[تحریر: صبغت وائیں]
موجودہ حکومت اپنی عوام دشمن پالیسیوں کو زیادہ شدت سے عملی جامہ پہنا رہی ہے اور عوام کے پاس رہی سہی سہولیات بھی چھینی جا رہی ہیں۔ سرکاری اداروں کی بڑے پیمانے پر نجکاری کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی زمینیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاروبار کے لیے ٹھیکے پر دینے کے ساتھ ساتھ تدریسی مزدوروں کے یعنی اساتذہ کے استحصال میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جہاں محنت کشوں کی تنخواہوں میں اضافے اور سروس سٹرکچرکے مطالبات تسلیم نہیں کیے جا رہے وہاں مہنگائی اور افراط زر عام آدمی کی قوت خرید کو کم کرتا جارہا ہے۔ تعلیم اور صحت کے بجٹ میں، جو پہلے ہی شرمنا ک حد تک کم ہیں، مزید کٹوتی کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ سرکاری اداروں کی تباہی اور نجکاری سے تعلیم، علاج اور دوسری بنیادی ضروریات زندگی غریب عوام کی پہنچ سے دور ہوجائیں گی اور سرمایہ داروں کی تجوریاں مزید بھریں گی۔
صحت اور تعلیم فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن اس کے باوجود ہر روز 1130 بچے قابل علاج بیماریوں سے مر جاتے ہیں جبکہ 60 فیصد بچے سکول نہیں جا سکتے۔ اسی طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کے مطابق سرکار ہر شہری کو روزگار دینے کی پابند ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ ہر شہری کواس کی صلاحیت کے مطابق روزگار فراہم کرے۔ لیکن ہمارا غیر دفاعی بجٹ پہلے ہی کل بجٹ کا ایک بہت ہی چھوٹا حصہ ہے، اور اس پر یہ کہ عوام کی سہولیات پر اس غیر دفاعی بجٹ کا عشرِ عشیر بھی خرچ نہیں ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال کے باوجود ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بجٹ حکومت ان رقوم میں سے بناتی ہے جس کی ہر ہر پائی بغیر کسی مبالغے کے غریب عوام کے خون سے نچوڑی جاتی ہے۔ اس کا جائزہ لینے کے لئے ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت دو طرح کے ٹیکسوں سے پیسہ اکٹھا کرتی ہے۔ ایک بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے اور دوسرا بلاواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے۔
پہلے ہم بالواسطہ ٹیکسوں کو دیکھے لیتے ہیں۔ یہ سیدھے ان اشیا پر لگا کر اکٹھے کئے جاتے ہیں جو کہ عوام بحیثیت صارف ان اشیائے صرف پر ادا کرتی ہے جو کہ زندگی کی گاڑی کھینچنے کے لئے درکار ہیں۔ یعنی محض زندہ رہنے کے لئے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے۔ ’’ اور جو پیدا ہوا، مرنا اس کا مقدر ٹھہرا‘‘ گوئٹے فاؤسٹ میں لکھتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن پیدا ہونے سے لے کر مرنے کے درمیان کی طویل جدوجہد جانور کے مقابلے میں انسان کے لئے کس قدر مشکل کر دی گئی ہے، یہ حقیقت آج ہم سب کے سامنے ہے۔ دوسری طرف عوام کو ان چیزوں پر خرچ کرنے پر مختلف ہتھکنڈوں سے مجبور کر دیا جاتا ہے جن کی دنیا کے کسی بھی عقلمند انسان کو ضرورت نہیں ہوتی۔ اس مقصد کے لئے جدید بیہودہ نفسیاتی ہتھکنڈے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مثلاً کرداریت اور رویوں پر کنٹرول، ’’ نفسیاتی ‘‘ اور ’’سائنسی‘‘ اشتہاربازی، فیشن شوز اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیا پر دکھائی جانے والی چند ’’خوش نصیبوں‘‘کی کامیابی کی داستانیں وغیرہ۔ یہ بکواسیات ہم ہر روز میڈیا پر دیکھتے ہیں۔ رنگ گورا کرنے کی کریموں کو ہی لے لیں۔ کرکٹ اور ٹینس کے جیتنے کے لئے یا ڈانس کے مقابلے یا پڑھائی میں اول آنے سے گورے رنگ کا بھلا کیا تعلق بنتا ہے؟ اسی طرح ٹائپسٹ یا ٹیلی فون آپریٹر کی جاب کے لئے لمبے قد کی بھلا کیا ضرورت ہے؟
ہمارے تمام کے تمام ٹی وی چینل جو کہ سرمایہ دار کے کنٹرول میں ہیں ان پر مسلسل حکمران طبقے یعنی سرمایہ دار کا طرزِ زندگی دکھایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد بھی ’’دو مونہا‘‘ ہی ہے۔ ایک طرف تو محنت کش طبقہ حکمران طبقے کی فضول خرچیوں کی نقل کرتے ہوئے ان ’’اشیائے صرف‘‘ پر اپنی محنت سے کی گئی کمائی کو صرف کرے جو کہ وہ دوسری صورت میں کبھی نہ کرتا اور دوسری طرف وہ اس ساری لا یعنی اور اندھی اچھل پھاند کو ہی زندگی کی سچائی اور زندگی کا مقصد سمجھ بیٹھتا ہے۔ عام حالات میں محنت کش، حکمران طبقے کے طور طریقوں کو ’’اچھائی‘‘ کے طور پر ہی لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
اب ہماری اچھائی کا معیار دولت قرار پا جاتا ہے۔ حسن ایک اچھائی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کے اندر کیسی بھی اچھائی کیوں نہ ہو اسے کسی حسین کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایک طرف تو ہمارے حسن کا معیار ہمارا حکمران طبقہ ہی طے کرتا ہے تو دوسری طرف اس کے حسن ساز ادارے مسلسل مصروف عمل رہتے ہیں۔ آج دنیائے سائنس کی سب سے اعلیٰ شخصیات بال اگانے اور بال جھاڑنے کی تحقیقات کے ذریعے ’انسانیت کی خدمت ‘کا ’اہم فریضہ‘ نبھانے میں اپنا حصہ ڈالنے میں مصروف ہیں۔ ان عقلمند اور محنتی انسانوں کی محنت کے اور دیگر بہت سے انسانوں کی ’’دست کاریوں‘‘ کی وجہ سے ہمیں حکمران طبقے کا حسن ہی حسن نظر آتا ہے۔ بہترین بال کاٹنے والے اس کے پاس ہیں جو ایک ایک بال کو تراشتے ہیں، بہترین درزی اس کے پاس ہیں جو ایک طرف پورے تھان کی ایک قمیص بنا ڈالتے ہیں اور دوسری طرف چند گرہ کپڑے ہی میں ’’پورا لباس‘‘۔ ان سب کے باوجود، اگر حکمران طبقے کے متعین کردہ حسن میں سے کوئی نمونہ کسی غریب گھر میں پیدا بھی ہو جائے تو بھی اس کی شادی عام طور پر کسی ’’اچھے‘‘ گھر ہی میں کی جاتی ہے، یا یوں کہیں کہ اسے بھی کوئی دولتمند ہی لے اڑتا ہے۔
یہاں آپ خود دیکھ لیجیے کہ میں نے جان بوجھ کر لفظ ’’اچھے‘‘ کو دولت مند کے معنوں میں برتا ہے یہ لفظ ہمیں چونکاتا نہیں ہے کیوں کہ ہم اس لفظ کو انہی معنوں میں برتنے کے عادی ہیں۔ ہم ’’اچھے گھر‘‘ اور ’’اچھے گھرانے سے تعلق‘‘ سے مراد صرف پیسے والے لوگ لیتے ہیں۔ یعنی عام انسان لاشعوری طور پر یہ یقین کرنے لگتا ہے کہ ’’اچھے لوگ‘‘ پیسہ بناتے ہیں اور ان اچھے لوگوں کی فضولیات اور انسان دشمنی پر مبنی اخراجات (جن کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ’’دوسرے‘‘ حسد میں مبتلا ہوں۔ یہاں میں وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ دوسرے بھی کوئی بہت دور کے لوگ نہیں ہوتے، بلکہ اکثر ان کے انتہائی قریبی رشتہ دار اور عزیز ہی ہوتے ہیں) کو نیکی یا اچھائی کے متبادل کے طور پر دیکھنے لگتا ہے۔ اس سوچ کو سماج پر حاوی کرنے کے لئے حکمران طبقے نے صدیوں’’ محنت‘‘ کی ہے اور میڈیا، تعلیم، درسی کتابیں حکمران طبقے کے سب سے بڑے اوزار ہیں۔
سرمایہ دار کے نزدیک چیزوں کی Disposibility سے بڑی نیکی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ لوگ چیز خریدیں، ایک بار استعمال کریں اور پھر پھینک دیں۔ سرمایہ دار اسی ’’ڈسپوزیبل نیکی‘‘ ہی کے فروغ میں سرگرم نظر آتا ہے۔ ہر طرف ایک ڈسپوزیبل کلچر فروغ پاتا نظر آرہا ہے۔ چائے کے کپ ڈسپوزیبل۔ برتن، کیمرے، ریزر، دستانے، اوزار سمیت ہر چیز ڈسپوزیبل۔ امریکہ میں ایک بجلی کا بلب ہے جو کہ سو سال سے آج تک جل رہا ہے۔ کیوں کہ ایسے بلب نہ صرف ممکن ہیں بلکہ ماضی میں بنتے بھی رہے ہیں جو کبھی خراب نہ ہوں۔ لیکن آج ایسے کارٹیل موجود ہیں جو کہ ’’معیار‘‘ کو اس طرح سے چیک کرتے ہیں کہ جو کوئی بلب یا ٹیوب اپنے مقرر کئے گئے وقت سے زیادہ چل جائے اس کمپنی کو جرمانہ ہوتا ہے۔ مثلاً فرض کرتے ہیں کہ ایک انرجی سیور کی عمر ایک ہزار چلنے کے گھنٹے مقرر کی گئی ہے تو اس کا معیار یہ ہو گا کہ وہ ایک ہزار سے ایک گھنٹہ زیادہ نہ چلے۔
اصل بات یہ ہے کہ سرمایہ داری کی زندگی اس بات سے مشروط نہیں ہے کہ لوگ صرف مختلف اشیا خریدتے رہیں بلکہ ضروری ہے ایک ہی شے بار بار خریدی جائے۔ اس نظام میں وہ اشیا نہیں بنائی جاتیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہے بلکہ لوگوں میں اس شے کی ضرورت کو پیدا کرنا ہی سب سے بڑا فن مانا جاتا ہے جو کہ بنائی گئی ہے اور اس بنائی گئی شے میں ایک چیز ہی لازمیت کی حامل ہو گی کہ اس میں منافع ہے۔ اور اسی منافع کی شرح کو بڑھاتے رہنا ہی سرمایہ دار کی زندگی کا واحد مقصد ہے۔
اب ہم اس سرمایہ داری کا ایک سرسری سا جائزہ لینے کے بعد ان بالواسطہ ٹیکسوں کو بغور دیکھ سکتے ہیں جو کہ ایک کھرب پتی اور ایک غریب آدمی پر، اُس سرمایہ دارانہ ’’غیرجانبداری‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’برابری‘‘ کی بنیاد پر لگائے جاتے ہیں جس کا راگ ہر روز پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا پر بورژوا دانشور اور لبرل حضرات الاپ رہے ہوتے ہیں۔ کچھ اور نزدیک سے دیکھا جائے تو ایک غریب آدمی کو اشیائے صرف پر سرمایہ دار کی نسبت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ امیروں کوبڑے سٹور زیادہ مقدار میں چیز خریدنے پر قدرے رعایت دیتے ہیں۔ عام سی مثال لیں تو ایک غریب صارف پری پیڈ موبائل پر ایک دولتمند کے پوسٹ پیڈ پیکج کی نسبت مہنگی کال کرتا ہے۔
دوسری طرف ہمارے بلاواسطہ ٹیکس آجاتے ہیں جو کہ تمام دنیا میں دولت پر، جائیداد پر، منافعوں پر، سٹاک ایکسچینج کے کاروبار وغیرہ پر اور تنخواہوں پر لگتے ہیں۔ پاکستان میں ان ٹیکسوں کا رواج ہی نہیں۔ میں نے خدا نخواستہ یہ نہیں کہہ دیا کہ یہ ٹیکس وصول نہیں کئے جا رہے وصول ضرورکئے جارہے ہیں لیکن ان کا بھی سب سے بڑا حصہ وہ ہے جو سرکار اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں سے پیشگی کاٹ لیتی ہے۔
یہاں پر اگر ہم بھی دانشورانہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تسلیم کر لیں کہ سرمایہ دار ٹیکس دیتے ہیں (جو کہ اس ملک میں تو وہ بالکل بھی نہیں دیتے) تو بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ سرمایہ دار کی طرف سے دیا گیا ٹیکس بھی اسی مزدور کی محنت میں سے دیا جاتا ہے جس نے اپنے کام کے اوقات پورے کرنے کے دوران ہی فاضل محنت کر کے اس سرمایہ دار کے لئے کام کیا ہے۔ ویسے تو سرمایہ دار کو ٹیکس سے بچنے، اور اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لئے ایک طرف تو ملک کے ’’مایہ ناز‘‘ وکلا کی مہربانیاں حاصل ہوتی ہیں دوسری طرف بے شمارایسے سرکاری اہل کار بھی گھومتے نظرآتے ہیں جو کہ ان وکلا کی ’جائز‘ کمائی میں سیندھ لگانے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یہ اہلکار سیدھی ’’کاروباری‘‘بات کرتے ہیں کہ آخر میں کام تو ہم نے ہی کرنا ہے تو پھر یہ درمیانے بندے یعنی وکیل کو نکال دینا ہر کاروبار کی طرح یہاں بھی سود مند ہی رہے گا۔
ان سب باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ ہمارے یہ ٹیکس خرچ کہاں ہو رہے ہیں تو حیرانی ہوتی ہے کہ امیر ترین سرمایہ دار سے وصول شدہ ٹیکس کا 3000 فی صد صرف صدر پاکستان کی تصویر پر لگا دیا جاتا ہے۔ لاہور کا ایک بیوروکریٹ اپنے ایک دفتر سے دوسرے دفتر کی جانب جانے والی راہداری پر اپنے قیمتی جوتوں کی حفاظت کے لئے صدر صاحب کی تصویر کا بھی 1400 فی صد لگا دیتا ہے۔ یعنی امیر ترین شخص سے وصول شدہ ٹیکس کا 400,000 فی صد۔ لیکن جب تعلیم کی بات آتی ہے تو ان کے بجٹ کی ایک طرف تو حدیں سکڑ جاتی ہیں اور دوسری طرف اس مختص شدہ بجٹ کو بھی ایسی مدوں پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے موجود حکومت اور موجود ریاستی نظام کو تقویت مل سکے۔
ہمارے جاننے کی سب سے پہلی بات تو یہی ہے کہ سیاسی اقتدار پر قبضہ اسی طبقے کا ہوتا ہے جس کے پاس دولت کو پیدا کرنے کے ذرائع کا قبضہ ہے۔ دولت اندھی ہوتی ہے۔ نہ تو روپے کا کوئی دین مذہب ہے نہ اس کے پجاریوں کا۔ ان کے لئے وہی محترم ہے جس کے پاس یہ ہے۔ اس کا مظہر ہمیں ملک کے ’’نامور‘‘ صحافیوں کے ملک کے سب سے بڑے سرمایہ داروں میں سے ایک کو ولایت کے درجے پر فائز کرنے کے لئے کالم پر کالم لکھنے کی کوششوں میں نظر آتا ہے۔ سادہ ترین لفظوں میں بات یہ ہے کہ جہاں سرمایہ موجود ہے وہاں حکمرانی صرف وہ کرے گا جس کے قبضے میں سرمایہ ہے۔ وہ بادشاہ بنتا ہے یا بادشاہ گر، یہ اس کی اپنی مرضی ہے۔ حکمران طبقے کا مقصد سیاسی اقتدار میں آکرمحض رشوتیں وغیرہ کھانا نہیں ہوسکتا۔ اس کا اصل مقصد اپنے کاروبار کو بڑھاوا دینا اور ایک سے دو اور دوسے چار فیکٹریاں کرنا ہوتا ہے۔ سرمایہ دار کی زندگی کا اس کے علاوہ کوئی مقصد نہیں ہوتا کہ شرح منافع کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔ اسی مقصد کے گرد اس کی زندگی لٹو کی طرح گھومتی ہے۔ ہر سال، ہر ماہ اور ہر دن سرمایہ دا رکی اس ہوس میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ سرمایہ دار خود سرمائے کا غلام ہوتا ہے۔ سرمائے کی بدروح ہر پل سرمایہ دار کو غلام بناتی چلی جاتی ہے۔ سرمائے کا بھوت اس کے دل و دماغ میں پنجے گاڑلیتا ہے۔ ڈاکٹر فاؤسٹ (کرسٹوفر مارلو کے کھیل کا مرکزی کردار) نے تو صرف اپنی روح بیچی تھی لیکن سرمایہ دار اپنے دل و دماغ کے ساتھ ساتھ اپنا جسم، اپنا مستقبل، اپنے بچے، اپنا دین دھرم اور اپنی زندگی تک بیچ ڈالتاہے۔ اسے صرف ایک ہی لفظ یاد رہ جاتا ہے جوکہ وہ چوبیس گھنٹے اپنے سے نیچے کے تنخواہ دار غلاموں کے سروں پر ننگی تلوار کی طرح لٹکتے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ لفظ ہے ’’ٹارگٹ‘‘۔ یہ پینٹ کوٹ پہنے، ٹیکنی کلر ٹائیوں کے پھندنے لٹکائے، ٹھوڑیوں پر فرنچ رکھ کے خود کو ’’ایگزیکٹیو‘‘ سمجھنے والے تنخواہ دار غلام مسلسل ٹارگٹ پورا کرنے کے طریقے سوچتے، ایجاد کرتے اور سیکھتے رہتے ہیں۔ اس کھیل کے ابتدائی اصول انہوں نے سرمایہ داروں کی یونیورسٹیوں ہی سے پڑھے ہوتے ہیں۔ وہاں انہیں سکھایاجاتا ہے کہ وہ کیا ممکن صورتیں ہو سکتی ہیں کہ محنت کش جب پیداوار کرے تو اپنے گھر کم سے کم لے کر جائے اور سرمایہ دار کو زیادہ دے کر جائے۔ سیدھی سی بات ہے کہ ایک دن چوبیس گھنٹے سے بڑا تو ہو نہیں سکتا۔ اب اسی ایک دن کے کام کے گھنٹوں ہی میں مختلف شفٹیں چل سکتی ہیں جس میں مزدوروں نے کام کرنا ہے۔ اسی میں انہوں نے تمام تر پیداوارکرنا ہوتی ہے۔ اس پیداوار کی تمام لاگت الگ کر لیں تو اس کے دوسٹیک ہولڈر بچتے ہیں: ایک سرمایہ کار اور دوسرا پیدا کار(یعنی مزدور)۔ اپنے کام کے دن کا ایک حصہ تو پیدا کار اپنے لئے کام کرتا ہے اور دوسرا حصہ سرمایہ کار کے لئے۔ اگر پیداکار کا حصہ کم ہوتا ہے تو سرمایہ کار کا حصہ بڑا ہو جائے گااور اگر سرمایہ کار کا حصہ کم ہوتا ہے تو پیدا کار کا حصہ بڑھ جائے گا۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا کہ دونوں کا مجموعی حصہ اس پیدا کی گئی اجتماعی قدر سے بڑھ جائے۔
یہاں آج کے بعض بورژوا دانشور مشین کا ذکر کرتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ بعض جگہوں پر وہ یہ واویلا بھی کرتے نظر پڑتے ہیں کہ قدرِ زائد کا نظریہ اب پرانا ہو چکا ہے۔ اب تو مشین نے مزدور کی جگہ لے لی ہے۔ وہ یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں (اور ان کی دلی خواہش بھی ایسی ہی ہے) کہ یورپ و امریکہ میں مشین نے یا روبوٹ نے مزدور کی جگہ لے لی ہے اور اگر تھوڑی بہت مزدوری نظر بھی آتی ہے تو وہ بھی آہستہ آہستہ مشینی مزدوری یا روبوٹک محنت میں تبدیل کر دی جائے گی جس سے سرمایہ داری اپنے عروج پر پہنچ جائے گی اور مزدور کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔
یہاں میرے پاس اس فضول قسم کی ’’خواہشات‘‘ پر بحث کرنے کے لئے زیادہ گنجائش نہیں ہے۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ مارکسی معیشت تو دور کی بات یہ دانشور حضرات سرمایہ دارانہ معیشت کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔ مختصراً یہی بتایا جا سکتا ہے کہ یہ ’’دانشور‘‘ اپنی دانشوری بگھارتے ہوئے ایک فاش قسم کی فلسفیانہ غلطی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ یعنی وہ معروضیت میں جا کر موضوعیت کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں اور اس میں ان کی ’دونوعیتی‘ یا دوہرا معیار صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ جہاں کہیں محنت کشوں کے حقوق کی یا اجتماعی انسانیت کی بات سنتے ہیں تو ’’انفرادیت‘‘کی بین بجانا شروع کر دیتے ہیں اور ان کو ذرا سا کریدا جائے تو ان کے نزدیک ’’انفرادیت‘‘ محض ان کے اپنے آپ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر موضوعی عنصر کو پیداوار میں سے نکال باہر کر دیا جائے تو ہی روبوٹ کام کر سکتے ہیں۔ یعنی انسان کی ضرورت نہ رہے۔ اسی بات کو اگر تھوڑی سی باریک بینی سے دیکھا جائے تو ان ’’دانشوروں‘‘ کی دانشوری کا بینڈ بج جاتا ہے۔
ایسا کرتے ہیں کہ ہم فلسفے کی بحث میں پڑنے کی بجائے موجود دنیا کی سیدھی اور سامنے کی مثالیں لے لیتے ہیں۔ سب سے پہلے ان سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ آپ کے ان داتا، امریکہ اور یورپ کے سرکردہ ملکوں کی کثیرالقومی کمپنیاں سستی مزدوری والے ملکوں میں کیا لینے چلی آ رہی ہیں؟ اگر سارا کام روبورٹ کررہے ہیں تو ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو اپنی فیکٹریاں اپنے آبائی ممالک سے ہزاروں میل دور چین، بنگلہ دیش اور افریقہ کے ملکوں میں شفٹ کرنے کی مشقت کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟ دوسرے نمبر پر ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کسی فیکٹری میں جتنے بھی روبوٹ کام کر رہے ہوں انسان کی ضرورت اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ بلکہ پہلے سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ نئی مشین پہلے سے زیادہ مزدوروں کو کھپانے کے لئے ہی آتی ہے۔ گھوڑا تانگہ ختم ہونے اور موٹر سائیکل رکشا آنے سے بہت سوں کا روزگا ر ختم تو ہو گیالیکن اس سے کئی گنا لوگوں کوروزگار مل بھی گیا۔ ایسا ہی ہر نئی مشین کے آنے سے ہوتا رہا ہے۔ سپننگ جینی نامی کات مشین آنے کے بعد اتنی مقدار میں دھاگہ پیدا ہوا تھا کہ انگلستان کے پارچہ باف اپنی محنت کا معاوضہ اپنی مرضی سے طے کرتے تھے۔ ہتھ کھڈی چلانے والے یہ لوگ ایک محنت کش اشرافیہ بن گئے تھے۔ لیکن یہ پیداوار کے سامنے رکاوٹ تھے۔ نتیجتاً پاور لوم مجبوراً ایجاد ہوئی۔ سرمایہ دار کے لئے ایجاد کی ماں اور باپ دونوں ’’ ضرورت‘‘ ہیں اور یہ ضرورت پیداوار کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہے۔ پاور لوم کے آنے کے بعد ایک طرف تو اڑھائی لاکھ پارچہ بافوں کی’’اشرافیہ‘‘ میں سے ہزارہا نے واقعتاً بھوک کے ہاتھوں جان دے دی تھی کیوں کہ ہتھ کھڈی پر بنے مال کی قیمت میں مسلسل کمی کرنے کے باوجود وہ پاور لوم کی پیداوار کا مقابلہ نہیں کر پائے تھے۔ بچ جانے والوں کو پاور لوم کے کھاتوں میں نگرانی کا کام مل گیا اور پھر اتنا کام ملا کہ ان لوموں کے کھاتوں میں کام کرنے والوں کی تعداد ان ہتھ کھڈی کے پارچہ بافوں کے مقابلے میں دسیوں گنا بڑھ گئی۔ یعنی انسان کی موضوعیت کم تو کی جا سکتی ہے، ختم نہیں۔
یورپ امریکہ میں اگر بے روزگاری نظر بھی آرہی ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ کمپنیاں بہت سا مال باہر سستی مزدوری کی خاطر بنوا رہی ہیں۔ یہ نہیں کہ کام روبوٹ کر رہے ہیں۔ ویسے اگر سب کام روبوٹ کرنے بھی لگ جائیں، یہ مان بھی لیا جائے کہ مزدور کی ضرورت نہیں رہے گی۔ یا تو سب لوگ حقیقت میں بھوک سے مر جائیں گے۔ بھوک کی موت، جسے افلاطون سب سے بری موت کہتا ہے، ہمیں سب سے بڑے پیمانے پر تب ہی نظر آئی جب سرمایہ داری کا عروج ہوا۔ آج لوگ اس لئے بھوک کے ہاتھوں نہیں مرتے کہ کھانا موجود نہیں بلکہ اس کے نرخ کنٹرول کرنے کے لئے ہر سال لاکھوں لوگوں کو بھوکا مرنا پڑتا ہے۔ آج 49 ارب لوگوں کی خوراک پیدا کی جاسکتی ہے لیکن تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ سات ارب بھی خوراک کے مقابلے میں ’’زیادہ‘‘ ہیں۔ دنیا میں ایسے کروڑوں لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی مزے دار کھانا نہیں کھایا، صاف کھانا نہیں کھایا یا پیٹ بھر کے نہیں کھایا۔
اب اگر اسی طرح ہو بھی جائے جیسا کہ ہمارے بورژوا دانشور چاہتے ہیں۔ یعنی کہ مزدور کی جگہ روبوٹ لے لے، تمام دنیا پر بل گیٹس جیسے کسی سرمایہ دار کا یا اسی کے جیسے چند لوگوں کی ایک جماعت کا قبضہ ہو جائے اور تمام پیداوار روبوٹ کریں تو کیا ہوگا؟ اور یہ چندسرمایہ دار کیاایک دوسرے کو پیداوار بیچیں گے؟ رنگیلا اور منور ظریف کی اس فلم کے سین کی طرح جس میں ایک شکر قندی بیچ رہا ہوتا ہے اور دوسرا قلفیاں۔ ایک آنے کی قلفی بکنے کے بعد پھر کوئی خریدار نہیں آتا۔ وہ اسی ایک آنے سے شکرقندی خرید کے کھا جاتا ہے۔ کچھ دیر بعد اسی آنے سے شکر کندی والا قلفی خرید لیتا ہے۔ بس شام تک وہ دونوں اسی آنے سے ساری شکر قندی اور قلفیاں خرید کر کھا جاتے ہیں!
کیسا فضول خیال ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے سرمایہ دار کو پوری دنیا میں کوئی خریدار نہ ملے گاکیوں کہ کام روبوٹ کر رہے ہوں گے۔ اب وہ اپنی امی جان کو پندرہ کروڑ جوتیاں بیچ دے گا کہ ہر چند سیکنڈ بعد تبدیل کر لیا کریں۔ خود وہ ہر چند سیکنڈ بعد کوٹ پینٹ تبدیل کرے۔ اپنے ابا جان کو اکٹھے دس پندرہ کوٹ پینٹ پہنا دے۔ جتنے واہیات یہ خیالا ت ہیں اس سے کہیں واہیات یہ خیال ہے کہ مزدور کی ضرورت ختم ہو جائے گی اور ایسا ہو جائے تو بھی سرمایہ داری چل سکے گی۔ سرمایہ دار کو پھر اپنی نئی منڈیاں نظام شمسی سے کہیں باہر جا کر ہی ڈھونڈنا ہوں گی یا گھر کو منڈی بنانا پڑے گا۔ ہمارے بھولے دانشور یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ ’’کیا ہوا؟ وہ خیرات بھی تو کرے گا۔ ‘‘ اس کی خیرات اور بھیک دنیا کے ہر انسان کو ملے گی۔ خیرات سے اچھی چیز کیا ہو سکتی ہے؟اسی خیرات سے قوت خرید آئے گی جس سے وہ اس کی پراڈکٹ بکے گی۔ یعنی بے نظیر انکم سپورٹ کی طرح سرمایہ دار پہلے دے گا اور پھر واپس لے کر اپنا نظام چلائے گا۔ ۔ ۔ !ہم اوپر یہ ذکر تو کر ہی چکے ہیں کہ یہ حضرات معاشیات کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔
سرمایہ دار کے لئے بس شرح منافع بڑھنی چاہئے۔ اوزون لیئر کمزور ہو یا ختم ہو جائے۔ گلوبل وارمنگ بڑھتی رہے۔ انسان مرتا ہے تو مرتا رہے۔ جنگیں ضروری ہیں تاکہ امریکہ، روس اور جرمنی وغیرہ کی اسلحہ ساز فیکٹریاں چلتی رہیں۔ دہشت گردی ختم ہو جائے تو میڈیا کا کاروبار ہی ختم ہو جائے۔ اس تازہ دہشت گردی کی لہر سے پہلے پاکستانی میڈیا ’’تھنک ٹینکوں‘‘ کے سامنے ناک رگڑ رہا تھا کہ کسی طرح سٹار پلس کے ڈراموں کا توڑ ڈھونڈ کر دو۔ لیکن دہشت گردی کی چکا چوند اور سنسنی نے سٹار پلس کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اب لوگ مزے سے گھر بیٹھ کر جیمز بانڈ اور دیگر قتل و غارت گری کی فلمیں دیکھنے کے بجائے ’’لائیو‘‘ دہشت گردی دیکھتے ہیں۔ میڈیا بھی مسلسل دہشت گردی کو سب سے بڑا مسئلہ بتاتا رہتا ہے۔ حالانکہ بھوک، بے روزگاری، صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی سے دہشت گردی کے مقابلے کے کہیں زیادہ لوگ ہر روز مرتے ہیں۔
شرح منافع کو بڑھانے کی اس لالچ کی کوئی اتھاہ نہیں۔ ایک سرمایہ دار یا دکاندار کو دیکھیں سب واضح ہو جائے گا۔ اس کی زندگی دیکھیں۔ وہ خام مال خریدتا ہے، کارخانے میں لاتا ہے اور مزدور اور مشین کے ذریعے اس کو تبدیل کیا جاتا ہے اور ’’شے‘‘ (Commodity) بنا دیا جاتا ہے۔ جسے بیچ کر پیسہ وصول کر لیا جاتا ہے۔ یہ پیسہ ابتدائی سرمایہ کاری سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس پیسے سے سرمایہ دار دوبارہ خام مال خریدتا ہے اور پیداوار کا پورا چکر مکمل کر کے مزید پیسہ بناتا ہے۔ یہ شے۔ پیسہ۔ شئے کا ایک چکر ہے جس کے گرد دیوانہ وار چکر کھاتا سرمایہ دار خود سرمائے کی مجسم شکل بن جاتا ہے۔ اسی پاگل پن میں وہ مر جاتا ہے لیکن مرنے سے پہلے اپنی اولاد میں یہ بیماری منتقل کر جاتاہے۔ کسی دکاندار کو دیکھ لیں۔ وہ بھی کولہو کے بیل کی طرح اسی ایک چکر میں پاگلوں کی طرح گھومتا نظر آئے گا۔ بچے پیدا کر کے ان کو الگ الگ دکانیں دلوا دینا اور اسی موت کے کنویں میں ان کو دھکیل دینا ہی اس کے نزدیک خواب ہستی کی حقیقی تعبیر ہے۔ اس کے سامنے نظام سرمایہ داری کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کریں۔ وہ آپ کو ایسے دیکھے گا گویا آپ دنیا کے سب سے بڑے احمق ہوں۔
سرمایہ داری کے اس پاگل پن سے نکلنے کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔ ایک سوشلسٹ سماج میں پیداوار کا مقصد منافع یا شرح منافع نہیں بلکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہے۔ سرمایہ داری میں معیشت انسان کو چلاتی ہے، سوشلزم میں انسان معیشت کو اشتراکی اور جمہوری طور پر چلاتے ہیں۔ تمام افراد کو ان کی بنیادی ضروریات مزدور ریاست فراہم کرتی ہے۔ ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت سے نکال کر اجتماعی ملکیت میں دے دیا جاتا ہے اور اس طرح معاشرے کو استحصال سے مکمل طور پر پاک کیا جاتا ہے۔ یقیناًایسے سماج کی جدوجہد انسانیت کے روشن مستقبل کی واحد ضامن ہے۔
Pingback: Lal Salaam | لال سلام – جیسے لوگ ویسے حکمران؟