|تحریر: علی عیسیٰ|
عالم انسانیت جس عہد میں سانس لے رہی ہے یہ انسانی تاریخ کابھیانک ترین عہد ہے، جہاں سرمایہ دارانہ نظام اپنی طبعی عمر مکمل کرکے زوال پذیری کے اس نہج پر ہے کہ اس کا مرنا ناگزیر بن چکا ہے۔ جس کے سبب سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا میں تباہی و بربادی پھیلا رہا ہے۔ مٹھی بھر لوگوں کی دولت دن بدن بڑھتی جارہی ہے جبکہ انسانی آبادی کی اکثریت بھوک، لاعلاجی، مہنگی تعلیم، بیروزگاری اور غربت کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں۔
اس لیے عظیم مارکسی استاد لینن نے کہا تھا کہ”سرمایہ داری لامتناہی دہشت ہے۔“
لہٰذا ایسے حالات میں جب سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے محافظ حکمران، عوام کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پارہے تو حکمران طبقہ اپنی پرمسرت زندگیاں جاری رکھنے کے لیے ریاستی جبر کا سہارہ لیتے ہوئے محنت کش اور مظلوم قومیتوں کے حقوق پر قدغن لگا رہا ہے (واضح رہے ریاست وہ ادارہ ہے جو سرمایہ دار طبقے کی ملکیت کو جبراً و قانونی حفاظت فراہم کرتا ہے)۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کے حکمران ہوں یا تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے حکمران، ہر جگہ ریاستی جبر بھیانک روپ اختیار کرتا جارہا ہے۔ اسے لیون ٹراٹسکی کے الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ”ریاست جتنی کھوکھلی ہوتی جاتی ہیں اتنا ہی ریاستی جبر شدت اختیار کرتا جاتا ہے۔“ اسی طرح پاکستانی ریاست جتنی لاغر و کمزور ہوتی جارہی ہے اتنا ہی محکوم اور پسے ہوئے طبقات کے ساتھ مظلوم قومیتوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں بھی اضافہ کرتی جارہی ہے۔ اسی تسلسل میں پاکستانی ریاست نے چینی سامراج کے ایماء پر سندھ کے دو بڑے جزیرے بھنڈار اور ڈنگی، بین الاقوامی کمپنی کو اونے پونے داموں بیچ دیے ہیں۔
یہ جزیرے مملکت خداد داد کے صدر عارف علوی کی جانب سے جاری کردہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ملٹی نیشنل کمپنی کو فروخت کیے گئے۔ جس کے تحت سندھ و بلوچستان کے جزیروں پر پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی (PIDA) کے اختیارات ہونگے۔ کوسٹل اتھارٹی اور سمندری معاملات کی وزارت کی ویب سائٹ پر 26 صفحوں پر مشتمل آرڈیننس میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ 12 ناٹیکل میل پر مبنی ساحلی پٹی اب وفاقی ملکیت کے زمرے میں آئے گی۔ جیسے کسی بھی ادارے کو فروخت کرنے کا اختیار فقط اتھارٹی کے 11 ممبران کو ہے۔ اس آرڈیننس کو پاکستانی آئین کے مطابق کوئی بھی چیلنچ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ واضح رہے یہ آرڈیننس 6 جولائی کو سندھ حکومت کی لینڈ یوٹیلائیزیشن کے سیکرٹری سندھ کابینہ کے دستخط سے منظور ہوا، جسے 2 ستمبر کو مملکت خداد داد کے صدر کے دستخط کے بعد 2 اکتوبر کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے قبل مشرف دور میں بھی جب لبرلائزیشن کی گئی اور بہت سے عوامی اداروں میں نجکاری کی گئی تو اسی دوران 2006 میں پرویز مشرف نے یہی دونوں جزیرے بھنڈار اور ڈنگی، دبئی کی کسی کمپنی کو اونے پونے داموں فروخت کرنے کی کوشش کی مگر اسے عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی اسکا اقتدار ختم ہو گیا، جس کے سبب معاملا ٹھنڈا پڑگیا۔ اسی طرح 2013 میں سندھ کارڈ کھیلنے والے، لبرلوں کی ”انقلابی پارٹی“، پیپلز پارٹی کی حکومت میں یہی دونوں جزیرے امریکی کمپنی تھامس کریمر اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے حوالے کرکے دونوں کمپنیوں کے ساتھ 45 ارب ڈالر کے منصوبے کا معاہدہ کیا گیا جسے بعد ازاں عوامی دباؤ کے سبب منسوخ کیا گیا۔
حالیہ دنوں میں بھی جزیروں کے مسئلہ پر سندھ کی عوام میں کسی حد تک غم و غصے کا اظہار پایا جاتا ہے۔ مگر ایک انقلابی پروگرام اور پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث، عوامی جدوجہد اپنی حتمی منزل تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا چینی سامراج اور پاکستانی دلال حکمرانوں کے اس جبر، قبضہ گیریت اور جارحانہ اقدامات کے خلاف لڑنے کا واحد راستہ محنت کش طبقے کی طاقت پر یقین کرنا ہے۔ کیونکہ ان جزائر کو فروخت کرنے جیسے عوام دشمن قدم کے پیچھے پی پی پی سرکار اور وفاق کی ملی بھگت سندھ کی مظلوم عوام کے سامنے بالکل واضح ہے۔ تو لبرل، قوم پرستوں، نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار اور گلابی انقلابیوں کا اس سے بڑھ کر اور کیا احمقانہ عمل ہوگا کہ وہ ان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں جنہوں نے عزیر بلوچ، راؤ انوار اور دیگر بہت سے غنڈوں کے ذریعے کراچی، حیدرآباد سمیت سندھ کے دیگر شہروں میں زمینوں پر قبضے کرانے میں بھرپور معاونت کی۔ یہ لوگ نام نہاد انقلابی اپوزیشن کے اتحاد کے گجرانوالہ اور کراچی جلسوں میں کی گئی تقاریر کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ دراصل یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وظیفہ خوار دانشوروں کی اپوزیشن لیڈران کی ثنا خوانی درحقیقت حکمران طبقے کے ایک گروہ کی حمایت کرنا ہے، جن کا 15 سالہ دور حکومت مزدور دشمن پالیسیوں سے بھرا پڑا ہے۔ حقیقت میں حالیہ تقریریں بھی حکمران طبقے کے آپسی تضادات میں شدت آنے کی وجہ سے منظر عام پر آ رہی ہیں۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کیونکہ دوسری جانب یہ عوامل اس نظام کے بحران کی عکاسی کرتے ہیں جس کے سبب اس نظام کے محافظ حکمران ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔مستقبل میں یہ عمل مذید شدت اختیار کرتا جائے گا۔ لہٰذا ان ڈوبتے اور نااہل حکمرانوں کے بجائے ہمیں سندھ کے محنت کشوں کے نظریات اور طاقت پر یقین رکھنا ہوگا۔ کیونکہ موجودہ وقت میں محنت کش طبقہ ہی وہ واحد طاقت ہے جو ترقی پسند کردار ادا کرتے ہوئے عوامی وسائل کی لوٹ مار کے خلاف نہ صرف جدوجہد کی اہلیت رکھتا ہے پر ان کے ساتھ وسائل کے دفاع کا فریضہ بھی صرف محنت کش طبقہ ہی ادا کرسکتا ہے۔ جس کے لیے اس مسئلہ کو دیگر مسائل کے ساتھ جوڑتے ہوئے خطے کے دیگر محنت کشوں کو اپنے ساتھ جوڑنا ہوگا۔ محنت کش طبقہ تمام وسائل کو جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے انہیں پورے سماج کی فلاح و بہبود پر صَرف کرے گا۔
ان تمام تر حملوں سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ لبرلوں کے ”چی گویرا“ بلاول بھٹو کی جماعت اور دیگر روایتی قیادت کا کردار قطعی طور پر محنت کشوں اور مظلوم قومیتوں کی طرف دوستانہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ان روایتی قیادتوں سے امیدیں وابستہ کرنا ایک احمقانہ عمل کے سوا کچھ نہیں۔لہٰذا محنت کش طبقے کی طاقت اور نظریات پر یقین ہی واحد اوزار ہے جو ہمیں مستقل بنایدوں پر جبر سے نجات دلا سکتا ہے۔
مختصرا پاکستانی ریاست اپنے جوہر میں ایک غیر فطری اور شروع دن سے امریکہ سمیت مختلف سامراجی ممالک کی گماشتہ ریاست رہی ہے اور اسی وجہ سے اس کی معیشت مختلف سامراجی ممالک کے رحم و کرم پر رہی ہے۔ لیکن اب یہ سامراجی ممالک خود شدید بحران کا شکار ہیں اور درحقیقت دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والا پورا ورلڈ آرڈر ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ تبدیلی سرکار نے آتے ہی پاکستانی ریاست کی معیشت کا کھوکھلا پن اور گماشتہ پن سب پر عیاں کر دیا ہے۔ نجکاری، بے روزگاری، مہنگائی، لاعلاجی اور مظلوم قومیتوں پر جبر میں اضافہ کرتے ہوئے ملک کے حکمران طبقے، سرمایہ داروں اور فوجی اشرفیہ کی عیاشیوں کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ حکمران طبقے کے ان تمام تر حملوں کے خلاف پوری دنیا کے اندر محنت کش طبقے کی تحریک کا احیاء ہو رہا ہے۔ جس کی چند جھلکیاں حالیہ 6 اور 14 اکتوبر کو اسلام آباد میں دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یاد رہے کہ محنت کش ان تحریکوں سے اسباق اخذ کرتے ہوئے مستقبل قریب میں مذید شدت کے ساتھ اپنی طاقت کا اظہار کریں گے۔ مگر واضح رہے کہ ایک انقلابی پارٹی کے بغیر تحریک مذید آگے نہیں بڑھ پائے گی۔لہٰذا جب تک محنت کش طبقے کی ایک انقلابی پارٹی موجود نہیں ہوگی تب تک ریاستی جبر سے نجات پانا نا ممکن ہے۔ نجات پانے کے لیے اس نظام کو گرانا ہو گا اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے مزدور ریاست کا قیام ہی قومی جبر سمیت دیگر تمام مسائل کا مستقل بنیادوں پر خاتمے کا ضامن ہے۔