|تحریر: جوش ہولرائڈ، ترجمہ: ولید خان|
لندن میں 7 مئی 2007ء میں ہونے والے دھماکوں کے بعد گزشتہ روز 23مئی 2017ء کو ہونے والا مانچسٹر دھماکہ ،برطانیہ میں دہشت گردی کا اب تک سب سے زیادہ ہولناک واقعہ ہے جس میں اب تک 22 افراد قتل اور 59 زخمی ہو چکے ہیں۔ مانچسٹر ارینا میں ایک پاپ کنسرٹ پر اکلوتے خود کش بمبار کا حملہ دانستہ طور پر رات دس بج کر پینتیس منٹ پر ایسے وقت پر کیا گیا جب ہزاروں افراد، جن میں بے شمار بچے بھی شامل تھے ، تقریب سے نکلنا شروع ہوئے۔ بچوں اور نوجوان کی ایک بڑی تعداد مرنے والوں اور لاپتہ افراد میں شامل ہیں۔
To read this article in English, click here
قتل عام کے اس گھناؤنے جرم کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ بزدل اور کم ظرف حملہ آور اپنے جرم کی سزاسے خود تو مر کر بچ گیا لیکن مظلوم مقتولین کے خاندان ساری عمر اس غم کی آگ میں جھلستے رہیں گے۔ ہم دلی تمناؤں کے ساتھ مظلوموں کے اس غم میں شریک ہیں اور حملے میں ہونے والے زخمیوں اور صدمے کے شکار افراد کیلئے نیک خواہشات اور تمناؤں کا اظہار کرتے ہیں۔
تاحال خود کش حملہ آور کی شناخت تو نہیں ہو سکی لیکن داعش (ISIS) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ دعوی سچا ئی پر مبنی ہے یا محض ایک سفاک پبلسٹی ڈرامہ لیکن صاف ظاہر ہے کہ یہ ایک منصوبہ بند دہشت گردی کا واقعہ تھا جس کا مقصد زیادہ سے زیادہ معصوم جانوں کا ضیاع تھا۔ ہم مانچسٹر کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ ان مجرموں اور سہولت کاروں کیلئے ہمارے دلوں میں نفرت کے سوا اور کچھ نہیں۔
بے شمار ’’عالمی راہنماؤں‘‘ کے تعزیتی پیغامات موصول ہو چکے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ کا بیت اللحم (اسرائیل) سے مذمتی پیغام آیا ہے کہ اس ’’شیطانی نظریے کو مکمل طور مٹانا پڑے گا‘‘۔ ایک ایسے شخص کے یہ الفاظ مضحکہ خیز اور کھوکھلے ہیں جس نے چند دن پہلے ہی سعودی عرب کے ساتھ 110 ارب ڈالر کے ہتھیاروں کی فروخت کا معاہدہ کیا ہے جو وہابی نظریات کا مرکز اور داعش، القاعدہ، طالبان اور ان جیسے بے شمار خونخوار بھیڑیوں کا معاون ہے۔
یہ شر کیسے مٹایا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے نام نہاد لیڈر ہنسی خوشی مشرق وسطیٰ اور دنیا میں اس کی ترویج اور بڑھوتری میں پیش پیش ہیں؟ ہم یہی سوال تھریسامے سے کرتے ہیں، جس کی حکومت یمن اور شام کی تباہی میں امریکہ اور سعودی عرب کے ساتھ برابر کی شریک ہے اور حال ہی میں سعودی ریاست کے ساتھ اپنا الگ اربوں ڈالرکی مالیت کے ہتھیاروں کا معاہدہ کر چکی ہے۔ یہ واضح ہے کہ مے اور ٹرمپ کیلئے جب پیسے کمانے کا معاملہ آتا ہے تو امن اور استحکام کے معاملات بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔ بریگزٹ کے بعد، ٹوری پارٹی کی نظر میں برطانیہ کا مستقبل ایک عالمی ہتھیار فروش ریاست کا ہے۔ اس سوچ کے ساتھ ان کا نظریہ مستقبل میں دنیا کی مزید تباہی و بربادی اور خطے میں معصوم عوام کے قتل و غارت کا ہے۔
جب عراق اور شام میں جنگی طیاروں کی بمباری سے یا پاکستان جیسے ممالک میں روزانہ خود کش دھماکوں سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں مارے جاتے ہیں، اس وقت مغرب کے لیڈروں کے پاس بولنے کو کچھ نہیں ہوتا، یہاں تک کہ ان واقعات کا باقاعدہ جشن منایا جاتا ہے (جیسے موصل میں ہوا)۔ درحقیقت، تھریسا مے اور ٹرمپ جیسے ریاکاروں کے ذہنوں میں سامراج اور اس کے حلیفوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے اور اپنے ممالک میں دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے برابر نہیں ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ دہشت گردی اور دائیں بازو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جیسے کہ پیرس اور نائس کے مکروہ حملوں کے بعد، حکومتوں نے ان حملوں کو جواز بناتے ہوئے اندرون ملک جاسوسی اور خاص طور پر مسلمان محنت کشوں کے خلاف امتیازی سلوک اور جبر کو مزید بڑھایا جبکہ عصبیت زدہ پاگل کھلے عام محنت کشوں کے خلاف زہر اگلنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ عام مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز لفاظی اور جبر کی وجہ سے غم و غصہ اور آزردگی بڑھتی ہے جس پر داعش جیسے گروہ پلتے ہیں۔
ابھی سے کیٹی ہاپکنز جیسی مشہور شخصیت، جو مسلمانوں اور غریبوں کے خلاف نفرت پھیلا کر معقول روزی روٹی کما لیتی ہے،نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ، ’’ہمیں حتمی حل چاہیے‘‘۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ ہاپکنز اورنازیوں کی زہر آلود لفاظی میں بے پناہ مماثلت ہے۔ وہ بھی، ہاپکنز کی طرح، کسی انجانے ’’اندرونی دشمن‘‘ کے خوف پر انحصار کرتے تھے۔ وہ تمام عناصر جو دہشت گردی کے مظالم کو منظم اور ان کی حمایت کرتے ہیں، دائیں بازو کی تواتر کے ساتھ بکواس سنتے ہوئے خوشی سے ضرور سرشار ہوتے ہوں گے۔
آج صبح تھریسا مے نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ ،’’ہمارے اقدار کی حتمی فتح ہو گی‘‘۔ یہاں ہم بالکل واضح کرتے ہیں: ہماری اقدار تمام مذاہب اور قوموں کے محنت کشوں کی اقدار ہیں، جو ساری رات زخمیوں اور صدمہ زدہ لوگوں کی ٹرانسپورٹ، کھانے پینے اور دیکھ بھال کا کام کرتے رہے۔ ہماری اقدار عالمی محنت کشوں کی جمہوری سوشلسٹ اقدار ہیں، نہ کہ ہاپکنز، مے، ٹرمپ اور عالمی آمروں میں ان کے دوستوں کی دوغلی اور رجعتی اقدار۔ ان اقدار کی بنیاد پر ہی ہم مانچسٹر کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور نہ صرف دہشت گردی بلکہ وہ نظام جس میں اس کی پرورش اور ترویج ہوتی ہے، اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔
اس وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ کوربن اور بائیں بازو کو دہشت گردی کی وجوہات اور مزید حملوں کو روکنے کیلئے اقدامات کو بیان کرتے ہوئے تذبذب کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے حملے کے متاثرین اور ان کے خاندانوں کی حمایت اور ادب میں انتخابی مہم موقوف کر دی ہے لیکن آنے والے دنوں میں ٹوری پارٹی اور میڈیا میں اس کے تنخواہ دار پروپیگنڈہ کرنے والے اس المیے کو ہر طرح سے استعمال کرتے ہوئے مے اور اس کی ’’مضبوط اور مستحکم ٹوری حکومت‘‘ کو سہارا دینے کی کوشش کریں گے۔
تمام سیاسی پارٹیوں کے باضابطہ طور پر انتخابی مہم کو موقوف کرنے کے باوجود آج بھی’ دی سن‘ اخبار نے ایک گھٹیا مضمون شائع کیا ہے جس کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے۔’’لیبر کیلئے اس سے زیادہ برا کیا ہو سکتا ہے؟ معصوم لوگ اس وجہ سے قتل ہوئے کیونکہ جیرمی کوربن اور میک ڈونل IRA کی چاپلوسی کرتے رہے‘‘۔ لیبر پارٹی کو دہشت گردی کے واقعات سے جوڑنے کی اس صریح کوشش کے فوراً بعد ایک اور مضمون آیا جس میں مے کی ’’ٹیم‘‘ کی ’’اخراجات میں کٹوتیوں یا کفایت شعاری سے خرچے کرنے کے خلاف بائیں بازو کی چیخ و پکار‘‘ کے خلاف دفاع کرنے کی کوشش کی گئی۔
در حقیقت ٹوری پارٹی نے انتخابی مہم کبھی ترک کی ہی نہیں اور اگلے چند دنوں میں وہ اس واقعے سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے، جس میں مے ’’مضبوط اور مستحکم لیڈر‘‘ بننے کی پوری کوشش کرے گی۔ ان کیلئے بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جتنا زیادہ کوربن تذبذب کا شکار ہو گا، موجودد سیاسی خلا کو بھرنے کیلئے قابل نفرت رجعتیوں کیلئے اتنے ہی زیادہ مواقع پیدا ہوں گے اور اتنا ہی زیادہ دائیں بازو کا میڈیا کوربن کو کمزور، دہشت گردوں کا ہمدرد اور ملک کیلئے ایک ’’خطرے‘‘ کے طور پر پیش کریں گے۔
اسلامی دہشت گردی اور دائیں بازو کی اشتعال انگیزی کو کوربن نہ صرف بے نقاب کر سکتا ہے اور اس کا متبادل پیش کر سکتا ہے بلکہ یہی اس کا لائحہ عمل ہونا چاہیے: اس کی بنیاد محنت کشوں کی سرمایہ داری کے خلاف عالمی جڑت ہونی چاہیے۔ اس متبادل پر غیر متزلزل یقین کے ساتھ ہم مانچسٹر حملے کے مظلوموں کو دلی تعزیت اور یکجہتی پیش کرتے ہیں اور سرمایہ داری کی ہولناکی کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کی جدوجہد کا اعادہ کرتے ہیں۔
23مئی 2017ء