|رپورٹ: انفارمیشن سیکرٹری ریڈ ورکرز فرنٹ، کراچی|
30 نومبر سے کراچی پریس کلب کے باہر دو سال سے منظور شدہ نرسز کا فور ٹائیر فارمولا کے تحت پروموشن اور اپ گریڈیشن پر عملدرآمد، کووڈ نرسز کی مستقلی اور تنخواہوں کے اجراء، صوبے بھر کے نرسز کے ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس کی منظوری، مینجمنٹ کیڈر میں نرسز کی شراکت داری اور خالی آسامیوں پر فی الفور بھرتی، شعبہ صحت میں نرسز کی شدید قلت کے پیش نظر کم از کم دس ہزار نرسز کی نئی اسامیوں اور فی الفور بھرتی، جناح ہسپتال اور قومی ادارہ برائے امراض قلب کے نرسز آڈٹ کی کاپی کے اجراء اور ڈاؤ ہسپتال کے نرسز کے سروس سٹرکچر میس و ڈریس الاؤنس کے اجراء کے مطالبات کے گرد 18 روز تک جاری رہنے والا احتجاجی دھرنا بالآخر کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اس دھرنے نے اہم کامیابیاں حاصل کیں ہیں، جن میں درج ذیل کامیابیاں شامل ہیں:
گریڈ16 سے 20 تک 8 ہزار ماہوارہیلتھ پروفیشنل الاؤنس، گریڈ 17 کے نرسز پروموشنز، اور گریڈ 16 کے نرسز کی سینیارٹی لسٹ تیار، گریڈ 16 کے نرسز کے پروموشنز 25 جنوری تک DPC کے ذریعے کردئیے جائیں گے، ڈیپوٹیشن پالیسی ڈائریکٹوریٹ اور ینگ نرسز ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر بنائیں گے، طلبہ نرسز کے وظیفہ بڑھانے کے لئے بھی سمری تیار کی جائے گی۔
ان اہم مطالبات کی منظوری کے بعد احتجاج ختم کردیا گیا ہے جوکہ ایک بار پھر یہ واضح کرتا ہے کہ اپنے جائز حقوق کا حصول بھی منظم جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔
اس احتجاجی سلسلے میں پریس کلب پر مرکزی دھرنے کے علاوہ بھی کراچی سمیت سندھ بھر کے تمام کے ہسپتالوں میں روزانہ کی بنیاد پر نرسز نے کام چھوڑ ہڑتال، احتجاجی دھرنے اور مظاہرے کیے۔ اس احتجاجی تحریک کے سلسلے میں کراچی میں کئی بار سی ایم ہاؤس کی جانب مارچ کیے گئے، سندھ سیکریٹریٹ کا بھی گھیراؤ کیا گیا۔ اس دوران شعبہ صحت کے افسران نے ایک بار دھرنے میں آکر کہا کہ ہم اتنے نرسز کے پروموشن اور الاؤنسز تو نہیں دے سکتے! پیسے نہیں ہیں! ایسی وباء کی صورتحال اور کراچی سمیت سندھ بھر کے پہلے سے شدید اوور لوڈڈ ہسپتالوں کے بد حال مریض اور تمام تر عملہ پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ ایسے میں عوامی صحت کی سہولت مہیا کرنے والوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم رکھنا عوام دشمنی کے مترادف ہے۔ یہاں کے محنت کشوں اور عوام کا پیسہ لوٹ کر سرمایہ داروں کی سہولت کار بننے والی سندھ سرکار اپنے مزدور دشمن اقدامات میں سب کو پیچھے چھوڑ چکی ہے۔ احتجاج کے مرکز پریس کلب پر ینگ نرسنگ ایسوسی ایشن کے علاوہ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن، کووڈ نرسز و ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف سمیت گرینڈ ہیلتھ الائنس سندھ کے لوگ بھی رہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے مسلسل احتجاج کے بعد بھی منظور کی گئی سمری پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا تھا کیونکہ اس سمری کو بھی محض احتجاج کو ختم کروانے کے لیے ہی منظور کیا گیا تھا اور حقیقت یہی ہے کہ سندھ سرکار کا شعبہ صحت، اس کے محنت کشوں اور عوام کی صحت پر خرچ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن نرسز کے شاندار احتجاج نے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ احتجاجی تحریک کے دوران جب مطالبات کی شنوائی نہ ہوئی تو نرسز نے سی ایم ہاؤس کی جانب احتجاجی مارچ کیا، اسی مارچ کے دوران نام نہاد جمہوریت کی علمبردار سندھ حکومت نے پر امن نرسز، ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کے احتجاجی مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بڑی تعداد میں انہیں گرفتار کیا۔ ان گرفتاریوں اور سندھ پولیس کے ناروا سلوک کے بعد نرسز نے صدر تھانے کے سامنے ہی احتجاج کا فیصلہ کیا اور سندھ بھر کے ہسپتالوں میں فوری طور پر مکمل کام چھوڑ ہڑتال کی کال دی جس میں او پی ڈی اور ایمرجنسی کی تمام ڈیوٹیوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔ یہ شعبہ صحت کے وہ ملازمین ہیں جو کرونا جیسے جان لیوا وائرس سے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر لڑ رہے تھے اور اُس وقت سندھ سمیت وفاقی حکومت انہیں سفید جھنڈے اور جھوٹی سلامیاں پیش کر رہے تھے اور اب ان پر لاٹھیاں، ڈنڈے برسائے گئے اور گرفتار کیا گیا۔ گرفتار نرسز، ڈاکٹرز اور پیرامیڈکس کو بروقت اور پرزور مزاحمت کی بنیاد پر رہا کروا لیا گیا اور ایک بار پھر سے اپنے مطالبات کے حصول کے لیے مارچ کو وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب جاری رکھا گیا۔
ریڈ ورکرز فرنٹ احتجاجی نرسز کے مطالبات کے گرد بننے والی تحریک کی حمایت میں مسلسل ساتھ رہا ہے۔
موجودہ جدوجہد سے کئی اہم مطالبات حکمرانوں کے حلق سے نکلوائے گئے ہیں۔ لیکن ابھی بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں جن میں خاص کر کووڈ ڈاکٹرز اور نرسز کی مستقلی اور تنخواہوں کے بروقت اجراء کا معاملہ ہے۔ وہ اس جدوجہد میں شانہ بشانہ لڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سکیل کی نرسز کے سکیل اپ گریڈیشن ہونا اور بڑے پیمانے پر ہسپتالوں میں سٹاف کی کمی کے پیشِ نظر فوری بھرتیوں کی ضرورت بہت اہم مطالبات ہیں۔ جن کے لیے جدوجہد کرنا نہ صرف شعبہ صحت کے تمام محنت کشوں، بلکہ عوام کی صحت کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے بھی ناگزیر ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ نرسز کی اپنے جائز حقوق کی جدوجہد کی یہ طویل داستان بہت اہم اسباق لیے ہے۔ نرسز کے ساتھ ساتھ سندھ بھر کے ویکسینیڑر ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے سے کراچی پریس کلب پر سراپا احتجاج رہے ہیں جو کہ نرسز کی طرح ہی سندھ حکومت اور شعبہ صحت کے افسران کے جبر کا شکار ہیں۔ نہ صرف انہیں بلکہ شعبہ صحت کو اپنی محنت کے بلبوتے پر چلانے والے سبھی محنت کشوں کو ساتھ جوڑتے ہوئے پورے شعبہ صحت میں احتجاجی تحریک کا ازسرنو آغاز کرنے کی ضرورت ہے۔ شعبہ صحت کے ملازمین کی مشترکہ طاقت وہ بنیاد فراہم کرسکتی ہے جس کے ذریعے سبھی کے مسائل حل کروائے جا سکتے ہیں۔ ایک مکمل ہڑتال سے کم سے کم وقت میں بڑی قوت کا برملا اظہار کرتے ہوئے اشرفیہ اور حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس شعبے کی مکمل ہڑتال اور بندش عام عوام کی زندگیوں سے وابستہ ہے، جس سے حکومت تو بے پرواہی برتتی چلی آرہی ہے لیکن اس شعبے کے محنت کش عوام دشمنی کی ایسی کوئی نیت نہیں رکھتے۔ لیکن حکومت کی جانب سے بارہا انہیں احتجاج پر مجبور کیا جاتا ہے، یہ تمام صورتحال فی الفور اور مستقل حل کی متقاضی ہے جس کے لیے اس احتجاج میں شعبہ صحت کے ہر ایک محنت کش کی شرکت لازمی ہے۔