اور ان کا فن کر رہا تھا۔ مزدور حکومت کے تحت، روس نے دنیا کا پہلا فلم سکول تعمیر کیا۔ بعض اوقات، فلم کیمرے کی رِیل خریدنے کے لیے بھی فنڈ نہیں ہوتا تھا۔ بہرحال، فلم ساز اور سینما سکالر لیف کولیشوف نے سٹاک فوٹیج کے ساتھ تجربات کے ذریعے ’مونتاش (الگ الگ فلمائے گئے شاٹس کو ایک ترتیب میں جوڑنا) کو متعارف کرانے میں ابتدائی خدمات سر انجام دیں۔ سیوالود پودوفکین، سرگے آئزنسٹائن کا ہم عصر اور کئی مقبول انقلابی فلموں کا ڈائریکٹر، کولیشوف کا سب سے معروف طالبِ علم اور پیروکار تھا۔ آج کل، سینما کی دنیا میں ’کولیشوف ایفیکٹ‘ کا عموماً ذکر کیا جاتا ہے (جس کے مطابق واحد شاٹ کی نسبت بالترتیب دو الگ شاٹ زیادہ پُر اثر ہوتے ہیں)۔
کولیشوف کے تجربات سے قبل، سینما ایڈیٹنگ کی شروعات ہو چکی تھی مگر وہ ایک سیدھی لکیر میں جا رہی تھی۔ مگر سوویت مونتاژ، جو انقلابِ روس کا عظیم تحفہ تھا، انقلابی ترقی کی عکاسی کر رہی تھی جو آج بھی سینما کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے ذریعے مختلف شاٹس، جو الگ الگ دیکھنے پر غیر متعلقہ معلوم ہوتے ہیں، ایک ساتھ جوڑ دیے جاتے ہیں اور پھر یہ عمل ایک خیال کی عکاسی کر رہا ہوتا ہے، اور جب ان کو ایک مخصوص طریقے سے ترتیب دیا جاتا ہے تو وہ ناظرین کے اوپر ڈرامائی طور پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
مثلاً، اگر ہم کسی سنجیدہ شخص کا کلوز اپ (قریب سے لیا گیا شاٹ) لیں اور پھر اسی شخص کا ہنستے ہوئے دوبارہ شاٹ لیں، ہم ان دو شاٹس کے بیچ ایک مختلف شاٹ ڈال سکتے ہیں؛ جیسا کہ ریل گاڑی سے اترتا ہوا ایک نوجوان، یا کوئی سوتا ہوا بچہ، یا کارخانے کے سامنے لال بینر کھولتے ہوئے کچھ محنت کش۔ شاٹس کے یہ مختلف مجموعے ناظرین کے اوپر مختلف طور پر اثر انداز ہوں گے اور وہ ان سے مختلف مطلب لیں گے۔
سوویت مونتاژ کو پروان چڑھانے میں زیگا ورتوف اور اس کے کینو پراؤدا (فلم ٹرُتھ) نیوز رِیلز کا؛ اور کولیشوف کی دریافتوں پر قائم کیا گیا سرگے آئزنسٹائن کے سینما کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ خانہ جنگی کے سالوں کے دوران، سرخ فوج نے سینما کو ترقی دینے کی راہ ہموار کی۔ جنگی محاذ پر بندوقوں اور گرینیڈوں کی مدد سے لڑنے کے ساتھ ساتھ، وہ فلم کیمرے کی مدد سے بھی جنگ لڑتے رہے۔ سامراجیوں نے ایک پروپیگنڈہ مہم کا آغاز کر دیا تھا، جو ڈاکومنٹریاں اور رپورٹیں بنا کر کمیونسٹوں کو نشانہ بنا رہے تھے؛ اور انقلاب نے بھی جوابی حملہ کیا۔ کیمرہ مینوں کے کینوکس نامی ایک گروہ نے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر میدانِ جنگ کے مناظر کو فلمایا۔ ان کا نعرہ تھا: ”فلماؤ یا مر جاؤ“۔ زیگا ورتوف کئی جنگی محاذوں پر جا کر اپنی کینو پراؤدا کی کہانیوں کے لیے مواد اکٹھا کرتا رہا، اور یوں اس نے مونتاژ تکنیک پر مزید کام کیا۔
لینن، ٹراٹسکی اور سینما
1922ء میں لینن نے کہا تھا: ”ہمارے لیے سینما تمام فنون میں سے اہم ترین ہے۔ سینما کو لازمی طور پر پرولتاریہ کا مرکزی ہتھیار بنانا پڑے گا۔“ ایک اور موقع پر اس کا کہنا تھا: ”جیسا کہ روٹی جسم کی غذا ہے، فلم اور ڈرامائی فنون کو لازماً روح (سوچ و فکر) کی غذا بننا ہوگا، فن پاروں تک رسائی لوگوں کا حق ہے، فن کی اساس سچائی اور خوبصورتی کی جستجوئے پیہم ہوتی ہے۔“ (سوویت سینماٹوگرافی کا وین گارڈ (1918ء – 1935ء)، ویگا الفارو، صفحہ15، 16)
ٹراٹسکی اس بات سے متفق تھا اور اس نے نشاندہی کی:
”اس حوالے سے (تفریح اور اجتماعی تعلیم کے لیے) سب سے اہم ترین ہتھیار، سب سے بہترین ہتھیار، آج کے دور میں سینما ہے۔ یہ حیران کن دلکش ایجاد اتنی تیزی کے ساتھ انسان کی معمولاتِ زندگی میں شامل ہونے میں کامیاب ہوئی ہے کہ جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔“ (ووڈکا، چرچ اور سینما، ٹراٹسکی، 1923ء)
ثقافتی پسماندگی اور سامراجیت کے خلاف جدوجہد میں سینما پرولتاری انقلاب کا ایک اہم آلہ تھا۔ ریل گاڑیوں پر نقاشی کر کے ان کے کمرے سینماؤں میں تبدیل کیے جاتے تھے اور انہیں دیہات لے جایا تھا۔ سینما اور دیگر قسم کے فنون جیسا کہ پوسٹر اور تھیٹر پراپیگنڈہ میں اپنا کردار ادا کیا کرتے۔ اس اہم سیاسی فریضے کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ تھی کہ انقلاب کے پہلے سالوں کے دوران یہ فن عظیم آزادی کی فضا میں تخلیق کیا جاتا تھا۔
آئزنسٹائن: عظیم سوویت فلم ساز
آئزنسٹائن اکتوبر انقلاب میں سے ابھرنے والا اہم ترین فلم ساز تھا۔ اس کی شاہکار، بیٹل شِپ ٹیمپکن (1925ء)، کا شمار عظیم ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ انقلاب روس، جس کے ورثے میں دیوہیکل پسماندگی آئی تھی، نے دنیا کے سامنے ثابت کر کے دکھایا کہ وہ نہ صرف معیشت میں بلکہ فن کے اندر بھی عظیم حاصلات کا اہل ہے۔
آئزنسٹائن کی ایک اور فلم، اکتوبر: دنیا کو جھنجھوڑنے والے دس دن (1928ء)، اکتوبر انقلاب کے بارے میں تھی، جس میں بڑے پیمانے پر ٹراٹسکی کے حوالے دیے گئے تھے۔ افسر شاہانہ دباؤ کے تحت اسے تبدیلیاں کرنی پڑی تھیں، البتہ اس نے فلم سے ان حوالوں کو مکمل خارج نہیں کیا۔
ٹراٹسکی کا کہنا تھا کہ پارٹی کا کام فن کے اجزاء کا تعین کرنا نہیں ہے۔ لینن نے بھی مکمل فنکارانہ آزادی برقرار رکھنے کا مؤقف اپنایا تھا۔ مگر اس کا مطلب عملی میدان میں ردّ انقلاب کو رعایت دینا ہر گز نہیں تھا، جو ایک بالکل مختلف معاملہ تھا؛ اس صورت میں انقلاب اپنا دفاع کرنے کا جائز حق محفوظ رکھتا تھا۔ مگر افسر شاہی کا ابھار بالعموم فنکارانہ آزادی کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔
سٹالنزم کا ابھار
فن اور سوویت سینما کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ تھی کہ جیسے ہی وہ پروان چڑھنا شروع ہوئے، سٹالنزم کی شکل میں ردّ انقلاب کا آغاز ہوگیا۔ اس نے پہلے ابتدائی سوویت فن کو کچل دیا، سپریمیٹسٹ ازم اور کنسٹرکٹیو ازم کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا گیا۔ سوشلسٹ حقیقت نگاری، جو دراصل نہ حقیقت پسند تھی اور نہ ہی سوشلسٹ، کو سوویت یونین کا سرکاری طرزِ فن بنا دیا گیا۔ افسر شاہی فن کی تحقیر کرتی تھی۔ یہ انقلابی فن میں نہیں، بلکہ اس کی بجائے سادہ فن میں دلچسپی رکھتی تھی، جو اس کی تنگ نظری کا ثبوت تھا۔ پہلے فنکار انقلاب کی خدمت میں اپنی صلاحیتیں استعمال کیا کرتے تھے، مگر اب افسر شاہی نے ان کے فن پر آمریت مسلط کر دی۔
آئزنسٹائن جیسی عظیم شخصیات کو سنسر کیا جانے لگا۔ وہ سوشلسٹ حقیقت نگاری کی روایات کے مطابق فلمیں بنانے پر مجبور تھا۔ مگر پھر بھی وہ افسر شاہی کے اوپر شدید تنقید کرتا تھا، جو اس کی آخری فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ فلمی صنعت سے آئزنسٹائن کی جھڑپیں
آئزنسٹائن افسر شاہی کے طوق سے آزاد ہونا چاہتا تھا۔ وہ بیرونِ ملک بھی گیا مگر اسے وہاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اسے کمیونسٹ فلم ساز کہہ کر اس پر شدید تنقید کی جاتی تھی۔ یورپ میں ایسا کوئی شخص نہیں تھا جو پیسہ لگا کر اس کے ساتھ فیچر فلم بنانا چاہتا ہو۔ وہ محض دو شارٹ فلمیں بنا پایا، جن میں سے ایک ”عورت کی اذیت اور قسمت (1929ء)“ تھی، یہ فلم سوئٹزرلینڈ میں خواتین کے اسقاطِ حمل کے حق کے بارے میں تھی جس میں بڑے پیمانے پر طبقاتی نقطہ نظر دکھایا گیا تھا۔
وہ بالآخر ہالی ووڈ بھی پہنچ گیا مگر ادھر کوئی فلم نہیں بنا پایا۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، کیونکہ وہ وہاں مارکس کی کتاب ’داس کیپیٹل‘ پر فلم بنانا چاہتا تھا، اور سینماٹوگرافی کے حوالے سے اس کے خیالات بذاتِ خود بھی انقلابی تھے۔ امریکہ میں اس نے کہا تھا:
”ایک ایسے سینما کو تصور کریں جس پر ڈالر کا غلبہ نہ ہو۔ سینما کی ایک ایسی صنعت جس میں ایک شخص کی جیب کسی دوسرے شخص کے استحصال کے ذریعے نہ بھر رہی ہو؛ جو دو تین لوگوں کی جیبوں کے لیے نہیں بلکہ 15 کروڑ لوگوں کے دل و دماغ کے لیے ہو۔ ہر موشن پکچر دل و دماغ کو متاثر کرتی ہے، مگر اصولاً موشن پکچرز خصوصی طور پر دل و دماغ کے لیے نہیں بنائی جاتیں۔ عموماً موشن پکچرز کا نتیجہ دو تین لوگوں کی جیبیں بھرنے کی صورت میں نکلتا ہے؛ محض اتفاقاً ہی وہ کروڑوں لوگوں کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہیں۔“ (سرگے ایم آئزنسٹائن کی سوانحِ حیات، میری سیٹن، 1960ء، صفحہ 159)
میکسیکو میں اس نے ”زندہ باد میکسیکو!“ کو فلمانا شروع کیا مگر اسے مکمل کرنے میں ناکام رہا، اس فلم نے میکسیکو کی ثقافت پر روشنی ڈالی تھی، اور زندگی اور موت کے بیچ جدلیات پر بحث کی تھی۔ اس نامکمل فلم نے محنت کش خواتین اور استحصال زدہ پرتوں کے اوپر مسلط کی گئی پابندیوں پر تنقید کی تھی۔ اس نے میکسیکو کے انقلاب کی محدودیت پر بھی تنقید کی تھی، جس نے سرمایہ داری کا خاتمہ نہیں کیا تھا۔
اس فلم کی مالی معاونت سوشلسٹ مصنف اپٹن سنکلیئر نے کی تھی۔ مجموعی درکار اخراجات بہت زیادہ تھے، اور فلم کی پروڈکشن کو بے تحاشا مشکلات کا سامنا تھا۔ سٹالن نے فلم کے حوالے سے خطوط بھیجے جس نے سنکلیئر کو فلم کی شوٹنگ روکنے پر مجبور کیا۔ اس کی ریکارڈنگ آئزنسٹائن سے چھین لی گئی اور وہ اسے ایڈیٹ نہیں کر پایا۔
یہ سوویت ہدایت کار سرمایہ دارانہ ممالک کے اندر ایک بھی فیچر فلم نہیں بنا سکا۔ آئزنسٹائن اکتوبر انقلاب کی ممتاز پیداوار ہے۔ سیاست اور فلم کے بارے میں اس کے خیالات سرمایہ دارانہ فلم پروڈکشن کے سانچے سے میل نہیں کھاتے تھے، نہ ہی وہ سٹالنزم کے ساتھ مطابقت رکھتے تھے۔
الیکساندر میدویدکین اور اس کی فلمی ریل گاڑی
جب 1932ء میں آئزنسٹائن نے سوویت یونین واپسی کی، اس وقت افسر شاہانہ مشینری بے تحاشا اختیارات کی مالک تھی۔ مگر اس دور میں بھی ہم نے سوویت سینما کا درخشاں عہد دیکھا۔ سرخ فوج کا ایک پرانا جنرل الیکساندر میدویدکین اپنے فوجی کیرئیر کو چھوڑ کر فلمیں بنانا چاہتا تھا۔ اس نے یہ فیصلہ سیاسی ہار ماننے کے پیشِ نظر نہیں کیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے اس کو فلمی ریل گاڑی مہیا کرنے کا فیصلہ منظور کیا، اور اس کے بعد وہ کھل کر اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔
میدویدکین اور اس کے فنکار ساتھیوں کا گروہ لوگوں کے بیچ اس نعرے کے ساتھ جانے لگے، ”آج فلماؤ، کل دکھاؤ“۔ وہ کارخانوں میں جا کر محنت کشوں کے اصل مسائل کا مشاہدہ کرتے اور انہیں فلمایا کرتے۔
ان فلموں کے اداکار قصبوں کے لوگ اور کارخانوں کے محنت کش ہوا کرتے، اور لوگ تجسس کے مارے انہیں دیکھنے جاتے۔ البتہ، ان فلموں کے موضوعات سے متاثر ہو کر، جن میں سٹالنسٹ افسروں پر تنقید کی جاتی، فلموں کے بعد سیاسی نشستیں اور بحث مباحثے بھی ہوا کرتے تھے۔ محنت کشوں کے حق میں قراردادیں منظور کی جاتیں اور کارخانوں سے مقامی افسروں کو بے دخل کیا جاتا۔ بعض کارخانوں میں، اس کا نتیجہ کارخانہ انتظامیہ کے اوپر محنت کشوں کا قبضہ قائم ہونے کی صورت بھی نکلا۔
ان فلموں میں سے ایک ”کیسے ہو میرے ساتھی کان کن؟ (1932ء)“ پر بات کرتے ہوئے میدویدکین نے کہا:
”کان کنوں کو خوراک مہیا کرنے کی کسی بھی کوشش کے اوپر شدید جارحانہ اور کھلے عام حملہ کیا جاتا۔ ادھر ایک دیوہیکل کارخانے کا باورچی خانہ کان کنوں کو اتنی بری خوراک دیا کرتا کہ انہوں نے کینٹین آنا ہی چھوڑ دیا۔ سب کچھ بد ذائقہ دکھائی دیتا، سب کچھ ایمانداری سے فلمایا گیا، بہت ہی سخت حالات تھے۔۔۔اس کمپنی کو کچھ شاطر شیطان چلا رہے تھے۔ وہ پیسے دے کر انتظامیہ کو ورغلانا جانتے تھے، کہ یہ حالات سپلائی کی کمی کے باعث ہیں۔“ (میدویدکین، (1973ء) فلم بطورِ سیاسی پراپیگنڈہ، صفحہ 10)
فلمی ریل گاڑی کا عملہ مہم جوئی کے متلاشی پیٹی بورژوا فنکاروں پر مشتمل نہیں تھا۔ وہ افسر شاہی کے خلاف سوشلزم کی جدوجہد کا عزم کیے ہوئے بالشویک تھے، اس کے باوجود کہ افسر شاہی اکتوبر انقلاب کی روایات کو دفن کرنے میں مگن تھی۔ انہیں قتلِ عام کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ فنکار تطہیر (افسر شاہانہ ریاست کی جانب سے انقلابیوں کے قتلِ عام کی منظم مہم) کا نشانہ بنتے جا رہے تھے۔ فلم سازوں کی بد قسمتی سمجھیے کہ سٹالن کو سینما پسند تھا اور وہ ان کی ساری فلمیں بذاتِ خود دیکھا کرتا تھا۔
سوشلزم کے تحت فن کی تمام خفیہ صلاحیتیں بھرپور پروان چڑھیں گی!
آج کے دور میں ہماری زندگی تصویروں اور فلموں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں تک فلم سازی کا تعلق ہے، میدانِ جنگ ماضی کی نسبت بدل چکا ہے مگر فلم کو آج بھی طبقاتی جدوجہد کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انقلابِ روس کے اسباق سے سیکھتے ہوئے ہم اپنے خیالات مزید بہتری سے پھیلا سکتے ہیں، اور اس بات کو بھی سمجھ سکتے ہیں کہ انقلابی تبدیلیاں کس طرح فنون کی ترقی میں کردار ادا کریں گی۔
انقلابِ روس نے سماج کی بہترین پرتوں کو اجاگر کیا۔ اس نے صلاحیتوں کے بہاؤ کی راہ ہموار کی۔ اس کی حاصلات میں سے ایک مونتاژ تھا، جو آج بھی دنیا بھر میں سینما کے اندر کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ سٹالنزم اس کو نہیں روک پایا۔
فن کو محض پراپیگنڈہ بنانے کی ضرورت نہیں، نہ ہی اسے کسی مخصوص پارٹی کا ترجمان ہونا چاہیے، مگر انقلابِ روس اس قسم کے فن کو بھی سامنے لایا جو کئی پہلوؤں سے انقلاب کا وفادار تھا۔ ابتدائی سالوں میں سوویت فن کی دیوہیکل اٹھان اس پوشیدہ صلاحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے جو مستقبل کے سوشلسٹ سماج میں آزاد ہو کر عیاں ہوگا۔ سوشلزم کے تحت، فن اس طرح سے بھرپور انداز میں پروان چڑھے گا کہ جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
آئزنسٹائن نے اپنی آخری فلموں میں سٹالن پر شدید تنقید کا اظہار کیا تھا۔ جب سٹالن اس کی آخری فلم دیکھ رہا تھا، اس سوویت ہدایت کار نے اتنا دباؤ محسوس کیا کہ اسے دل کا دورہ پڑ گیا اور کچھ وقت بعد وفات پا گیا۔ جب وہ ہسپتال میں داخل تھا تو اس نے اپنی یادداشتوں میں لکھا:
”مگر ہماری سینما کی تخلیقی قوت محض اس کی شکل، دائرہ کار، یا طریقے کی بنیاد پر نہیں ہے۔ شکل، دائرہ کار اور طریقہ؛ یہ محض ہمارے سینما کے بنیادی منفرد پن کا نتیجہ ہے۔ یہ امن پسندانہ آلہ نہیں؛ یہ لڑاکا قوت ہے۔ ہمارا سینما ایک ہتھیار ہے، جس کا پہلا اور اولین مقصد دشمن نظریے کے خلاف لڑنے میں کام آنا ہے؛ اور بنیادی طور پر یہ ایک ایسا آلہ ہے جس کا مرکزی فریضہ متاثر کرنا اور تخلیق کرنا ہے۔“ (آئزنسٹائن، ”جلد چہارم: ستاروں سے آگے، سرگے آئزنسٹائن کی یادداشتیں“، 1995ء، صفحہ 25)