|تحریر: پارس جان|
سرمایہ داری کے بحران کا عالم یہ ہے کہ یہ کہنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوتا جا رہا ہے کہ کونسا ملک سب سے زیادہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔تباہی کی طرف ایک اندھا دھند دوڑ نظر آ رہی ہے۔ دم توڑتی معیشت عالمی سفارتکاری کو ایڑیاں رگڑنے، سیاسی توازن کو ناک سے لکیریں کھینچنے اور عوامی شعور کو نقطۂ ابال تک پہنچنے پر مجبور کر رہی ہے۔ رواں ہفتے امریکی سٹاک ایکسچینج کے غبارے سے بھی ہوا نکل چکی ہے جس نے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ عالمگیریت کے نامیاتی ارتقا کی مراجعت ممکن ہے اور کسی بھی ایک ملک میں سرمایہ دارانہ شرحِ ترقی کو بحران کے باوجود نہ صرف برقرار رکھا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے دوبارہ عالمی معیشت کے غبارے میں ہوا بھری جا سکتی ہے۔ ایسا کسی صورت ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ یورپی معیشت انتہائی تشویشناک کیفیت میں ہے جس کا اظہار وہاں ایک کے بعد دوسرے بلکہ بیک وقت ہر ملک میں ابھرنے والے سیاسی طوفانوں اور ریاستی بحرانوں میں ہو رہا ہے۔ برطانیہ خاص طور پر اپنی سرمایہ دارانہ تاریخ کے سب سے بڑے سماجی و سیاسی بحران میں گھرا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ یورپ میں سیاسی میزان کا بایاں پلڑا سب سے زیادہ برطانیہ میں ہی جھکا ہوا دکھائی دے رہا ہے جہاں جیرمی کوربن کا اقتدار میں آنا نوشتۂ دیوار ہے جو نہ صرف برطانیہ یا یورپ بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک اہم سیاسی پیشرفت ثابت ہو سکتی ہے۔ وینزویلا کے برعکس برطانیہ اہم ترین سرمایہ دارانہ ممالک میں سے ایک ہے۔ چین کا معاشی بلبلہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ قرضوں کے بوجھ نے شرحِ ترقی کا گلا گھونٹنا شروع کر دیا ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ بھی عوامی ردِ عمل کی صورت میں ہی نکلے گا جس کے ابتدائی آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ روس میں بھی دوبارہ تحریکیں بننا شروع ہو چکی ہیں۔ ترکی کے بعد برازیل، انڈونیشیا، انڈیا، ساؤتھ افریقہ وغیرہ کی کرنسیاں بھی تیز ترین گراوٹ کا شکار نظر آئیں۔ ارجنٹائن کاتو تقریباً دیوالیہ ہی نکل چکا ہے اور وہ IMF سے فوری 50 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ کے ذریعے معاشی تانا بانا برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دنیا بھر کے مذکورہ بالا تمام ملکوں کی صورتحال کی روشنی میں پاکستان پر ڈالی جانے والی ایک سرسری سی نگاہ بھی صورتِ حالات کی سفاکی اور کربناکی کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔ معاشی طور پر پاکستان ارجنٹائن کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جبکہ سفارتی بحران کی صورتحال ایران کے مشابہہ ہوتی جا رہی ہے۔ریاست کی داخلی خانہ جنگی پر جتنا بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کر لی جائے، کہیں نہ کہیں اس کا برملا اظہار ہو ہی جاتا ہے۔ ذہنی طور پر ابھی تک 1992 ء کے سرما میں زندہ رہنے والا وزیر اعظم بہت جلد یہ جان لے گا کہ سیاسی میدان میں عوام ہمیشہ تماشائی ہی نہیں ہوتے بلکہ بہترین اور نا قابلِ شکست کھلاڑی بھی ہوتے ہیں جو کسی کپتان پر انحصار کرنے کے بجائے باہمی انحصار پر مبنی ٹیم ورک کے ذریعے تاریخی معرکے سر کر لیتے ہیں اور اچھے سے اچھا بلے باز بھی عوامی بغاوت کے باؤنسر اور یارکرز کا سامنا نہیں کر سکتا اور آخری بال پرفیصلہ کن چھکا بھی عوامی بلے کی ہی کاری ضرب ہوتا ہے جسے علمِ سیاسیات میں ’ انقلاب ‘ کہا جاتا ہے۔
مخبوط الحواس وزیر اعظم اور اس کے کوڑھ مغز مریدین جتنا بھی واویلا کر لیں مگر سعودی عرب سے ملنے والا ’پیکیج‘ معاشی دیوالیہ پن کو قدرے آگے تو دھکیل سکتا ہے مگر اختتام پذیر نہیں کر سکتا بلکہ اسے پہلے سے زیادہ امکانی غلبے کی طرف لے جائے گا۔ کچھ نادان یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ تین ارب ڈالر کا قرضہ اور اسی مالیت کا ادھار تیل حاصل کر لینے کے بعد ، اسی قسم کا پیکیج متحدہ عرب امارات اور چین وغیرہ سے بھی مل جائے گا اور اس کے بعد IMF سے بھیک مانگنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی مگر ایسا سوچنا سراسر حماقت ہے۔ اصل میں IMF سے ہونے والے مذاکرات کے بعد ہی یہ تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں کیونکہ IMF نے اتنے بڑے بیل آؤٹ کے لیے یہ شرط رکھی تھی کہ پہلے معاشی آؤٹ لک کو کسی حد تک قابلِ بھروسہ بناؤ اور پھر ہماری دہلیز پر ایڑیاں رگڑو۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر جو تیزی سے منہدم ہو رہے تھے انہیں اس سطح پر لانا مقصود ہے جہاں IMF کا اعتماد جیتا جا سکے۔ مقصد بہر طور IMF کے قرضے سے بچنا نہیں بلکہ اس کا حصول ہی ہے۔ اتنی ہی مقدار میں اگر چین یا متحدہ عرب امارات سے بھی ’پیکیج‘ حاصل کر لیا جاتا ہے تو بھی روپے کی قدر کا مستحکم ہونا ممکن نہیں ، اس میں مزید گراوٹ متوقع ہے۔ اور اگر چھ مہینے یا ایک سال تک ان بیل آؤٹس کے بلبوتے پر اسے ایک خاص سطح پر روک بھی لیا جائے تو اس کے بعد جب سعودی قرضے اور سود کی ادائیگی شروع ہو گی اور چینی قرضے بھی واجب الادا ہو جائیں گے تو روپے کی قدر میں کبھی نہ دیکھی اور سوچی گئی گراوٹ ناگزیر ہو جائے گی۔ اس کی اہم وجوہات میں سے ایک سی پیک کے ملکی معیشت پر پڑنے والے اثرات بھی ہونگے کیونکہ چین کے ساتھ ہونے والے آزاد تجارت کے معاہدوں کے نتیجے میں ملک میں آنے والی سستی چینی مصنوعات ملکی صنعت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گی۔ایسے میں موجودہ حکومت کی طرف سے شروع کی جانے والی مہم جویانہ سکیمیں بھی جلتی پر تیل کا کام کریں گی۔ ان میں سب سے بڑی مثال 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا 182 ارب ڈالر کا دیو ہیکل پراجیکٹ ہے جس کے بارے میں کہا یہ جا رہا ہے کہ کنسٹرکشن اور اس سے متعلقہ پچاس صنعتوں کو فروغ حاصل ہو گا۔ یہ انتہائی احمقانہ بات ہے۔ اس سے ان صنعتوں کو فروغ ملے نہ ملے مگر ٹھیکوں، کمیشنوں اور لوٹ مار کی لڑائی بے قابو ہو کر پوری ریاستی مشینری کے لئے وبالِ جان ضرور بن جائے گی۔ اس سکیم کے تحت بننے والے گھر کی کم سے کم قیمت کا تخمینہ 25 لاکھ روپے لگایا گیا ہے جو ظاہر ہے آئندہ برسوں بلکہ مہینوں میں ہونے والے افراطِ زر کے باعث بہت زیادہ بڑھ بھی سکتی ہے۔ظاہر ہے کہ پاکستان کی 80 فیصد سے زائد آبادی اتنے بڑے پیمانے کی خریداری کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ پہلے بھی جائیداد کے شعبے میں یہی 15 سے 20فیصد آبادی ہی خرید وفروخت کے اس ریاکارانہ سائیکل میں متحرک اور مستفید ہوتے ہوئے نظر آتی ہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ یہ سکیم غربا کے لئے شروع کی گئی ہے ان غربا کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہو گا۔ جو لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ رقم یکمشت وصول نہیں کی جائے گی بلکہ ’آسان‘ اقساط پر قابلِ ادائیگی ہو گی انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اتنے بڑے پیمانے کے بیل آؤٹس اور قرضوں کے ساتھ منسلک شرائط کے اطلاق کے بعد عوام کی قوتِ خرید دن بدن سکڑتی چلی جائے گی اور ان کو اشیائے خوردو نوش، علاج، رہائش اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کرایوں کی مد میں پہلے سے کہیں زیادہ ادا کرنا پڑے گا جس کی ایک بہت سادہ سی مثال میٹرو بس کے کرایوں کی مد میں ملنے والی سبسڈی کے خاتمے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ ایسی صورتحال میں غربا بلکہ نچلے درمیانے طبقے سے یہ توقع رکھنا کہ وہ نام نہاد ’آسان‘ اقساط کے عوض یہ گھر خرید پائیں گے سراسر حماقت ہو گی۔ اور چونکہ یہ منصوبہ نجی شعبے کی سرمایہ کاری کا نتیجہ ہو گا اور حکومت اس نجی شعبے کی ’سہولت کاری‘ کی پابند ہو گی تو ان مگرمچھوں کے منافعوں کا سارا بوجھ پھر قومی خزانے پر ہی منتقل ہو گا۔ یوں یہ منصوبہ بھی باقی اسی طرح کے دیگر منصوبوں کی طرح ناقابلِ عمل ہی دکھائی دے رہا ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینا تو درکنار ڈاؤن سائزنگ اور نجکاری جیسے اقدامات کے باعث بڑے پیمانے کی بیروزگاری حکومتی پالیسیوں کے نتیجے سے پیدا ہو رہی ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرول وغیرہ کی قیمتوں میں وقفے وقفے سے ہونے والے اضافے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دیں گے۔
زراعت کے شعبے پر اگر تھوڑی سی بات کی جائے تو کپاس، گندم ،کماد، ڈیری مصنوعات، پھل اور دیگر سبزیوں کی پیداوار میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان صرف چند سال قبل تک یہ تمام اجناس پیداکرنے والے ممالک میں بالترتیب چوتھے، تیسرے ،پانچویں یا حتیٰ کہ دوسرے یا پہلے نمبروں پر رہا ہے۔ پانی کا مسئلہ بآسانی حل ہو سکتا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے تو غلط نا ہو گا کہ یہ مسئلہ سیاسی مقاصد کے لیے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا تا ہے۔ آج بھی پاکستان میں 145 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے مگر صرف زراعت میں ہی 54 ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو جاتا ہے جس کی وجہ یہ گلا سڑا ملکیتی ڈھانچہ ہے جہاں پانی پر بھی مٹھی بھر اشرافیہ کی اجارہ داری ہے۔ رہی سہی کسر صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کی منافعوں کی ہوس پوری کر دیتی ہے جہاں مہنگی کھادوں کی فروخت انفراسٹرکچر کے دیگر مسائل یعنی مہنگے تیل ، بجلی اور گیس وغیرہ کے ساتھ مل کر کسانوں کی پیداواری لاگت میں اتنا اضافہ کر دیتی ہے کہ وہ بمشکل ہی اپنے اخراجات پورے کر پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پارلیمان(خواہ کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو) میں موجود صنعتکار یا ان کے کمیشن خور خام مال کی قیمتوں کو یوں مقرر کرتے ہیں کہ کسانوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے اور وہ پہلے سے کئی گنا زیادہ قرضے میں دھنس جاتا ہے۔ شوگر مل مالکان کے استبداد نے کسانوں کو اتنا بے حال کر دیا تھا کہ بہت سے علاقوں میں انہوں نے کماد کاشت کرنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اس بار کپاس کی فصل کی بھی بہت کم پیداوار ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے کپاس کی قیمتیں اس وقت آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، اس سے چند ایک ذخیرہ اندوز تو لاکھوں کروڑوں کمالیں گے مگر تیار مال کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں عام صارفین کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بات یہاں تک ہی نہیں رکے گی بلکہ مہنگی کپاس کا ناگزیر نتیجہ مہنگی ٹیکسٹائل کی صورت میں نکلے گا جو کہ پاکستان کی کل برآمدات کا 60فیصد کے لگ بھگ ہیں۔ ان برآمدات کے مہنگا ہونے کی صورت میں عالمی منڈی میں ان کی مانگ کم ہو گی جس کا نتیجہ پھر ملک کے اندر مزید بیروزگاری کی صورت میں نکلے گا۔ یوں سعودی عرب سے ملنے والے تیل کی وجہ سے درآمدی اخراجات میں ہونے والی کمی برآمدات میں ہونے والی کمی سے ٹکرا کر اپنے اثرات زائل کر دے گی۔ یوں آئندہ برسوں میں تجارتی خسارہ قدرے نیچے آنے کے بعد اور بھی بڑھ سکتا ہے۔ یوں جہاں تباہ حال صنعت پہلے سے مفلوک الحال زراعت کو مزید زبوں حالی کی طرف دھکیل رہی ہے، وہیں مسلسل سکڑتی زراعت واپس صنعت پر تباہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔ عالمی معیشت کے ایک نئے بحران کی صورت میں جس کی پیش گوئی خود IMF اور دیگر اہم مالیاتی اداروں اور معاشی جریدوں کی طرف سے تسلسل سے کی جا رہی ہے، پاکستانی معیشت کی مسلسل اکھڑتی ہوئی سانسوں کے مصائب اور بھی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ پاکستان کا مالیاتی شعبہ خاص طور بینک جو 2008 ء کے بحران میں کسی حد تک کالے دھن کے بہاؤ اور ٹریژری(T.bills) بلوں میں بڑے پیمانے کی محفوظ سرمایہ کاری کے باعث اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب رہا تھا، اس بار اس کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔ گزشتہ دہائیوں میں پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری اسی شعبے میں دیکھنے میں آئی ہے۔ ممکنہ عالمی بحران حجم اور اثرات میں کسی کی بھی توقعات سے کئی گنا زیادہ ہو سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے نامور جریدے اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ ’2008ء کا بحران اس کے سامنے ایک پکنک (picnic) محسوس ہو گا۔‘
امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی تمام تر کوششیں ابھی تک کارگر نہیں ہو سکی ہیں۔ بلکہ ان کوششوں کے نتیجے میں چین کے ساتھ تعلقات بھی خطرات سے دوچار ہوتے دکھائی دیئے۔ سعودی عرب سے ملنے والے پیکیج کی شرائط ابھی تک منظرِ عام پر نہیں لائی گئی ہیں ۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس میں یمن میں سعودی حمایت ایک کلیدی شرط ہو سکتی ہے ۔اس صورت میں ایرانی ریاست کے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے جس کا اظہار خود ریاست کے اندر کی باہمی کشمکش میں تیزی کی صورت میں ہو گا۔ دوسری طرف جمال خشقگی کے قتل کے گرد بننے والی سعودی سفارتی انحطاط کی صورتحال میں خود سعودی ریاست کا تناظر بہت تشویشناک ہوتا جا رہا ہے۔ صحافی کے قتل کا یہ واقعہ سعودی ریاستی بحران کی وجہ نہیں بلکہ پیداوار ہے مگر اب یہ خود اس بحران کو مزید شدید کرنے کا باعث بنے گا۔ یوں یہ نام نہاد سعودی پیکیج بھی آئندہ سالوں میں ادھورے پن کا شکار ہو سکتا ہے۔معیشت کے ساتھ ساتھ پاکستانی ریاستی مشینری کے داخلی تناؤ پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی عرب امریکہ کے اتحادی کے طور پر پاکستانی ریاست پر سب سے زیادہ اثر رکھنے والا ملک ہے۔ اس نام نہاد پیکیج کے بعد حافظ سعید اور دیگر کالعدم بنیاد پرست گروپوں پر سے پابندیوں کے خاتمے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں اور یہ وہ محاذ ہے جہاں اس خطے میں اکثر اوقات امریکی اور سعودی سامراجوں کے مفادات میں قدرے ٹکراؤ کی صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی واضح شکلیں ہم مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور ترکی کے تعلقات کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے مسلسل بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور اپنی سرحدوں پر یمن اور بحرین جیسے ممالک میں ایرانی مداخلت کا ردِ عمل پاکستان اور ایران کی سرحد پر واقع بلوچستان کو ایران کے لئے ایک وجودی تنبیہ(Existential Threat) بنا کر دینا چاہتا ہے۔ سب سے پہلے مارکس وادیوں نے ہی اس کی نشاندہی کی تھی اور آج یہ کافی حد تک کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ مگر امریکہ اور بھارت اور حتیٰ کہ چین بھی صورتحال کی نزاکت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان پر ان بنیاد پرستوں کی حمایت ترک کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ یوں جہاں پاکستان اپنے معاشی بحران کے باعث بیک وقت تمام سامراجیوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہے وہیں عالمی تعلقات کی حساسیت اسے ایک یا دوسرے سامراج کی کٹھ پتلی بننے پر مجبور کر رہی ہے اور یہی وہ بند گلی ہے جو گزشتہ کئی عشروں سے افغانستان ، بلوچستان اور پشتونخواہ میں پاکستانی ریاست کی پالیسیوں کے تسلسل کا منطقی نتیجہ ہے۔
سرمایہ داری کے بحران کی شدت پوری دنیا میں قومی مسئلے کو ایک دفعہ پھر ابھار رہی ہے۔ پاکستان بھی مختلف سامراجی ممالک کی لڑائیوں میں پس رہا ہے اور یہاں قومی مسئلہ پہلے سے کہیں زیادہ سلگ رہا ہے۔ ہم PTM کے ابھار کی شکل میں حال ہی میں اس کا اظہار دیکھ چکے ہیں۔ ابھی امریکہ پاکستان پراس خطے میں چین کی مداخلت کے اثرات کو معتدل کرنے کے لئے بھارت کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ اس حوالے سے مسئلہ کشمیر کی اہمیت پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سی پیک نے بھی کشمیر اور بالخصوص گلگت میں کئی نئے بحرانوں کو جنم دیا ہے جہاں عوامی ردِ عمل مسلسل بڑھ رہا ہے جو ریاست کے لئے بے قابو بھی ہو سکتا ہے۔ اسی ہفتے صدر نے گلگت کا دورہ کیا مگر ساتھ ہی عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کی گرفتاریوں کے احکامات بھی صادر کیے جا چکے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے اس قسم کی نام نہاد خیر سگالی کی تمام تر کوششیں اور خواہشیں بے سود ہو جاتی ہیں۔ پاکستانی ریاست کے امریکہ نواز دھڑے کے ساتھ ساتھ تاجر اشرافیہ کے سنجیدہ حلقوں میں بھی بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش موجود ہے جس کا اظہار حال ہی میں وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی ایک تقریر میں نظر آیا جس میں پاکستانی ریاست کی کشمیر پالیسی کو کسی حد تک آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا گیا کہ گلگت اور کشمیر کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیتے ہوئے انسانی حقوق کے عالمی کمشنر کو ان تک رسائی دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور پاکستانی ریاست کو کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی طرف جانا چاہیے۔ ریاستی یا حکومتی سطح پر جہاں اس قسم کی بحث میں اتفاقِ رائے پیدا ہونے کے امکانات مسدود ہیں وہیں اس کے کشمیرکی جدوجہدِ آزادی پر تو شاید اتنے اثرات نہ پڑیں مگر دیگر قومی تحریکوں کو اشتعال ضرور ملے گا۔ سوال یہ ہے کہ کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی وکالت کرنے والے بلوچستان میں اسی حقِ خود ارادیت کی مخالفت اور مدافعت کیسے کر سکتے ہیں۔ یوں آنے والے دنوں میں ریاستی اداروں کی رٹ اپنا جواز مزید کھونے کی طرف جائے گی۔ مذہبی شدت پسندوں اور فرقہ واریت پر مسلسل بڑھتا ہوا انحصار ریاستی پالیسیوں کو مزید ننگا کرے گا۔ تحریکِ لبیک کی انتخابی سیاست اور علاقائی سطح پر پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اس سے پرانے مذہبی مہرے مولانا فضل الرحمان میں عدم تحفظ کا احساس بہت بڑھا ہے جو اب کھل کر ریاستی اداروں کو رسوا کر رہا ہے۔پہلے ہی مقدس سمجھے جانے والے ریاستی اداروں پر تنقید سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر بھی معمول بنتی جا رہی ہے۔میڈیا بھی سرکاری اشتہارات کے بند ہونے کے بعد مزید مشتعل ہو رہا ہے جو سیاسی عدم استحکام میں مزید بڑھاوے کا باعث بنے گا۔
ان تمام بحرانوں کے عوام کے شعور پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ دنیا بھر کی نوجوان نسل کی طرح پاکستان میں بھی محنت کشوں اور نچلے درمیانے طبقے کی نئی نسل نظام، ریاست اور اداروں پر سوال اٹھا رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر پابندیاں لگا کر آنے والے دنوں میں اس کا تدارک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پالیسی ساز یہ سمجھتے ہیں کہ شاید نئی نسل محض سوشل میڈیا کی وجہ سے تنقیدی روش اپنا رہی ہے جبکہ ٹھوس مادی حالات عوامی شعور کو اس راستے پر چلنے پر مجبور کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا محض اس راستے میں ایک سہولت کار کا کام کر رہا ہے۔ سہولت کار کے بغیر بھی اس عمل کا قدرے تاخیر سے ہی سہی آگے بڑھنا ناگزیر تھا۔ مگر اب سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی ہر ایک پابندی عوامی ردِ عمل کو کم کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ بڑھاوا دے گی۔ مسئلے کی جڑ طبقاتی اور ملکیتی نظام ہے جس کے نام نہاد جمہوری لبادے مکمل طور پر چاک ہو چکے ہیں۔ لوگوں کو صاف صاف نظر آ رہا ہے کہ ڈیم کی تعمیر کی مد میں بجلی کے بلوں اور ریلوے کے کرایوں وغیرہ میں غریب عوام سے اربوں روپے بٹورنے والی اور ملکی قرضے اور خالی خزانے کا رونا رونے والی حکومت میں بیٹھے اربوں پتی ملکی مفاد کے لیے رتی برابر بھی اپنی دولت اور منافعوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہیں ٹیکسوں اور قرضوں وغیرہ میں مزید چھوٹ دی جا رہی ہے۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی مظہر ہے کہ بحران کے دنوں میں بھی امیر زادوں کی عیاشیوں اور کمائی میں کمی آنے کی بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے۔ مشہور برطانوی اخبار گارڈین نے جمعہ 26 اکتوبر کو اپنی ویب سائٹ پر ایک آرٹیکل میں انکشاف کیا ہے کہ سوئس بینک UBSکی رپورٹ کے مطابق 2017ء میں دنیا کے ارب پتیوں کی دولت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ انسانی تاریخ میں کسی ایک سال میں امرا کی دولت میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ان ارب پتیوں نے اس ایک سال میں اپنی دولت کو 8.9 ٹریلین ڈالر تک پہنچا دیا۔دنیا بھر سے صرف 2158 ارب پتیوں نے گزشتہ سال اپنی مجموعی دولت میں 1.4 ٹریلین ڈالر کا اضافہ کیا جو سپین یا آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کے کل GDP سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سب عین اس وقت ہو رہا ہے جب دنیا بھر میں کروڑوں بچے سکول جانے سے محروم اور غذائی قلت اور قابلِ علاج بیماریاں ، جنگیں اور پراکسی جنگیں لاکھوں بے گناہوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہی ہیں۔ پاکستان ان تمام اعشاریوں میں دنیا کے ممالک میں سرِ فہرست ہے جبکہ پاکستان کے مٹھی بھر امیر لوگوں کے پاس بے پناہ دولت ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق رفیق حبیب، چوہدری گروپ آف انڈسٹریز، دانیال شون، ملک ریاض حسین، صدرالدین ہاشوانی ، میاں محمد نواز شریف ،سر انور پرویز ،آصف علی زرداری ،میاں محمد منشا پاکستان کے دس امیر ترین لوگ ہیں جن کے پاس مجموعی طور پر 20 ارب ڈالر سے کہیں زیادہ کے اثاثے ہیں جو اس وقت ملکی خزانے میں موجود رقم کے دوگنے سے بھی زیادہ ہے۔ جبکہ ہر سال ان اور ان جیسے دیگر اژدہوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور ملکی قرضے اور روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے گرنے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ طبقاتی خلیج ہے جو انسانی اجتماعی شعور پر مقداری طور پر اثرانداز ہوتی رہتی ہے اور بالآخر ایک معیاری جست کے ذریعے عوامی بغاوت کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔
مذکورہ بالا پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں کی فہرست میں اپنے آپکو عوام کا مسیحا بنا کر پیش کر نے والے آصف علی زرداری اور نوازشریف بھی شامل ہیں۔ یہاں ہم اس بات پر بحث نہیں کریں گے کہ ان کے پاس یہ دولت کیسے جمع ہوئی مگر ان کے طبقاتی کردار پر بہت زیادہ بحث کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ لوٹ مار کے اس نظام کا تسلسل ہی ان کی سیاست کا منشا اور خواہش ہے۔ یہ اسٹیٹس کو کے ہی لوگ ہیں جن کو نام نہاد تبدیلی سرکار کی ناکامی کی صورت میں دوبارہ متبادل کے طور پر ابھارنے کی کوشش کی جائے گی یا کی جا رہی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو انقلابی کہنے والے بہت سے دانشور اور سیاسی کارکنان بھی اس خبط یا غلط فہمی میں مبتلا ہو چلے تھے کہ شاید نواز شریف کسی جمہوری انقلاب کی قیادت کرے گا۔ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ شہباز شریف نے اپنے بھائی سے غداری کی بصورتِ دیگر نوازشریف کی ملک واپسی کے دن عوامی انقلاب کے مواقع موجود تھے۔ نواز شریف کی گرفتاری کے بعد ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر شہباز شریف جیل میں ہوتا تو نواز سڑکوں پر ہوتا اور انقلابی لڑائی کا آغاز ہوتا وغیرہ وغیرہ۔آج ان کی یہ خواہش پورے ہوئے بھی کئی ہفتے گزر چکے ہیں مگر انقلابی نواز شریف رہائی کے بعد نجانے کونسی بل میں جا گھسے ہیں۔ اب کچھ نام نہاد انقلابی رہنما جو موقع پرستی کی دلدل میں گردن تک دھنس چکے ہیں آئندہ برسوں میں مریم نواز کی ’پاپولسٹ قیادت ‘ کے ابھار کا تناظر تخلیق کر رہے ہیں۔ اس پر محض ہنسا ہی جا سکتا ہے۔ دراصل یہ پیٹی بورژوا دانشور محنت کش طبقے کے وجود سے مکمل طور پر انکاری ہیں اور انہیں نرسوں ، کلرکوں ، ڈاک لیبر ، سرکاری محکمہ جات ، پیرامیڈیکل اسٹاف اور سب سے بڑھ کر ابھی حال ہی میں یوٹیلیٹی سٹورز کے محنت کشوں کی فقیدالمثال جدوجہد بالکل نظر نہیں آتی جن میں سے بیشتر میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل کی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان میں مستقبل کے چند سالوں میں ہونے والے اہم واقعات کی چند جھلکیاں ہیں جو سماجی معمول کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ پاکستان بہت تیزی سے ایک بہت بڑے سماجی دھماکے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان غلیظ اور مکروہ موقع پرستوں کی بدگمانیوں کے برعکس نواز شریف سمیت مستقبل قریب میں مریم، بلاول یا کسی بھی شکل میں مسلط کردہ قیادت کا پردہ فاش کیا جاتا رہے اور عوام کی سیاسی مزاحمت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر طلبہ، کسانوں اورمزدوروں کی جدوجہدوں کو یکمشت کرنے کی کوششوں کو تیز کیا جائے اور نظریاتی ،فکری، ادبی اور عملی ہر میدان میں حکمرانوں اور ان کے دلال دانشوروں کا ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کیا جائے۔