سندھ: ڈاکو راج اور ریاستی نا اہلی کے خلاف عظیم الشان عوامی احتجاج

گزشتہ ماہ سے کندھ کوٹ اور شکار پور میں محنت کش عوام کی جانب سے مسلسل بدامنی کے خلاف احتجاج جاری ہیں، جس کی حمایت میں اب تنگوانی سے لے کر دیگر متاثرہ علاقوں میں بھی احتجاج کیے جارہے ہیں۔ جن میں سینکڑوں کی تعداد میں شہریوں کی شرکت دیکھی جاسکتی ہے جو امن کے حصول اور ڈاکو راج کو للکارتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

یہ احتجاج تمام حکمرانوں اور ان کے پالتو دانشوروں کے منہ پر طمانچہ ہیں جو محنت کش عوام کو کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں کہ جنہیں جب چاہا جھاڑو سے مار ڈالا یا ایک جگہ سے دوسری جگہ دھکیل دیا۔ ان احتجاجوں میں عوام نے دکھایا کہ وہ کیڑے مکوڑے نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں جو واپس مُڑ کر جوابی حملہ بھی کر سکتے ہیں۔

یہ احتجاج ان شہروں اور قصبوں میں ہورہے ہیں جہاں بعد از مغرب کو نکلنا موت کو دعوت دینے جیسا تھا۔ اسی خوف کو مسترد کرتے ہوئے عوام امن کا سفید پرچم لیے راتوں کو شمع جلا کر ”امن کی دھرتی کو امن چاہیے“ کے نعرے لگا کر ڈاکوؤں اور ان کی پشت پر بیٹھے ریاستی اہلکاروں کو للکارتے ہوئے نظر آئے۔

واضح رہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے پنجاب، بلوچستان اور سندھ پر مشتمل کچے کا علاقہ ڈاکوؤں کے زیر اثر رہا ہے۔ جہاں عام شہریوں کا جانا تو دور پولیس و فورسز کیلئے بھی ان علاقوں میں داخلہ ممنوع ہے۔ عوامی پریشر کی وجہ سے ان علاقوں کو کلئیر کرانے کیلئے فورسز کو متعدد آپریشنز بھی کرنے پڑے جن کی وجہ سے سندھ کے کچے کو چھوڑ کر دیگر علاقوں میں کسی حد تک امن قائم ہونے کی طرف گیا۔ سندھ کے کچے میں ڈاکوؤں نے صرف گزشتہ تین سالوں میں 200 سے زائد نہتے لوگوں کو بندی بنایا ہے جن میں پانچ سے بارہ سال کے بچے بھی شامل ہیں۔ ان معصوم شہریوں پر نہ صرف اغوا کرکے غیر انسانی تشدد کیا جاتا ہے بلکہ ان میں اکثر و بیشتر لوگوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے ان کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالی جاتی رہی ہیں۔

اسی طرح اساتذہ، واپڈا کے محنت کش اور یہاں تک کہ فری لانسنگ سے منسلک نوجوانوں کو بھی اغوا کرنے سے لے کر بھتوں کی پرچیاں موصول ہونے جیسے مسائل کا مسلسل سامنا ہے۔

ان ڈاکوؤں کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ہتھیار کہاں اور کیسے ان تک پہنچتے ہیں، یہ سوال اپنی جگہ جوں کا توں ہے۔ جبکہ اس پورے معاملے کے اندر ریاست کا کردار محض خاموش تماشائی کے طور پر سامنے آیا ہے۔ پولیس سے لے کر مقامی وزراء ان ڈاکوؤں اور اغوا ہونے والوں کے خاندانوں کے درمیان مڈل مین یا بیوپاری جیسا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مغویوں کے سروں کے سودے ڈاکو نہیں بلکہ پولیس سٹیشن اور مقامی نام نہاد لیڈران کے بنگلوں (جنہیں منڈی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا) پر لگائے جاتے ہیں۔

یہ ریاست، اس کے پارلیمان میں بیٹھے حکمرانوں اور پولیس کا اصل چہرہ ہے جن کا مقصد عوام کی حفاظت نہیں بلکہ ان کے جان کی سودے بازی کرنا ہے۔ اس غیر انسانی سلوک کیلئے انہیں جتنی بڑی سزا دی جائے وہ کم ہے۔

عوام کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک یہ حکمران ہم پر مسلط ہیں اس ظلم و جبر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ان حکمرانوں اور ان کی ریاست کا خاتمہ ہی جبر کا خاتمہ کر سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ظلم کے خلاف چلنے والی تمام تحریکوں کو جوڑتے ہوئے ایک ملک گیر تحریک کے جانب بڑھا جائے۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی ڈاکو راج کی ذمہ دار ریاست کو سمجھتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکو راج کے خلاف فوری طور پر جدوجہد کو منظم کرنے کیلئے علاقوں، گاؤں، شہروں اور محلوں کی سطح پر دفاعی کمیٹیاں تشکیل دی جانی چاہئیں۔ بہر حال اس ڈاکو راج کے ناسور سمیت مہنگائی، بیروزگاری، لا علاجی، وڈیرا راج، پولیس گردی سمیت دیگر مسائل کا مستقل حل ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی ایک سوشلسٹ انقلاب کیلئے ہی جدوجہد کر رہی ہے۔ ہمارے ممبر بنیں اور اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔

Comments are closed.