|تحریر: بالشویک انڈیا آئی ایم ٹی، ترجمہ: یار یوسفزئی|
پچھلے 8 سالوں سے مودی حکومت محنت کشوں کے حقوق پر ایسے حملے کرتی رہی ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ 44 مزدور قوانین کی بجائے 4 لیبر کوڈ کے نفاذ کے نتیجے میں محنت کشوں کے استحصال میں مزید اضافہ ہوگا۔ اوقاتِ کار کے بڑھنے سے مزدوروں کے حالات بدتر ہوں گے اور ان کی برطرفیوں کی راہ بھی مزید ہموار ہو جائے گی۔ کرونا وباء نے پہلے سے ہی بیروزگاری اور عوام کی معاشی اذیتوں کو شدید کیا ہے اور ان اقدامات سے ملک بھر میں کروڑوں افراد کی زندگیاں مزید تباہ حال ہوں گی۔ مودی حکومت کے تحت بیروزگاری نام نہاد آزادی کے بعد سے بلند ترین شرح پر ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مودی نے بحران کے پیشِ نظر بڑے شعبوں کی مزید نجکاری کی ہے۔ تمام قدرتی وسائل کو نجی کمپنیوں کی لوٹ مار کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ مودی حکومت کے حالیہ سالانہ بجٹ میں اتنے دیوہیکل پیمانے پر نجکاریوں کا اعلان کیا گیا ہے کہ جس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ نیشنل مونیٹائزیشن پائپ لائن منصوبے میں ریلوے، دفاع، انشورنس، کان کنی، شاہراہوں، ائیرپورٹوں، بندرگاہوں، لائف انشورنس کارپوریشن، سپیشل اکنامک زون اور کئی دیگر شعبوں کی مزید نجکاری شامل ہے۔ یہ پالیسیاں عوام کے خون پسینے کو مزید نچوڑتے ہوئے سرمایہ داروں کی دولت میں اضافہ کرنے کا باعث بنیں گی۔
بائیں بازو کی جانب سے پیدا کیے گئے خلا کے باعث مودی حالیہ اسمبلی انتخابات میں پانچ ریاستوں کے اندر جیتنے میں کامیاب ہوا۔ کانگریس اور دیگر علاقائی پارٹیاں بی جے پی کا متبادل نہیں ہیں۔ وہ انہی سرمایہ دارانہ پالیسیوں پر عمل درآمد کرتی ہیں اور حکمران طبقے کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں۔ انتخابات میں مودی کی جیت کے پیچھے حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کے دیوالیہ پن کی وجہ ضرور ہے مگر اس کی ایک وجہ کمیونسٹ پارٹیوں کی ناکامی بھی ہے جن کے پاس سرمایہ داری کا تختہ الٹنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے اور جو قائدین کے چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے کرپٹ پارٹیوں سے ہاتھ ملا کر اتحاد قائم کرنے کے لیے ہمیشہ تیار ہوتی ہیں۔
مودی بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کر رہا ہے، جیسا کہ شہریت کے قوانین، مذہب تبدیل کرنے اور حجاب پر پابندیاں متعارف کر کے کیا جا رہا ہے، اور مذہبی اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کے اوپر مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ حربے حکمران طبقے کے فائدے میں جاتے ہیں کیونکہ یہ سیاست کا رُخ طبقاتی بنیادوں اور سلگتے معاشی مسائل سے ہٹا کر مذہب کی جانب موڑتے ہیں۔ اپوزیشن پارٹیاں، بشمول دائیں بازو کی رجعتی عام آدمی پارٹی، جو ابھی دہلی سمیت پنجاب میں بھی جیت چکی ہے، بھی مذہبی منافرت کے شعلوں کو ہوا دیتی رہتی ہیں جو طبقاتی جدوجہد کو کمزور کرنے کی کوشش میں مذہبی ہم آہنگی اور فرقہ وارانہ امن کے نعرے لگاتی ہیں۔
حکومت میں چاہے جو بھی پارٹی آئے، عوام کو درپیش وحشتوں کا حل سرمایہ داری کے اندر موجود نہیں ہے۔ نسلی امتیاز، دائیں بازو کے گروہوں کے ہاتھوں مذہبی اقلیتوں پر حملے اور فرقہ وارانہ فسادات مودی حکومت کے تحت معمول کی باتیں بن گئی ہیں۔ مگر ان ظالمانہ حملوں اور وباء کے باوجود، حالیہ سالوں میں بھارت بھر کے اندر بڑے احتجاج اور ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ مودی کو کسانوں کی جدوجہد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے تھے اور وہ کسان دشمن قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہوا تھا۔ کسان تحریک کی فتح ثابت کرتی ہے کہ طویل عرصے پر محیط متحدہ اور مستقل جدوجہد خونخوار حکومت کے پنجوں سے بھی کامیابی چھین کر لا سکتی ہے۔
کسانوں کی جدوجہد نے بطورِ مجموعی محنت کش طبقے کے سامنے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ انتخابات کے میدان سے باہر بھی جدوجہد کے ایسے محاذ موجود ہیں جن میں وہ اپنی لڑائیاں جیت سکتے ہیں اور بڑے کاروباروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پشت پناہی میں موجود حکمران طبقے کو شکست سے دوچار کر سکتے ہیں۔ اس غرض سے ایک ملک گیر عام ہڑتال بہترین طریقہ ہے۔ اس حوالے سے ملک بھر میں دو روزہ عام ہڑتال ایک اہم سنگِ میل ہے مگر مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ غیر معینہ مدت کی عام ہڑتال نہ صرف مودی حکومت پر آخری وار ثابت ہوگی بلکہ یہ ملک میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کو بھی للکارے گی۔ یہ ملکی سیاست کو بھی تبدیل کرے گی اور محنت کشوں کی ابھرتی لہر تمام رجعتی، سرمایہ داروں کی حامی قوتوں کو بہا لے جائے گی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دے گی۔
سوشلسٹ انقلاب میں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے کاروباروں کے اوپر قبضہ کرتے ہوئے معیشت کے کلیدی شعبوں کو محنت کشوں کے اختیارات میں لیا جائے گا اور منڈی کی معیشت کی بجائے جمہوری منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے گی۔ محض یہی ایک حل ہے اور تاریخ کے بدترین بحران کے شکار عوام کو اسی جانب بڑھنا ہوگا۔
بھارت کے محنت کشوں کو ٹریڈ یونین کے روایتی قائدین کا مسئلہ بھی درپیش ہے جو عام ہڑتال کو حکومت کا تختہ الٹنے کا ذریعہ نہیں بلکہ محض ایک ایسا احتجاج سمجھتے ہیں جسے ریکارڈ کر کے سب اپنے گھروں کو واپس لوٹ جائیں گے۔ ہمیں ان سے بہتر قائدین کی ضرورت ہے۔ ہمیں نچلی پرتوں سے ابتداء کرتے ہوئے یونینز کے اندر اپوزیشن تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایک متبادل قیادت تعمیر کی جا سکے، ایک ایسی قیادت جو حقیقی معنوں میں محنت کشوں کی نمائندگی کرتی ہو۔
بائیں بازو، یعنی مختلف کمیونسٹ پارٹیاں اور ٹریڈ یونین قیادت دہائیوں سے کانگریس، اور آر جے ڈی، ڈی ایم کے اور سماج وادی جیسی علاقائی سرمایہ دارانہ پارٹیوں کے پیچھے لگی ہوئی ہیں، جو ان کو نام نہاد ”ترقی پسند“ بورژوا کے نمائندگان سمجھتی ہیں۔ آج بھارت کے اندر ترقی پسند سرمایہ دار نامی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ وہ سارے مزدوروں اور کسانوں کے خلاف متحد ہیں۔ بائیں بازو کو یہ پالیسیاں ترک کرنی ہوں گی اور سمجھنا ہوگا کہ محض طبقاتی جڑت اور انقلابی مارکسزم کے تحت محنت کشوں کی مستقل جدوجہد کی بنیاد پر ہی مودی حکومت اور تعصب و نفرت پر مبنی ان کی زہریلی سیاست کو شکست دی جا سکتی ہے۔
آج ہمارا فریضہ ہے کہ محنت کشوں کو درکار لڑاکا قیادت تعمیر کرنے کا آغاز کریں۔ اس کی شروعات بھارت کے مزدوروں اور نوجوانوں کی تحریک کے اندر حقیقی مارکسی رجحان تعمیر کرنے سے ہوگی۔ ہم آپ کو بھی اس فریضے میں ہمارا ساتھ دینے کی دعوت دیتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں:
۔ مزدور دشمن قوانین مسترد کرو!
۔ نیشنل مومیٹائزیشن پائپ لائن کا منصوبہ بند کرو!
۔ ٹیلی کام، لائف انشورنس کارپوریشن، دفاع، ریلوے اور دیگر سرکاری شعبوں کی نجکاری بند کرو!
۔ ہر مزدور کو 30 ہزار (انڈین روپے) کی کم از کم اجرت فراہم کرو!
۔ مہنگائی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ نامنظور!
۔ پریکول کے برطرف محنت کشوں کو بحال کرو!
۔ ہم ماروتی، پریکول اور فاکس کون کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں!
۔ بجلی کا ترمیمی بل نامنظور!
۔ کسانوں کے تمام مطالبات پورے کرو!
۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں، صنعت، بینکوں، شعبہ صحت اور انشورنس کی دولت پر قبضہ کرتے ہوئے ان کو محنت کشوں کے اختیارات میں لیا جائے!
۔ شعبہ صحت اور تعلیم کو قومیا لیا جائے!
۔ غیر معینہ مدت کی ہڑتال کی جانب بڑھو!
۔ سوشلسٹ انقلاب کی جانب بڑھو!
۔ محنت کشوں کی جدوجہد زندہ باد!
۔ دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ!