جنوبی افریقہ: افریقی نیشنل کانگریس کو انتخابات میں تاریخی شکست کا سامنا

|تحریر: شانتی سٹیورٹ، ترجمہ: فرحان رشید|

حکمران جماعت ANC (African National Congress) کو پچھلے ہفتے کے عام انتخابات میں ایک تاریخی جھٹکا لگا اور جنوبی افریقہ کے 1994ء میں منعقد ہونے والے پہلے جمہوری انتخابات سے لے کر اب تک پہلی بار ANC نے انتخابات میں اپنی اکثریت کھو دی۔ جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والے معاشی اور سماجی بحران کا اب سیاسی میدان میں اظہار ہو رہا ہے، جس میں حکمران طبقے کے غیر مستحکم اتحاد اور کھلے عام اختلافات کا دور شروع ہو گیا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

ANC کو ذلت کا سامنا

یہ نتیجہ سب سے پہلے تیس سال سے برسرِ اقتدار ANC کے خلاف ایک واضح فرد جرم ہے۔ ANC کو 2019ء میں 62 فیصد ووٹوں سے کم ہو کر اس بار صرف 40 فیصد ووٹ ملے ہیں، جو کہ توقعات سے بہت کم ہیں۔ درحقیقت اس زوال کے بیج نسل پرستی کے خاتمے کے دوران ANC کے قائدین کی جانب سے تاریخی طبقاتی مفاہمت کے ذریعے بوئے گئے تھے۔

1940ء کی دہائی میں ANC نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کی قیادت کے طور پر ابھری تھی۔ جب 1980ء کی دہائی میں مزدوروں اور نوجوانوں کی انقلابی تحریک شروع ہوئی تو جنوبی افریقی کمیونسٹ پارٹی اور جنوبی افریقی ٹریڈ یونینز کی کنفیڈریشن (Cosatu) کو سہہ رکنی اتحاد (Tripartite Alliance) میں جوڑ کر ANC اس تحریک کی قیادت میں آ گئی۔

لہٰذا انقلاب کے بہت زیادہ آگے بڑھ جانے کے امکان کی راہ کو روکنے کے لیے جب حکمران نیشنل پارٹی نے ننگے جبر کا راستہ ترک کر کے مذاکرات کی راہ اپنائی تو ANC نے ان مذاکرات میں فطری طور پر آزادی کی اس تحریک کی نمائندگی کرنے میں سبقت لی۔

اُس وقت ANC کا پروگرام باضابطہ طور پر ’فریڈم چارٹر‘ تھا، جس میں عالمگیر رائے دہی جیسی جمہوری مانگوں کے ساتھ ساتھ جاگیروں، کانوں، بینکوں اور صنعتی اجارہ داریوں کو قومیانے جیسی لڑاکا سماجی مانگیں شامل تھیں۔ سہہ رکنی اتحاد کے محنت کش طبقے کے کارکنان کے لیے ان مانگوں کا مطلب ایک سوشلسٹ انقلاب سے کم نہ تھا۔ اگرچہ ANC کو جنوبی افریقی مزدوروں اور نوجوانوں کے ایک بڑے حصے کی فعال حمایت حاصل تھی، تاہم اس کی قیادت نے ہمیشہ مڈل کلاس طبقے کے اصلاح پسندانہ طرزِ عمل کو برقرار رکھا۔

ان مذاکرات کے دوران ANC نے ملک کے سیاسی اقتدار کی خاطر مؤثر طریقے سے اپنے پروگرام کے سوشلسٹ نقاط کا سرمایہ داروں کی ایماء پر سودا کیا تھا۔ SACP (South African Communist Party) میں اپنے ’کمیونسٹ‘ اتحادیوں کے ساتھ کئی ایک ’sunset clauses‘ میں اس نے معاہدہ کیا کہ اقتدار میں آنے کے بعد گورے سرمایہ داروں کی جائیدادوں کو ہاتھ نہیں لگایا جائے گا۔

جنوبی افریقی سرمایہ داروں اور غیر ملکی سامراج کے ساتھ اس سمجھوتے کے بعد ANC نے نیلسن منڈیلا کی قیادت میں اپریل 1994ء میں پہلے جمہوری انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ لاکھوں سیاہ فام جنوبی افریقی عوام ANC کو ووٹ دے کر اسے اپنی پارٹی کے طور پر اقتدار میں لے کر آئے، وہ پارٹی جس نے نسل پرستی کا خاتمہ کیا اور ان کے حالات زندگی کی تبدیلی کا وعدہ کیا۔

آج اس طبقاتی مفاہمت کے نتائج ماضی سے کہیں زیادہ واضح ہیں۔ جنوبی افریقہ، افریقہ کی سب سے مضبوط معیشت ہے، لیکن یہ 2008ء کے بحران سے کبھی بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکی۔ فی کس جی ڈی پی اس وقت 2009ء سے کم ہے۔ بے روزگاری تقریباً 35 فیصد تک بڑھ چکی ہے، مواصلات اور توانائی کا انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور بلندیوں کو چھوتا افراطِ زر مزدوروں کی اجرتوں کو کم کر رہا ہے۔

ANC کے اقتدار میں آنے کے بعد آمدنی کی عدم مساوات میں حقیقی اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 0.67 کے Gini coefficient کے ساتھ، جنوبی افریقہ کو دنیا کا سب سے عدم مساوات رکھنے والا ملک قرار دیا جاتا ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ری ویو کے مطابق: ”سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 1 فیصد افراد تقریباً 20 فیصد آمدنی لے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ کمائی کرنے والے 10 فیصد 65 فیصد لے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 90 فیصد کمانے والے جنوبی افریقیوں کو کل آمدنی کا صرف 35 فیصد حصہ ملتا ہے۔“

سفید فام افراد کے مقابلے میں سیاہ فام افراد کے لیے نوکری تلاش کرنا (اور بہتر تنخواہ والی نوکریاں حاصل کرنا) ابھی بھی زیادہ مشکل ہے؛ خواتین مردوں کے مقابلے میں تقریباً 30 فیصد کم کماتی ہیں اور شہری مزدور دیہی علاقوں کے مزدوروں کے مقابلے میں تقریباً دوگنی آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ حکومت اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں شدید اضافے کے بحران کا کوئی حل پیش کرنے میں ناکام رہی ہے، جس کا سامنا نہ صرف محنت کش طبقے کو بلکہ درمیانے طبقے کی کچھ پرتوں کو بھی ہے۔

اس کے نتیجے میں 1999ء میں اپنے عروج پر جب ANC نے 70 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے اور ووٹر ٹرن آؤٹ 90 فیصد تھا، اس کے بعد سے ANC کے ووٹوں کا حصہ اور مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آؤٹ نمایاں طور پر کم ہو ئے ہیں اور یہ واضح ہے کہ ANC اب کبھی بھی ماضی کی طرح حکومت نہیں کر سکے گی۔

اعلیٰ سطح پر ٹوٹ پھوٹ

 

ٹھیک اسی وقت جب ANC کو وسیع پیمانے پر رد کیا جا رہا ہے، اس سے سرمایہ دار طبقے کی سرکاری پارٹی ڈیموکریٹک الائنس (DA) کی سپورٹ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ 2019ء میں حاصل کردہ 22.2 فیصد ووٹوں کے مقابلے میں اب DA کو 21.8 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اب عوام میں DA اور اس کے رہنماؤں کی طرف سے پیش کی جانے والی نجکاری، کفایت شعاری اور امریکی سامراج کی حمایت پر مبنی دائیں بازو کی پالیسیوں کے لیے کسی بھی قسم کی دلچسپی نہیں رہی۔

ANCکے زوال کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والی uMkonto we Sizwe (MK) پارٹی ہے، جس کا زولو زبان میں مطلب ’قوم کا نیزہ‘ ہے، جس کی قیادت بدنامِ زمانہ سابق صدر، 82 سالہ جیکوب زوما کر رہا ہے۔ پچھلے دسمبر میں قائم ہونے والی اس پارٹی کا تیز ترین اُبھار جنوبی افریقہ کے حکمران طبقے میں شدید تلخ قسم کی تفریق کی عکاسی کرتا ہے۔

ANCکے پچھلے 30 سالہ پروگرام کو ان تین الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے: ”سیاہ فام معاشی خودمختاری“۔ لیکن اس کا سیاہ فام محنت کش طبقے کی خودمختاری سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اس کی بجائے، ANC نے ملک میں ایک سیاہ فام بورژوازی تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے لیے سیاہ فام جنوبی افریقیوں کو ریاست کے اعلیٰ عہدوں اور بڑی جنوبی افریقی کمپنیوں کے بورڈز پر فائز کیا گیا۔

تاہم، معیشت کی اہم پوزیشنیں اب بھی سفید فام یا غیر ملکی ملکیتی اجارہ داروں کے ہاتھ میں ہیں۔ جوہانسبرگ اسٹاک ایکسچینج (Johannesburg stock exchange) کی فہرست میں درج کمپنیوں میں سے 39 فیصد کمپنیوں کو سیاہ فام کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے، لیکن بڑی کان کنی کی کمپنیاں اور صنعتی اجارہ داریاں اب بھی سفید فام بورژوازی اور غیر ملکی سامراج کے کنٹرول میں ہیں۔

ان بڑی کمپنیوں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے ضروری سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے، سیاہ فام بورژوازی کے ایک بڑے حصے کو بالخصوص حکومتی معاہدوں کے ذریعے ریاست میں لوٹ مار کرنے کے علاوہ منافع کمانے کا کوئی اور ذریعہ نہیں ملتا۔

سرمایہ دارانہ ٹکڑوں پر لڑائی دہائیوں سے ANC کے اندر ظہور پذیر ہوتی آ رہی ہے۔ 2008ء میں موجودہ صدر تھابو امبیکی کو خود ANC کے اندر ایک بغاوت کے ذریعے اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا، جس سے بالآخر ریڈیکل دھڑے کے قائد کے طور پر جیکوب زوما کو اقتدار میں لایا گیا۔

زوما ANC کے پرانے محافظ گروہ کا رکن رہا ہے اور اس کے مسلح ونگ، uMkonto we Sizwe میں ایک قائدانہ کردار ادا کرتا رہا ہے۔ لیکن اس کی صدارت کے دوران جلد ہی یہ واضح ہو گیا کہ اس کے ’ریڈیکل ازم‘ کا جنوبی افریقی مزدوروں کی سوشلسٹ امنگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اس نے سیاہ فام بورژوازی کے اس حصے کو قیادت دی جو خود کو منافع خوری کے مواقع سے محروم محسوس کرتا تھا اور اس کے ’ذمہ دار‘ بورژوا سیاستدانوں اور سیاہ فام کاروباری افراد سے ناراض تھا، جنہوں نے بڑے لوگوں کے ساتھ نشست حاصل کی تھی، لیکن انہیں صرف کبھی کبھار کے چھوٹے حصے ہی ملتے تھے۔ ان کا نعرہ تھا کہ ”اب کے بار ہماری لوٹ مار“۔

زوما کی سرکار میں جو کچھ ہوا وہ بدعنوانی کا ایک میلہ تھا، جسے اکثر ’ریاستی قبضہ‘ کہا جاتا ہے۔ ’ٹینڈرپرنیور‘ کی اصطلاح جنوبی افریقی لغت کا حصہ بن گئی، جس کا مطلب ہے کہ کوئی شخص جو حکمران پارٹی میں اپنے رابطوں کا فائدہ اُٹھا کر مال و دولت بناتا ہے، جو کہ اکثر مختلف قسم کی عنایتوں کے بدلے میں ملتی ہے، اور یہ ہمیشہ قانونی نہیں ہوتی۔

سالوں کے سکینڈل، زوال اور مایوسی کے بعد زوما کو بالآخر ANC کے ’اعتدال پسند‘ دھڑے (یعنی ANC کے اندر بڑے سرمائے کے نمائندوں) نے اقتدار سے ہٹا دیا اور اس کی جگہ سائریل رامافوسا نے لے لی، جو جنوبی افریقہ کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہے اور کئی بڑی کمپنیوں کے بورڈز کا حصہ رہ چکا ہے۔

اقتدار سے باہر ہوتے ہی، زوما پر بدعنوانی کے الزامات عائد کیے گئے اور حتیٰ کہ جولائی 2021ء میں عدالت کی توہین کے جرم میں جیل بھیج دیا گیا، کیونکہ وہ اپنی صدارت کے دوران ریاستی قبضے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کے سامنے پیش نہیں ہوا تھا۔ زوما کی قید کے بعد جنوبی افریقہ کے صوبے KZN (KwaZulu-Natal) میں فسادات بھڑک اٹھے، جس کے نتیجے میں 300 افراد ہلاک ہو گئے، جس کے بعد زوما کو صرف دو ماہ بعد ”طبی بنیادوں“ پر رہا کر دیا گیا۔

اگست 2023ء میں وزیر انصاف نے تصدیق کی کہ زوما کو ”گنجائش کم کرنے“ کے لیے جیل واپس نہیں جانا پڑے گا، لیکن اس پر بدعنوانی کے الزامات ابھی تک ہوا میں معلق ہیں اور اسے ابھی بھی مقدمے کا سامنا کرنا ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ زوما نے اس بات کو ذہن میں رکھ لیا، جب اس نے چند ماہ بعد ہی اپنی نئی پارٹی کا آغاز کیا تاکہ ANC کے بحران اور اس کے خلاف بڑھتی ہوئی ناراضگی کا فائدہ اٹھایا جا سکے۔

رامافوسا نے جنوبی افریقی سیاست کو پاک کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس کے سات سالہ اقتدار میں کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ بہت سادہ ہے کہ وہ ان اجارہ داروں کی ملکیت کو نہیں چھو سکتا، جو درحقیقت اس کو تنخواہ دیتے ہیں اور وہ ٹینڈر پرنیورز اور بدعنوان منافع خوروں پر حملہ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اس کی پارٹی کا کلیدی حصہ ہیں۔ جنوبی افریقی میڈیا اکثر رامافوسا کی مفاہمت پر آمادگی اور معاونت کے طریقہ کار پر باتیں کرتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتا اور اس سب کے دوران جنوبی افریقہ کی عوام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

آج حکمران طبقے کے مابین اختلافات ماضی میں کبھی نہ دیکھی گئی حد تک واضح ہو گئے ہیں۔ زوما کی پارٹی نے 15 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اب اس کی پارٹی زوما کے مقامی صوبے Kwazulu-Natal (KZN) کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اس کو سیاہ فام سرمایہ داروں، ریاستی کارندوں اور دیہاتی سرداروں کے وسیع نیٹ ورک کی فعال حمایت حاصل ہے۔

اپنی آزادی کو برقرار رکھنے کے علاوہ بھی زوما کے اپنے کچھ مقاصد ہیں، لیکن MK میں اور حتیٰ کہ ANC کے اندر بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو MK کو رامافوسا کو ہٹانے کے لیے فصیل توڑنے والے شہتیر کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں اور حکومت کو دوبارہ ANC کے ریڈیکل دھڑے کی طرف منتقل کرنا چاہتے ہیں۔

لیکن زوما سیاہ فام بورژوازی اور قبائلی سرداروں کے علاوہ بھی اپنی حمایت رکھتا ہے۔ واضح ہے کہ KZN میں غربت زدہ عوام کی ایک پرت فی الحال زوما کی جانب اپنے حالات کی بہتری کے لیے دیکھ رہی ہے۔ جیسا کہ ایک بے روزگار نوجوان نے کہا، ”جو بات مجھے MK میں امید دلاتی ہے وہ یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ زوما بہت ساری چیزوں میں ہمارے لیے لڑ سکتا ہے، ہم سیاہ فام لوگوں کے لیے۔“

رامافوسا اور ANC کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غم و غصے کو جذباتیت اور لفاظی کے ذریعے زوما نے اپنی طرف کھینچا اور اس مقصد کے لیے اپنی پارٹی کا نام ANC کے مسلح ونگ کے نام پر رکھا اور بغیر کسی رعایت کے جاگیروں کو قومیانے، قبائلی سرداروں کی طاقت میں اضافے، تحفظاتی اقدامات اور غیر ملکیوں سے نفرت پر مبنی ایمیگریشن کی پابندیوں کے نعروں کا استعمال کیا۔ اس نے KZN میں زولو قوم پرستی کا بھی بھرپور استعمال کیا ہے۔

سالوں کے بحرانات اور رائج الوقت سیاست میں کسی متبادل کی عدم موجودگی نے ایک چھوٹی سی پرت کو قوم پرستی اور غیر ملکیوں سے نفرت کی طرف بڑھاوا دیا ہے، ایسا بہت سارے اور ملکوں میں بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ غیر ملکیوں کے کاروباروں پر دھاوے بولے گئے ہیں۔ مہاجرین پر شدت پسندانہ حملے کیے گئے ہیں حتیٰ کہ ان کو قتل بھی کیا گیا ہے۔ صرف ایک واضح سوشلسٹ پروگرام ہی اس صورتحال کو ختم کر سکتا ہے، جو کہ جنوبی افریقی سرمایہ داری کی موت کا اظہار ہے۔

اکنامک فریڈم فائٹرز (EFF) کی مایوسی

(African National Congress)ANC کے علاوہ جولییس ملیما کی قیادت میں اکنامک فریڈم فائٹرز (EFF) بھی ان انتخابات کے نتائج سے مایوس ہو گی۔ EFF کا پہلی دفعہ اظہار ANC کے نوجوانوں کے دھڑے سے بائیں بازو کے ایک گروہ کی علیحدگی کی صورت میں ہوا۔ لیکن جب 2012ء میں مریکانا (Marikana) میں پولیس کی جانب سے 34 کان کنوں کو قتل کیا گیا اور زوما اور رامافوسا دونوں کی جانب سے اس قتل عام کی حمایت کی گئی تب 2013ء میں اعلانیہ طور پر اس پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی۔

اپنے بائیں بازو کے پروگرام اور انقلابی لفاظی کی بنیاد پر EFF نوجوانوں کی ایک واضح پرت کو جیتنے میں کامیاب رہی اور لگ بھگ ایک سال قبل اپنی دسویں سالگرہ کے جشن کے موقع پر اس نے سوویتو (Soweto) میں FNB اسٹیڈیم کے اندر ایک لاکھ لوگوں کا جلسہ کیا۔

پولنگ میں EFF نے بڑے آرام سے 10 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کر لیے تھے اور حتیٰ کہ EFF کے DA (Democratic Allaince) کی جگہ رسمی طور پر اپوزیشن پارٹی بننے کی باتیں بھی ہورہی تھیں۔ لیکن آخر میں EFF نے ووٹوں میں مختصر کمی کے ساتھ 9.5 فیصد ووٹ حاصل کیے، جو 2019ء میں حاصل کردہ ووٹوں سے کم ہیں۔

ملیما نے EFF کے ووٹوں میں اس کمی کا سبب MK پارٹی کی قابل ستائش اور فیصلہ کن بڑھوتری کو قراردیا ہے جس نے KZN اور Mpumalanga میں EFF سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ تاہم ان انتخابات میں EFF کے آگے نہ بڑھنے کا سبب صرف یہی نہیں ہے۔ پارٹی کی ووٹرز کو رجسٹر کرنے کی بہت نمایاں کمپیئن کے باوجود 2019ء کے مقابلے میں کم لوگوں نے ووٹ دیا۔ ان دونوں عوامل پر EFF میں تمام سطحوں پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ درست راستے کا تعین ہو سکے۔

ملیما نے MK پارٹی کو EFF کی ”فریق“ قرار دیا ہے۔ یہ بات اس لحاظ سے تو درست ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں ANC سے ٹوٹ کر ظہور پذیر ہوئیں۔ لیکن یہ انتخاب ظاہر کرتے ہیں کہ ANC اور MK پارٹی جیسے سیاہ فام قوم پرست گروہ کے ساتھ جڑنا ہی اصل مسئلہ تھا۔

ایک طرف EFF کو ANC کے مقابلے میں ایک سوشلسٹ متبادل کے طور پر قائم کیا گیا تھا جو خود کو ایک مارکس وادی پارٹی قرار دیتی ہے، لیکن دوسری طرف یہ ANC کی غیر واضح طبقاتی حیثیت کو بھی قبول کرتی ہے۔

حالیہ کچھ سالوں میں EFF نے سیاہ فام کاروباریوں سے رابطہ کیا ہے تاکہ سفید فام اجارہ دارانہ سرمائے کے خلاف ایک وسیع مورچہ قائم کیا جا سکے۔ لیکن اگر آپ جنوبی افریقہ میں ایک سیاہ فام کاروباری ہیں، تو آپ کس کو پسند کریں گے: EFF کو، جو کرپشن کے خاتمے اور سوشلزم کی بات کرتی ہے یا زوما کو جو سماجی اور سیاسی دونوں حوالے سے زیادہ قریب ہیں؟

حتمی بات یہ ہے کہ EFF سیاسی طور پر خود کو ممتاز بنانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ سیاست کا ایک قانون ہے کہ اگر دو پارٹیاں بنیادی طور پر ایک جیسا پروگرام رکھتی ہیں، تو جس کے پاس مضبوط اپریٹس ہو گا وہی پارٹی آخرکار دوسری پارٹی کو نگل جائے گی۔ زوما کے خود کے معقول وسائل کے علاوہ MK کو سیاہ فام بورژوازی کے ایک دھڑے کی، روایتی علاقائی سرداروں کی، ریاستی آفسر شاہی کی اور حتیٰ کہ خود ANC کی مالی اور تنظیمی معاونت حاصل ہے۔ ANC کے ریڈیکل سیاہ فام دھڑے کے ووٹرز کے مقابلے میں EFF کا مقدر شکست کے علاوہ کچھ نہیں ہو سکتا۔

اس سے بھی بھیانک یہ کہ خود کو بنیادی طور پر ANC اور MK جیسی شناخت لے کر EFF ان لاکھوں نوجوانوں اور محنت کشوں تک نہیں پہنچ سکتی، جنہوں نے ANC کو رد کر دیا ہے اور پارلیمنٹ میں ووٹ دینے کے لیے ان کے سامنے کوئی متبادل موجود نہیں ہے۔

توقعات کے عین مطابق 2024ء کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ جنوبی افریقہ کی جمہوری تاریخ میں بدترین تھا۔ انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی پارٹیوں کی شدید مہم اور ووٹنگ کے روز ابتدائی طور پر لگنے والی قطاروں سے کچھ لوگ ٹرن آؤٹ میں اضافے کی توقع کر رہے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور انتخابات میں ٹرن آؤٹ کی شرح رجسٹرڈ ووٹرز کے 60 فیصد سے بھی کم رہی۔ 43 ملین پر مشتمل ووٹ ڈالنے کی عمر رکھنے والی آبادی میں سے صرف 27.7 ملین رجسٹر ہوئے اور تقریباً 16 ملین نے ووٹ دیا۔

درحقیقت یہ انتخابات ظاہر کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے عوام میں جوش و اعتماد کی کمی ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جنوبی افریقی غیرسیاسی لوگ ہیں۔ حالیہ سالوں میں ووٹرز کی شرکت کی کمی کے مقابلے میں سیاسی کاروائی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے، جیسے کہ یونیورسٹیوں کے کیمپیسز میں ”فیس مسٹ فال“ تحریک اور دھات کی صنعت کے شعبے میں، عوامی صحت کی شعبے میں اور عوامی تعلیم کے شعبے میں خودرو ہڑتالوں کے پھوٹنے کی صورت میں۔

محنت کش طبقے سے بات کرنے سے ان اعداد وشمار کی حقیقت ثابت ہو جاتی ہے۔ جب کیپ ٹاؤن کے V&A واٹر فرنٹ میں کام کرنے والے سیکیورٹی گارڈ سے پوچھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ ”مجھے ووٹ دینے کا کوئی مطلب سمجھ نہیں آتا، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم محنت کشوں کے لیے کوئی اچھے آپشنز موجود نہیں ہیں۔“ جب اس سے پوچھا گیا کہ کس قسم کے نعرے ووٹ دینے کے لیے اس کی حوصلہ افزائی کر سکتے ہیں تو اس نے جواب دیا: ”ہمیں وہ لوگ چاہییں جو خود کو سوشلسٹ قرار دیتے ہوئے سوشلسٹوں کی طرح عمل بھی کریں۔“

یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ ANC کی طرح خود کو سرخ رنگ میں لپیٹ کر کام کرنے کا طریقہ کار ناکام ہو چکا ہے۔ آگے کا راستہ واضح ہے۔ ANC کی طبقاتی مفاہمت پرستی کے ساتھ اس کے زیادہ ’ریڈیکل‘ گروہوں سے مکمل طور پر لاتعلقی اختیار کرنے اور جنوبی افریقہ کی دیہی غریب آبادی اور محنت کش طبقے کے مفادات کے لیے ڈٹ کر کھڑے رہنے سے ہی EFF ایک انقلابی سوشلسٹ پارٹی بن سکتی ہے، جس کا یہ عزم بھی رکھتی ہے اور آخر میں اس کو ان نوجوانوں اور محنت کشوں کو منظم کرنا ہو گا جو نہ صرف لڑنے کے لیے تیار ہیں بلکہ وہ ایک آزاد اور واضح قیادت کے بھی منتظر ہیں۔

غیر مستحکم اتحاد

ANCکے پاس اب خود سے اکثریتی حکومت بنانے کے لیے درکار نشستیں موجود نہیں ہیں، لیکن یہ پھر بھی قومی اسمبلی کی سب سے بڑی پارٹی ہے۔ ابتدائی انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد کے دنوں میں تیز تر مذاکرات اور پس پردہ ملاقاتوں کا بازار گرم ہوا ہے۔ لیکن ANCکسی کو بھی جوڑنے کے لیے جو بھی انتظام کرنے میں کامیاب ہو گی وہ جنوبی افریقہ کی سیاست میں مزید عدم استحکام اور بحران کو ہی جنم دے گا۔

ANCکا ’اعتدال پسند‘ بورژوا دھڑا زیادہ تر غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ساتھ مل کر بڑے سرمایہ داروں کی پشت پناہی میں DA کے ساتھ کسی نہ کسی شکل میں اتحاد یا معاہدے کی حمایت کر رہا ہے۔ لیکن ANC کا سفید فام سرمایہ داروں کی پارٹی کے ساتھ اتحاد میں دائیں بازو کا پروگرام چلانا نہ صرف پارٹی کو ملک کی سیاہ فام اکثریت سے مزید دور کر دے گا، بلکہ یہ ANC کے اندر سے بھی بغاوت کو آسانی سے بھڑکا سکتا ہے۔

MKکئی حوالوں سے ANC کی فطری اتحادی بنتی ہے کیونکہ یہ ANC کا ہی ایک دوسرا دھڑا ہے جو چھوٹے سیاہ فام سرمایہ داروں کے حق میں توازن کو جھکانے کے لیے الگ ہوا۔ زوما کی ٹرمپ کی حکمت عملی اپنانے کے پیچھے بھی کچھ ایسی ہی وجہ کارفرما ہے کہ وہ حالیہ انتخابات کو فراڈ قرار دے رہا ہے اور دھمکی دے رہا ہے کہ MK کی پارٹی کے وزراء پارلیمنٹ میں اپنی نشستیں نہیں لیں گے: یہ ایک مذاکراتی حربہ ہے کہ KZN میں عدم استحکام پیدا کرنے اور سیاست کو مفلوج کر دینے کی دھمکیوں کے ذریعے ANC سے مراعات حاصل کی جائیں۔

اس وقت MK کا مطالبہ ہے کہ رامافوسا کو صدارت سے ہٹایا جائے اور انہوں نے کسی ممکنہ اتحاد کے حوالے سے یہ اپنا بنیادی مطالبہ بنایا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ANC پر دوبارہ سے ’زوما‘ ونگ کے قبضے کے مترادف ہو گا۔ فی الحال، ANC نے اسے ناقابل قبول قرار دے دیا ہے، اس بات نے انہیں اپنے لیے نئے اتحادی تلاش کرنے پہ مجبور کر دیا ہے۔

اس وقت جب یہ مضمون لکھا جا رہا ہے، ANC کی نیشنل ایگزیکٹو کمیٹی نے کھلے عام ایک ’قومی اتحاد‘ پر مبنی حکومت کی تجویز پیش کی ہے۔ ANC کے سیکریٹری جنرل فکیلے مبالولا نے اس بات کی یقین دہانی کروائی ہے کہ ”ہم سب کو شامل کرنا چاہتے ہیں“۔ اگر آپ کسی کے ساتھ اتحاد نہیں بنا سکتے، تو سب کے ساتھ اتحاد بنا لیں!

ایسا کوئی انتظام مختصر مدت کے لیے بظاہر استحکام تو قائم کر سکتا ہے، لیکن بالآخر اس میں شامل تمام جماعتوں کو یہ بدنام کر دے گا اور 1994ء کے بعد کی حکومت کے خلاف مجموعی طور پر عوام کے غصے میں اضافہ کرے گا۔ جب تک ایک عوامی انقلابی پارٹی پورے بدعنوان نظام کو ختم کردینے کے لیے تیار نہ ہو، زوما جیسے دھوکے باز ہی اس میں فائدہ اٹھائیں گے۔

EFFکے پاس اپنے بل بوتے پر ANC کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے درکار نشستیں موجود نہیں ہیں، لیکن وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ وسیع تر اتحاد میں شامل ہو سکتی ہے اور EFF نے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی معاہدے میں شامل ہونے کے لیے انہیں مالیات کی وزارت اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ دیا جائے۔ اس راستے کو اختیار کرنا ممکنہ طور پر تباہ کن غلطی ہو گی۔

دنیا بھر میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ جب تبدیلی کا وعدہ کرتے ہوئے بائیں بازو کی جماعت حکمران طبقے کی جماعتوں کے ساتھ حکومت میں شامل ہوتی ہے تو وہ اپنا پروگرام نافذ کیے بغیر ہی عوام کو درپیش بحران کی ذمہ دار بن جاتی ہے۔ حکومتی اتحاد کا حصہ بننے سے یہ خود کو ان لوگوں کی نظروں میں گرا دیتی ہے جن کی نمائندگی کا یہ دعویٰ کرتی ہے۔

ANC کے ساتھ کوئی غیر اصولی معاہدہ مؤثر طور پر جنوبی افریقہ کے حکمران طبقے کے ساتھ معاہدے کے مترادف ہو گا اور یہ صرف اور صرف EFF اور محنت کش طبقے کے لیے ایک جال ثابت ہو سکتا ہے۔

انقلابی پارٹی کے قیام کی طرف بڑھو

آپ کسی بھی طریقے سے دیکھیں، جنوبی افریقہ کو مزید گہرے عدم استحکام کے مستقبل کا سامنا ہے۔ حالیہ انتخاب میں جنوبی افریقہ کے اندر برسوں سے پنپتے اقتصادی اور سماجی بحران کا آخرکار سیاسی سطح بھی پر ظہور ہو چکا ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے بحران کے تناظر میں اس کا مطلب ہے کہ توانائی کے بحران، بے روزگاری اور اقتصادی جمود کا کوئی حل نہیں ہو گا۔

1994ء کی مفاہمت ختم ہو رہی ہے۔ حکمران طبقہ منقسم ہے اور پہلے کی طرح حکومت نہیں کر سکتا۔ یہ بحران محنت کشوں اور درمیانے طبقے، دونوں کو متاثر کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں بائیں اور دائیں جانب بڑی تبدیلیاں پنہاں ہیں۔

بحران کے دباؤ میں عوام مسائل سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو آزمائیں گے۔ جب انہیں اپنے مسائل کا سیاسی حل نہ مل سکا تو محنت کش طبقہ اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف فیصلہ کن اقدام اٹھائے گا۔

جنوبی افریقہ کے محنت کش طبقے کے پاس قابلِ فخر انقلابی روایات اور طاقتور تنظیمیں ہیں۔ جب یہ دوبارہ انقلاب کے راستے پر چلیں گے تو پورے افریقہ کو ہلا کر رکھ دیں گے۔

فوری طور پر جس چیز کی ضرورت ہے وہ محنت کش طبقے کی ایک انقلابی پارٹی کی ہے، جو ہر قسم کی طبقاتی مفاہمت اور سمجھوتے کو مسترد کرے اور ایک جرات مندانہ سوشلسٹ پروگرام کے لیے کھڑی ہو۔

ایسی پارٹی کو محنت کشوں کے ساتھ شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار ہونا ہو گا، ان کی پارلیمان سے باہر جدوجہدوں کو قیادت فراہم کرنی ہو گی اور محنت کشوں کی محنت پر بنائے منافعوں کو محنت کشوں میں تقسیم کرنے کی بجائے انہیں متحد کر کے جنوبی افریقہ میں سرمایہ داری کو مکمل طور پر ختم کرنا ہو گا۔

ایسی پارٹی کی تعمیر کے لیے مواد جنوبی افریقہ میں وافر مقدار میں موجود ہے۔ ایک نئی نسل لڑنے کے لیے تیار ہو رہی ہے اور کمیونسٹ نظریات کی طرف راغب ہو رہی ہے۔ ہمیں مل کر اس پارٹی کو تعمیر کرنا ہو گا۔

Comments are closed.