جنوبی کوریا: سام سنگ کے مزدوروں کی تاریخی ہڑتال

|تحریر: جیف ہانگ اور جوناتھن ہنکلی، ترجمہ: عرفان منصور|

 

گزشتہ ہفتے سام سانگ، جو کہ کوریا کی سب سے بڑی خاندانی اجارہ داری (Chaebol) ہے، میں ایک طالوت اور جالوت کے معرکے کا آغاز ہوا، جہاں محنت کشوں نے کمپنی کی تاریخ میں پہلی غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا آغاز کر دیا۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

سام سانگ دنیا کی سب سے بڑی کارپوریشنز میں سے ایک ہے اور اکیلے جنوبی کوریا کی GDP کا 20 فیصد حصہ رکھتی ہے۔ یہ میموری چپس کی اہم ترین پروڈیوسر ہے اور عالمی سیمی کنڈکٹر مارکیٹ کا 42 فیصد کنٹرول کرتی ہے، جو مائیکرو پروسیسرز کی پیداوار کے لیے ایک اہم شے ہے۔ سال کے آغاز سے، اس نے منافع میں 900 فیصد اضافے کی اطلاع دی ہے اور وہ توقع کرتی ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ٹیکنالوجیز کی شدید مانگ کے سبب، اس کا منافع سال کے آخر تک مزید 1400 فیصد بڑھ جائے گا۔

دہائیوں تک، کمپنی نے اپنے محنت کشوں کے خون کے آخری قطرے تک سے منافع نچوڑا ہے، جن میں بہت سی خلاف ورزیاں سامنے آتی رہی ہیں جیسا کہ کم از کم اجرت اور پروبیشنری ورکر قوانین کی خلاف ورزی، جبری مشقت اور غیر منصفانہ برطرفی۔ اس نے کوئی بھی یونین بنانے کی کوششوں کی بے رحمی سے مزاحمت کی ہے اور اس کے بانی، لی بیونگ چل نے اعلان کیا کہ سام سنگ کبھی بھی یونینز بنانے کی اجازت نہیں دے گی ”تاوقتیکہ میں منوں مٹی تلے دفن نہ ہو جاؤں“۔ تاہم کمپنی کو بالآخر 2020ء میں یونینوں کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا گیا، جب اس کے نائب صدر اور 25 دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر یونین توڑنے کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا۔

اب 10 جولائی کو، ابتدائی تین روزہ واک آؤٹ کے بعد انتظامیہ کے مذاکرات کرنے سے انکار کے بعد، نیشنل سام سنگ الیکٹرانکس یونین (NSEU) نے 6500 محنت کشوں کی غیر معینہ مدت کی ہڑتال کا اعلان کیا ہے، جو کام کرنے کے برے حالات اور اپنی یونین کی تسلیم کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ یونین 2020ء میں قائم ہوئی تھی اور تب سے تین ممبران سے بڑھ کر 30000 تک پہنچ چکی ہے، جو سام سنگ کی کوریائی ورک فورس کے ایک چوتھائی محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہڑتال کرنے والے تقریباً 5000 کارکن براہ راست کمپنی کی سیمی کنڈکٹر ڈویژن میں کام کرتے ہیں۔

یہ محنت کش جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہیں مطالبہ کر رہے ہیں کہ، ”ہمارے ساتھ مشینی پرزوں جیسا سلوک روا نہ رکھا جائے“۔ وہ بتاتے ہیں کہ پروڈکشن لائن پر مسلسل دستی کام کے سبب انہیں جوڑوں کے گھلنے اور سوزش، انگلیوں کی بد ہئیتی اور کارپل ٹنل سنڈروم سمیت بہت سے جسمانی امراض لاحق ہو چکے ہیں۔ حتیٰ کہ اس سال کے شروع میں گہیونگ پلانٹ (Giheung plant)، جو ہڑتال کا مرکز ہے، کے دو محنت کشوں کو جوہری تابکاری کا سامنا کرنا پڑا ہے!

ایک ہڑتالی محنت کش کے الفاظ میں: ”ہمیں خود کی حفاظت کرنی ہو گی۔ کمپنی کبھی بھی ہماری حفاظت نہیں کرے گی۔“

NSEUنے کھلے عام کہا ہے کہ وہ سیمی کنڈکٹر پروڈکشن کو متاثر کرنا چاہتی ہے۔ مالکان نے اپنے شیئر ہولڈرز کو یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ کام معمول کے مطابق جاری ہے، لیکن یونین نے رپورٹ کیا ہے کہ ہڑتال کے نتیجے میں پیداوار 80 فیصد سے 18 فیصد تک گر چکی ہے۔ یہ پوری عالمی معیشت پر بڑے اثرات ڈال سکتی ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کلیدی شعبے کے محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں کتنی طاقت مرکوز ہے۔

سرمایہ دارای کا بحران

یہ ہڑتال بالخصوص ٹیک انڈسٹری اور عمومی طور پر جنوبی کوریا کے سماج میں دہائیوں سے جمع ہو چکی بے اطمینانی کا اظہار ہے۔ وہ ’معجزانہ‘ ترقی کا دور جس نے کوریا کو دنیا کے سب سے کم ترقی یافتہ ممالک میں سے ایک جدید سرمایہ دارانہ معیشت میں تبدیل کر دیا، اب ماضی کی یاد بن چکا ہے۔ 1970ء سے 2022ء تک اوسطاً 6.4 فیصد کی شرح نمو کے مقابلے میں، بینک آف کوریا اب 2020ء کی دہائی میں شرحِ نمو 2.1 فیصد تک گرنے کی پیش گوئی کر رہا ہے۔

اس جمود نے زبردست سماجی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جنوبی کوریا کو رہائش کے بحران، گھریلو قرضے کے دھماکے اور بے رحمانہ کٹوتیوں کا سامنا ہے۔

اس عمومی بحران کے باوجود Chaebols کے منافعے مائیکرو چپ اور AI مارکیٹوں کے پھیلاؤ کی بدولت ریکارڈ شدہ بلندیوں تک پہنچ گئے ہیں۔ ابھرتی ہوئی چینی ٹیک کارپوریشنز سے بڑھتی ہوئی مسابقت کا سامنا کرتے ہوئے، وہ اپنی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے اپنے محنت کشوں کا مزید گودا نچوڑ رہے ہیں۔

OECD (The Organisation for Economic Co-operation and Development) کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں نہ صرف جنوبی کوریا کے محنت کش سب سے زیادہ طویل گھنٹے کام کرتے ہیں، بلکہ وہ غیر محفوظ حالات میں بھی کام کر رہے ہیں، کیونکہ مالکان صحت اور حفاظت کے معاملات میں کٹوتی کرتے ہیں تاکہ لاگت بچا سکیں اور پیداوار میں تیزی لا سکیں۔ 2020ء سے 2023ء کے درمیان 8000 سے زیادہ مشقت سے جڑی ہوئی اموات ہوئیں۔ اس سال کے شروع میں، ایک لیتھیم بیٹری پلانٹ میں آگ لگنے سے 22 افراد ہلاک ہو گئے۔

مالکان نے نفع کی ہوس میں انہیں سرمایہ کے ذبح خانے میں قربان کیا ہے۔

طبقاتی جدوجہد

یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جنوبی کوریا کے محنت کشوں نے اس معمول کے خلاف حرکت شروع کر دی ہے اور سام سنگ کے محنت کش اکیلے نہیں ہیں۔

فروری میں ہزاروں ٹریننگ کرنے والے ڈاکٹروں نے صحت کی صنعت میں اجرتوں میں تفاوت کے خلاف احتجاجاً ہڑتال کی۔ پچھلے سال، کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (KCTU) کے اعلان پر چار لاکھ محنت کشوں نے حکومت کے خلاف عام ہڑتال کی تھی۔

اس بڑھتی ہوئی صنعتی ہڑتالوں کی لہر کے خلاف Chaebol خود کو سرمائے کا وفادار محافظ ثابت کرنے والے یون شک یول کی حکومت پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد سے، ہفتے میں اوقاتِ کار 120 گھنٹے کر دینے کا خواب دیکھنے والے یون نے یونینوں کے خلاف مسلسل جنگ چھیڑی ہوئی ہے تاکہ کورین سرمایہ داری کی ’مسابقت‘ کو بچایا جا سکے۔ یونین ہیڈ کوارٹرز پر چھاپے مارے گئے ہیں اور کارکنوں کو شمالی کوریا کی ایماء پر کام کرنے کے جھوٹے الزامات کے تحت جیل میں ڈالا گیا ہے۔

ڈاکٹروں کی ہڑتال کے دوران حکومت کے پاس صرف منافقانہ الزامات تھے کہ ہڑتال کرنے والے محنت کش مریضوں کی جان کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، جبکہ ہسپتالوں میں خطرناک کام کرنے کی شرائط کے بارے میں ایک بھی لفظ حکومت کی زبان پر نہیں آیا۔

Chaebol اور ان کے سیاسی وفادار مزدور تحریک کی کمر توڑنے اور کورین محنت کشوں کو استحصال کے خام مال میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ طاقتور کورین ٹیک سیکٹر کے منافعے سٹہ باز سرمایہ کاری کے غیر مستحکم بلبلے اور ہزاروں کارکنوں کے شدید استحصال پر مبنی ہیں۔ دریں اثناء، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اجرتوں اور معیارِ زندگی پر دباؤ ڈال رہا ہے اور طبقاتی جدوجہد کی شدت کے لیے بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ یہ ہڑتال تو محض آغاز ہے۔

تحریک کس جانب بڑھ رہی ہے؟

سام سنگ میں ہڑتال جنوبی کوریا کی پوری مزدور تحریک کے لیے ایک بہادری کی مثال ہے۔ ان محنت کشوں کی فتح پورے محنت کش طبقے کو ان کی طاقت باور کروائے گی اور یہ دکھائے گی کہ جنوبی کوریا پر حکومت کرنے والے سرمایہ دار بلاؤں کا سامنا کیا جا سکتا ہے اور انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔

یونین نے غیر معینہ مدت کی کارروائی تک بڑھ کر جرأت مندی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن آگے بڑھنے کے لیے اسے باقی ورک فورس کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ ابھی تک یونین کے صرف 20 فیصد محنت کش ہڑتال پر ہیں اور NSEU سام سنگ کے اندر سب بڑی یونین تو ہے مگر منظم پانچ یونینوں میں سے صرف ایک ہے۔ ابتدائی تین دنوں میں یونین نے 2000 محنت کشوں کی ایک ریلی کے ساتھ سکوت کو پارہ پارہ کر دیا ہے۔ تاہم بعد کی ریلیاں اس رفتار کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہیں اور صرف سینکڑوں لوگوں کو باہر نکال سکی ہیں۔

تھکاوٹ کے خلاف لڑنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہڑتال کو نئے دستوں کے ساتھ تقویت دی جائے۔ کوئی نہ کوئی راستہ ڈھونڈ کر، NSEU کو اپنے محنت کشوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کو جدوجہد میں کھینچ لائیں۔ مسئلے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یونین لیڈروں میں پہل کرنے کے لیے خاص جذبہ مفقود ہے۔

ایک ہڑتالی کارکن کے الفاظ میں:

”مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم باقی ورک فورس کو اپنے ساتھ شامل کر لیں تو ہماری طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی [لیکن] ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں کوئی اطلاع یا بات چیت نہیں ہو رہی۔“

لیکن ہڑتال کو مضبوط کرنے کے لیے ایک جنگی پروگرام کی ضرورت ہے۔ ورک فورس کی زیادہ قدامت پسند تہوں کو یقین دلانا ہو گا کہ ایک ایسا منصوبہ موجود ہے جو سام سنگ کو اس کے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا ہے اور اسے محنت کشوں کی شرائط کو قبول کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ وہ صرف اس وقت لڑائی میں شامل ہوں گے جب انہیں یقین ہو جائے گا کہ ان کے راہنما آخری حد تک لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

ہڑتال کو تنہا رہ جانے اور اپنی طاقت کھونے سے بچانے کے لیے ہڑتال کے عمل کوتیز کرنے والا منصوبہ بنایا جانا چاہیے۔ ساتھ ہی یونین کو یون شک یول اور جنوبی کوریا کی ریاست کے مسلح اداروں جیسے خطرناک دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی تیار ہونا چاہیے، جنہوں نے گزشتہ سال ٹرک ڈرائیوروں کی ہڑتال پر سفاکانہ تشدد کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ہڑتالی محنت کشوں کو بھی ایک خون آشام مثال بنانے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کریں گے۔

جبر کے خلاف مزاحمت کے لیے NSEU کو پورے محنت کش طبقے سے عمومی اپیل کرنی چاہیے۔ 2021ء میں KCTU کی ہڑتال نے جنوبی کوریا کی مزدور تحریک کی طاقت کا اظہار کیا، جس میں پانچ لاکھ پچاس ہزار محنت کشوں نے واک آؤٹ کیا۔ معاشرے میں غصے اور بے اطمینانی کی شدید لہر موجود ہے۔

NSEUجنوبی کوریا کے مزدور طبقے کے ایک انتہائی طاقتور حصے کی نمائندگی کرتی ہے جس میں معیشت کے سب سے اہم شعبے کو مفلوج کرنے کی طاقت ہے۔ وہ پورے محنت کش طبقے کی قیادت کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں ہیں۔ دیگر شعبوں کے کارکنوں سے رابطہ قائم کر کے اور انہیں ایک مشترکہ جدوجہد میں شامل کر کے، وہ جابرانہ ریاستی قوتوں کے خلاف ایک سیسہ پلائی دیوار بن سکتے ہیں اور پورے سماج کو مفلوج کر سکتے ہیں۔

آخری تجزیے میں، جو چیز درکار ہے وہ مزدور طبقے کی انقلابی قیادت ہے، جو ایک بے لچک سوشلسٹ پروگرام سے مسلح ہو، جو جنوبی کوریا کے سماج میں ابلتے ہوئے غصے کو راستہ دکھائے اور ان جدوجہدوں کو یکجا کر کے یون، میگا-کارپوریشنز اور سرمایہ دارانہ نظام کو مکمل طور پر گرانے کے لیے مشترکہ حملے میں بدل سکے۔

Comments are closed.