|لال سلام|
عید الاضحیٰ کے دوسرے روز حیدرآباد شہر میں واقع ایک ہوٹل پر ہونے والے ایک جھگڑے میں بلال کاکا نامی شخص کا قتل ہو گیا۔ اس قتل کے بعد سندھیوں اور پشتونوں میں ایک خوفناک تنازع شروع ہو گیا۔ اس خوفناک تنازعے پر سیاسی کارکنان کی جانب سے سوشل میڈیا شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ اس رد عمل کی چند جھلکیاں ہم اپنے قارئین کیلئے یہاں پیش کر رہے ہیں:
علی عیسیٰ جو حیدر آباد میں مقیم ہیں اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکن ہیں کا ایک فیس بک پوسٹ میں کہنا تھا کہ:
”بلال کاکا کے قتل کی سخت لفظوں میں مذمت کرتے ہیں۔ اور یہ واضح کرتے ہیں کہ پولیس کے سامنے ایک نوجوان کا بے دردی سے قتل، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست، لسانی و نسلی فسادات کرا کر ایک بار پھر خونی کھیل کھیلنا چاہتی ہے تاکہ محکوم طبقات اور مظلوم قومیتوں پر جاری جبر میں مزید اضافہ کیا جائے۔ لہٰذا ہم مطالبہ کرتے ہیں قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے۔“
ایک اور فیس بک پوسٹ میں علی نے لکھا:
”جرائم پیشہ اور متشدد ذہنیت کے لوگ کسی قوم کے نمائندے یا خیر خواہ نہیں ہو سکتے۔ ہم پشتون محنت کشوں سے اپیل کرتے ہیں کہ اپنی قوم میں چھپے ان بھیڑیوں کی نہ صرف نشاندہی کریں بلکہ ان کے خلاف آواز بھی بلند کریں تاکہ سندھ بھر کی عوام کو خیر سگالی کا پیغام دیا جائے۔ یاد رکھو کہ ریاست اپنی تاریخ کے بدترین بحران کا شکار ہے اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے کسی بھی حد تک جا کر نسلی و لسانی بنیادوں پر ہزاروں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ اس سازش کو طبقاتی یکجہتی کے ذریعے ہی شکست دی جا سکتی ہے۔
کراچی کے رہائشی پارس جان ”لبرلزم پر مارکسی تنقید“ نامی کتاب کے مصنف ہیں۔ پارس ریڈ ورکرز فرنٹ کے رہنما ہیں اور عرصہ دراز سے مزدور تحریک میں سرگرم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک فیس بک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ:
”بلال کاکا کا قتل قابل مذمت ہے۔ ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اس نا خوشگوار واقعے کی آڑ میں سیاسی دکانداری اور مظلوموں کو آپس میں لڑوا کر ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ناپاک کھلواڑ بند کیا جائے۔ پشتون علاقوں سے سندھی محنت کشوں کو بے دخل کرنا اور سندھ میں پشتون محنت کشوں پر تشدد کے واقعات سے اشتعال پھیلا کر کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ریاست اور سفاک نظام کے خلاف مل کر جدوجہد کرنی ہو گی۔ مظلوم اقوام اور محکوم طبقات کے اتحاد کے لیے آگے بڑھو۔“
ایک اور فیس بک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ:
”جب آگ لگتی ہے تو وہ قوم، نسل، مذہب اور فرقے کی تمیز کے بغیر اپنے حلقہ اثر میں آنے والے ہر کسی کو خاکستر کر دیتی ہے۔ نسل پرستوں اور دہشت گردوں کی سرکوبی صرف اور صرف تمام اقوام کے محنت کشوں کے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ ورنہ یہ راستہ تباہی کی طرف ہی جا رہا ہے۔ سندھی اور پشتون محنت کشوں کی طبقاتی جڑت ہی امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔“
خیبر پختونخواہ کے علاقے چکدرہ کے رہائشی اور عرصہ دراز سے بائیں بازو کی سیاست سے منسلک شہاب چکدروال کا ایک فیس بک پوسٹ میں کہنا تھا کہ:
”سندھ ژوب بشمول چکدرہ میں لسانی مقامی اور غیر مقامی شہریوں کے درمیان نفرت پھیلانے کا منصوبہ دراصل حکمرانوں کی گھناؤنی سازش ہے تاکہ مظلوم اقوام اور پسے ہوئے محنت کش عوام متحد ہوکر سری لنکن عوام کی طرح ہماری بھی کہیں اینٹ سے اینٹ نہ بجا دیں۔ لسانیت اور نفرت کو ہوا دینے والے ہمارے مشترکہ دشمن ہیں۔ کیا ہوا اگر ہماری زبان کلچر اور رنگ ایک نہیں، ہاں ایک درد مشترک ہے، وہ ہے بھوک، بے روزگاری، غلامی اور معاشی قتل عام۔ ایک کا غم، سب کا غم!“
سندھ کے علاقے کشمور سے تعلق رکھنے والے احمد بلوچ کا ایک فیس پوسٹ میں کہنا تھا کہ:
”تین دن سے ریاست کہیں نظر نہیں آرہی۔ اس کا مطلب ہے ریاست چاہتی ہے سندھی اور پٹھانوں میں لسانی فساد ہو اور وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرے۔ دونوں اطراف سے جانی نقصان صرف مزدور طبقے کا ہوگا۔ نہ کوئی امیر سندھی پٹھانوں کے علاقے میں مقیم ہے نہ کوئی پٹھان امیر سندھی علاقوں میں۔ دونوں طرف صرف دیہاڑی دار مزدوروں کا نقصان ہوگا۔ جو شر پسند عناصر ہیں وہ یا تو صرف سوشل میڈیا پر بیٹھ کر شر پھیلا رہے ہیں اور جھوٹی خبریں لکھ رہے ہیں یا وہ شر پسند AC والے کمروں میں بیٹھ کر ریاست کی دلالی کر رہے ہیں۔ تین دن سے ریاستی مشینری کہیں نظر نہیں آرہی۔ اس کا مطلب ہے ریاست یہی چاہتی ہے کے سندھی پٹھان لسانی فساد ہو اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے۔ سندھ سمیت پٹھان ترقی پسند دوستوں سے گزارش ہے اپنے اپنے علاقوں میں لوگوں کو اس سازش سے آگاہ کریں اور مزدور طبقے کی جڑت کو مظبوط کریں۔“