|تحریر: ناصرہ وائیں|
ہم جس سماج میں آنکھیں کھولتے ہیں ان حالات و واقعات، سماجی وتاریخی روایات اور اس سماج میں رچی بسی تہذیب کی عمارت کو اپنا نقطۂ نظر، اپنی ذاتی فلاسفی یا پسند سمجھ کر خود کو ان تاریخی وسماجی حالات کو درست سمجھتے ہوئے اپنا لیتے ہیں حالانکہ ان تاریخی و سماجی حالات وواقعات کو ہم نے خود بطور فرد چنا نہیں ہوتا اور ان کے تاریخی ارتقا میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہو تا۔ اس سماجی ڈھانچے کی بنترمیں حکمران طبقے کی سوچ پنہاں ہوتی ہے جس کو سمجھنے سے عام فرد عاری ہوتا ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ ان حالات کو پیدا کرنے میں خیال مطلق کی مرضی شامل ہے اس لئے وہ اس سماجی ڈھانچے کو قائم رکھنے میں آنکھیں میچے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ بالکل کولہو کے بیل کی مانند جو ایک ہی مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے چکر کاٹتا رہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے۔ جب کہ اس صورت حال میں موجود افراد کے طرز عمل کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ ہر فرد اسی سماج کی کلیت کا حصہ بن جاتا ہے جس میں وہ اتفاقاً پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہم جس سماج میں تاریخی طور پر رہنے پر مجبور ہیں وہ ایک لمبے سفر کے بعد یہاں تک پہنچا ہے جس میں انسان کی اجتماعی جدوجہد کا بنیادی کردار ہے۔ لیکن آج یہاں ارادی طور پر اس خیال کو بھی تقویت دی جارہی ہے کہ ہر جزو اگر اپنی اصلاح کرلے تو ساری کلیت تبدیل ہو جائے گی۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ان سماجی وثقافتی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم سر مایہ دارانہ سماج میں رہنے والے اس نصف حصے کی حیثیت کا تجزیہ کرتے ہیں جس نصف حصہ کے لئے کبھی صنف نازک کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، کبھی پاؤں کی جوتی کہہ کر اس کی’ عزت افزائی ‘کی جاتی ہے تو کبھی ٹیڑھی پسلی کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ اس سماج میں ان کے سماجی طبقاتی کردار کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟آیاکہ کسی بھی سماج میں رہتے ہوئے ہر عورت عورت ہے، صنف نازک ہے یا پھر انسان ہے! عورت کے مقام کو جاننے کے لئے ان معروضی حالات کا تجزیہ کیوں نہ کر لیا جائے جس سماج میں رہتے ہوئے تکمیل ذات کے سماجی ومعاشی مقام کا تعین کیا جاتاہے۔ ہم اپنے تجزیہ کا آغاز اس وقت سے کرتے ہیں جب وہ ایک انسان کے روپ میں اپنی ہم جنس کے ہاں جنم لیتی ہے۔ اگر تو تکمیل انسانیت نر کو جنم دیتی ہے تو اس کا خاندان خوش ہو کر دوسروں پر روپیہ نچھاور کرتا ہے۔ لیکن اگر تکمیل انسانیت اپنے جیسی ہستی کو اس دنیا میں لاتی ہے تو اس دنیا میں پہلا سانس لیتے ہی نہ صرف وہ اپنی تذلیل کا باعث بنتی ہے بلکہ اپنے ساتھ اس ماں کی رسوائی کی وجہ بھی بنتی ہے جس نے ایک شدید اور طویل درد کو برداشت کرکے جنم دیا ہوتا ہے۔ یہ بورژوا سماج اس ماں کو درد ورنج کا یہ انعام دیتا ہے کہ بعض اوقات ماں یہ سن کر ہی دم توڑ دیتی ہے کہ اس نے بیٹی کو جنم دیا ہے۔ اس ننھی بچی کو اپنے ہی خاندان والوں کی ان نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ان چاہی ہے جس کے لئے کوئی آنکھ منتظر نہیں تھی۔
لیکن اس قسم کی تذلیل کا سامنا ہر بچی کو نہیں ہوتا بلکہ اس تحقیر کا انحصار اس طبقے پر ہوتا ہے جس میں وہ آنکھیں کھولتی ہے۔ ہمارے سرمایہ دارانہ سماج کی بنیادمیں صرف دو طبقے ہیں؛ ایک حکمران طبقہ اور دوسرا محکوم طبقہ، ایک سرمایہ دار اور دوسرا محنت کش طبقہ۔ ایک وہ جس کے ہاتھ میں تمام ذرائع پیداوار ہیں اور دوسرا وہ طبقہ جس کے پاس کھونے کو سوائے زنجیروں کے کچھ نہیں۔ طبقاتی سماج سے عورت کے کردار کی تعیین اس کے طبقہ سے ہوتی ہے۔ اگر وہ وزیراعظم کے گھر یا پھروہ سرمایہ دار کے گھر پیدا ہوتی ہے تو وہ صنف نازک ٹھہرائی جاتی ہے جس کو محض قادر مطلق نے پیدا ہی اس لئے کیا ہوتا ہے تاکہ اس کی پرورش کسی مہارانی کی طرح کی جائے جس پر کنیزیں اپنے پر پھیلائیں تاکہ دھوپ کی تمازت اس کو چھو نہ سکے، ساری دنیا کی اعلیٰ ترین نعمتیں اس پر نچھاور کی جائیں تاکہ وہ روپ کی رانی بن سکے۔ وہ کوئی بھاری کام نہ کرے، کہیں اسکی پتلی کمر میں کوئی خم پیدا نہ ہوجائے۔ لیکن اگر اس کا جنم پرولتاریہ کے ہاں ہوتا ہے تو دنیا کی تمام نعمتیں تو کیا بنیادی ضروریات تک اس کے لئے شجرِ ممنوع ٹھہرائی جاتی ہیں۔ وہ تو لڑکپن میں ہی ماں کا کردار دا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ نو عمری میں نئی نسل پیدا کرنے کیلئے بیاہ دی جاتی ہے اور سسرال میں جاکر وہ پاؤں کی جوتی بن جاتی ہے۔ لہٰذا زندہ رہنا دشوار اور مرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جیتے جی مر جاتی ہے اور اپنی چتا اپنے ساتھ لئے پھرتی ہے۔ زند گی کے ہر اس سکھ کے لئے ترسنا اس کا مقدر بن جاتا ہے جس کو پیدا کرنے والے ہاتھ محنت کش کے ہوتے ہیں لیکن وہ پیداکار ان کے استعمال سے بیگانہ ہوتا ہے۔
جب وہ سن شعور کو پہنچتی ہے تو اس کی ہر اس جسمانی حرکت پر پابندی لگا دی جاتی ہے جس سے وہ جسمانی طور پر مضبوط ہو سکتی ہے یا روحانی طور پر مسرور ہو سکتی ہے۔ ایسے مت ہنسو، ایسے مت بیٹھو، ایسے مت چلو، سرپر دوپٹہ لو، بال باندھ کر رکھو، خوشبو مت لگاؤ۔ گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلنا۔ سائیکل نہیں چلانی۔ کوئی بھی کھیل کھیلنا اس کے لئے شجرِ ممنوع قرا ر پاتا ہے۔ ضیاالباطل کی آمریت میں اس رجعتی ماحول کو شدت سے پروان چڑھایا گیا۔ عورت کی سوچ پر پہرے بٹھادیئے گئے۔ عورت کا مطلب ہے پردہ، چھپا کر رکھے جانے والی چیز۔ لیکن یہ سب مڈل کلاس کے لئے ڈھکوسلے ہیں۔ جو حضرات اس بات کا درس دیتے ہیں ان کی بہو بیٹیاں اسمبلیوں میں جاکر ہنگامے کرتی ہیں۔ کبھی بیکری بند ہونے پر ملازمین کو اپنی سیکورٹی فوج سے مار پڑواتی ہیں اورکبھی کسی بس ہوسٹس کو نوکری سے فارغ کر وادیتی ہیں۔ ان کی بیٹیاں تو بیرون ملک پڑھنے جاتی ہیں جب کہ عوام کو درس دیا جاتا ہے کہ لڑکیاں صرف مذہبی تعلیم حاصل کریں۔ نیک پروین بیٹیاں تو گھر کی چوکھٹ نہیں پھلانگتیں۔
اس سرمایہ دارانہ سماج میں محنت کش کے گھر پرورش پانے والی لڑکیوں کو سارا سماج مل کر ان دیکھی اور ان چاہی زنجیروں میں جکڑ دیتا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ وہ خود بخود ان دیکھی زنجیروں میں جکڑی جاتی ہے۔ ثقافتی پابندیاں اور فرسودہ رسومات ان کی زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں کہ ان کو اپنی زنجیریں بھی اپنی آزادی نظر آتی ہیں۔ اورایک ایساہی احساس اس کے رگ وپے میں سرایت کر جاتا ہے کہ گھر کے باہر کی دنیا پر، اپنی خواہشات پر ان کا کوئی حق نہیں۔ بلکہ سچ تو یہ ہے اس کو کبھی انسان سمجھا ہی نہیں جاتا، وہ ماں، بہن، بیٹی یا بیوی تو ہوتی ہے لیکن وہ انسان نہیں ہوتی۔ وہ تو نجی ملکیت بن چکی ہے۔ کبھی اس کے ارمانوں کا خون بہا جاتا ہے تو کبھی غیرت کے نام پر قربان کیا جاتا ہے۔ اپنا جیون ساتھی چننا اس کیلئے گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے اور اگر وہ خاندان کی پرم پرا کو خیال کئے بنا کبھی ایسا قدم اٹھا بھی لے تو نام نہا د عزت، ذات برادری کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔
ان سماجی حالات میں رہتے ہوئے اک جانب ملارجعتیت کا زہر سماج میں گھولتے ہیں اور دوسری جانب لبرل دانشور نئی نسل کو بے راہ روی سکھاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کی وجہ پدرانہ معاشرہ ہے یا پھر تمام مسائل کی وجہ ملائیت ہے اور اگر ریاست سیکولر ہو جائے تو تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور نام نہاد ضیا الحقیت نے بہت سی خواتین کو یہی بتایا ہے کہ گناہ تو انسانی سرشت میں لکھ دیا گیا ہے لہٰذا گناہ انجام دینا لازمی ٹھہرا ہے لیکن پچھتاوے سے تمام مسائل حال ہو جاتے ہیں۔ لیکن سوال یہ جنم لیتا ہے کہ ہم ان مسائل کا شکار کیوں ہیں؟ ان معاشی و سماجی حالات کا تجزیہ نہیں کیا جاتا جس میں عورت کا صنفی استحصال کیا جاتاہے کبھی مذہب کے نام پر، کبھی ذات برادری کے نام پر اور کبھی سماج میں پائے جانے والے نام نہاد رسم ورواج کے نام پر۔ یہ سرمایہ داری کی دین ہے جس نے ہر انسان کو کموڈیٹی بنا دیا ہے، اسی طرح عورت کو بھی۔ دوسری جانب ضیاالحقی مبلغین نے ہماری مڈل کلاس خواتین کیلئے جس پراپیگنڈے کو گھڑا ہے اس کا حقیقت سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں اور اس میں ان معروضی حالات کی ایک طائرانہ نگا ہ بھی نہیں دکھائی جاتی۔ وہ حالات جس میں رہ کر محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کبھی بچوں سمیت دریا میں چھلانگ لگانے پر مجبور ہیں تو کبھی بے بس ماں اپنے بچوں کو زہر کھلانے پر مجبور ہوجاتی ہے اور کبھی تو عصمت دری کی شکار بچیوں کو اپنا مقدمہ درج کروانے کیلئے رشوت دینی پڑتی ہے اور غیرت کے نام پر کبھی جلا کر خاک میں ملنا اور کبھی دن دیہاڑے کسی بھی ایسی لڑکی کو ہمیشہ کیلئے ابدی نیندسلا دینا جس نے جیون ساتھی کا انتخاب خود کیا ہوتا ہے۔ جب کہ مذہب بھی اپنا جیون ساتھی چننے کا حق دیتا ہے پھر بھی آئے روز کسی نا کسی لڑکی کو غیرت کے نام پر زندہ درگور کر دیا جا تا ہے۔
اس صورتحال میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی وہ خواتین بھی مشکلات کا شکار ہیں جن کی نگاہیں آسمان پر اور پاؤں کیچڑمیں لتے پڑے ہیں۔ وہ سرمایہ دارانہ کنزیومرازم کا شکار ہیں۔ سرمایہ دار طبقے کے کسی نوجوان، سپنوں کے شہزادے کے انتظار میں۔ جو ٹی وی ڈراموں اور فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یہ ان کو سنووائٹ کے خیال سے باہر حقیقی دنیا میں نہیں آنے دیتے کہ ایک دن ایک حسین شہزادہ نیلے گھوڑے پر سوار ہو کر آئے گااور سپنوں کی دنیا میں لے جائے گا۔ منتظر ین اپنادل کموڈیٹیز سے پر چاتی ہیں اور اپنی تمام نفسیاتی وجذباتی تسکین ان خواہشات کے اظہار کے ذریعے پورا کرتی ہیں۔ یہ ان دیکھی زنجیروں میں جکڑی نسل اپنے گرد ان رسیوں کو جاننے کی کشمکش میں زندگی گزار رہی ہے۔ ایک دن میں چھ سے سات گھنٹے کام کرنے کے باوجود خود کو محنت کش نہ سمجھنا اور اعٰلی برانڈ کے کپڑے پہننا اور ریسٹورنٹ میں کھانے کو باعث تسکین سمجھنا آج بہت سی عورتوں کا المیہ بن چکا ہے۔ ان کے کھوکھلے قہقہے بھی ان کو دلی سکون نہیں پہنچا سکتے۔
ان حالات میں رہتے ہوئے سماج اسی وقت تبدیل ہو سکتا ہے جب آبادی کا یہ نصف حصہ اپنی کلیت کو بدلنے میں اپنا پہلاقدم اٹھائے گا۔ جس گلے سڑے سرمایہ دارانہ سماج میں ہم رہنے پر مجبور ہیں اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے میں ہی انسانیت کی نجات ہے۔ اس جبر پر صرف کڑھنے سے ایسا نہیں ہو سکتا، بلکہ اس کے لئے لازمی ہے کہ پہلے ہم ان زنجیروں کو جانیں جن میں دنیا کی نصف آبادی جکڑی پڑی ہے۔ پھر غلامی کی ان زنجیروں کو توڑنے کیلئے ہمیں ایک منظم انقلابی جدو جہد کی ضرورت ہے۔ ایسی جدوجہد جیسی گزشتہ صدیوں کے مختلف انقلابات میں عورتوں نے کی۔ آج سے سو سال قبل روس میں ہونے والے عظیم سوشلسٹ انقلاب کا آغاز بھی محنت کش عورتوں نے ہی کیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ صدی کے بہت سے انقلابات اور تحریکوں میں عورتوں نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ یہاں تک کہ انتہائی بنیادی حقوق بھی جدوجہد کے بغیر نہیں ملے۔ عورت نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کیلئے، ووٹ کا حق لینے کے لئے جدوجہد کی۔ ان کو اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کی تب جا کر انھیں یہ حقوق ملے۔ اگرآج کی عورت بھی اپنے بنیادی اور انسانی حقوق حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس میدان عمل میں پہلا قدم رکھنا ہو گا۔ اصل میں پہلا قدم ایک بڑی جست ہے جو حتمی منزل کو قریب تر کر دیتا ہے۔ اور اس جست کیلئے لڑنا ہوگا۔ ان تاریخی حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے سماج میں استحصال زدہ اس پرت کو ایسی دنیا سے روشناس کرایاجائے جس کا سرخ سویرا ان کی جدوجہد سے طلوع ہونا چاہتا ہے۔ ایسی سحر جس میں عورت عورت نہیں بلکہ انسان ہوگی۔