|تحریر: سنگ یانگ پارک، ترجمہ: ولید خان|
20 اکتوبر کو کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (KCTU) کے 80 ہزار سے زیادہ ممبران اپنی قیادت کی آواز پر جنوبی کوریا کے 14 علاقوں میں سڑکوں پر آ گئے۔ مزید 50 ہزار محنت کش دوپہر 2 بجے اپنی نوکریوں سے واک آوٹ کر گئے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہڑتال میں شرکت کرنے والے محنت کشوں کا تعلق KCTU سے ملحقہ تمام صنعتوں سے تھا۔
سٹیل، تعمیرات، غیر جریدہ سکول ورکرز، سروسز، میڈیکل اور دیگر صنعتوں کے محنت کشوں نے اپنے کام کی جگہوں اور سڑکوں پر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ہڑتال کی کال پر بھرپور شرکت کی۔
مزدور تحریک میں بڑھتی ریڈیکلائزیشن
KCTU کی جانب سے ملک گیر ہڑتال کی کال پورے سرمایہ دار طبقے اور تمام سیاسی پارٹیوں کے خلاف کوریا کے محنت کشوں میں موجود شدید غم و غصے کا اظہار ہے۔ اگرچہ وباء سے مقابلے کے لئے جنوبی کوریا کی حکومت کی حکمت عملی کو عالمی پذیرائی ملی ہے لیکن ہولناک حالات میں کام کرنے پر مجبور محنت کشوں کا بدترین استحصال جاری ہے۔
منظم محنت کشوں میں موجود غم و غصے نے KCTU کے عام ممبران کی ریڈیکلائزیشن میں اپنا اظہار کیا ہے۔ دسمبر 2020ء میں KCTU ممبران نے سابقہ صدر کو حکومت اور سرمایہ داروں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوششوں کی بنیاد پر ووٹنگ کے ذریعے عہدے سے فارغ کر دیا اور اس کی جگہ یانگ کیونگ سو کو کو نیا صدر چنا جس نے محنت کشوں کے مفادات کے تحفظ میں ایک عام ہڑتال منظم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یانگ KCTU کا پہلا صدر ہے جو ایک غیر مستقل مزدور بھی ہے۔ اس وقت کوریا کی 41 فیصد ورک فورس غیر مستقل نوکریاں کرنے پر مجبور ہے۔ کئی لوگ یانگ کو محنت کشوں کی نئی ریڈیکل نسل کا نمائندہ سمجھتے ہیں۔
صدارت حاصل کرنے کے بعد یانگ نے ریاست کی طرف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔ اس نے وباء کے نام پر عوامی اکٹھ کے خلاف یکطرفہ، مسلسل تبدیل ہوتی اور انتہائی غیر جمہوری پابندیوں کے حوالے سے محنت کشوں کی ریلیاں اور احتجاج منظم کئے ہیں۔ ریاست نے اس کا جواب براہِ راست جبر سے دیا۔ اس سال 2 ستمبر کو ریاست نے KCTU کے ہیڈکوارٹر پر ریڈ کرتے ہوئے یانگ کو اکٹھ اور احتجاج ایکٹ، چھوت بیماری کنٹرول اور مدافعت ایکٹ اور ٹریفک کے نظام کو خراب کرنے کے الزامات میں گرفتار کر لیا۔
دیگر قیادت نے اس حوالے سے 20 اکتوبر کو ملک گیر ہڑتال کی کال دے دی۔ سادہ الفاظ میں یہ عام ہڑتال سرمایہ دار اور محنت کش طبقے کے درمیان بڑھتی کشمکش کا اظہار ہے۔
تحرک
KCTU نے ہڑتال کے لئے پورے ملک میں اپنے 14 ہیڈکوارٹرز کو متحرک کر دیا۔ ممبران کو دوپہر 2 بجے اپنی نوکریوں سے واک آوٹ کرنے کا کہہ دیا گیا۔ دارالحکومت سیول کے قریب انچیون اور گیونگی صوبے جیسے علاقوں میں محنت کشوں کو کہا گیا کہ وہ دارالحکومت میں ہونے والے احتجاج میں بھرپور تعداد کے ساتھ شرکت کریں۔ اندازاً پورے ملک میں 80 ہزار محنت کشوں نے ریلیوں میں حصہ لیا۔
چھوٹے شہروں میں شرکاء کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ سال 1980ء کی مشہورِ زمانہ گوانگ جو بغاوت کے حوالے سے مشہور گوانگ جو میں 3 ہزار افراد سٹی ہال کے سامنے اکٹھے ہوئے۔ ٹرانسپورٹ کے مرکز چوئنان میں 2 ہزار افراد اکٹھے ہوئے۔ شہر کے تیسرے بڑے شہر دائیگو میں 5 ہزار افراد نے ریلی میں شرکت کی جبکہ دوسرے بڑے شہر بوسان میں اندازاً 10 ہزار افراد نے ہڑتال میں حصہ لیا۔
لیکن واضح طور پر ہڑتال کا مرکز دارلحکومت سیول تھا۔ 27 ہزار سے زیادہ محنت کش سیودائمون سبوے سٹیشن کے سامنے موجود کاروباری مرکز میں اکٹھے ہوئے۔ پولیس کی مداخلت کو جتنا ممکن ہو اتنا روکنے کی غرض سے یونین نے اکٹھ سے محض چند گھنٹے پہلے ہی جگہ کا اعلان کیا۔ لیکن صرف چند گھنٹوں کے نوٹس پر محنت کشوں کا اتنی بڑی تعداد میں متحرک ہونا واضح کرتا ہے کہ اس وقت نظم وضبط اور جوش و خروش کی کیا کیفیت ہے۔
اگرچہ اس عام ہڑتال نے واضح طور پر جنوبی کوریا کے سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے لیکن یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ KCTU کے پاس اس سے کئی گنا زیادہ بڑی تعداد میں محنت کشوں کو متحرک کرنے کی قابلیت موجود ہے۔ 10 لاکھ ممبران کے ساتھ KCTU جنوبی کوریا کی سب سے بڑی ٹریڈ یونین ہے۔ اگرچہ 80 ہزار شرکاء کی ملک گیر ہڑتال پچھلے چند سالوں میں مشرقی ایشیاء کی سب سے بڑی ہڑتال ہے لیکن بہرحال یہ KCTU کی حقیقی قابلیت اور قوت کا انتہائی قلیل اظہار ہے۔
کریک ڈاؤن اور کھوکھلے الفاظ
ہزاروں کی تعداد میں منظم ہونے والی ان ہڑتالی ریلیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پولیس تیزی سے کورونا وباء قوانین کو نافذ کرنے کے نام پر محنت کشوں کے جمہوری حقوق کو صلب کرنے کے لئے متحرک ہوئی۔
سیول میں اندازاً 16 ہزار پولیس ممبران کو KCTU ریلی روکنے کے لئے متحرک کیا گیا۔ پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ ریلی کہاں منعقد ہو رہی ہے اس لئے وہ بس اندازے ہی لگاتی رہی۔ پولیس کی 500 بسیں بھر کر سیول پلازہ کے سامنے پلازہ ہوٹل سے لے کر گوانگ وامون چوک شمالی جنوبی سیکشن اور مشرقی مغربی سیکشن میں سیورن ڈونگ سے سالویشن آرمی سینٹر تک کراس شکل میں گاڑیوں کی رکاوٹیں لگانے کے لئے بھیجی گئیں۔ پولیس نے گاڑیوں کی ایک باڑھ گوانگ وامون میں بھی بنا کر 170 یونٹ تعینات کئے۔ یہ سارے انتظامات ریلی کی حقیقی جگہ سے کافی دور ہیں۔
بوسان میں پولیس نے پانچ بٹالین تعینات کیں۔ ایک پولیس افسر کے مطابق ”بوسان میں کرونا وباء کے پیش نظر سماجی فاصلے میں موجودہ تیسرے سٹیج کے قوانین کے مطابق 50 سے زیادہ افراد کی ریلی پر پابندی ہے اور ہم اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں پر سخت کریک ڈاؤن کریں گے“۔
نام نہاد ”ترقی پسند“ صدر مون جائے ان اور ڈیموکریٹک پارٹی آف کوریا (DPK) کی حکومت نے کوشش کی ہے کہ اس عام ہڑتال کو محنت کشوں کے اپنے مفادات کے حصول کیلئے کیے گئے ایک احتجاج کے بجائے ایک غیر منطقی قدم قرار دیا جائے۔ مضحکہ خیز طور پر وزیرِ داخلہ و حفاظت جیون ہائے چیول نے یونین کو وباء کے خاتمے میں ایک بڑی رکاوٹ بنا کر پیش کر دیا:
”اس انتہائی اہم موڑ پر KCTU کی ملکی سطح پر عام ہڑتال کی کال حالیہ عرصے میں شدید مشکلوں کے بعد بہتر ہوتی وباء کی صورتحال کو خطرے سے دوچار کرے گی جبکہ معمول پر واپس آنے کی امیدیں بھی دم توڑ دیں گی“۔
یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ وہ کونسی قوتیں کارفرماء ہیں جنہوں نے اس وباء کے دوران اجتماعی طور پر محنت کشوں کو سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا ہے؟ جس ”معمول“ کی بات کی جا رہی ہے اس میں کوریا کے محنت کشوں کے لئے کیا ہے؟ کون ایسا شخص ہے جو کئی سالوں سے طویل اوقات کار، کم تر اجرت اور برباد نجی رہائش اور صحت کی سہولیات کے معمول کی طرف واپس لوٹنا چاہے گا؟
لیکن جنوبی کوریا کی ریاست محنت کشوں کے لئے صرف کھوکھلے الفاظ ہی استعمال نہیں کر رہی بلکہ سیول میٹروپولٹن پولیس ایجنسی نے ریلی کے شرکاء اور منتظمین کے خلاف تفتیش کھول دی ہے۔ جنوبی کوریا کی ریاست کی لڑاکا محنت کشوں کو سفاکی سے کچلنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ KCTU کوان حملوں کا سامنا اور مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہونا چاہیئے۔
طبقاتی آزادی
یونین نے ملک گیر تحرک کی کال محنت کش طبقے کی طرف سے جنوبی کوریا کی سفاک اور خون آشام سرمایہ داری کے خلاف غم وغصے اور طاقت کے اظہار کے لئے دی تھی۔ مرکزی نعروں میں ”عدم مساوات کچل دو!“اور ”عدم مساوات مردہ باد!“ شامل ہیں۔ KCTU قیادت نے 15 مطالبات بھی پیش کئے ہیں جن کا مقصد تین بنیادی اہداف حاصل کرنا ہے:
1۔ ”غیر مستقل کام“ ختم کیا جائے (پارٹ ٹائم، عارضی یا کنٹریکٹ لیبر) اور تمام محنت کشوں کو لیبر تحفظ فراہم کیا جائے۔
2۔ بحرانی حالات میں محنت کشوں کو معاشی ریسٹرکچرنگ کے فیصلوں میں شامل کیا جائے۔
3۔ کلیدی صنعتوں، تعلیم اور رہائش جیسی بنیادی سروسز کو قومیایا جائے۔
کوریا کے محنت کشوں کو فوری طور پر درکار ان بنیادی اصلاحات کی مارکس وادی حمایت کرتے ہیں۔ دوسری طرف پورے حکمران طبقے نے واضح کر دیا ہے کہ وہ کسی قسم کی اصلاحات کرنے کو تیار نہیں۔ حکمران جماعت DPK، قدامت پرست پیپل پاور پارٹی اور حزبِ اختلاف میں موجود تمام چھوٹی پارٹیاں، سب جنوبی کوریا کی بورژوازی کے مفادات کی محافظ ہیں جو نظام کو اسی حالت میں قائم رکھتے ہوئے چلانا چاہتی ہیں۔ ان میں سے کسی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا، ان پر دباؤ بھی نہیں ڈالا جا سکتا کہ وہ محنت کش طبقے کے مفاد کے لئے کوئی اقدامات کریں۔ صرف ایک ہی طریقہ کار ہے، ان سیاسی پارٹیوں کو کھل کر چیلنج کیا جائے اور محنت کشوں کی ایک علیحدہ قوت تیار کی جائے۔
اس لئے اگرچہ KCTU نے پہلا درست قدم اٹھا کر طبقاتی غم و غصے اور طاقت کا اظہار کیا ہے لیکن اب انہیں سرگرمی سے ٹریڈ یونین تحریک میں موجود اپنی بنیادوں کے ذریعے ایک سیاسی پارٹی تشکیل دینی چاہیئے۔ جنوبی کوریا میں موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات کے برعکس اس کا خاتمہ اور ایک سوشلسٹ پروگرام کے ذریعے محنت کشوں کی ایک جمہوری حکومت بنانا اس پارٹی کا مقصد ہونا چاہیئے۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے جنوبی کوریا کے محنت کش اور نوجوان اس سماج سے چھٹکارا حاصل کر سکتے ہیں جس نے ان کی زندگی ایک نہ ختم ہونے والی ”سکوئڈ گیم“ بنائی ہوئی ہے۔