انڈیا: سام سنگ کے محنت کشوں کی ہڑتال کے ساتھ اعلانِ یکجہتی!

|تحریر: جانی ریڈ، ترجمہ: ولید خان|

9 ستمبر سے انڈیا میں چنئی شہر میں سام سنگ کی دیوہیکل فیکٹری کے 1 ہزار 500 محنت کش (75 فیصد ملازمین) ہڑتال پر ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

وہ CITU (سنٹر آف انڈین ٹریڈ یونینز) کے تحت منظم ہیں جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (Marxist) کے ساتھ ملحق ہے۔ محنت کشوں کا بنیادی مطالبہ یونین سازی ہے جس کی مالکان اور ریاستی حکومت شدید مخالفت کر رہی ہے۔ کئی گرفتاریاں ہو چکی ہیں جن میں CITU کی قومی قیادت بھی شامل ہے۔ لیکن محنت کش ابھی بھی ڈٹے ہوئے ہیں۔

حالیہ چند سالوں میں ذاتی الیکٹرانکس کی مانگ میں دیوہیکل اضافے نے ٹیکنالوجی سیکٹر کو انڈین معیشت کا کلیدی ستون بنا دیا ہے۔ پورے ملک میں 2 کروڑ 50 لاکھ محنت کش الیکٹرانک مینوفیکچرنگ سے منسلک ہیں اور انڈیا اس وقت چین کے بعد موبائل فون کا دنیا میں دوسرا بڑا پیداکار بن چکا ہے۔

اس سیکٹر میں میں دیوہیکل بڑھوتری اور منافعوں کی بنیاد محنت کشوں کا شدید استحصال ہے اور چنئی میں سام سنگ فیکٹری (جو 2007ء میں بنائی گئی) میں بھی یہی سچ ہے۔ منافعوں کے لیے محنت کشوں کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیا جاتا ہے۔ انہیں اوور ٹائم کے بغیر اضافی گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے، افراط زر کی مطابقت کے ساتھ تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور خطرناک حالات میں کام کرنا مجبوری ہے۔

محنت کشوں کے مطالبات میں مالکان کا یونین کو تسلیم کرنا اور یونین کی رجسٹریشن ہونا، تنخواہوں میں 25 ہزار روپیہ سے 36 ہزار روپیہ اضافہ اور آٹھ گھنٹے اوقات کار اور بغیر تنخواہ اوور ٹائم کا خاتمہ شامل ہیں۔

چنئی فیکٹری سام سنگ کی سالانہ 12 ارب ڈالر آمدنی میں تقریباً ایک تہائی حصہ ادا کرتی ہے جس کی بنیاد پر ہڑتالی محنت کشوں کے پاس وہ طاقت ہے جس کے نتیجے میں ٹیکنالوجی سیکٹر کے اس دیو کو اپاہج کیا جا سکتا ہے۔ ہڑتال کی وجہ سے پیداوار میں کمی کو پورا کرنے کے لیے سام سنگ انتظامیہ نے دیہاڑی مزدور بھرتی کر لیے ہیں۔

ریاست کی ملی بھگت

تامل ناڈو میں DMK قیادت میں حکومت نے ریاست کی ”کاروبار دوست“ ساکھ بنانے کی کوشش میں سام سنگ جیسی عالمی اجارہ داریوں کو بے تحاشہ چھوٹ اور مراعات دے رکھی ہیں جن کے نتیجے میں یہ کمپنیاں کم ٹیکس دیتی ہیں اور انہیں انڈین محنت کشوں کا ہر قسم کا استحصال کرنے کی مکمل چھوٹ ہے۔ یہ قابل ذکر (اور شرمناک) ہے کہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (CPI)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (Marxist) اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (Marxist-Leninist) لبریشن (CPIML) تمام نے انڈیا الائنس کا حصہ ہونے کے طور پر تامل ناڈو میں DMK اتحاد کی حمایت کی ہے۔

سام سنگ کوریا میں 6 ہزار محنت کشوں کی ہڑتال سے پہلے ہی ڈرا ہوا ہے۔ اس وقت اس کو ایک عالمی لیبر لڑائی نظر آ رہی ہے۔ سول میں سام سنگ محنت کشوں نے انڈیا میں ہڑتالی محنت کشوں کی یکجہتی میں ایک اعلامیہ بھی جاری کیا ہے۔

پھر سام سنگ کمپنی، جس نے کورین محنت کشوں کی ہڑتال پر شمالی کوریا سے کمیونسٹوں اور ان کی اشتعال انگیزی کو مورد الزام ٹھہرایا، ایک کمیونسٹ نواز ٹریڈ یونین کو ماننے سے شدید انکاری ہے۔ اس طرح ایک خوفناک استحصالی عالمی اجارہ داری اور مقامی حکومت کا باہمی مفاد ہے کہ اس ہڑتال کو ہر ممکن طریقے سے ناکام کیا جائے۔

لینن نے بیان کیا تھا کہ ریاست محکوم طبقے کے استحصال کا آلہ ہوتی ہے اور چنئی میں یہ عملی طور پر نظر آ رہا ہے۔ ریاستی حکومت محنت کشوں کی ٹریڈ یونین رجسٹریشن کو بلاک کر رہی ہے اور CITU کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ مدراس ہائی کورٹ رجوع کرے۔

محنت کشوں کو پولیس فیکٹری کے باہر احتجاج کرنے سے روک رہی ہے۔ اس کے برعکس انہوں (محنت کشوں) نے ایک ہمدرد وکیل سے مدد مانگی ہے جو انہیں فیکٹری کے قریب اپنی زمین پر اکٹھا ہونے کی اجازت دے رہا ہے جس پر اسے ریاستی اہلکاروں نے دھمکیاں بھی دی ہیں۔

قریبی چھوٹی دکانوں کے مالکان، جو سام سنگ محنت کشوں کو چائے اور نمکین بیچ کر اپنا گزارا کرتے ہیں، کو پولیس نے ڈرا دھمکا رکھا ہے کہ خبردار کسی مزدور کی مدد یا معاونت نہ کی جائے۔ پولیس اور سام سنگ مالکان محنت کشوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہیں۔

ان تمام حربوں کے باوجود ہڑتال ثابت قدمی سے جاری ہے اور اس پر پریشان ہو کر ایک ہولناک کریک ڈاؤن لانچ کیا گیا۔ 910 مزدوروں کو گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں ان پر کوئی کیس بنائے بغیر انہیں چھوڑ دیا گیا، کیونکہ ایک سڑک بند احتجاج کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ پھر 9 اکتوبر کی صبح کو ہڑتال کے 11 قائدین کو ان کے گھروں سے گرفتار کر لیا گیا جن میں CITU کا جنرل سیکرٹری اے سونداراراجن اور کانچی پورم ڈسٹرکٹ سیکرٹری موتھوکمار بھی شامل ہیں۔

اس شدید اشتعال انگیزی کے ساتھ پولیس نے ہڑتالی محنت کشوں کے ٹینٹ بھی اکھاڑ دیے!

ہڑتال کو مضبوط کرو!

سرکاری اور غیر سرکاری مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیں جن سے یونین نمائندوں کو باہر رکھا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق ان میں محنت کشوں کو ایک تاریک کمرے میں مالکان اور ان کے بدمعاشوں کے ساتھ بند کر دیا گیا تھا۔

اس طرح کے ”مذاکرات“ کے بعد، ان میں تین ایسے محنت کشوں کا نام بھی شامل کیا گیا جو اس سارے عمل میں تھے ہی نہیں، حکومت نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کر دیا کہ معاہدہ ہو گیا ہے۔ CITU نے تردید کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ ہڑتال جاری رہے گی۔

تقسیم کرنے کی کوششوں میں پسماندہ اور غیرمنظم مزدوروں کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ سام سنگ انتظامیہ نے توجہ ہٹانے کے لیے کچھ لالچ بھی دیا ہے، جیسے محنت کشوں کی ٹرانسپورٹ کے لیے بسوں میں مزید اضافہ اور تنخواہوں میں معمولی اضافوں کے اشارے۔

لیکن CITU کو سرکاری طور پر تسلیم کرنا ایک ناممکن حد بنا دیا گیا ہے۔ سام سنگ نے یونین کے ساتھ مذاکرات سے انکار کر رکھا ہے اور ایک ”اندرونی یونین“ کی تجویز دی ہے جسے وہ کنٹرول کریں گے۔ یہ ایک گھٹیا تجویز ہے، وہ بھی ایسے وقت میں جب CITU کے کلیدی ممبران ابھی تک گرفتار ہیں۔

محنت کشوں کی مذاکراتی طاقت کو کاٹ کر انہیں کچل کر غلام بنانے کی اس سازش کو تمام ہڑتالیوں نے مسترد کر دیا ہے جنہوں نے کسی بھی سنجیدہ مذاکرات کے لیے یونین کو تسلیم کرنا پہلا قدم قرار دے دیا ہے۔

CITU نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ 21 اکتوبر کو پورے شمالی صنعتی علاقے میں ایک دن کی یکجہتی ہڑتال کریں گے۔ یہ اچھا قدم ہے لیکن اس کو مزید آگے بڑھانا چاہیے۔

ہم تامل ناڈو اور پورے ہندوستان کے محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یکجہتی میں باہر نکلیں، سام سنگ کے محنت کشوں کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کریں اور اپنی مشترکہ قوت کو استعمال کرتے ہوئے تمام گرفتار محنت کشوں اور ٹریڈ یونین کامریڈز کو رہا کرائیں۔

یہ جدوجہد پورے ملک کے محنت کشوں کے لیے ایک مشعل راہ بن جانی چاہیے جنہیں مالکان استحصال کے لیے خام مال کی طرح استعمال کرتے ہیں۔

ٹریڈ یونین کنفیڈریشنز کو مشترکہ تحریک کے لیے تیاری کرنی چاہیے جس کا ہدف ایک عام ہڑتال ہو اور ایک پروگرام ہو کہ بڑی عالمی اجارہ داریوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لے لیا جائے گا اور اس غلیظ گلی سڑی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا خاتمہ کر دیا جائے گا، جو ہماری قیمت پر مالکان کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔

سرمایہ داری محنت کشوں اور مظلوموں کو ایک باعزت زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ حتمی طور پر ایک سوشلسٹ انقلاب ہی انسانی سماج کو استحصال اور جبر سے نجات دلا سکتا ہے۔

محنت کشوں کے مطالبات پورے کرو!
گرفتار شدگان کو رہا کرو!
عالمی اجارہ داریوں کو محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں لو!
سرمایہ داری مردہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشو سوشلسٹ انقلاب کے لیے ایک ہو جاؤ!

Comments are closed.