|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
اگست کے پہلے ہفتے میں سندھ بھر کی نرسنگ سٹوڈنٹس نے جعلی رزلٹ کیخلاف احتجاجی دھرنے دیے، جس کی رپورٹ ہم پہلے شائع کر چکے ہیں۔ اِن نتائج کے تحت صوبے بھر کی 51فیصد نرسنگ سٹوڈنٹس کو فیل کردیا گیا، جبکہ اس سے پہلے کبھی بھی یہ تناسب 25 سے30فیصد سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ ینگ نرسنگ ایسوسی ایشن سندھ کی سرپرستی میں چلنے والی اُس احتجاجی تحریک کو ان کے قائدین نے متعلقہ حکام سے مذاکرات کے بعد ختم کر دیا تھا جس میں یہ طے پایا کہ نرسنگ بورڈ کی جانب سے غلطی سر زد ہوئی ہے اور تمام سٹوڈنٹس کو پاس کر دیا جائے گا۔ یہ فیصلہ متعلقہ حکام نے کئی احتجاجی سٹوڈنٹس کے زبانی امتحان لینے کے بعد کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی احتجاجی تحریک ختم کی گئی، تمام حکام اور بورڈ والے اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اس سب عمل سے ایک بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ دیگر تمام محکموں کی تحریکوں کی طرح محکمہ صحت کے افسروں نے بھی صرف احتجاجی تحریک کو توڑنے کے لیے جھوٹے وعدے کئے تھے، تاکہ نرسنگ سٹوڈنٹس کی آپسی جڑت اور طاقت کے اظہار کو فوراً روکا جا سکے۔
احتجاج کی قیادت کرنے والے حضرات اب نرسز کو یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو دھرنا ختم ہی نہیں کرنا چاہیے تھا، جب کہ دھرنے کا خاتمہ اور مذاکرات کا سارا عمل انہی لوگوں نے ہی کیا تھا اور انہی کی یقین دہانی پر سٹوڈنٹس نے دھرنا ختم کیا تھا۔ اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ تمام سٹوڈنٹس نے سپلیمنٹری کے امتحانات کے لیے داخلہ تو بھیج دیا ہے لیکن کیونکہ احتجاج کے دوران نعرے لگوانے والوں نے اور بینرز پر بھی خاص طور پر تمام نرسنگ بورڈ کو ادارے کے طور پر تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے، توپوں کا رخ صرف ایک شخص یعنی نرسنگ بورڈ کی چیئر پرسن خیر النساء کے خلاف رکھ دیا گیا۔ اب بورڈ کی جانب سے (غیر سرکاری طور پر) کہا جا رہا ہے کہ جو سٹوڈنٹس فی کس پانچ ہزار ادا کرے گا صرف اسے پاس کیا جائے گا، ورنہ سپلیمنٹری کے امتحان میں بھی خاص طور پر احتجاج کرنے والوں کو فیل کیا جائے گا۔ اس تمام صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر اب تک تین نرسنگ سٹوڈنٹس خود سوزی کی کوشش کر چکے ہیں، جس میں ایک کی حالت ابھی بھی نازک ہے۔ کیونکہ یہ سٹوڈنٹس ماضی میں ٹاپ کر چکے ہیں اور اب ان کی ڈپلومے کی ڈگریوں پر یہ لکھا جائے گا انہوں نے سپلیمنٹری کے ذریعے امتحان پاس کیا، یوں ان کا مستقبل اورکیر ئیر داغدار کیا جا چکا ہے۔ نرسنگ سٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ ان کا اپنا اور خاندان کی آمدن کا دارومدار انہی پر ہے، اس لیے یہ حملہ پورے گھرانوں پر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں اپنی سٹوڈنٹس کا ساتھ دینے والی نرسنگ ٹیچرز کوبھی انتقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر جھوٹے مقدمات دائر کئے گئے ہیں۔ احتجاج کی قیادت کرنے والے کچھ سٹوڈنٹس کو اور احتجاج کا حصہ نہ بننے والے فیل سٹوڈنٹس کو بھی پاس کیا گیاہے، جس سے افسران کی بدنیتی واضح ہو گئی ہے کہ اپنے مستقبل کے لیے لڑنے والے اکثریتی سٹوڈنٹس کو ہی خاص کر نشانہ بنا یا جا رہا ہے، اور انہیں یہ جتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ظلم سہتے رہو لیکن احتجاج کرو گے تو ہم تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑیں گے۔ صورتحال یہ ہے کہ صرف جناح ہسپتا ل کراچی کی چوتھے سال کی کلاس جو کہ 75 سٹوڈنٹس پر مشتمل ہے، ان میں صرف 14 لوگ پاس ہیں، پہلے، دوسرے، تیسرے سالوں، اور باقی تمام اداروں میں موجود دیگر سٹوڈنٹس کا بھی یہی حال ہے۔ لیکن اس تمام زیادتی کے باوجود بھی زیادہ تر سٹوڈنٹس خوف کا شکار ہونے کی بجائے شدید غصے میں ہیں، ان کا کہنا ہے کہ انہیں اندر(اپنی قیادت ) اور باہر کے افسران نے جتنا ذلیل کرنا تھا کر لیا، اب اگر انہیں سپلیمنٹری میں بھی فیل کیا گیا تو ہم مل کر ماضی کی تمام صورتحال سے سیکھتے ہوئے ایک تازہ دم احتجاجی تحریک چلائیں گے، جو اپنے تمام مطالبات عملاً منوائے بغیر ختم نہیں کی جائے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ نرسنگ سٹوڈنٹس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی شدید مذمت کرتا ہے اور آگے بھی ان کی لڑائی میں بھرپور ساتھ دیا جائے۔