|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، سیالکوٹ|
پنجاب میں کرونا وائرس کی وبا اس وقت تیزی سے پھیل رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر نئے کیسز میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں کام کر نے والے ڈاکٹر، نرسیں، پیرامیڈیکل سٹاف سمیت ہسپتالوں کا تمام عملہ اس وقت انفیکشن کے رسک پر ہیں۔ تمام ہیلتھ ورکرز کو حفاظتی لباس اور ماسک کی فراہمی گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے جسے پورا کرنے میں گورنمنٹ مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔
گورنمنٹ سردار بیگم ٹیچنگ ہسپتال سیالکوٹ میں کرونا وبا سے نبٹنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی حقیقت اس ویڈیو میں دیکھئے
ایک مثال گورنمنٹ سردار بیگم ٹیچنگ ہسپتال سیالکوٹ کی ہے جو کہنے کو تو ٹرشری کیئر ہسپتال ہے لیکن یہاں صرف نمائشی اقدامات کے علاوہ کوئی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کرونا کے مشتبہ مریض دیکھنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکس کے لیے تجویز کردہ این 95 ماسک کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ پورے ہسپتال میں کسی ایک بھی ہیلتھ ورکر کو حفاظتی لباس فراہم نہیں کیا گیا۔ اس کی بجائے عام سرجیکل ماسک جس کی لاگت صرف پانچ روپے ہے وہ بھی ضرورت کے مطابق مہیا نہیں کیا جا رہا اور نایاب ہو چکا ہے۔
ینگ ڈاکٹرز کے ایک وفد نے نے اس مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لیے مشترکہ طور پر ایک درخواست لکھی جو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو پیش کی گئی۔ اس درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ہمیں حفاظتی لباس اور ماسک فراہم کیے جائیں تاکہ ہم بلا خوف و خطر مریضوں کا علاج جاری رکھ سکیں اور وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکے۔ یہ جائز مطالبہ پورا کرنا تو دور کی بات ہے، ایم ایس ڈاکٹر اعظم ابراہیم نے نہایت حقارت کے ساتھ یہ درخواست اپنے پاس رکھنے سے بھی انکار کر دیا۔ ینگ ڈاکٹرز کو ماسک اور حفاظتی لباس فراہم کرنے سے صاف صاف انکار کرتے ہوئے ایم ایس کا کہنا تھا کہ تم لوگوں کو حفاظتی لباس کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور دلیل یہ دی کہ ایسے حفاظتی اقدامات کرنے سے عوام میں خوف و ہراس پھیل جائے گا۔ اس بارے ایم ایس نے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر ہیلتھ کا بھی حوالہ دیا کہ وہاں سے یہ ہدایات ملی ہیں۔
دیگر انتظامات کا عالم یہ ہے کہ کرونا کے مشتبہ مریضوں کی سکریننگ کے لیے کوئی تشخیصی سہولیات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ سارا زور نمائشی اقدامات پر دیا جا رہا ہے جس کی ایک عمدہ مثال یہ ہے کہ گردہ مثانہ وارڈ کا بورڈ ہٹا کر وہاں کرونا وارڈ بنا دیا گیا ہے اور فلیکس پرنٹ کروا کے سارے ہسپتال میں آویزاں کر دیے گئے ہیں تاکہ فوٹو سیشن کیا جا سکے۔ ہینڈ سینیٹائزر کے اندر پانی مکس کر کے دیا جا رہا ہے تاکہ بچت کی جا سکے۔ پورے ہسپتال میں کسی بھی جگہ پر ہاتھ دھونے کے لیے صابن دستیاب نہیں ہیں۔
کہنے کو تو یہ ایک ٹرشری کیئر ہسپتال ہے لیکن یہاں کی سہولیات کسی بنیادی مرکز صحت کا نقشہ پیش کرتی ہیں۔ سردار بیگم ہسپتال کا سالانہ بجٹ سینتالیس کروڑ روپے ہے لیکن کرپشن کا عالم یہ ہے کہ ضروری ایمرجنسی ادویات تک میسر نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر کرونا وائرس کا کوئی مشتبہ مریض آتا ہے تو وہ بجائے ٹھیک ہونے کے الٹا سارے عملے میں انفیکشن پھیلانے کا باعث بنے گا۔ اور ہیلتھ ورکرز کو انفیکشن ہونے سے وہ تمام دوسرے مریضوں کو بھی منتقل ہو جائے گا۔ مختصر یہ کہ بیوروکریسی اور انتظامیہ خود سارے حفاظتی اقدامات کر رہی ہے اور عوام کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں اور گورنمنٹ سے مطالبہ کریں کہ تمام ہیلتھ ورکرز کو ضروری حفاظتی سامان اور ماسک فی الفور مہیا کیے جائیں اور اس وبا سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کیے جائیں۔