جیسے لوگ ویسے حکمران؟

[تحریر: صبغت وائیں]
ادھر دھرنے ختم ہوئے اور ساتھ ہی حکومت اپنے اصلی ایجنڈے پر واپس پہنچ گئی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ دھرنے کے دنوں میں انہوں نے عوام کو کوئی بہت زیادہ ریلیف دے دیا ہے۔ بس یہ تھا کہ تیل کی عالمی منڈی میں کم ہونے والی قیمتوں کا تھوڑا سا ثمر عوام تک بھی پہنچا دیا گیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسے ببانگ دُھل اپنی شاندار حکومت کی ’’عوام دوست پالیسی‘‘ کے ایک منطقی نتیجے کے بطور پیش کیا گیا۔
میاں نواز شریف صاحب نے باقاعدہ ٹی وی پر آ کر دو بار یہ اعلان فرمایا کہ وہ قوم کے درد میں گھُلے جا رہے ہیں۔ ان سے یہ درد سہا نہیں گیا اور انہوں نے بطورِ خاص ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے کچھ ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے پیٹرول کی قیمت کم ہو گئی ہے۔ اب ہمارے میاں صاحب وہ پہلے والے میاں صاحب تو رہے نہیں جو کہ عر ب شریف جانے سے قبل کے تھے۔ اب تو یہ عالمی سطح کے لیڈر ہیں۔ تو میاں صاحب کی ان کاوشوں کی بنا پر پوری دنیا میں ایک ایسی ہلچل مچی ہے کہ پوری دنیا میں پیٹرول سستا کرنا پڑ گیا! یہ سب کچھ میاں صاحب کی ذاتی کاوش سے ہوا ہے، اس بات کا زندہ ثبوت یہ ہے کہ دنیا کے اور کسی لیڈر کو جرات نہیں ہوئی کہ وہ اس عوام دوستی کو اپنے نام موسوم کرتا۔ صرف میاں صاحب ہی نے تقریر کر کے بتایا ہے کہ پیٹرول کی یہ قیمتیں انہوں نے کم کی ہیں۔
لیکن پیٹرول کی قیمتوں کے کم ہونے سے دیگر اجناس اور مصنوعات پر نمایاں فرق پڑنے کے جو دعوے کئے گئے تھے وہ دھرے رہ گئے۔ کچھ بھی کم نہیں ہوا۔ بجلی کے ریٹ کو ٹی وی پر آ کے کچھ کم کیا۔ دھرنا ختم کرنے کے بعد (ٹی وی پر آئے بغیر) اضافہ شروع کر دیا گیا۔
حکمرانوں اور حکمران طبقے کی سب سے بڑی بھول یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ خود کو اور اپنے حواریوں کو عقلمند، معاملہ فہم اور دور اندیش سمجھتے ہیں، جبکہ عوام کو بے وقوف اور کمزور یاداشت کی حامل سمجھتے ہیں۔ آج حکمران طبقے کے اپنے ’’آزاد‘‘ میڈیا پر اور سوشل میڈیا پر نظر رکھنے والے عوام کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں میاں نواز شریف کے سعودی حکومت کو نیک دلانہ مشوروں کی بدولت نہیں، بلکہ دیگر وجوہ کی بنا پر کم ہوئی ہیں۔ بڑی وجہ امریکہ کا اپنا تیل نکالنا ہے اور وہ بھی جدید طریقے سے، جس کی بنا پر نہایت کم خرچ میں تیل حاصل کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس سے ماحول کو بے پناہ نقصان ہو رہا ہے لیکن جب منافع ہی مطلوب و مقصود ہو تو آنے والے کل کے بھیانک سپنوں پر کون سوچے؟ وہ بھی امریکہ؟ جس نے محض دنیا پر اپنی دھاک بٹھانے کے لئے ہارے ہوئے جاپان پر ایٹم بم گرا کے جلدی جلدی میں دو ’زندہ‘تجربے کر لئے تھے، کہ ہو سکتا ہے آئندہ کبھی اتنا شاندار موقع نہ ملے۔ جرمنی پر شاید اس لئے نہیں گرائے کہ اس کے مضر اثرات اس کے حواریوں تک نہ پہنچیں۔ جاپان تو مشرق میں ہے۔ اور مشرق والے ذرا سخت جان واقع ہوئے ہیں!
عالمی مارکیٹ میں پیٹرول کی قیمت میں 50 فیصد کمی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایک سو دس روپے لٹر ملنے والا پٹرول اب55 یا 60 روپے کے آس پاس ملنا چاہئے، جو اس وقت پچاسی چھیاسی روپے لٹر مل رہا ہے۔
غریب عوام کیسے گزارا کر رہی ہے؟ اس بارے میں سوچنا ان حکمران لوگوں کے لئے ممکن ہی نہیں، جو سات ہندسوں سے نیچے کی تنخواہ میں اپنا گزارا ناممکن سمجھتے ہیں۔ ’’آزاد‘‘ میڈیا کے اینکر خواتین و حضرات جنہوں نے حکمرانوں کی ’’آمدن‘‘ کا پول کھولنا ہے،ان کی اپنی تنخواہیں سات ہندسوں سے بھی آگے بڑھ رہی، میڈیا مالکان کی تو خیر بات ہی چھوڑیں۔ ان لوگوں کو کیا معلوم کہ دس روپے کی کیا قیمت ہے؟ جب کہ اس اکیسویں صدی کے پاکستان میں آج بھی لاکھوں عورتیں اور مرد صبح صبح آٹو رکشہ، بس یا ویگن کے دس روپے بچانے کے لئے پانچ پانچ دس دس میل پیدل چل کر کام پر جاتے نظر آتے ہیں جس کے لئے اپنی نیند کا صرف ایک گھنٹہ اور قربان کرنا پڑتا ہے!
اور ہمارے کھرب پتی وزیر خزانہ ہیں جو آج بھی فرما رہے ہیں کہ ’’دو ہزار پندرہ کا سب سے بڑا چیلنج دہشت گردی کو شکست دینا ہے۔‘‘ گویا یہ ہمارا ایک اور قیمتی سال جس کو بیس کروڑ سے ضرب دیں تو بیس کروڑ سال اسی ’’بھوت پھیری‘‘ میں گول کرنے کے چکر میں ہیں۔ ہمارا مسئلہ دہشت گردی نہیں، بے روزگاری ہے، دولت کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ کسی کی تنخواہ سواکروڑ روپے اور کسی کی بارہ سو روپے ماہوار … یہ مسئلہ ہے ہمارا! تنخواہوں کا یہ فرق ختم کریں یا معقول کر دیں۔ لوگوں کو روزگار، تعلیم، رہائش اور علاج دیں، انسانی معیار زندگی دیں، سرکاری ملائیت کو لگام دیں، یہ دہشت گردی بھی ختم ہو جائے گی۔ اس بات کو ہر معقول انسان درست مانے گا۔ سوائے اس کے جس نے بے ایمانی کا ساتھ دینے کا عہد کر رکھا ہو۔
لیکن ریاست کے ’’سارے کے سارے‘‘ ستون ہمیں انہی باتوں میں الجھا کر وقت گزارنے کے درپے ہیں۔ جس دن پی ٹی آئی نے لاہور ’’بند‘‘ کیا تھا تو تمام حکومتی حلقے اور ان کے ثنا خواں میڈیا والے چیخ و پکار کر رہے تھے کہ بہت سے بچے سکول نہیں جا سکے۔ قوم کا اتنا نقصان ہو گیا۔ بیسیوں بچوں کے انٹرویو دکھائے گئے کہ انہوں نے لازمی سکول جانا تھا لیکن احتجاج والوں نے بیڑا غرق کر دیا۔ اب یہ ایک دن جو ضائع کر دیا گیا کبھی واپس نہیں آئے گا۔ ملک و قوم کا اتنا بھاری نقصان ہو گیا…اس روز ان ڈھائی کروڑ بچوں میں سے کسی کا انٹرویو بہرحال نہیں دکھایا گیا جنہوں نے سکول کی شکل کبھی نہیں دیکھی۔ اور اب کیا ہے؟ چودہ دنوں سے سکول مسلسل بند ہیں اور یہ ’’چھٹیاں‘‘ اور بھی بڑھائی جارہی ہیں۔ کس کی ذمہ داری ہے ہمارا تحفظ؟ کیا حکومت اور اس کے اداروں کی نہیں جس میں فوج بھی شامل ہے؟ تو کیوں کہا جا رہا ہے کہ پرائیویٹ سکیورٹی گارڈ رکھے جائیں؟ عوام نے اپنی حفاظت خود ہی کرنی ہے تو یہ 90 فیصد بالواسطہ ٹیکس کس مد میں ریاست وصول کرتی ہے؟
عوام کی ضروریات مادی ہیں۔ انہیں روزگار، روٹی، کپڑا، مکان، تحفظ، صحت اور تعلیم چاہئے۔ آئین پاکستان ان بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتا ہے تو عوام کو تجریدی نعروں میں کیوں الجھایا جاتاہے؟ آئین، آئین تو ہر کوئی کرتا پایا جاتا ہے لیکن آئین کی تجریدی مُوشگافیوں سے آگے کیوں نہیں جایا جاتا؟ ہمیں حب الوطنی، شہادتوں، قربانیوں، ذمہ داریوں، فرائض، قوم، ملت، عظمت، زندہ بادیاں، پائندگیاں، انصاف اور ’’ایک ہو کر حکومت کو مضبوط کرنے‘‘ کے پاٹھ تو پڑھائے جاتے ہیں، ہماری مادی ضرورتوں کی طرف سے آنکھیں کیوں بند رکھی جاتی ہیں؟ مادی ضرورتیں حکمران طبقے اور ریاستی اسٹیبلشمنٹ کی پوری ہوں اور قربانیاں اور فرض شناسیاں ہمارے لئے؟ کیا فرائض، حقوق کو جنم نہیں دیتے؟ جہاں فرض ادا کیا جاتا ہے وہاں حق نہیں پیدا ہوتے؟ غریب عوام نے’ حکمرانوں کی دہشت گردی‘ کی اس جنگ میں اسی ہزار سے زائد بار ’’جام شہادت‘‘ نوش کیا ہے، کیا ’’فرائض‘‘ کی یہ ادائیگی کم ہے؟
اور تو اور تعلیم کو ہر ممکن حد تک پرائیویٹائز کر دیا گیا ہے۔ سرکاری اداروں کی فیس بھی نجی اداروں کے برابر ہورہی ہے۔ لیپ ٹاپ تو دئے لیکن فیسیں بڑھا دی گئیں۔ بھلا غریب سکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والے طلبہ اشرافیہ کی اولادوں کا مقابلہ نمبروں میں کر سکتے ہیں؟ جہاں ایسی ایسی اکیڈمیاں موجود ہیں جو کہ ہزاروں روپے کے عوض ایسے گُر دبائے بیٹھی ہیں کہ انہوں نے ایک ایک نمبر کی کیلکولیشن کر رکھی ہوتی ہے۔ انہیں پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ کیا کریں تو کتنے نمبر آئیں گے۔ ایسی حالت میں غریب ان اکیڈمیوں میں کہاں پڑھ سکتا ہے جس کی ایک ماہ کی فیس اس کے ماں اور باپ، دونوں کی تنخواہ سے زیادہ ہو؟
صحت کی نجکاری کا یہ عالم ہے کہ سرکاری ہسپتالوں ہی میں ڈاکٹر کہہ دیتے ہیں کہ درست علاج کروانا ہے تو شام کو فلاں جگہ آجانا۔ ہسپتالوں میں دوائیاں موجود ہی نہیں ہوتیں، اور جو موجود ہوتی ہیں ان کی کوالٹی کا پول آئے روز کی اموات کھولتی رہتی ہیں۔ جس کے پلے چار پیسے ہوتے ہیں اور وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو نجی ہسپتال ہی کا رخ کرتا ہے۔
تحفظ کے بارے میں انہوں نے صاف کہہ دیا ہے کہ ہر ادارہ ہر مارکیٹ اپنا اپنا انتظام خود کرے۔ یعنی نجی سکیورٹی گارڈز رکھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سکیورٹی کی کمپنیاں سابق فوجیوں کی ہیں۔ سکیورٹی گارڈز بے چارے غریب عوام میں سے ہیں۔ کام وہ کرتے ہیں پیسہ کے انبار کمپنی مالک لگاتے ہیں۔ آج کی خبر کے مطابق نجی سکیورٹی گارڈز اشرافی سکولوں کی نوکریاں چھوڑ رہے ہیں۔ میرے خیال میں ان کا یہ اقدام بالکل درست ہے۔ شہید ہوں تو پانچ سات ہزار روپے پر بارہ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دینے والے غریب سکیورٹی گارڈ اور اربوں روپے کا منافع کمائیں نجی سکیورٹی کمپنیاں اور اشرافی سکولوں اور کالجوں کے مالک؟ ہاں اشرافی سکولوں والے اپنی شرح منافع کا ایک چھوٹا سا حصہ کم کر کے ان گارڈز کو جدید ترین اسلحہ مہیا کریں، اچھی اور محفوظ کمین گاہیں بنوا کر دیں، کم از کم تنخواہ ایک لاکھ روپے ماہانہ کریں، شہید ہونے کی صورت میں بیس لاکھ روپے حکومت دے اور تیس لاکھ روپیہ سکول یا ادارے کا مالک دے تو اس نوکری کا جواز ہو سکتا ہے۔
ہم نے یہاں تک یہی دیکھا ہے کہ ریاست پر قابض حکمران طبقہ صرف اپنے ’’حقوق‘‘ لے رہا ہے، اور حکومتی فرائض سے یکے بعد دیگرے ہاتھ اٹھاتے ہوئے عوام کو ’’حب الوطنی‘‘، ’’نازک دور‘‘ ، ’’حالت جنگ‘‘ اور’’خطرناک صورت حال‘‘ کا درس دیا جارہا ہے۔ عوام ٹیکس تو ان کو دے، لیکن جس کام کے لئے ٹیکس دیتی ہے وہ کام بھی خود ہی کر لے۔ اتنا کم ہے کہ ساری فوج اور ساری پولیس مل کر حکمرانوں کی حفاظت کر رہی ہے؟ حکمرانوں کی حفاظت اس لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کی حفاظت کرتے ہیں اور اگر آئین کو کچھ ہوا تو خدا جانے کیا ہو جائے گا۔ عوام گئی بھاڑ میں۔ اس منطق کو الٹے کھڑے ہو کر دیکھیں تو ہی سیدھی نظر آئے گی۔
اس پر طُرہ یہ کہ ہسپتالوں نجکاری کا تو سنا ہی تھا اب کراچی کے سرمایہ دار دکانداروں نے ساری فائر بریگیڈ کو پرائیویٹائز کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر دولت مند کے ہاں آگ لگے گی تو آرام سے بھجوا لیا کریں گے۔ غریب کے پاس ہوتا ہی کیا ہے جو برباد ہو گا؟ اسی لئے جب بھی اس طرح کا نقصان ہو تو اس طرح کے اعداد وشمار بتا کر ہمدردی کے جذبات پیدا کئے جاتے ہیں کہ اتنے کروڑ یا اتنے ارب کا نقصان ہوا ہے۔ غریب کی کٹیا جل جائے، جس طرح پچھلے دنوں خانہ بدوشوں کی بستی جل گئی تھی، تو کیا کہیں گے؟ دس چارپائیاں اور پچاس بانس جل گئے ہیں؟ دو ہزار کا نقصان ہوا ہے؟ اس سے خاک سنسنی پھیلے گی؟ہاں تین چار سو غریب خود زندہ جل کے مر جائیں، جیسا کہ بلدیہ ٹاؤن میں ہوا تھا، تو کچھ سنسنی پھیل سکتی ہے، لیکن کم از کم تین چار سو!
تو پرائیویٹ فائر بریگیڈ ہو جانے سے وہ طے شدہ نرخوں پر ہی آئیں گے۔ اور ان کی ریٹ لسٹیں بھی عجیب منظر پیش کیا کریں گی۔
کتنے والی آگ بھجوانی ہے؟
بندے بچانے ہیں یا مال؟
یا دونوں؟
بندے بچانے کا یہ ریٹ۔ مال بچانے کا یہ۔ جانور بچانے کا یہ…
اتنا پیسہ ایڈوانس دے دو…
جیسے پرائیویٹ ہسپتال والے پیسہ ایڈوانس میں پکڑے بغیر آپریشن نہیں کرتے۔ مریض مرتا ہے تو مر جائے۔ بلکہ اگر وہ مر بھی جائے تو جب تک بیڈ کا بل نہ دیں وہ لاش نہیں دیتے۔ اسی طرح یہ بھی دس ہزار کا پانی پھینک کر رُک جائیں گے۔ جاؤ بھائی آپ کے پیسے ختم ہو گئے۔ اور پانی پھینکوانا ہے تو اور پیسے لے کر آؤ۔ بلڈنگ میں دس بندے پھنسے ہیں۔ آپ کے پاس پیسے تین کو بچانے کے ہیں تو اتنی مہربانی کر دیں گے کہ آپ چوائس بتا دیں، کون کون سے بندے یا بندیاں بچانی ہیں؟تھوڑی دیر کے لئے پرائیویٹ فائر بریگیڈ کا تصور کیجئے! آپ کا اپنا تخیل بہت سی کہانیاں سنا دے گا!
اس سے زیادہ منافعے کا کاروبار کیا ہوگا؟ ہو سکتا ہے کہ ہمارے حکمران پولٹری اور شوگر ملوں سے زیادہ اسی کو اختیار کیا کریں۔ کاروباری لوگوں کو حکومت دی ہے تو اس طرح ہی سے کام ہوں گے۔ اور عوام کی سوچ بھی تو کوئی مختلف نہیں ہو سکتی۔ وہی بے نظیر جس کے باپ نے اداروں کو قومی تحویل میں لیا تھا، مارگریٹ تھیچر کو اپنا آئیڈیل کہتی تھی۔ مارگریٹ تھیچر برطانیہ میں ’’بچوں کا دودھ چھیننے والی ڈائن‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ بے نظیر نے ’’دختر مشرق‘‘ میں فخریہ اعلان کیا تھا کہ اس نے ایشامیں نجکاری کی بنیاد رکھی۔ اب پیپلز پارٹی بھی اسی کے نقش قدم پر چل رہی ہے تو ہم اور کس طرح سے سوچیں گے؟
لوگ آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’جیسی عوام ویسے حکمران۔ ‘‘ اس جملے کو ہم مانتے ہیں کہ یہ درست ہے۔ لیکن اپنے ان معنوں میں ہر گز نہیں جن معنوں میں انہیں لیا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے لبرل دانشور بھی ٹی وی پر آکے منہ بگاڑ بگاڑ کے عوام کی ملاوٹوں کی اور بے ایمانیوں کی تفاصیل سنا کر انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کی غلط کاریوں کا نتیجہ ہیں یہ کرپٹ حکمران۔
جاپانی کہاوت ہے کہ مچھلی جب سڑنے لگتی ہے تو سب سے پہلے اس کا سر سڑتا ہے۔ ہمیں ان دونوں باتوں کا جدلیاتی انداز میں لیکن مختصر جائزہ لینا ہے کہ کون سی بات درست ہے۔ کون سی غلط یا یہ کہ جدلیاتی اصول کے مطابق یہ دونوں تضاد ایک ہی وقت میں موجود ہیں، جو کہ صوری منطق میں ممکن نہیں تھے۔
آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ ہمارے حکمران ذاتی طیاروں پر سفر کرتے ہیں، جب کہ ہم نے دیکھا کہ عوام موٹر سائیکل رکشے کے دس روپے بچانے کے لئے دس میل پیدل سفر کرتے ہیں۔ عوام ننگے پاؤں اور ننگے بدن پھر رہی ہے۔ ہمارے وزرائے اعظم پچاس لاکھ کے سوٹ اور پینتالیس کروڑ کی گھڑیاں پہننے کی بنا پر دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ تو ہماری عوام کے جیسے حکمران کیسے ہو گئے؟ پختون خواہ کے کتنے لوگ بنی گالہ جیسی رہائشوں میں رہتے ہیں؟ پنجاب کے تو کیا پورے پاکستان میں کتنے لوگوں کے پاس اتنے رقبے کے مکان ہیں جتنے رقبے پر رائے ونڈ محل کے باتھ رومز ہیں؟سرے محل تو کیا… کتنے لوگوں نے سرے کا نام سنا ہے؟ بلاول کی امی جان کی عینک کی قیمت ہمارے درجنوں غریبوں کے بیچے ہوئے گردوں کے برابر تھی۔ تو ’’جیسی عوام ویسے حکمران‘‘ کیسے ہو گئے؟
کیا پاکستان کے عوام کرپٹ ہیں؟ یہ بے ایمان ہیں؟ بالفرض مان لیا کہ ہیں۔ کیوں ہیں؟ کیا یہ پیدا ہی بے ایمان ہوتے ہیں؟ میں تاریخ پر عدالت جایا کرتا تھا۔ ایک نیا دربان میرے سامنے آیا۔ اس بے چارے سے بات بھی نہیں ہو رہی تھی۔ اگلی تاریخ پر میں پہنچا تو اس نے کہا کہ ’’اتنا ’تواون‘ (تعاون) کرو تاریخ لئے دیتا ہوں۔ ‘‘ ایک ہی ماہ نے اسے ’’ایجوکیٹ‘‘ کر دیا تھا۔
جب پاکستان بنا تھا تو سنتے ہیں کہ عوام نے بے بہا قربانیاں دیں۔ جانوں کی بھی اور مال کی بھی۔ لٹ لٹا کر ایک ایسا ملک حاصل کرنے کا خواب دیکھا جو کہ ’’پاکستان‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ پاک، صاف، امن و امان کا گہوارہ۔ کم از کم عوام کو تو یہی خواب ’’دکھایا‘‘ گیا تھا کہ ہم ایسا ملک بنانے جا رہے ہیں جہاں انصاف ہو گا۔ کوئی کسی کا آقا نہیں ہو گا، کوئی غلام نہیں ہو گا۔ غربت ایک بھولی ہوئی یاد کی طرح معدوم ہو جائے گی۔ جہاں کوئی کسی سے زیادتی نہیں کر سکے گا۔ ہر کوئی تعلیم یافتہ ہو گا۔ نوکری حاصل کرنے کے لئے رشوتیں اور سفارشیں نہیں ڈھونڈنی پڑیں گی۔ بیوروکریٹ، فوج اور پولیس والے عوام کے ملازم ہوں گے، انگریز کی طرح ان کے آقا نہیں۔ ہاریوں کے پاس اپنی زمین ہو گی، جہاں جو اُگے گا وہ اسی کا ہو گا جس نے اُگایا۔ کوئی لگان اور مالیے کی چھری چلا کر اس کا بڑا حصہ ہڑپ نہیں کر سکے گا۔ کیوں کہ یہ ملک اس کا ہے اس لئے کم از کم رہنے کو مکان تو ملے گا ہی۔ مذہب کے نام پر کوئی فساد نہیں ہو پائے گا۔ کیوں کہ ایک خدا اور ایک مذہب کو ماننے والے اکٹھے ہو کر بھائیوں کی طرح رہیں گے۔ غرض ہر طرح کا دنگا، فساد، اونچ نیچ، رنگ، نسل، زبان کی تفریق اور دیگر سماجی برائیاں ختم ہو جائیں گی۔ کیا یہی خواب نہیں دکھایا گیا تھا؟لیکن جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہاں کا حکمران طبقہ روز اول سے نااہل، بدعنوان، ٹیکس چور اور سامراج کا گماشتہ رہا ہے۔ جیسا حکمران طبقہ، ویسی ریاست۔ براہ راست نوآبادیاتی تسلط سے ’’آزادی‘‘ حاصل کرنے والے تیسری دنیا کے ہر ملک کی یہی داستان ہے، سوائے چین جیسے چند ایک ایسے ممالک کے جہاں انقلابات کے ذریعے سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کردیا گیا۔ یہاں کا حکمران طبقہ ایک جدید سرمایہ دارانہ صنعتی سماج اور یکجا قومی ریاست ہی تشکیل نہیں دے پایا، نہ کبھی دے سکتا ہے۔
اور کہا یہ جائے کہ یہ حکمران ، عوام کی کرپشن کی وجہ سے کرپٹ ہیں؟ پورا سماج کرپٹ ہے، ہم مانتے ہیں… لیکن ہماری مچھلی کے سَر ہی نے سب سے پہلے سڑنا شروع کیا ہے۔ جب حکمران لوٹ مار کر رہے ہوں تو ریاست اور پورا نظام کرپٹ ہوجاتا ہے۔ عوام میں عدم تحفظ پیدا ہو جاتا ہے۔ معاشرہ نفسا نفسی اور انتشار سے دو چار ہوجاتا ہے۔ نفسیات یہ نہیں رہتی کہ لوٹ مار کرکے لے جانے والا عیش کرے گا بلکہ ہر شخص کو یہ خطرہ بھی لاحق ہو جاتا ہے کہ سب کچھ تو یہ لوگ لئے جا رہے ہیں، میں کیسے زندہ رہوں گا؟ رفتہ رفتہ بدعنوانی ایک سماجی معمول بن جاتی ہے جیسا کہ یہاں ہے۔ کرپشن جہاں حکمران طبقے کی نہ ختم ہونے والی دولت کی ہوس سے برآمد ہوتی ہے وہاں غریب کی مجبوری بن جاتی ہے۔ حکمران طبقہ اور ریاستی مشینری جب اپنی اخلاقیات اور قوانین کو خود ہی تار تار کر رہے ہوں وہاں عوام سے ’’قانون کے احترام‘‘ کی امید کیونکر کی جائے؟
تو یہ بات کہ حکمران، لوگوں کی نقل میں کرپٹ ہوئے ہیں یا کرپٹ لوگوں ’’میں سے‘‘ چنے گئے ہیں بالکل غلط ہے اور ایک ایسا گمراہ کن خیال ہے جو کہ جان بوجھ کر پھیلایا جا رہا ہے۔ گویا حکمران عوام ’’میں سے‘‘ چنے جاتے ہیں۔ حکمران طبقہ ایک علیحدہ طبقے کی حیثیت سے وجود رکھتا ہے۔ جس کے پاس سرمایہ داری کے استحصال کی یا پھر کالی معیشت کی دولت موجود ہے۔ انہی کی باریاں لگی ہیں۔ انہیں میں سے حکمران چنے جاتے ہیں۔ ’’یہ عوام جیسے ہیں‘‘ یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی۔ فی الوقت محنت کش عوام کی سب سے بڑی ’’کرپشن‘‘ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ اس استحصال پر مبنی اس کرپٹ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس کے پیش نظر دامن کا یہ داغ بھی محنت کش طبقہ جلد ہی مٹا ڈالے گا!

متعلقہ:

سرمایہ داری کا پاگل پن

Comments are closed.