|تحریر:آفتاب اشرف|
کسی بھی سماج میں ایک انقلابی تحریک کے جنم، اس کی شدت اور اس کی حرکیات کی پیش بینی کرنے کے لیے اس سماج میں طبقاتی قوتوں کے توازن کا درست ادراک ہونا لازمی ہے۔ انہی بنیادوں پر مارکس وادی کسی انقلابی تحریک کے لیے ایک ٹھوس پروگرام اور درست نعرے تخلیق کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں میں طبقاتی قوتوں کے توازن کا تجزیہ نسبتاً کم پیچیدہ ہے۔ 17 ویں اور 18 ویں صدی میں انقلابات کے ذریعے سرمایہ داری کی جنم بھومی بننے والے ان سماجوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے تاریخی ارتقا نے پیٹی بورژوازی، چھوٹے و درمیانے کسانوں اور سماج کی دیگر درمیانی پرتوں کا خاصی حد تک صفایا کرتے ہوئے سماج کو نہایت واضح طور پر دو متحارب طبقات میں بانٹ دیا ہے۔ ایک طرف محنت کش طبقہ ہے جو سماج کی 95 فیصد سے بھی زائد اکثریت بناتا ہے اور دوسری طرف سرمایہ دار طبقہ ہے جوکل آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ یورپ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں پچھلے چند سالوں میں چلنے والی بے شمار مزدور اور طلبا تحریکوں میں لگنے والا ’ہم ننانوے فیصد ہیں ‘کا نعرہ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔
لیکن پاکستان اور ہندوستان سمیت کئی دیگر پسماندہ سرمایہ دارانہ سماجوں میں طبقاتی قوتوں کے توازن کا سوال نسبتاً پیچیدہ شکل اختیار کر جاتا ہے۔ ان سماجوں میں سرمایہ داری انقلابات کی بجائے سامراجی بندوقوں کے زور پر اوپر سے مسلط کی گئی تھی اور یہاں کی قومی بورژوازی اپنے جنم سے ہی ایک دلال سرمایہ دار طبقے (Comprador Bourgeoise) کا کردار رکھتی ہے۔ براہِ راست سامراجی تسلط سے نام نہاد آزادی ملنے کے بعد بھی ان سماجوں کی قومی بورژوازی اپنی تاریخی تاخیر زدگی اور نامیاتی کمزوری کے باعث سرمایہ دارانہ جمہوری انقلاب کا کوئی ایک بھی فریضہ پورا کرنے سے قاصر رہی اور ان سماجوں میں سرمایہ داری کا ارتقا عالمی سامراجی مالیاتی اداروں، عالمی اجارہ داریوں اور بین الاقوامی منڈی کے زیرِ تسلط جاری رہا جس میں یہ قومی بورژوازی مقامی دلال کا کردار ادا کرتی رہی۔ لیکن ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں کے برعکس تاریخی تاخیر زدگی اور پیدائشی نا اہلی کا شکار دلال قومی بورژوازی کی موجودگی میں ترقی یافتہ عالمی سرمایہ داری کے سامراجی مقاصد کے تحت ہونے والا یہ ارتقا نہایت ناہموار، متضاد اور مسخ شدہ کردار کا حامل ہے۔ پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں طبقاتی قوتوں کے توازن کے سوال کی پیچیدگی بھی ان سماجوں میں سرمایہ داری کے اس مخصوص طرزِ ارتقا کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ اگر چہ آج 21 ویں صدی کی دوسری دہائی میں ان پسماندہ سماجوں میں بھی سماج کی بھاری اکثریت محنت کش طبقے پر مشتمل ہے لیکن ترقی یافتہ سماجوں کے برعکس ان پسماندہ سماجوں میں اکثریتی محنت کش طبقے اور مٹھی بھر سرمایہ دار طبقے کے بیچ پیٹی بورژوا زی، کسانوں اور دیگر درمیانی پرتوں کی بھی ایک قابل ذکر تعداد موجود ہے۔ اپنی تاریخی متروکیت اور سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار میں کوئی نامیاتی کردار نہ ہونے کے سبب چھوٹی ملکیت رکھنے والا یہ درمیانہ طبقہ کوئی آزادانہ سیاسی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اور حتمی تجزیے میں پرولتاریہ اور بورژوازی میں سے کسی ایک طبقے کی سیاسی قیادت کے تحت چلنے پر مجبور ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ان سماجوں میں چلنے والی کسی انقلابی تحریک میں درمیانے طبقے کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی۔ اس کے برعکس سماج میں اپنے اقلیتی مگر قابلِ ذکر حجم کی بدولت ایک انقلابی تحریک کے فیصلہ کن مرحلے میں درمیانے طبقے کی سیاسی قیادت کا سوال بنیادی اہمیت اختیار کر جائے گا اور درمیانے طبقے کی وسیع تر پرتوں کو جیتے بغیر پرولتاریہ کے لئے بورژوازی کو فیصلہ کن شکست دیتے ہوئے اسے کچلنا ممکن نہیں ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ پسماندہ سرمایہ دارانہ ممالک میں محنت کش طبقے اور اسکی قیادت کو اپنے پروگرام میں درمیانے طبقے اور خصوصاً اس کی نچلی پرتوں کے مسائل اور مانگوں کو جگہ دینی پڑے گی اور ان مسائل کے حل کو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے ساتھ جوڑتے ہوئے درمیانے طبقے کی نچلی پرتوں کو یہ باور کرانا پڑے گا کہ سرمایہ دارانہ جبر و استحصال سے انکی نجات صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے۔
پسماندہ سرمایہ دارانہ سماجوں کی اکثریت کی طرح پاکستان میں بھی درمیانے طبقے کی بھاری اکثریت چھوٹی اور درمیانی زرعی ملکیت رکھنے والے کسانوں پر مشتمل ہے۔ اسی لیے پاکستان میں ایک کامیاب سوشلسٹ انقلاب کے لیے درکار انقلابی قوتوں کی تعمیر میں سرگرم مارکس وادیوں کے لیے پاکستان کے زرعی ڈھانچے، اس ڈھانچے میں بورژوا رشتوں کے مکمل طور پر سرائیت کر جانے سے پیدا ہونے والی معاشی اور سماجی تبدیلیوں اور ان تبدیلیوں کی کوکھ سے جنم لینے والے زرعی سوال کو ٹھوس انداز میں سمجھنا لازم ہے۔
ماضی کے نظریاتی ابہام اور اصطلاحات کا گھن چکر
1980 ء کی دہائی سے قبل پاکستان کے بائیں بازو کی تاریخ بدترین میکانکی فارمولا پرستی کی بہترین مثال ہے۔ سٹالن اسٹ اور ماؤ اسٹ بائیں بازو نے حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق توڑ مروڑ کر پاکستان کو ایک جاگیردارانہ سماج قرار دیا تاکہ ماسکو اور پیکنگ کی افسر شاہیوں کے خارجہ مفادات کے تحت پاکستان میں محنت کشوں کی انقلابی تحریک کو ’مرحلہ وار انقلاب‘ کی منشویک تھیوری کی بھینٹ چڑھا یا جا سکے۔ اس عقیدہ پرستی اور نظریاتی غلطی کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب 69-1968ء کے انقلاب میں مزدور فیکٹریوں پر قبضے کر رہے تھے اور ایک عام ہڑتال کے پسِ منظر میں مزدوروں، طلبا اور عام کسانوں کے نمائندوں پر مشتمل انقلابی کونسلیں بڑے شہروں کا کنٹرول سنبھال رہی تھیں تو پاکستان کا بایاں بازو ’قومی جمہوری انقلاب ‘ اور ’عوامی جمہوری انقلاب‘ کے پروگرام کے تحت جمہوریت کا راگ الاپتا پھر رہا تھا۔ بائیں بازو کی قیادت کے اس خلا کو پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو نے سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا پروگرام دیتے ہوئے پر کیا اور 1970ء کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کے نعروں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ لیکن پاکستان کے بائیں بازو نے ان تمام واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ پاکستان کو ایک جاگیردارانہ سماج سمجھتے ہوئے ’مرحلہ وار‘ انقلاب کی تھیوری کے تحت پہلے بورژواجمہوری انقلاب اور پھر (مستقبل بعید میں) سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام سے چمٹے رہے۔ حتیٰ کہ آج 2016ء میں بھی سٹالن اسٹ اور ماؤ اسٹ بائیں بازو کی بچی کھچی باقیات پاکستان کو ایک جاگیردارانہ سماج سمجھتی ہیں اور ’ترقی پسند سرمایہ دارانہ‘ بنیادوں پر ایک صحت مند جمہوریت کے قیام کی خواہاں ہیں۔ خیر احمقوں کو کوئی ان کی جنت میں رہنے سے تو نہیں روک سکتا۔
1980ء کی دہائی کے اواخر میں برطانیہ کی میلیٹنٹ ٹینڈنسی کے مرکزی نظریہ دان ٹیڈ گرانٹ کی رہنمائی میں پاکستان میں ٹراٹسکائٹس نے باقاعدہ کام کا آغاز کیا۔ پاکستانی ٹراٹسکائٹس نے ٹیڈ گرانٹ کی مدد سے پاکستانی سماج کا مارکسی تجزیہ ٹراٹسکی کی انقلاب مسلسل کے نظریے کے تحت کرتے ہوئے اسے درست طور پر ایک ایسا سرمایہ دارانہ سماج قرار دیا جس میں جاگیردارانہ اور نیم جاگیری رشتوں کی باقیات موجود تھیں۔ اس درست تجزیے کی بنیاد پر پاکستان میں ایک سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام تخلیق کیا گیا جس میں زرعی مسئلے کے حل کو درست طور پر محنت کش طبقے کے اقتدار پر قبضے اور ایک مزدور ریاست کے قیام کے ساتھ جوڑا گیا۔ لیکن گزشتہ تین دہائیوں میں پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے اور پاکستانی سماج اور خصوصاً اس کے زرعی ڈھانچے میں سرمایہ دارانہ رشتوں کی سرائیت بے پناہ بڑھ چکی ہے مگر اس تمام عرصے میں پاکستان میں نام نہادٹراٹسکائٹس کی غالب قیادت اپنی نظریاتی کوتاہ بینی کے سبب ان تمام تبدیلیوں کا ادراک کھو بیٹھی ہے اور زرعی مسئلے سمیت پورے سماج کو تیس سال پرانی عینکوں سے دیکھ رہی ہے۔ لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں زرعی سوال کا ازسرِ نو جائزہ لیا جائے تاکہ مارکس وادی اپنے آپ کو مستقبل کی انقلابی تحریک کے لیے درست پروگرام اور نعروں سے مسلح کر سکیں۔
بحث کو آگے بڑھانے سے قبل یہ لازمی ہے کہ ہم زرعی سوال کے حوالے سے استعمال ہونے والی اصطلاحات کے مفہوم کو اچھی طرح سے سمجھ لیں کیونکہ ماضی میں اصطلاحات کا معنی واضح نہ ہونے کے سبب بہت سارا ابہام پیدا ہو چکا ہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں بڑے زرعی رقبے کے مالک فرد کے لیے جاگیردار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس سے یہ غلط تاثر ملتا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک جاگیرداری موجود ہے۔ اس لیے ہم بڑے زرعی مالکان کے لیے ’بڑے زمیندار‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ اسی طرح بڑے زمینداروں کے علاوہ کاشتکاری سے وابستہ تمام افراد کے لیے ’کسان‘ کی ایک عمومی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جو کہ زراعت سے وابستہ مختلف پرتوں کی مالکانہ حیثیت اور پیداواری رشتوں میں ان کے مقام کو گڈ مڈ کر دیتی ہے۔ اس لیے ہم چھوٹی اور درمیانی زرعی ملکیت رکھنے والوں کے لیے ’چھوٹا کسان‘ اور ’درمیانہ کسان‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے جبکہ اوپری درمیانے درجے کی زرعی ملکیت رکھنے والوں کے لیے ’امیر کسان‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ پٹے پر زرعی زمین لے کر کاشت کرنے والوں کے لیے ہم ’کرایہ دار کسان‘ (Tenant Farmer) کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ اسی طرح اجرت پر کھیتوں میں کام کرنے والوں اور بٹائی پر فصل کاشت کرنے والوں کے لیے عمومی طور پر ’مزارع‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کہ نہایت غلط ہے۔ اس اصطلاح سے پیدا ہونے والے ابہام کو مزید بڑھوتری اس وقت ملتی ہے جب لفظ مزارع کو انگریزی کے لفظ ’’سرف‘‘ (Serf) کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہم اجرت پر زرعی مشقت کرنے والوں کے لیے ’کھیت مزدور‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے اور بٹائی (Sharecropping) پر کاشتکاری کرنے والوں کے لیے ’بٹائی دار کسان‘ کی اصطلاح استعمال کریں گے۔ اسی طرح بعض درست اصطلاحات کو انکے پسِ منظر سے کاٹ کر عہدِ رفتہ کے کسی طرزِ پیداوار کے معنی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال بڑے زمینداروں یا امیر کسانوں کے سودی قرضوں کی دلدل میں پھنس کر جبری مشقت کرنے پر مجبور دیہی خاندانوں کی ہے جسے بعض دانشور حضرات پاکستان میں جاگیرداری یا حتیٰ کہ غلام داری کی موجودگی ثابت کرنے کے لیے بطور دلیل استعمال کرتے ہیں حالانکہ یہ جدید بانڈڈ لیبر یا سرمایہ دارانہ جبری مشقت کی ایک شکل ہے۔
پاکستان کا زرعی ڈھانچہ
تازہ ترین اندازوں کے مطابق پاکستان کی کل آبادی لگ بھگ 20 کروڑ ہے جس میں سے 40 فیصد (8 کروڑ) شہروں جبکہ 60 فیصد (12 کروڑ) دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ زراعت دیہی علاقوں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار رکھتی ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قومی معیشت میں اس کا حصہ کم ہوتا گیا ہے اور مالی سال 16-2015ء کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق زرعی شعبہ جی ڈی پی کا بمشکل 20 فیصد بن رہا تھا۔ لیکن یہاں پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ سرکاری اعدادو شمار میں زراعت یا زرعی شعبے میں فصلوں کی کاشت کے ساتھ ساتھ لائیو سٹاک، جنگلات اور ماہی گیری بھی شامل ہیں۔ یوں فصلوں کی کاشت جی ڈی پی کا 7 فیصد اور لائیو سٹاک 11.6 فیصد بناتے ہیں جبکہ جنگلات اور ماہی گیری ملا کر جی ڈی پی کا 1.4فیصد بناتے ہیں۔ قومی معیشت میں حصہ کم ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ تین دہائیوں میں زرعی شعبے کے زوال اور جدید مشینری کے بڑھتے ہوئے استعمال کے سبب زرعی شعبے سے وابستہ روزگار میں بھی خاصی کمی واقع ہوئی ہے لیکن ابھی بھی پاکستان کی 6 کروڑ 25 لاکھ کی لیبر فورس میں سے 42 فیصد کا روزگار کل وقتی یا جزوقتی طور پر زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔
i) زرعی زمین کی ملکیت
2010 ء کی زرعی مردم شماری کے مطابق پاکستان میں کل 5 کروڑ 29 لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ نجی ملکیت میں تھاجو کہ 82 لاکھ 60 ہزار نجی فارمز پر مشتمل تھا۔ ان نجی فارمز میں سے 64 فیصد (53 لاکھ 50 ہزار) 5ایکڑ سے کم رقبہ رکھنے والے چھوٹے فارمز ہیں جن کا مجموعی رقبہ نجی ملکیت میں موجود کل زرعی رقبے کا صرف 19 فیصد بنتا ہے۔ 5 ایکڑ سے لے کر 25 ایکڑ سے کم رقبہ رکھنے والے درمیانے فارمز کل نجی فارمز کا 32 فیصد (26 لاکھ) ہیں اور ان کا مجموعی رقبہ نجی ملکیت میں موجود کل زرعی رقبے کا 47 فیصد بنتا ہے۔ 25 ایکڑ سے زائد رقبہ رکھنے والے اوپری درمیانے اور 100ایکڑ سے زائد رقبہ رکھنے والے بڑے زرعی فارمز کل نجی فارمز کا صرف 4 فیصد (3 لاکھ 3 ہزار)بنتے ہیں لیکن نجی ملکیت میں موجود کل زرعی رقبے کا 35 فیصد ان فارمز پر مشتمل ہے۔ ان بڑے زرعی فارمز میں سے26 ہزار فارمز 100 ایکڑ سے زائد رقبہ رکھتے ہیں جو کہ کل نجی فارمز کا صرف ایک فیصد بنتا ہے لیکن ان کا مجموعی رقبہ نجی ملکیت میں موجود کل زرعی رقبے کا 14 فیصد (72 لاکھ ایکڑ) ہے۔ زرعی زمین کی نجی ملکیت رکھنے والے افراد کی کل تعداد 83 لاکھ 55 ہزار ہے جو کہ 2010ء میں ملک کی کل آبادی (17 کروڑ 50 لاکھ ) کا 4.7 فیصد بنتی ہے۔ زرعی زمین کی ملکیت رکھنے والے کل افراد میں سے56 لاکھ چھوٹے فارمز کے مالکان یعنی چھوٹے کسان ہیں۔ درمیانے فارمز کے مالکان یعنی درمیانے کسانوں کی تعداد 24 لاکھ 30 ہزار ہے جبکہ اوپری درمیانے اور بڑے فارمز کی ملکیت رکھنے والے امیر کسانوں اور بڑے زمینداروں کی تعداد 3 لاکھ 28 ہزار ہے۔ ان میں 100 ایکڑ سے زائد رقبہ رکھنے والے بڑے فارمز کے مالک بڑے زمینداروں کی تعداد صرف 37ہزار ہے۔ لیکن اگر زرعی رقبے کے مالک افراد کے ساتھ انکے خاندانوں کو بھی شمار کیا جائے تو 2010ء میں ملک کی کل آبادی (17 کروڑ 50 لاکھ) میں سے 6 کروڑ 47 لاکھ افراد کا تعلق ایسے خاندانوں سے تھا جو زرعی زمین کی ملکیت رکھتے تھے۔ یہ اس وقت کی کل ملکی آبادی کا تقریباً 37 فیصد ہے۔ چھوٹے کسانوں کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کل ملکی آبادی کا 23.3 فیصد تھے۔ درمیانے کسانوں کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد کل آبادی کا 11.7 فیصد تھے۔ امیر کسانوں اور بڑے زمینداروں کے خاندانوں کے افراد کل ملکی آبادی کا 1.9 فیصد تھے۔ ان میں 100 ایکڑ سے بڑے فارمز کی ملکیت رکھنے والے بڑے زمینداروں کے خاندانوں کے افراد کی تعداد کل ملکی آبادی کا صرف 0.2 فیصد تھی۔ مندرجہ بالا اعدادو شمار سے یہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں زرعی زمین کی نجی ملکیت نہایت ناہموار ہے اور اس تفاوت کی بنیاد پر زرعی زمین کے مالکان مختلف طبقوں اور پرتوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ زرعی مالکان میں بھاری اکثریت چھوٹے کسانوں کی ہے جبکہ امیر کسان خصوصاً بڑے زمیندار ایک محدود اقلیت میں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک طرف چھوٹے کسانوں اور دوسری طرف امیر کسانوں اور بڑے زمینداروں کے بیچ درمیانے کسانوں کی بھی ایک قابلِ ذکر تعداد موجود ہے۔ یہاں پر ایک اور امر کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ تمام زرعی مالکان اور ان کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراددیہی علاقوں میں نہیں رہتے۔ بڑے زمینداروں اور امیر کسانوں کی بھاری ترین اکثریت اپنے خاندانوں سمیت شہروں میں رہائش پذیر ہے۔ اس کے علاوہ درمیانے کسانوں کی بھی ایک بڑی تعداد شہروں میں سکونت پذیر ہے۔ اگرچہ ایسے پورے چھوٹے کسان خاندانوں کی تعداد قلیل ہے جو شہر میں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن چھوٹے کسان خاندانوں کی بھی بھاری اکثریت کا ایک یا ایک سے زائد فرد روزگار کے سلسلے میں مستقل طور پر شہروں میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں ایک طرف 2010ء میں پاکستان کی کل آبادی کا 64 فیصد حصہ دیہی علاقوں میں رہائش پذیر تھا تو دوسری طرف کل ملکی آبادی کے 37 فیصد پر مشتمل زرعی ملکیت رکھنے والے خاندانوں اور افراد کا ایک قابلِ ذکر حصہ مستقل طور پر شہروں میں سکونت پذیر تھا۔ یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی کی دیہی آبادی کن لوگوں پرمشتمل ہے؟ان کا ذریعہ معاش کیا ہے اور یہ کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں؟
ii) بے زمین دیہی آبادی
عمومی طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دیہاتوں کی اکثریتی آبادی چھوٹی موٹی زرعی ملکیت رکھتی ہے اور دیہات میں رہنے والا ہر شخص ’کسان‘ ہے۔ حقیقی صورتحال اس سے خاصی مختلف ہے۔ زرعی پیداوار کے مکمل طور پر منڈی سے منسلک ہو جانے اور بورژوا رشتوں کے زرعی ڈھانچے میں گہری سرائیت کے نتیجے میں دیہی علاقوں کا سماجی ڈھانچہ معیاری طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے تفصیلی اعدادوشمار کا خاصا فقدان ہے لیکن پھر بھی دستیاب سرکاری و غیر سرکاری معلومات کے تفصیلی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں کی کم از کم 60 فیصد آبادی زرعی زمین کی ملکیت نہیں رکھتی اور ساتھ ہی ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ اس بے زمین دیہی آبادی کے ایک قابلِ ذکر حصے کا روزگار انتہائی جز وقتی طور پر زرعی شعبے سے منسلک ہے اور کئی پرتیں تو ایسی ہیں جو زرعی سرگرمیوں سے بالکل علیحدہ ہو چکی ہیں۔ تو پھر اس بے زمین دیہی آبادی کا طبقاتی کردار کیا ہے؟ عام طور پر بے زمین دیہی آبادی کے لیے مزارع یا ہاریوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو کہ غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بے زمین دیہی آبادی کی بھاری اکثریت اس وقت محنت کش طبقے پر مشتمل ہے جس کے پاس زندہ رہنے کے لیے اپنی قوتِ محنت کو اجرت کے عوض منڈی میں بیچنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ ان محنت کشوں کا کوئی مستقل روزگار نہیں ہوتا۔ مزدوری ملنے کے مواقع کی مناسبت سے یہ محنت کش کبھی دیہاتوں میں کھیت مزدور کے طور پر کام کرتے ہیں تو کبھی روزگار کی تلاش میں اپنے خاندانوں کو دیہات میں چھوڑ کروقتی طور پر شہر میں چلے جاتے ہیں۔ شہروں میں راج مزدوروں سے لے کر گھریلو ملازموں اور چھوٹے ہوٹلوں اور چائے خانوں کے ویٹروں سے لے کر مختلف اقسام کی دیہاڑی دار مزدوری کرنے والے محنت کشوں کی ایک بڑی تعداد انہی دیہات سے آنے والے مزدوروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے شہروں کے نجی صنعتی مراکز میں کام کرنے والے محنت کشوں کا ایک قابلِ ذکر حصہ اور شہروں سے باہر بڑی شاہراہوں کے آس پاس موجود نجی صنعتوں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی بھاری اکثریت بھی دیہی علاقوں سے آتی ہے۔ جب صنعتوں یا شہروں میں مزدوری نہ ملے تو یہ محنت کش پھر اپنے دیہاتوں کو لوٹ جاتے ہیں اور کھیت مزدوری یا چھوٹی موٹی مویشی بانی کے ذریعے اپنا پیٹ پالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بیروزگاری کا آسیب مستقل طور پر ان دیہی محنت کشوں کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے اور سماج میں بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح بھی انہی میں پائی جاتی ہے۔ اجرتی مزدوروں کے بعد بے زمین دیہی آبادی کا دوسرا سب سے بڑا حصہ بٹائی پر فصل کاشت کرنے والے بٹائی دار کسانوں پر مشتمل ہے جو کہ عمومی طور پر فصل کے 1/6 یا 1/8 ویں حصے کے حصول کے عوض اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں۔ اجرتی کھیت مزدوری کے مقابلے میں بٹائی پر فصل کاشت کرنا (Sharecropping) زراعت میں بورژوا پیداواری رشتوں کی ایک نسبتاً پرانی اور ابتدائی شکل ہے جس میں ملکیت سے محروم محنت کرنے والے کو دیہاڑی یا ہفتے کی بنیاد پر طے شدہ اجرت روپوں میں ملنے کی بجائے، فصل کی کٹائی پر پہلے سے طے شدہ حصے کے طور پر ملتی ہے۔ اسی لیے بٹائی دار کسان بھی درحقیقت نیم پرولتاریہ ہیں۔ زراعت میں جدید مشینری کے بڑھتے ہوئے استعمال اور کھیت مزدوری میں زیادہ شرح استحصال ہونے کی وجہ سے اب بٹائی پر کاشت کی صورت میں روزگار ملنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اسی لیے اب بٹائی دار کسانوں کی بھی ایک بڑی تعداد یا تو کھیت مزدوری کرنے پر مجبور ہے یا پھر وقتاً فوقتاً شہر جا کر محنت مشقت کرتی ہے۔ اگرچہ بے زمین دیہی آبادی کی بھاری ترین اکثریت انتہائی غریب ہے لیکن ایک محدود اقلیت کے حالات قدرے بہتر ہیں۔ یہ اقلیت زیادہ تر بے زمین کرایہ دار کسانوں پر مشتمل ہے جو کہ غیر حاضر چھوٹے یا درمیانے کسانوں کی زمین پٹے پر لے کر کاشت کرتے ہیں۔ ان کرایہ دار کسانوں کے گھر کا کوئی فردعمومی طور پر روزگار (محنت مزدوری) کے سلسلے میں بیرونِ ملک مقیم ہوتا ہے جس کی بھیجی ہوئی رقم سے یہ تھوڑی بہت زرعی زمین پٹے پر لے لیتے ہیں۔ یہ کرایہ دار کسان خاندان ایک ملا جلا طبقاتی کردار رکھتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان خاندانوں کے افراد بیرونِ ملک مزدوری کرتے ہیں یا شہروں میں چھوٹی موٹی ملازمت کرتے ہیں وہیں یہ کرایہ دار کسان پٹے پر لی گئی زمین کی کاشت میں وقتاً فوقتاً اجرتی محنت کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ مندرجہ بالا تمام بحث کے نتیجے میں پاکستان کے دیہی سماج کی جو تصویر ہمارے سامنے آتی ہے وہ حقیقی زندگی سے کٹے درمیانے طبقے کے شہری دانشوروں کے تصورات سے بالکل مختلف ہے۔ دیہی آبادی کی اکثریت بے زمین ہے اور اس کی بڑی اکثریت پرولتاریہ یا نیم پرولتاریہ پر مشتمل ہے جو کہ صرف دیہی علاقوں تک مقید نہیں ہے بلکہ مزدوری کے لیے گاہے بگاہے شہر آتے رہتے ہیں اور بڑی صنعتوں میں بھی وقتاً فوقتاً کام کرتے ہیں۔ ان تمام سماجی تبدیلیوں کے مستقبل کی انقلابی تحریکوں پر اہم اثرات مرتب ہونگے۔
iii) زرعی شعبے میں سرمایہ داری کی مکمل سرائیت
آج سے تین یا چار دہائیاں قبل یہ کہنا بالکل درست تھا کہ پاکستان ایک سرمایہ دارانہ سماج ہے جس میں جاگیری یا نیم جاگیری رشتوں کی باقیات ابھی بھی موجود ہیں لیکن پچھلے اس تمام عرصے میں دیہی سماج اور زرعی شعبے میں بورژوا پیداواری رشتے مکمل طور پر سرائیت کر چکے ہیں اور انہوں نے ماضی کے پیداواری رشتوں کی باقیات کا بھی تقریباً خاتمہ کر دیا ہے۔ اس امر کی وضاحت ہم مختلف حوالوں سے کر سکتے ہیں۔ مثلاً سرمایہ دارانہ طرزِ پیداوار کا ایک نہایت اہم پہلو پیداوار کا منڈی سے منسلک ہونا ہے۔ پاکستان میں اس وقت صرف ایک ایکڑ سے بھی کم رقبہ رکھنے والے انتہائی چھوٹے نجی فارمز پر ذاتی استعمال کے لیے کاشتکاری (Subsistence Farming) ہو رہی ہے۔ یہ انتہائی چھوٹے فارمز کل نجی فارمز کا 15 فیصد بنتے ہیں لیکن ان کا مجموعی رقبہ نجی ملکیت میں موجود کل زرعی رقبے کا صرف ایک فیصد بنتا ہے۔ باقی تمام نجی فارمز پر ہونے والی کاشتکاری اور پیداوار مکمل طور پر منڈی سے منسلک ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پاکستان میں نجی ملکیت میں موجود کل زرعی رقبے کے99 فیصد پر ہونے والی پیداوار منڈی سے منسلک ہے۔ اس طرح کاشت کے لیئے درکار اشیا اور ان پٹ (بیج، کھاد، بجلی، ڈیزل، سپرے، زرعی آلات) کا حصول بھی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر (مڈل مین کے ذریعے) منڈی سے کیا جاتا ہے اور انکی قیمتوں کا تعین بھی منڈی کے قوانین کے تحت ہوتا ہے۔ لیکن ملکی منڈی خلا میں وجود نہیں رکھتی بلکہ عالمی منڈی سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے زرعی پیداوار کی ترجیحات اور اجناس کی قیمتوں کا تعین نہ صرف ملکی منڈی بلکہ عالمی منڈی کے ساتھ بھی منسلک ہے۔ اسی لیے اگر یورپ کے معاشی بحران کی وجہ سے یورپی منڈی میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی مانگ کم ہو جائے اور پاکستان میں ٹیکسٹائل ملز بند ہونا شروع ہو جائیں تو کپاس کے کاشتکار بھی برباد ہو جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں جاگیرداری کا راگ الاپنے والے احمق کسی اور سیارے کی مخلوق دکھائی دیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ نجی فارمز پر اجرتی محنت کے استعمال میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ زرعی مردم شماری 2010ء کے اعدادو شمار کے مطابق 32.2 فیصدچھوٹے فارمز، 46.6 فیصد درمیانے فارمز اور 83.3 فیصد اوپری درمیانے اور بڑے فارمز پر اجرتی محنت کا استعمال ہوتا ہے۔ ان اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے نجی فارمز کا رقبہ بڑھتا ہے ویسے ہی ان پر اجرتی محنت کے استعمال میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اجرتی محنت کا استعمال نہ کرنے والے اوپری درمیانے اور بڑے فارمز پر بانڈڈ لیبر اور بٹائی دار کسانوں کے ذریعے کاشت ہوتی ہے۔ اسی طرح اجرتی محنت کا استعمال نہ کرنے والے درمیانے فارمز کی بھی اک قابل ذکر تعداد پر بٹائی پر کاشت کی صورت میں نیم پرولتاری محنت کا استعمال ہوتا ہے۔
کاشتکاری کے لیے جدید مشینری کا بڑھتا ہوا استعمال بھی زرعی شعبے کی مکمل طور پر سرمایہ دارانہ شکل اختیار کر جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ دستیاب اعدادو شمار کے مطابق 77 فیصد نجی فارمز پر اب صرف ٹریکٹر کا استعمال ہوتا ہے۔ 20 فیصد نجی فارمز ایسے ہیں جن پر ٹریکٹر اور ہل چلانے والے جانوروں دونوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اور صرف 3 فیصد نجی فارمز ایسے ہیں جن پر صرف ہل چلانے والے جانوروں کا استعمال ہوتا ہے۔
اس سب کے علاوہ امیر کسانوں اور بڑے زمینداروں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جنہوں نے بینکوں سے کم شرح سود پر زرعی قرضے لیے ہوئے ہیں مگر ان کا استعمال وہ زراعت کی بجائے دیگر زیادہ شرح منافع دینے والے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ بڑے زمینداروں کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی ہے جنہوں نے اپنی زرعی زمین کا ایک بڑا حصہ بینکوں کے پاس گروی رکھوا کر حاصل ہونے والی رقم سے شہروں میں رئیل اسٹیٹ یا سٹاک مارکیٹ میں بھاری سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔
مندرجہ بالا تمام بحث کی روشنی میں یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ پاکستان کے زرعی شعبے میں اس وقت سرمایہ دارانہ رشتے نہ صرف مکمل طور پر حاوی ہو چکے ہیں بلکہ زرعی سماج کے رگ و ریشے میں گہری سرائیت کرتے ہوئے انہوں نے ماضی کی باقیات کا تقریباً صفایا کر دیا ہے۔ اسی لیے آج کسی بڑے زرعی فارم کا مالک جاگیردار نہیں بلکہ ایک بورژوا زمیندار ہے۔ اسی طرح آج کے چھوٹے اور درمیانے کسان بھی قرونِ وسطیٰ کے کسان نہیں ہیں بلکہ زرعی زمین کی چھوٹی اور درمیانی ملکیت رکھنے والی پیٹی بورژوازی ہیں۔ ایسے ہی بٹائی دار کسان قرونِ وسطیٰ کے ’’سرف‘‘ نہیں بلکہ نیم پرولتاریہ ہیں اور اجرتی مزدوری کرنے والے پرولتاریہ کا طبقاتی کردار رکھتے ہیں۔
iv) متصادم معاشی مفادات اور طبقاتی ٹکراؤ
دیہی سماج کے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مختلف طبقات اور پرتوں میں بٹ جانے کا نتیجہ ناگزیر طور پر طبقاتی تصادم کی صورت میں نکل رہا ہے۔ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئی معاشی بحران کے نتیجے میں شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں بھی یہ طبقاتی ٹکراؤ شدت اختیار کر گیا ہے لیکن اس طبقاتی لڑائی کی موجودہ اور مستقبل کی حرکیات کا درست ادراک پانے کے لیے یہ لازمی ہے کہ ہم ’جاگیرداروں اور مزارعوں کی لڑائی‘ کے لگے بندھے فارمولے سے باہر نکلیں اور حقیقت میں موجود زندہ طبقاتی قوتوں کا مارکسی تجزیہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کرنے کی کوشش کریں۔
سب سے پہلے تو ہمیں یہ واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دیہاتوں میں یہ طبقاتی تضادات اور تصادم باقی پورے سماج اور خصوصاً شہروں میں موجود طبقاتی ٹکراؤ سے کٹا ہوا نہیں بلکہ مضبوطی سے اس کے ساتھ منسلک ہے اور اسکی حرکیات بھی سرمایہ داری کے گہرے ہوتے ہوئے عمومی معاشی بحران کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ شہروں کی طرح دیہی علاقوں میں بھی اس طبقاتی ٹکراؤ کی جڑیں سرمایہ دارانہ طریقِ استحصال میں پیوست ہیں جس کا آگے چل کر ہم تفصیلی جائزہ لیں گے۔
دیہی علاقوں میں طبقاتی تضادات کی ایک شکل ہمیں زرعی رقبے کے نجی مالکان کے مختلف طبقات اور پرتوں کے مابین موجود تضادات کی صورت میں نظر آتی ہے جس میں ہمیں ایک طرف جہاں بڑے زمینداروں اور چھوٹے و درمیانے کسانوں کے مابین طبقاتی تضادات نظر آتے ہیں وہیں ہمیں امیر کسانوں اور چھوٹے و درمیانے کسانوں کے مابین موجود معاشی تضادات کی صورت میں کسانوں کی مختلف پرتیں بھی باہم متصادم نظر آتی ہیں۔ ملک کے کئی زرعی علاقوں میں مقامی بڑے زمینداروں نے پورے علاقے کی زرعی ادویات، بیج اور کھاد کی ڈیلرشپ پر براہِ راست یا بالواسطہ طور پر مکمل اجارہ داری قائم کر رکھی ہے جس کے ذریعے نہ صرف وہ چھوٹے اور درمیانے کسانوں سے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں بلکہ ان کسانوں کے پاس ادائیگی کے لیے فوری طور پر رقم نہ ہونے کی صورت میں ان اشیا کی فراہمی کے بدلے کٹائی کے وقت فصل کا ایک بڑا حصہ اٹھا لینے کا معاہدے کر لیتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ استحصالی اور سرمایہ دارانہ جبر کے برہنہ طریقہ کار کے طور پر بڑے زمیندار رقم نہ ہونے کی صورت میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے چھوٹے اور درمیانے کسانوں کو نہایت بلند شرح سود پر قرضے دے کر سودی دلدل میں پھنسا لیتے ہیں۔ بے شمار دفعہ ان کسانوں کو یہ قرضہ چکانے کے چکر میں اپنی زرعی زمین سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ کئی دفعہ چھوٹے کسان اپنی زمین بیچ کر یا بڑے زمیندار کے حوالے کر کے بھی پوری طرح قرضہ نہیں اتار پاتے اور نتیجتاً انہیں جبری مشقت کی چکی میں پسنا پڑتا ہے۔ نہری پانی کے استعمال کے معاملے میں بھی بڑے زمیندار محکمہ انہار اور مقامی انتظامیہ میں اپنے اثرو رسوخ کے بل بوتے پر چھوٹے اور درمیانے کسانوں کو ان کے حصے کے پانی سے محروم کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کسانوں کو پیداوار میں شدید نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ کئی علاقوں میں بڑے زمیندار زرعی خام مال استعمال کرنے والی مقامی صنعتوں (کاٹن جننگ فیکٹری، سپننگ مل، شوگر ملز وغیرہ) کے یا تو مالک ہیں یا پھر ان صنعتوں میں حصہ داری رکھتے ہیں۔ اور پچھلے قرضوں کی ادائیگی اور نئی کاشت کے لیے درکار رقم کی فراہمی کے لیے اپنی پیداوار جلد از جلد بیچنے پر مجبور چھوٹے اور درمیانے کسانوں کو ان کے خام مال کی نہایت کم قیمت دیتے ہیں۔ اکثر اوقات اس رقم کی ادائیگی بھی نہایت تاخیر سے کی جاتی ہے اور نتیجتاً عام کسان پچھلی ادائیگیوں اور نئی کاشت کے لیے درکار اشیا خریدنے کے لیے مزید قرضہ لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ بڑے زمینداروں کے ساتھ ساتھ امیر کسان بھی چھوٹے اور درمیانے کسانوں کا خوب استحصال کرتے ہیں۔ زیادہ تر چھوٹے اور درمیانے کسان ٹیوب ویل اور زرعی آلات (ٹریکٹر، ہارویسٹر وغیرہ) کی ملکیت نہیں رکھتے اور عمومی طور پر امیر کسانوں سے زرعی استعمال کے لیے ٹیوب ویل کا پانی اور زرعی آلات کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔ ان کی اس مجبوری کا امیر کسان من مانے کرائے وصول کر کے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ زرعی علاقوں کے آس پاس کے شہروں میں اجناس کی منڈیوں میں ان امیر کسان گھرانوں کے افراد کی ایک بڑی تعداد آڑھت کا کاروبار کرتی ہے۔ دیہی علاقوں کے ساتھ روابط ہونے کی وجہ سے یہ لوگ فصل کی کٹائی کے وقت وہاں موجود ہوتے ہیں اور پچھلے قرضے اتارنے اور اگلی کاشت کے لیے درکار رقم کی فوری ضرورت کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر چھوٹے اور درمیانے کسانوں کی فصل کھیتوں سے ہی منڈی کی قیمتوں سے انتہائی کم ریٹ پر اٹھا لیتے ہیں اور پھر منڈی میں مال کو اس کے اصل ریٹ پر بیچ کر خوب پیسہ بناتے ہیں۔ اس طرح زراعت کی عمومی طور پر دگرگوں صورت حال اور مسلسل نقصان اٹھانے کی وجہ سے اپنی زمینوں کی خود کاشت چھوڑ دینے والے چھوٹے اور درمیانے کسانوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر امیر کسان ان کی زرعی زمین انتہائی کم کرائے پر پٹے پر لے لیتے ہیں لیکن دوسری طرف وہ امیر کسان خاندان جو مستقل طور پر شہروں میں شفٹ ہو چکے ہیں اپنی مضبوط مالی پوزیشن کے بل پوتے پر اپنی زمین نہایت بلند کرائے پر چھوٹے، درمیانے کسانوں اور بے زمین دیہی آبادی سے تعلق رکھنے والے کرائے دار کسانوں کو دیتے ہیں۔ بڑے زمینداروں اور امیر کسانوں کے جبر کے ساتھ ساتھ چھوٹے اور درمیانے کسان حکومتی پالیسیوں سے بھی شدید تنگ ہیں۔ اجناس کی امدادی قیمتوں کا معاملہ ہو یا پھر بجلی، ڈیزل اور کھاد کے ریٹس کا معاملہ، حکومتی پالیسیاں سرمایہ دار طبقے اور عالمی مالیاتی اداروں کے مالی مفادات کے تابع ہیں اور ان کے نتیجے میں چھوٹے اور درمیانے کسان شدید نقصان اٹھا رہے ہیں۔ اکثر اوقات چھوٹے اور درمیانے کسانوں کی حکومت کے خلاف نفرت ان کی امیر کسانوں اور بڑے زمینداروں کے خلاف نفرت سے بھی بڑھ جاتی ہے اور اس کا اظہار ہمیں حالیہ سالوں میں کسان اتحاد کے پلیٹ فارم سے جنم لینے والے چھوٹے اور خصوصاً درمیانے کسانوں کی تحریک میں نظر آتا ہے جو حکومت کی سرمایہ دار پالیسیوں کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہی ہے لیکن محنت کش طبقے کی ایک بڑی تحریک کی عدم موجودگی میں اس کی قیادت زیادہ تر امیر کسانوں کے ہاتھ میں ہے۔
اوپر زیر بحث لائے گئے تضادات دیہی سماج میں موجود طبقاتی تضادات کا صرف ایک پہلو ہیں۔ ان سے بھی کہیں زیادہ شدید اور فیصلہ کن طبقاتی تضاد زرعی رقبے کے نجی مالکان (خصوصاً بڑے مالکان) اور بے زمین دیہی آبادی کے درمیان موجود ہے۔ اگرچہ یہ تضاد بنیادی طور پر ایک طرف بڑے زمینداروں، امیر کسانوں اور دوسری طرف کھیت مزدوروں، بٹائی دار کسانوں کے مابین ہے لیکن عمومی غلط فہمی کے بر عکس بذات خود بڑے زمینداروں اور امیر کسانوں کے طبقاتی استحصال کا شکار بننے والے چھوٹے اور خصوصاً درمیانے کسانوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی انتہائی غریب بے زمین دیہی آبادی کے استحصال میں ملوث ہے۔ اس بارے میں ایک اشارہ ہمیں چھوٹے اور درمیانے نجی فارمز پر اجرتی محنت کے استعمال کے حوالے سے پہلے دیئے گئے اعداد و شمار سے ملتا ہے۔ دیہی پرولتاریہ اور بٹائی دار کسانوں (نیم پرولتاریہ) کی بھاری اکثریت پر مبنی یہ بے زمین دیہی آبادی بڑے زمینداروں اور امیر کسانوں کے بے رحمانہ معاشی استحصال کا شکار ہے۔ کھیت مزدوروں سے انتہائی کم اجرت پر جانوروں کی طرح کام لیا جاتا ہے اور اکثر اوقات اجرت نہ صرف انتہائی تاخیر سے ادا کی جاتی ہے بلکہ وہ طے شدہ رقم سے بھی کم ہوتی ہے۔ دیہی مزدوروں پر کسی قسم کے لیبر قوانین کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا اور بکھرے ہوئے ہونے کی وجہ سے وہ بڑے مالکان کے استحصال کے لئے خام مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بٹائی دار کسانوں کے حالات بھی کھیت مزدوروں سے کچھ مختلف نہیں ہیں۔ فصل کے صرف 1/6 یا 1/8 ویں حصے کے عوض ان سے دن رات مشقت لی جاتی ہے اور اکثر اوقات ان کی مجبوریوں اور کمزور مالی و سماجی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں پہلے سے طے شدہ حصے سے بھی کم فصل دی جاتی ہے۔ بے شمار کھیت مزدور اور بٹائی دار کسان خاندان چند ہزار روپے کے قرضے کے عوض ساری عمر جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں۔ شدید ترین معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ یہ طبقہ بالادست طبقات کے بدترین جبر و استبداد اور غنڈہ گردی کا بھی مسلسل نشانہ بنتا ہے۔ معمولی بات پر جان سے مار ڈالنا، پالتو کتوں کے آگے پھینک دینا، مار پیٹ اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات ملک کے طول و عرض سے آئے دن سننے کو ملتے ہیں۔ بڑے مالکان کے ساتھ ساتھ خصوصاً درمیانے کسانوں اور انتہائی چھوٹے کسانوں (ایک ایکڑ سے کم ملکیت والے) کو چھوڑ کر دیگر چھوٹے کسانوں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی اپنی حیثیت کے مطابق اس دیہی محنت کش طبقے کے استحصال اور تضحیک کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ اگرچے اس وقت ہمیں اس بے زمین دیہی آبادی میں کوئی بڑی تحریک نظر نہیں آتی لیکن یہ بات پورے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ اس ظلم اور استحصال کے خلاف ان کے دل و دماغ میں بغاوت پنپ رہی ہے۔ بڑے زمینداروں اور امیر کسانوں سے شدید نفرت کے ساتھ ساتھ دیہی محنت کش کم تر سطح پر ہی سہی لیکن اپنے استحصال میں ملوث ہونے کی وجہ سے چھوٹے اور خصوصاً درمیانے کسانوں سے بھی کوئی ہمدردی نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں کسان اتحاد کی تحریک میں دیہی پرولتاریہ اور نیم پرولتاریہ کی شرکت دیکھنے کو نہیں ملتی۔ دیہی علاقوں کے ان محنت کشوں اور بٹائی دار کسانوں کی حقیقی طبقاتی جڑت اور اتحاد صرف شہروں کے محنت کش طبقے کے ساتھ ہی بن سکتا ہے۔ اس اتحاد کے بننے میں دیہاتوں سے وقتاً فوقتاً شہروں میں آ کر محنت مزدوری (خصوصاً صنعتی مزدوری) کرنے والے دیہی محنت کش بنیادی کردار ادا کریں گے۔ یہ اتحاد مستقبل میں ابھرنے والی انقلابی تحریک کی کامیابی میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔
انقلابی تحریک اور دیہی علاقے
مستقبل کی کسی بھی انقلابی تحریک کا جنم اگرچہ شہروں اور بڑے صنعتی مراکز میں ہو گا لیکن یہ بہت جلد دیہی علاقوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ لیکن یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیہی علاقوں میں یہ تحریک کیا شکل اختیار کرے گی اور اس کا کردار کیا ہوگا؟ کیا پاکستان میں بھی دیہی علاقوں میں انقلابی تحریک کا حاوی کردار 1917ء میں روس کے دیہی علاقوں کی طرح بنیادی طور پر ایک کسان تحریک کا ہو گا؟ ہم نہیں سمجھتے کے ایسا ہو گا۔ پہلے کی گئی تمام تر بحث میں ہم یہ واضح کر چکے ہیں کہ آج 2016ء میں پاکستان کا دیہی سماج 1917ء کے روس کے دیہی سماج سے بالکل مختلف ہے اور انہی بنیادوں پر ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جنم لینے والی ایک انقلابی تحریک جب دیہی سماج تک پہنچے گی تو اس کا عمومی اور حاوی کردار ایک کسان تحریک کی بجائے ایک پرولتاری یا نیم پرولتاری تحریک کا بنے گا اور کسی بھی پرت سے تعلق رکھنے والے کسانوں کی بجائے دیہی محنت کش اور نیم پرولتاریہ اس کا ہر اول دستہ ہوں گے جن کا طبقاتی اتحاد صرف شہروں کے محنت کش طبقے کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ دیہی علاقوں میں اکثریتی محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ دیہی پیٹی بورژوازی بھی قابل ذکر تعداد میں موجود ہے جس کی درمیانے اور خصوصاً چھوٹے کسانوں پر مشتمل وسیع تر پرتیں سرمایہ دارانہ معاشی بحران کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں اور اسی لئے یہ پرتیں بھی اپنے مفادات اور مانگوں کی خاطر انقلابی تحریک کا حصہ بنیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ دیہی علاقوں میں انقلابی تحریک کا حاوی کردار ایک پرولتاری یا نیم پرولتاری تحریک کا ہو گا لیکن اس میں ہمیں کسان تحریک کے اجزا بھی دیکھنے کو ملیں گے۔ درمیانے کسان اپنے مخصوص طبقاتی کردار اور مفادات کی وجہ سے صنعتی پرولتاریہ اور اس کے سوشلسٹ تبدیلی کے پروگرام سے جڑی دیہی پرولتاریہ کی تحریک کو کبھی دل سے قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی دیہی پرولتاریہ کی بالا دستی اور قیادت پر بخوشی رضامند ہوں گے۔ ان کی تحریک میں متذبذب شمولیت صرف اپنے تنگ نظر پیٹی بورژوا مطالبات کی حد تک ہو گی لیکن وہ سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے پروگرام کو مکمل طور پر قبول نہیں کریں گے۔ اسی لئے بحیثیت مجموعی انقلابی تحریک کے کسی فیصلہ کن مرحلے پر وہ نہ صرف پیچھے ہٹ سکتے ہیں بلکہ ان کی ایک قابل ذکر تعداد کھل کر رد انقلابی قوتوں کے ساتھ بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس چھوٹے کسانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ زرعی زمین کی معمولی یا چھوٹی ملکیت ہونے کی وجہ سے چھوٹے کسانوں کے حالات زندگی اور دیہی پرولتاریہ کے حالات زندگی میں اب زیادہ فرق نہیں رہ گیا اور وہ بھی اب دیہی پرولتاریہ کی طرح غربت کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں۔ اگرچہ درمیانے کسانوں کی طرح چھوٹے کسانوں کی کچھ پرتیں بھی زرعی سرگرمیوں کے لئے اجرتی محنت کا استعمال کرتی ہیں لیکن نہ صرف یہ کہ ان کی تعداد کم ہے بلکہ ان کا اجرتی محنت کا استعمال بھی نہایت جز وقتی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ چھوٹے کسان خاندانوں کی ایک قابل ذکر تعداد کے افراد شہروں میں معمولی نوکریاں یا حتیٰ کہ صنعتی مزدوری تک کرتے ہیں۔ غربت اور معاشی بدحالی کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی چھوٹے کسانوں کو ملکیت رکھنے کے باوجود محنت کشوں کے زیادہ قریب کر دیتا ہے۔ چھوٹے کسان زرعی رقبے کے کل نجی مالکان کا 62 سے 64فیصد بنتے ہیں اور چھوٹے کسان خاندانوں کی آبادی کل ملکی آبادی کا تقریباً 23فیصد بنتی ہے۔ آبادی کا ایک قابل ذکر حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بری فوج کے عام سپاہیوں کی بھاری اکثریت بھی چھوٹے کسان خاندانوں کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ مزدور تحریک ان چھوٹے کسانوں کو جیت سکتی ہے اور ان کی سیاسی قیادت حاصل کر سکتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ طبقاتی جنگ میں فیصلہ کن کامیابی کے لئے مزدور تحریک کو ایک درست پروگرام کی بنیاد پر ان چھوٹے کسانوں کو ہر صورت میں جیتنا پڑے گا۔ ورنہ مزدور تحریک سے مایوسی کی صورت میں یہی چھوٹے کسان رد انقلابی قوتوں کی سماجی بنیاد بھی بن سکتے ہیں۔
زرعی سوال اور مزدور تحریک کا پروگرام
پاکستان میں سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کے لیے زراعت سے وابستہ کروڑوں محنت کشوں کو مزدورتحریک سے جوڑنا اور اس انقلاب کی جدوجہد میں شامل کرنا انتہائی ضروری ہے۔ آبادی کے اتنے بڑے حصے کی شمولیت کے بغیر انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ممکن نہیں۔ اس انقلاب کی جدوجہد میں بحیثیت مجموعی اپنے طبقاتی کردار کی بدولت دیہی پرولتاریہ اور نیم پرولتاریہ (بٹائی دار کسان وغیرہ) مزدور تحریک کے ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لینے کی بنیاد پر روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، علاج اور روزگار کی فراہمی کے سوشلسٹ پروگرام کی بھرپور حمایت کریں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ کھیت مزدوروں، بٹائی دار کسانوں اور بے زمین چھوٹے کرایہ دار کسانوں کے کچھ حصے کاشت کاری کے لئے زمین کے حصول کے طلبگار بھی ہوں گے۔ اسی طرح چھوٹے کسان جہاں ایک سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ متفق ہوں گے وہاں ان کی جانب سے کاشت کاری کے لئے زمین کے حصول کا مطالبہ بھی ابھرے گا۔ اس حوالے سے ’’تمام جاگیروں کی مزارعوں میں تقسیم‘‘ کا پروگرام ایک لمبے عرصے سے بائیں بازو کی جانب سے پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن اس پروگرام کو موجودہ کیفیت سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد ایک مخصوص حد(مثلاً25ایکڑ نہری اور 50ایکڑ بارانی) سے زائد زرعی ملکیت کو ضبط کر کے اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے گا اور مزدور ریاست کے صنعتی وسائل کی مناسبت سے ضبط کی جانے والی زمین کے کچھ حصے کو بڑے ریاستی فارموں میں تبدیل کر دیا جائیگا جو نہ صرف مزدور ریاست کے لئے زرعی پیداوار کی فراہمی کا ذریعہ بنیں گے بلکہ دیہی پرولتاریہ کی ایک بڑی تعداد کے لئے روزگار کے بہترین مواقع بھی فراہم کریں گے۔ بقیہ بچ جانے والی ضبط شدہ زرعی زمین مزدور ریاست کی ملکیت میں رہتے ہوئے کاشت کاری کے لئے زمین کے طلبگار کھیت مزدوروں، بٹائی دار کسانوں، چھوٹے کرایہ دار کسانوں اور چھوٹے کسانوں کو مفت استعمال کے لئے دے دی جائے گی لیکن اس شرط پر کہ وہ اس زمین کو کسی قسم کی اجرتی محنت کے استعمال کے بغیر مزدور ریاست کی تکنیکی مدد سے اجتماعی کاشتکاری (Co-operative Farming) کے اصولوں کے تحت کاشت کریں گے۔ اس سے جہاں ایک طرف ’’جیہڑا واوے، اوہی کھاوے‘‘ (جوہل چلائے، وہی کھائے) کا نعرہ حقیقت کا روپ دھار جائے گا وہیں اجتماعی کاشت کاری اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گا۔
سوشلسٹ انقلاب کے بعد حکمران طبقے کی تمام تر دولت اور جائدادیں ضبط کرتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول کے ذریعے جب معیشت اور مزدور ریاست کو چلایا جائے گا تو نہ صرف اس ملک کے کروڑوں لوگوں کی غربت، محرومی اور لاعلاجی کا خاتمہ ہو گا بلکہ دیہی علاقوں میں موجود بنیادی سہولیات کے فقدان کا بھی مکمل خاتمہ ہو گا اور دیہاتوں میں آباد محنت کش پر آسائش اور صحت مند زندگی گزار سکیں گے۔