سندھ: کارپوریٹ فارمنگ اور دریا کا سوال!

|تحریر: علی عیسیٰ|

 

سرمایہ دارانہ نظام نامی اژدہا، انسانی سماج کے ہر شعبے کو منافع کی ہوس کے تحت نگلتا چلا جا رہا ہے۔ 280 ملین لوگوں کی ہجرت، ہر تیس میں سے ایک بے گھری کا شکار، جنگ کی وجہ سے صرف فلسطین میں 43 ہزار سے زائد نہتے لوگوں کا قتل عام اور روزانہ بھوک، لا علاجی اور ماحولیاتی تباہی کے سبب نہ جانے کتنے لوگ موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ 21 ویں صدی کے سرمایہ دارنہ نظام کا وحشت ناک چہرہ ہے۔

اور اس چہرے کا بدنما عکس ”مملکت خداداد پاکستان“ کو کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ جہاں 45 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، بیروزگاری کی شرح 11 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس میں تعلیم یافتہ افراد 20 فیصد جبکہ خواتین کی شرح 30 فیصد ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ساپے (SAAPE) نامی ادارے کے رپورٹ میں سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کے بتائے ہوئے ہیں اور یقینا حقیقت یا سچ اس سے بھی بھیانک ہے۔

اسی طرح دہشت گردی، جبری گمشدگی اور قومی و صنفی جبر میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔ ایسے میں مملکت خداداد پاکستان کے ”باشعور حکمران“ ان معاملات کو حل کرنے کے بجائے مزید لوٹ مار کو تیز کر رہے ہیں۔ اسی ضمن میں عوامی اداروں کی نجکاری سے لے کر گلگت، بلوچستان کے معدنیات کی بے نیازی سے لوٹ مار اور سندھ کے آبی وسائل پر ”نام نہاد آئین“ کو جوتے تلے روندتے ہوئے قبضے کرنے جیسے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان اقدامات کو ”ترقیاتی اسکیم“ یا منصوبوں کا نام دیا جا رہا ہے۔ ایسے ہی ایک منصوبے کو ”گرین کارپوریٹ فارمنگ انشی ایٹو“ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کے تحت گزشتہ چند سالوں سے ”سبز انقلاب“ کے بلند و بانگ دعوے کیے جا رہے ہیں۔

یہ ”گرین کارپوریٹ فارمنگ“ کیا ہے؟ آیا یہ کوئی نیا منصوبہ ہے؟ واقعی پاکستان ”سبز انقلاب“ کے ذریعے ترقی کی بلندیوں کو چھوئے گا؟ اس میں موجود مظلوم قومیتوں اور بالخصوص کھیت مزدور، مزارعوں اور کسانوں پر کیا اثرات پڑیں گے؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کی بنیاد پر حکمران طبقے کے مد مقابل محنت کش و محکوم لوگوں کا مؤقف جانا جا سکتا ہے۔

گرین کارپوریٹ فارمنگ

گرین کارپوریٹ فارمنگ کا معاملہ تقریباً ہر حلقے میں زیر بحث ہے۔ مختلف مکاتب فکر کے افراد مختلف رائے عامہ کے ذریعے کارپوریٹ فارمنگ کی مخالفت کر رہے ہیں تو کچھ حمایت کر رہے ہیں۔ مخالفت اور حمایت سے قبل یہ جاننا بے حد ضروری ہے کہ کارپوریٹ فارمنگ کا منصوبہ کیا ہے؟

گرین کارپوریٹ فارمنگ انشی ایٹو کے پروگرام کے تحت گزشتہ سال پنجاب کے ضلع خانیوال کے کچھ ایکٹر مختص کیے گئے۔ جس میں باقاعدہ اس منصوبے کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ اس منصوبے کے مطابق پاکستان کے 40 لاکھ ایکڑ سے لے کر 70 لاکھ ایکڑ غیر آباد یا غیر کاشت شدہ زرعی زمینوں کو کاشت کیا جائے گا۔ جس کے فرائض ”فوج“ ادا کرے گی۔

اس منصوبے میں سعودی عرب، بحرین، قطر، دبئی، چین اور فوجی فاؤنڈیشن سمیت اینگرو کمپنی سرمایہ کاری کر کے ان زرعی زمینوں کو کاشت کریں گے۔

خانیوال میں پہلے ”کارپوریٹ فارم“ کے افتتاح کے وقت وزیراعظم میاں شہباز شریف نے واضح اعلان کیا تھا کہ یہ کمپنیاں اجناس پیدا کر کے لے جانے میں یا فروخت کرنے میں کسی شرط کے تابع نہیں اور چونکہ یہ ایک ”سٹریٹجک منصوبہ“ ہے، لہٰذا اس کا سربراہ بھی آرمی کا ڈائریکٹر جنرل سٹریٹجک پراجیکٹ ہو گا۔ مختصراً یہ پروجیکٹ تمام تر چیک اینڈ بیلنس سے آزاد ہو گا۔ یہ سٹریٹیجک منصوبہ کیسے ہوا اس کا جواب فوجی اشرافیہ اور نام نہاد سویلین وزرا ہی دیں سکتے ہیں۔

یہ نام نہاد ”سبز انقلاب“ پاکستانی ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا۔ ایسے متعدد منصوبے پاکستان نامی تجربہ گاہ میں بطور تجربہ بار بار کیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے آمر ایوب کے دور میں ایسے ہی اقدامات کیے گئے جس کے نتیجے میں زرعی زمینوں کی 40 فیصد ملکیت فقط 6 فیصد بڑے زمینداروں کے ہاتھ آئی۔ جن سے بعد ازاں 1968-69ء کی انقلابی تحریک کے دباؤ سے پیپلز پارٹی کی زرعی اصلاحات کے پروگرام کے ذریعے کم کیا گیا۔

پھر 1990ء میں بینظیر بھٹو نے 19 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ایسا ہی معاہدہ کیا جس پر عملدر آمد نہیں ہو پایا۔ پھر جنرل مشرف کے دور میں ایگریکلچر فارمنگ اینڈ کارپوریشن آرڈیننس پاس کیا گیا اور 2009ء میں ”جمہوریت کی علمبردار“ پیپلز پارٹی نے اسی آرڈیننس کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک سے معاہدہ کرنے کی کوشش کی جس میں یہ نا کام رہی۔

یعنی اس قسم کے اقدامات کئی مرتبہ کیے جانے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں صرف ایوب خان جیسا ظالم حکمران کامیاب رہا اور اس کے نتائج بیان کیے جا چکے ہیں۔ اسی طرح معاہدے کے تحت حکومت پاکستان پابند رہے گی کہ وہ اس منصوبے میں تحقیق و ترقی کے شعبے کو بھرپور فعال رکھے۔ جس کے اخراجات یقینا عوامی ٹیکسوں سے ہی ادا کیے جائیں گے۔

اسی طرح منصوبے کے ذریعے منافع میں سے فقط 20 فیصد تحقیق و ترقی کے شعبے کو دیا جائے گا۔ اس پورے منظر نامے میں لبرل دانشور فقط فوجی اشرافیہ کی جگہ سویلین اشرافیہ کو دینے کی بات کر رہے ہیں۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس منصوبے کا کوئی بھی سربراہ ہو پر مقصد تبدیل نہیں ہو گا۔

اس منصوبے کا مقصد منافع کا حصول ہے۔ لہٰذا اسی مقصد کے تحت کارپوریشنز بلا جھجک اجناس کو مہنگے دام فروخت کریں گی۔ خلیجی ممالک بغیر ٹیکس کے مفت لے جائیں گے۔ بلاشبہ، جس کے سبب اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ جو کہ محنت کش عوام کے قتل عام کا نیا منصوبہ نہیں تو کیا ہے۔

پانی کا بحران اور ارسا ترامیم

گرین کوآپریٹو انشی ایٹو، ایس ای سی پی میں بطور کمپنی رجسٹر ہے۔ جس کے قواعد و ضوابط کے مطابق تمام صوبے کمپنی کو درکار پانی اپنے حصے سے دینے کے پابند ہوں گے۔ یہ چھوٹے کسانوں، مزارعوں اور کھیت مزدوروں کے حقوق پر واضح ڈکیتی ہے۔

اسی طرح پانی کے بحران کا مسئلہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی 2018ء میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق 1950ء میں 5000 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا جبکہ آبادی بڑھنے کے باوجود 2018ء میں صرف 1000 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے۔

اس بحران کے سبب جہاں ایک طرف نچلے حصے یعنی جنوبی پنجاب اور سندھ شدید متاثر ہوئے ہیں مثلاً سندھ میں 18 ملین ایکڑ پانی کے بحران کے سبب کاشت نہیں کیے جا رہے۔ یہی ملتی جلتی صورتحال جنوبی پنجاب کی ہے۔ اسی طرح کوٹری بیراج کا 179 کلو میٹر کا رقبہ مٹی کے ٹیلوں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ڈیلٹا کو پانی نہ ملنے کے سبب ضلع بدین اور ٹھٹھہ کی 35 لاکھ ایکڑ زمین زیر آب ہے۔

اس ملک کے حکمران طبقے نے ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ہمیشہ قومی تعصب کو ابھار کر ان ایشوز سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ اس ریاست کے دیگر بہت سے فروعی اداروں کی طرح 1991ء میں ارسا نامی ایک ادارہ بھی تشکیل دیا گیا۔ جس میں تمام صوبوں سے ممبر شامل کیے گئے اور پانی کے حوالے سے ایک معاہدہ ترتیب دیا گیا۔ لیکن اس پر اب تک کوئی خاص عمل نہیں ہوا تھا۔

مگر ”گرین کارپوریٹ فارمنگ“ کی راہ میں موجود دیگر رکاوٹوں کی طرح ارسا کے معاہدے کو بھی روندا گیا اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نے نام نہاد آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے اس میں ترامیم کیں۔ جن کے مطابق اب ارسا کے تمام معاملات وزیراعظم کے پاس ہوں گے، جبکہ صوبوں کے پاس سے اختیارات ختم کیے جائیں گے۔ یہ 18 ویں ترمیم کے دعویدار پیپلز پارٹی کا ”جرنیل نوازی“ کا کارنامہ ہے۔

پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے یہ تمام کارنامے سر انجام دیے جا رہے تھے کہ اسی دوران دریائے سندھ سے 6 نہریں نکالنے کا منصوبہ سامنے آیا۔ جس کے سبب سندھ میں شدید غصہ نظر آیا لیکن اس نفرت کو ”جرنیلوں کے سبز انقلاب“ کے خلاف مرتکز کرنے کی بجائے قومی تعصب کو فروغ دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کا فائدہ حتمی طور پر حکمران طبقے کو ہی ہو گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں پاکستانی ریاست کے سامراجی عزائم ہیں۔ فوجی اشرافیہ سمیت تمام حکمران طبقہ سندھ کے ساحل و وسائل کی لوٹ مار کرتے آ رہے ہیں، لیکن سندھ پر مسلط پیپلز پارٹی کو اور بالخصوص آصف زرداری کو اس پورے معاملے سے بری الذمہ کرنا انتہا درجے کی تعصب پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ بلکہ لبرل دانشوروں کی جانب سے پیپلز پارٹی کے اندر سے بغاوت کی امید رکھنا بھی انتہا درجے کی بیوقوفی ہے۔

یہ پانی کی طرح صاف و شفاف ہے کہ اس مکمل معاملے میں سندھ سمیت پنجاب کے کسان، مزارع اور کھیت مزدور متاثر ہو رہے ہیں۔ حکمرانوں کے گماشتہ پوسٹ کولونیل حضرات کی جانب سے سندھ کے جاگیرداروں کو متاثرین میں شمار کرنا نری جہالت ہے، سندھ کے جاگیرداروں کو نہ پہلے پانی کے بحران کا سامنا تھا اور نہ اب ہو گا۔

بلکہ کارپوریٹ فارمنگ کے منصوبے کے تحت ان کو بھرپور کمیشن لینے کا موقع مل جائے گا۔ لہٰذا پنجاب اور سندھ کے کسان، مزارعوں اور کھیت مزدوروں کویہ لڑائی مل کر لڑنی ہو گی۔

حل

یہ بات بالکل صاف ہے کہ فوجی جرنیل اور ملٹی نیشنل کمپنیاں زراعت میں فقط اپنے منافع کی خاطر سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔

جس سے محنت کش عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اس لیے محنت کش عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ رنگ، نسل، قوم، فرقہ اور دیگر تمام تر تعصبات سے بالاتر ہو کر طبقاتی بنیادوں پر متحد و منظم ہو کر جدوجہد کریں۔

ہمارے مطالبات:

1۔ کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زمینوں پر قبضہ ختم کیا جائے اور یہ زمینیں بے زمین ہاریوں کو دی جائیں۔

2۔ جدید زرعی تکنیک متعارف کروا کر زرعی اجناس کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے۔

3۔ جاگیرداروں سے تمام زمین چھین کر قومیائی جائیں اور اجتماعی فارمز تشکیل دیے جائیں۔

4۔ پانی کو بچانے کے لیے جدید نہری یا ایرگشن سسٹم بنایا جائے۔

5۔ سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد تیز کی جائے۔

Comments are closed.