|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، گوادر|
گوادر، جسے سی پیک کا دل بتایا جاتا ہے، میں مقامی محنت کش عوام کو بنیادی ترین ضروریاتِ زندگی بھی میسر نہیں ہیں۔
گوادر سٹی میں سکول تو موجود ہیں لیکن اس میں انفراسٹرکچر اور فرنیچر موجود نہیں ہے جہاں بچے فرش اور چٹائی پر بیٹھ کر پڑھنے پر مجبور ہیں۔ اساتذہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایک ہی استاد یا استانی کو 60 بچوں کو ایک ہی وقت میں پڑھانا ہوتا ہے، جس میں کافی کم بچوں کو توجہ مل پاتی ہے۔
اس وقت ضلع گوادر میں علاج کے لیے صرف دو بڑے سرکاری ہسپتال ڈی ایچ کیو گوادر اور جی ڈی اے (انڈس ہسپتال) گوادر موجود ہیں جن میں علاج کی سہولیات ہونا تو درکنار ان دونوں ہسپتالوں میں صرف ایک ایک ڈاکٹر تعینات ہے جو زیادہ تر وقت وہاں پر موجود ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح جب گوادر میں ڈینگی وائرس پھیلا ہوا تھا تو اس وقت بھی ڈینگی سے کئی ہلاکتیں ہوئیں۔
اس کے علاوہ گیس صرف گوادر سٹی کی دوکالونیوں میں موجود ہے جس میں ایک ٹی ٹی سی کالونی اور دوسرا نیو ٹاؤن ہے۔
گوادر میں زیادہ تر روزگار ماہی گیری اور بارڈر سے وابستہ ہے لیکن وہ بھی اب سرکار کی طرف سے پابندیوں کا شکار ہے دوسری طرف سرکاری سرپرستی میں چلنے والے ٹرالرز کو مچھلیوں کی نسل کشی کی کھلے عام اجازت دی گئی ہے، اور بارڈر ٹریڈ پر بڑے بڑے مافیاز کا قبضہ ہے جس سے لوگوں کے زندگی پر بہت برا اثر پڑا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے گوادر میں حق دو تحریک کے نام سے ایک تحریک شروع ہوئی تھی جس کے بنیادی مطالبات روزگار اور ماہی گیری سے وابستہ تھے جس کی تفصیلی رپورٹیں ہم پہلے شائع کر چکے ہیں لیکن اس تحریک کے بنیادی مطالبات کو ماننے کی بجائے رات کی تاریکی میں دھرنے کو ایف سی، لیویز اور میرین فورس کے ذریعے منتشر کردیا گیا اور قیادت کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا جو تاحال پابند سلاسل ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ حق دو تحریک کے مطالبات کی منظوری اورگوادر کے لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور ان کی ضروریات زندگی کی جدوجہد میں ہر جگہ ان کے شانہ بشانہ کھڑا ررہنے کا عزم کرتا ہے۔