تحریر: |گل زادہ صافی|
حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں خط غربت سے نیچے زندگی کا عذاب جھیلنے والوں کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ہرسال ملک کی محنت کی منڈی میں 25لاکھ سے زیادہ نوجوان آرہے ہیں جن کیلئے ریاست کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں۔ سفید پوش لوگ دو دو نوکریاں اور کاروبار کرنے کے بعد بھی اپنی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے سے عاجز آچکے ہیں۔ لوگ حکمرانوں، سیاسی خانوادوں اور حساس اداروں کی ایک دوسرے کے خلاف محلاتی سازشوں کی کارپوریٹ میڈیا پر آئے روز آنے والی کہانیاں اور لائیو کمنٹریاں سن سن کر اکتاہٹ کا شکار ہیں۔ عوام اس نظام زر سے ہی بے گانہ ہوچکی ہے۔
ملک میں جاری مصنوعی سیاسی و ادارہ جاتی کشمکش دراصل حصہ بقدر جسہ اور بندر بانٹ کی لڑائی ہے۔ اس نورا کشتی میں کبھی دھاندلی کو ملک کا بڑا ایشو بنا کر اس کے سدباب کو ہی عوام کے مسائل ، ذلت کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے انہیں ورغلایا اور سبز باغ دکھایاجاتا ہے پھر لینڈ کروزروں میں سوار ہوکر لانگ مارچ کے لفظ کا مذاق اڑایاجاتا ہے۔ دھرنے میں میڈیا کے ذریعے سے مصنوعی انقلاب کا رنگ بھر کر ملک کے دارالحکومت پر چڑھائی کی جاتی ہے۔ عوام کو کئی ماہ تک اس ڈرامائی سچوئشن سے گزارکر آخر میں ٹی او آر کے خو بصورت الفاظ کے تحت بنائے گئے عدالتی کمشن کا تڑکا لگا کر اینڈ رزلٹ زیرو پر ڈراپ سین کردیا جاتا ہے۔ اس ملک میں اصلاح و احوال کے نام پر لوگ فوجی مارشل لاؤں اور جوڈیشل ایکٹویزم کو بھی دیکھ چکے ہیں۔ ان کنٹرولڈ انقلابات کے بعد عوام کے حصے میں رسوائیوں و مزید ذلتوں کے سوا کچھ بھی نہیں آیا۔ ان تماشوں اور شعبدہ بازیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تاحال جاری و ساری ہے۔
محنت کشوں کو ایک دفعہ پھر کرپشن کے خاتمہ کے پرکشش نعروں سے بہلانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کہیں وہ اس ایک فیصد طبقہ امراء کے خلاف حقیقی علم بغاوت بلند نہ کردیں جو کہ ستر سال سے شکلیں بدل بدل کر اس ملک پر قابض ہیں ۔ موجودہ حالات میں نواز ، زرداری ، عمران سمیت جتنے بھی قانون سے بالا تر ادارے ہیں ، سب کے سب عالمی سامراجیوں کے گماشتے اور آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیں ، ان سب کا محنت کشوں کے استحصال پر مکمل اتفاق ہے۔ نجکاری کے ذریعے بے روز گاری پھیلانا ، اداروں کا اونے پونے خرید و فروخت ان کا مشترکہ کاز اور منشور ہے۔ ان سے خیر کی توقع رکھنا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ ملک میں تبدیلی کی نوید سنانے والی پارٹی کا سربراہ بھی 300کنال کی عمارت میں شان و شوکت سے رہ رہا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب عوام کے پاس بارش و دھوپ سے سر چھپانے کو چھت کی سہولت نہیں۔ عسکری اسٹیبلشمنٹ کے قصیدے پڑھنے والے یہ نہیں بتاتے کہ ماضی قریب میں سابقہ فوجی سربراہ کے بھائیوں کی کرپشن کے زبان زد عام ہونے والے قصے کہانیوں کو اچانک کس نے دبایا۔ مذہب کانام لیکر سیاست کرنے والے عناصر اس ظالمانہ سسٹم کی بجائے 95فیصد عوام کی کسمپرسی کو ان کے برے اعمال و دین سے دوری کے کھاتے میں ڈال کر اپنی حیثیت و اہمیت کو بڑھاتے ہیں تاکہ لوگ اصل مسائل کے حل کی جانب جانے کی بجائے ان سے رجوع کرکے روحانی تسکین کا بندوبست کریں ۔اس طرح یہ ایک فیصد ایلیٹ کلاس کو محفوظ بنانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ ان بدبودار دولت کے رسیا طبقات کی بے شرمیوں و نورا کشتی سے نجات کا واحد راستہ سوشلزم ،یعنی اکثریتی طبقہ پرولتاریہ کی حکومت ہے۔