|تحریر: بین مورکن، ترجمہ: ولید خان|
افریقن نیشنل کانگریس یوتھ لیگ(ANCYL) کے سابق سیکرٹری جنرل سندیسو مگاکا کے قتل پر پورے ملک میں غم و غصے اور نفرت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے قتل کا تعلق افریقن نیشنل کانگریس(ANC) میں مقامی سطح پر اندرونی لڑائیوں سے جڑا ہوا ہے لیکن یہ واقعہ پارٹی کی عمومی صورتحال کی درست عکاسی ہے۔ نیشنل کانفرنس سے محض تین ماہ قبل پارٹی کے مختلف دھڑوں کے درمیان خانہ جنگی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے جس کے طبقاتی جدوجہد پر انتہائی سنجیدہ اثرات پڑیں گے۔
To read this article in English, click here
جولائی میں سندیسو مگاکا اور اس کے دو کامریڈ جنوبی کوازولوا- ناتال میں امزم خولو میں ایک دکان کے باہر گاڑی میں موجود تھے جب ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ یہ معجزہ تھا کہ گاڑی تو چھلنی ہو گئی لیکن تینوں اس قاتلانہ حملے میں بچ نکلے۔ رپورٹس کے مطابق ماگاکا کی ہسپتال میں حوصلہ افزا صحت یابی ہو رہی تھی لیکن پھر اس نے اچانک پیٹ میں درد کی شکایت کی جس کے کچھ ہی عرصے بعد وہ چل بسا۔ پولیس اس وقت یہ تفتیش کر رہی ہے کہ کیا اس پر زہر کے ذریعے دوسرے قاتلانہ حملے کی کوشش کی گئی ہے کہ نہیں۔
نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن
مگاکا کی موت کی خبر پر ہر طرف غم و غصہ پھٹ پڑا۔ اس کی وجہ پچھلے کچھ عرصے میں طبقاتی جدوجہد اور کثیر تعداد میں نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن میں اس کا فعال کردار ہے۔ 13-2009ء کے درمیانی عرصے میں بے تحاشا ہڑتالوں اور عوامی احتجاجوں کے ساتھ طبقاتی جدوجہد میں دیوہیکل اضافہ ہوا۔ عوامی دباؤ کے نتیجے میں 2007ء کی پولوکوانے کانفرنس میں بائیں بازو کی فتح کے ساتھ ANC کے بڑے حصوں میں دائیں جانب تیز ترین جھکاؤ دیکھنے میں آیا۔ 2009ء کے عام انتخابات کے بعد ہڑتالوں اور احتجاجوں میں نمایاں اضافہ ہوا اور طبقاتی جدوجہد میں معیاری تبدیلی نظر آئی۔ اس کی سب سے واضح مثال ANCYL کی ہے۔ سندیسو مگاکا نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن کے عمل میں ایک سرگرم شخصیت تھی۔ بطور ANCYL جنرل سیکرٹری، اس نے ’’Economic Freedom In Our Lifetime‘‘ کے پروگرام کو فروغ دیتے ہوئے لیگ کو بائیں جانب لے جانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس پروگرام کو 2011ء میں ANYCL کی تاریخی چوبیسویں قومی کانگریس میں 5000 مندوبین نے ووٹ دیا جس میں بغیر معاوضوں کے زمینوں پر قبضے اور ملکی معدنیات اور صنعتوں کو قومیائے جانا شامل تھا۔ لیگ کی نئی قیادت کھلے عام نیشنلائزیشن کے پروگرام کا پرچار کرتی تھی اور انہوں نے بہت سے ’’معاشی آزادی کیلئے مارچوں‘‘ کو منظم کیا جن میں لاکھوں نوجوانوں نے شرکت کی۔
اس ساری صورتحال نے حکمران طبقے کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ عوامی تحریک کے ابھار اور معیشت کے کچھ کلیدی حصوں کو قومیانے کے خیالات بورژوازی کیلئے بہت خطرناک ثابت ہو سکتے تھے۔کھلے تصادم کا ایک دور شروع ہو گیا جس میں ANCYL نے جولیس مالیما اور سندیسومگاکاکی قیادت میں ANCکی قیادت کو کھلے عام چیلنج کر دیا۔ ’’ہماری زندگیوں میں معاشی آزادی‘‘ کے نعرے نے نوجوانوں میں بڑھتی ریڈیکلائزیشن کو اور زیادہ مہمیز فراہم کی۔ مالیما اور ANCYL کی دیگر قیادت کے ساتھ مگاکا ایک پوری نئی نسل کی ریڈیکلائزیشن کی علامت بن گیا۔ عوام کی ایک بڑی اکثریت، خاص طور پر سب سے زیادہ ریڈیکل پرتیں، یہ واقعات بھولی نہیں ہیں۔
افریقن نیشنل کانگریس(ANC) میں ٹوٹ پھوٹ
زوما ANC کے بائیں بازو دھڑے کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار تک پہنچا لیکن اقتدار حاصل کرتے ہی اس پر حکمران طبقے کا بے پناہ دباؤ بڑھ گیا کہ وہ پارٹی کے بائیں بازو کی جانب بڑھتے ہوئے جھکاؤ کا سدباب کرے۔ اس کام کیلئے اسے کمیونسٹ پارٹی کی خصوصی معاونت حاصل تھی۔ اگر SACP نے اپنے آپ کونیشنلائزیشن کی تحریک میں ہراول دستے کے طور پر رکھا ہوتا تو پورے ملک میں اس وقت صورتحال مختلف ہوتی۔ لیکن SACP کی قیادت کبھی بھی سوشلزم کی طرف بڑھنا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے بجائے پارٹی قیادت نے یوتھ لیگ کی قیادت پر تابڑ توڑ حملے کرنے شروع کر دیئے۔ انہوں نے اپنے آئین میں تبدیلی کر کے اپنی فل ٹائم قیادت کو کابینہ کا حصہ بنوا دیا جس کے بعد ان کا کام ایک کھلے عام سرمایہ دارانہ حکومت کو بائیں بازو کی ایک ڈھال فراہم کرنا تھا۔ اس گھٹیا اقدام کے بعد SACP کی قیادت، جیسے بلیڈ زمانڈے، نے اپنے حملوں کی کیمپین کو آگے بڑھاتے ہوئے ٹریڈ یونین تحریک میں بائیں بازو پر بھی حملے شروع کر دیئے۔ اس کی وجہ سے ٹریڈ یونینوں میں سپلٹ ہو گئی اور عمومی طور پر ANC میں ان کا اثرورسوخ بھی کمزور پڑگیا۔ جلد ہی پولوکوانے اتحاد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں زوما اور حکمران طبقے کو وہ خلا میسر آیا جس میں انہوں نے کھلم کھلا اپنے سرمایہ دارانہ پروگرام پر عملدرآمد کرنا شروع کر دیا۔
اس تمام صورتحا ل کا نتیجہ یہ نکلا کہ یوتھ لیگ کی قیادت پارٹی میں تنہائی کا شکار ہو گئی۔ مالیما، مگاکا اور دیگر کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف 2012ء میں مانگوانگ میں قومی کانفرنس کے بعد ANC کا دائیں جانب تیزی سے جھکاؤ بڑھ گیا۔ زوما دھڑے نے اقتدار پر اپنے قبضے کو اور مستحکم کر لیا جس کے بعد انہوں نے یوتھ لیگ کی پوری قیادت کو پارٹی بدر کر دیا۔ یوتھ لیگ کی پوری نیشنل ایگزیکٹیو کمیٹی کو توڑ دیا گیا اور تمام قیادت کو یا تو نکال دیا گیا یا معطل کر دیا گیا۔ مالیما اور فلویڈ شیوامبو جیسے لوگوں نے بعد میں Economic Freedom Fighters کے نام سے ایک تنظیم بنا لی جبکہ مگاکا جیسے لوگوں کو معطل کر دیا گیا۔ مگاکا کو ایک سال کیلئے معطل کیا گیا تھا لیکن اس نے فیصلہ کیا کہ پارٹی میں واپس متحرک ہوا جائے، گو کہ اس کے پاس اب کوئی سابقہ عہدہ نہیں تھا۔ اپنی موت کے وقت وہ کوازولو-ناتال کے نواحی علاقوں میں بطور کونسلر کام کر رہا تھا۔ اس کو اعتماد تھا کہ پارٹی کو ایک ریڈیکل پروگرام کے ذریعے جیتا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ اس نے ANC کے سامنے موقف رکھا کہ مالیما کو واپس پارٹی میں شامل کیا جائے۔ اس نے اپنی بنیاد یوتھ لیگ کی سلگتی ریڈیکل پرتوں پر رکھی جو قومی انتظامی ڈھانچوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باوجود موجود تھیں۔ یہاں تک کہ پارٹی کے دائیں بازو نے دو مرتبہ لیگ کی از سر نو شروعات کو ملتوی کر دیا کیونکہ پارٹی میں ابھی بھی مخالف پرتیں موجود تھیں۔ یہ مزاحمت کے مکمل طور پر تباہ ہونے کے بعد ہی ممکن ہوا کہ لیگ کو مکمل طور پر زوما دھڑے کے براہ راست کنٹرول میں دے دیا جائے۔ مالیما کا کہنا ہے کہ اپنی موت سے پہلے مگاکا EFF میں شمولیت کا سوچ رہا تھا لیکن اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کرتا، اسے قتل کر دیا گیا۔
آج کی ANCYL میں زوما اور گپتا فیملی کے صرف چاپلوس اور مہرے موجود ہیں جن کا پچھلی نسل کی قیادتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پچھلے دو سالوں سے نوجوانوں کی ریڈیکلائزیشن، لیگ سے باہر نکل کر EFF اور طلبہ تحریک میں سما گئی ہے۔ 2009ء کے بعد طبقاتی جدوجہد میں اٹھان کے بعد ANC عمومی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔ یہ ساری صورتحال اس عمومی عمل سے جڑی ہوئی ہے جس میں عوام بار بار عوامی جدوجہد کے راستے پر چل رہے ہیں تاکہ سماجی اور معاشی بحرانوں کا کوئی حل تلاش کیا جا سکے۔ پچھلی ایک دہائی میں عوامی جدوجہد کی بڑی بڑی لہروں نے کئی شکلیں اختیار کی ہیں۔ خاص طور پر 2009-13ء کے عرصے میں ہڑتالوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑا جس نے سیاسی افق کو پاش پاش کرتے ہوئے نئی سیاسی صف بندیوں کے عہد کا آغاز کر دیا۔ ANC سے بھی زیادہ بائیں جانب ہمیں نئی شکلیں ابھرتے ہوئے دیکھنے کو ملیں جن میں EFF اور SAFTU(نئی ٹریڈ یونین فیڈریشن) شامل ہیں۔ 1950ء کی دہائی کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نوجوانوں اور شعور یافتہ محنت کشوں کے بڑے بڑے حصے ANC اور تین رکنی اتحاد (ANC, COSATU, SACP)سے باہر ہیں۔
ANC میں خانہ جنگی
اس دوران، پارٹی کئی سالوں کے بحران کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہو چکی ہے۔ بائیں بازو کے مرکزی عناصر کے نکل جانے کے بعد اب پارٹی پر موقع پرستوں، ٹھیکوں کے سوداگروں اور دوسرے سماجی طفیلیوں کا قبضہ ہے۔ آزادی کی پارٹی اب اوپر سے نیچے تک گل سڑ رہی ہے۔ بالائی سطحوں سے لے کر نیچے برانچ لیول تک، تمام ڈھانچوں کو قومی اور مقامی دھڑے اور غنڈہ گرد عناصر نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں تاکہ ان وسائل پر قبضہ کیا جا سکے جن تک پارٹی کی دسترس ہے۔ قومی سطح پر پارٹی میں اس وقت دو دھڑوں کے درمیان کھلم کھلا خانہ جنگی چل رہی ہے جو حکمران طبقے کے دو دھڑوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے عمومی بحران کے دباؤ میں یہ خانہ جنگی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ زوما۔گپتا کا دھڑا ریاستی وسائل کی بے پناہ لوٹ مار کر کے خوب فربہ ہوچکا ہے اور اس وقت سیرل رامافوسا کے طاقتور بورژوازی دھڑے کے خلاف اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔
مقامی سطح پر سیاسی بحران کی وجہ سے ڈسپلن کے ٹوٹ بکھرنے کے عمل کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی سطح پر وسائل کی لڑائی شروع ہو چکی ہے۔ اس خانہ جنگی کی وجہ سے مقامی سطح پر سیاسی قتل و غارت بھی شروع ہو چکا ہے۔ مثلاً کوازولو-ناتال کا صوبہ پورے ملک میں سیاسی قتل و غارت کا مرکز بن چکا ہے۔ یہاں پر 2016ء کے میونسپلٹی انتخابات سے پہلے ANC کے درجن سے زائد لیڈروں کو قتل کیا جا چکا تھا۔ اس کے بعد سے پارٹی میں سیاسی قتل کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ پچھلے چند مہینوں میں مگاکا، امزم خولو کا پانچواں کونسلر ہے جسے قتل کیا جا چکا ہے۔ کوازولو-ناتال میں پارٹی کی اندرونی جنگ اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب سیاسی قتل ہفتہ وار ہو رہے ہیں۔ پچھلے دو سالوں میں ڈربن کے جنوب میں املازی میں واقع گلیبل لینڈز ہاسٹل میں 90 سے زیادہ لوگ قتل کئے جا چکے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ وہ پیشہ ور قاتل، جنہیں پارٹی کے متحارب دھڑے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، کھلے عام ہاسٹل میں رہ رہے ہیں۔ حالانکہ اس علاقے میں پولیس کی بھاری نفری ہر وقت موجود رہتی ہے۔ درحقیقت آج تک کسی کو ان قتل کے بدلے میں سزا نہیں دی گئی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بڑے عہدوں پر موجود لیڈر اور ریاستی اہلکار ان سارے معاملات میں براہ راست شامل ہیں۔
عمومی طور پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ صوبے میں سیاسی قتل عام کی وجہ ANC کی خانہ جنگی ہے، لیکن کوازولو- ناتال کے ANC کے سیکرٹری سوپر زوما کا کہنا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کوئی پراسرار ’’تیسری قوت‘‘ موجود ہے۔ یہ تھیوری اسی دن غلط ثابت ہو گئی جس دن اسے پیش کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ایک ویڈیو میں ANC تھیکوینی کے سیکرٹری بھیکی تولی کے دو ’’باڈی گارڈ‘‘ دیکھے جا سکتے ہیں جو بندوقیں تانے کھڑے ہیں جن میں ایک AK-47 کلاشنکوف بھی شامل ہے (جنوبی افریقہ میں AK-47پر سخت ممانعت ہے)۔ وہ مسلسل دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ ’’کتے کو مار دیں گے‘‘۔ اس انیس سیکنڈ کی ویڈیو کی وجہ سے ANC کی اعلیٰ قیادت مجبور ہو گئی کہ ان دو محافظوں کو برخاست کر دیا جائے۔ بعد میں پولیس نے تینوں ہتھیار اپنے قبضے میں لے لئے تاکہ لیباٹری ٹیسٹ کرائے جائیں کہ ان میں سے کوئی صوبے میں کسی قتل میں تو استعمال نہیں ہوا۔ درحقیقت ان تمام پارٹیوں کی کوشش یہی ہے کہ اس سارے معاملے کو کسی طرح سے دبا دیا جائے۔
انقلابی مضمرات
کوئی بھی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ اپنے54ویں قومی کنونشن سے پہلے، ANC اپنی تاریخ کے 105 سالوں میں سب سے کمزور ترین حالت میں موجود ہے۔ پارٹی، اوپر NEC سے لے کر نیچے برانچ لیول تک گل سڑ رہی ہے۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں موجود پارٹی بھی شدید انتشار کا شکارہے۔ حال ہی میں 27 ممبر پارلیمنٹ نے ایک خفیہ پارلیمانی ووٹ میں زوما کو صدارت سے برخاست کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کو انتہائی کم ووٹوں سے شکست ہوئی لیکن اس کی وجہ سے پارلیمانی پارٹی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ مغربی کیپ میں، صدارتی جانشینی کی دوڑ نے یوتھ لیگ کی صوبائی ایگزیکٹیو کمیٹی میں دراڑیں ڈال دی ہیں۔ ANC کے سب سے بڑے صوبے کوازولو- ناتال میں پارٹی کے دونوں دھڑوں نے عدالت میں بھی لڑائی لڑی کہ کونسے دھڑے کے پاس پارٹی کی صوبائی قیادت موجود ہے۔ جب سے کورٹ نے یہ فیصلہ سنا دیا ہے کہ موجودہ صوبائی قیادت کو 2015ء کی جس کانگریس میں منتخب کیا گیا تھا وہ کانگریس ہی غیر قانونی تھی، اس کے بعد سے کوازولو- ناتال کی ANC کا شیرازہ بکھرا پڑا ہے۔ یہ زوما کے دھڑے کیلئے بہت بڑا نقصان ہے اور اس کی وجہ سے دسمبر کی کانفرنس میں سیاسی بحران مزید گہرا ہو سکتا ہے۔ یہ پورے ملک میں پارٹی کے سیاسی بحران کی عمومی صورتحال ہے۔ داؤ پر سب کچھ لگا ہوا ہے اور اگلے چند مہینوں میں ANC مزید ٹوٹ پھوٹ اور کمزوری کا شکار ہو سکتی ہے۔
افریقن نیشنل کانگریس کی قسمت کا فیصلہ طبقاتی جدوجہد سے جڑا ہوا ہے۔ کئی دہائیاں پارٹی کو سیاہ فام عوام کی غیر مشروط سیاسی حمایت حاصل رہی۔ لیکن سرمایہ درانہ بنیادوں پر 23 سال کی حکومت نے پارٹی کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ماریکانا کا قتل عام، نہ ختم ہونے والی کرپشن اور سرمایہ دار آقاؤں کی خوشنودی کیلئے محنت کش طبقے پر نہ ختم ہونے والے حملوں نے سابقہ آزادی کی تحریک کو بری طرح سے مجروح کر کے رکھ دیا ہے۔ سب سے زیادہ ریڈیکل پرتیں یا تو علیحدہ ہو چکی ہیں یا علیحدہ ہونے کے عمل میں ہیں جبکہ دوسری پرتیں کسی قابل اعتماد متبادل کے موجود نہ ہونے کی صورت میں مایوس ہو کر بیٹھ گئی ہیں۔ اب یہ سیاسی بحران پارٹی کو پاش پاش کرنے کے در پے ہے۔ اس صورتحال میں ANC کی پرتوں میں ہمیں ہر طرح کی کشمکش دیکھنے کو ملے گی۔ یہ کشمکش پارٹی کے بحران کو مزید گہرا کرتی جائے گی۔ حکمران طبقے کیلئے یہ صورتحال ایک بھیانک خواب سے کم نہیں۔ ANC کی اخلاقی اتھارٹی کے منہدم ہونے کا مطلب ہے کہ پھر کوئی ایسی قوت پورے ملک میں موجود نہیں جو محنت کش طبقے کے غیظ و غضب کو کنٹرول کر سکے۔ ANC کی قسمت کے فیصلے کے اثرات، بالواسطہ یا بلاواسطہ آنے والے وقت میں طبقاتی جدوجہد کے ابھار پر اہم اثرات مرتب کریں گے۔