|تحریر: صبغت وائیں|
سو برس یا اس سے کچھ اوپر ہوئے، افریقہ کے ایک دیس میں ایک نئے نوجوان کو سردار منتخب کیا گیا جس نے اپنے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ وہ تبدیلی کا بہت شوقین ہے اور وہ افریقہ کے اس دیس کی بھوک ننگ دور کر دے گا۔ لوگوں کو اس پر یقین اس لیے بھی آ گیا تھا کیوں کہ وہ خواب میں ان گوروں کے دیس جایا کرتا تھا جو کہ ان کے ملک میں زرد پتھروں کی تلاش میں آیا کرتے ہیں۔ وہ اپنے خواب اپنی قوم کے لوگوں کو اکثر سناتا رہتا۔ اور اس نے کئی گوروں سے دوستیاں بھی کر لی تھیں۔ تو جیسے ان کے اپنے ہاں دوستیاں ہوتی ہیں اور انہوں نے کئی بار دیکھا تھا کہ کسی دوست نے سؤر کے دانت سے رگیدتے ہوئے اپنے دوست کو چھڑواتے چھڑواتے اپنی جان دے دی یا صرف ہپوپوٹامس کی ہنسلی پکڑ کر مگرمچھ کے پیٹ پر چھلانگ لگا دی وغیرہ۔۔۔ تو جس کے گورے دوست ہوں جن کی پاس دھوئیں کو قابو میں کرنے والی بدروحیں ہیں۔ جو صرف کسی نامعلوم جانور کے ایک سینگ کو کسی بھی جانور کی طرف کر کے ایک زور دار گرج کی آواز سے گرا دیتے ہیں، کتنا خوش قسمت ہو گا؟ ہمارے اس دیس کی کیسی خوش نصیبی ہے کہ ہمیں ایسا نیک دل سردار ملا؟
سردار نے آتے ہی اپنے ملک کے سب سے عقلمند، سب سے زیرک، چالاک اور دانشور لوگوں پر مشتمل ایک چالیس رکنی ٹیم کو اپنی اور اپنی ریاست کی غربت دور کرنے کے طریقے جاننے کے لیے اپنے پہاڑوں سے بلند دوستی کے حامل ایک گوروں کے ملک میں بھیجا کہ وہاں جا کر دیکھ کر آئیں کہ انہوں نے اپنی غربت کیسے دور کی۔
جب وہ ٹیم واپس آئی تو وہ تو پُرجوش تو تھی ہی، لیکن ان کا نیک دل سردار تبدیلی لانے کے لیے ان سے کہیں زیادہ اتاولا تھا۔ اس نے اس دن اپنی ورزش نہ کی، اپنا کھانا چھوڑ دیا اور اپنا محبوب نشہ بھی نہ کیا۔ ایسے اس بات کی سمجھ نہیں آئے گی۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پیارے سردار کے معمول پر ایک سرسری سی نظر ڈالنی پڑے گی۔
ہمارے اس نوجوان سردار کا اپنی پہلی شادی کے وقتوں سے ایک معمول تھا۔ اور اب تو ان وقتوں کے ہاتھی جوان ہو کر ایسے بچے پیدا کر چکے ہیں جو کہ خود جوان ہو کر بچے پیدا کرنے کے دنوں میں ہیں، اور سردار بھی کئی مزید شادیاں کر چکا تھا۔ وہ معمول یہ تھا کہ وہ دن کا ایک بڑا حصہ خود کے لیے مخصوص رکھتا تھا۔ اس میں وہ انواع و اقسام کے کھانے کھاتا جس سے اس کے خوش ذوق ہونے کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے کھانوں میں نایاب پرندے، کالے ہرن اور سمندر کے آکٹوپس تو تھے ہی، اس کے علاوہ وہ ہاتھی کی دُم کا گوشت اور چیتے کے بچوں کی نیم برشت کڑاھی کا بہت شوقین تھا۔ اس کے ہاں ایسے ایسے پکوان بنتے تھے جن کے پکنے پر باورچی کو اتنے دن لگا جایا کرتے جتنے دن میں مرغی کے انڈوں سے بچے نکل آتے اور بعض اوقات تو بطخ کے بچے بھی نکل آیا کرتے۔
لیکن جب سے سردار نے عنانِ اقتدار سنبھالی ہے وہ اپنے ان تمام اعمال کو خفیہ طور پر سرانجام دیتا تاکہ اس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے کہ وہ اتنے غریب دیش کا سردار ہو کر اتنا فضول خرچ کیوں ہے۔ اس لیے وہ دن کا ایک بڑا حصہ تخلیے میں گزارا کرتا۔ بعض اوقات تو اجتماعی عبادات اور قربانی کے موقعوں پر بھی وہ سامنے نہ آتا۔ لوگوں کے پوچھنے پر اس کے فاضل مشیر بتاتے کہ سردار اپنی افریقی قوم کے درد میں مبتلا ہے اور کبھی کسی پسماندہ جگہ پر جا کر گڑگڑا کر قوم کی بہتری کی مناجات اور رسومات کی ادائیگیاں فرما رہا ہے۔
بھنگ گھوٹنے کے عمل کو بھی اس نے محدود کر دیا تھا۔ بس اتنی دیر بھنگ گھوٹتا جتنی دیر میں اس کی بیویاں اپنے چہروں کو رنگتیں یا جتنی دیر میں سؤر کا دم پخت تیار ہوتا۔
تو دور دیش سے واپس آنے والے ان تمام عقلمندوں نے آ کر اس دردمند اور خیر خواہ سردار کو بتایا کہ ہم نے وہاں بہت کچھ دیکھا اور جانا ہے۔ وہ بھی جو ہم کو سکھایا گیا ہے اور وہ کچھ بھی جو کہ ہم نے خود مشاہدہ کیا ہے۔ اور ہم ہی بہتر جانتے ہیں، کہ وہی بندر لمبی زندگیاں پاتے اور اپنے حرموں کو وسیع کرتے ہیں جو کہ مشاہدے کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان باتوں پر خاص توجہ کی جو کہ ہمارے کام کی تھیں اور ہمارے ثقافتی ورثے سے میل کھاتی معاشرتی ساختوں سے ہم آہنگ تھیں۔ جس سے نظریے اور ہمارے دھرم کو بھی تقویت ملے۔
وہاں بہت کچھ ہم نے دیکھا اور بہت کچھ سکھایا گیا۔ لیکن بزرگوں سے سنا تھا کہ آنکھیں کھلی رکھو۔ اور سنے کے بجائے دیکھے پر اعتبار کرو۔ تو ہم نے یہی دیکھنے کی کوشش کی کہ وہ اتنے دولت مند اور اتنے خوبصورت کیسے بنے ہیں۔
ہم وہاں کئی ماہ رہے۔ جس میں وہ ہمیں لکڑیوں سے کیڑے بنانے سکھاتے رہے۔ ہم میں سے بہت سوں نے ویسے کیڑے بنا کر ان کو دکھائے تو وہ بہت خوش ہوتے تھے، لیکن ہمیں یہ سمجھ نہیں آئی کہ کئی بار ہم نے اصل کیڑوں سے ملتے جلتے کیڑے بنا کر دکھائے تو ان کو پسند نہیں آئے۔ حالاں کہ ہمارے بنائے گئے کیڑے ان کے کیڑوں سے بہتر شکل کے حامل تھے۔ ہمارے امیر نے اس کی یہ فال نکالی ہے کہ اس کی وجہ حسد کا وہ جذبہ ہو سکتا ہے جو کہ ان گوروں کے اندر بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔
ہم نے ان کی خوشنودی کے لئے خوب کیڑے بنائے لیکن اصلی بات کو آخر ہم نے پا ہی لیا۔
وہ اصلی بات یہ تھی کہ یہ لوگ ایک جادو کا عمل کرتے ہیں، جو کہ ان کی بکریوں کو گھاس فراہم کرتا ہے، گائیوں کے تھنوں کو دودھ سے لبریز رکھتا ہے، گھوڑوں کو دانا وافر مقدار میں ملتا ہے اور انسان سارا سال گوشت گھی اور انڈوں کی قلت سے بے نیاز رہتے ہیں۔
وہ جادو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ وہ یہ کہ یہ لوگ ایک کھُلے میدان کا انتخاب کرتے ہیں۔ اس میدان کے بیچوں بیچ تین چھوٹے نیزے ایک طرف اور تین دوسرے طرف گاڑ دیتے ہیں۔ پھر دو بندے چنگے تگڑے چوڑے ڈنڈے پکڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کی طرف ایک جادوگر دوڑتا چلا آتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کسی جانور کی کھال میں سلا ہوا گول سا تعویز ہوتا ہے جو کہ ہمارے مطابق کسی دشمن کی کھوپڑی کی علامت بھی ہو سکتا ہے۔ تین نیزوں کے پاس آنے پر وہ اس گول سے تعویز کو چوڑے ڈنڈے والے جادوگر کی جانب سر کے اوپر سے لے جا کر زور سے پٹخ دیتا ہے۔ جس کے جواب میں ڈنڈا بردار ٹونے والا اس گول کھوپڑی نما شئے کو اپنے اتنے زور سے وہ ڈنڈا مارا ہے جتنے زور میں ناریل توڑا جاتا ہے، یا جنگلی بھینسے کی ھڈی توڑی جاتی ہے۔
پھر گورے قبیلے کے وہ لوگ جو جادوگروں کے سہولت کاروں کے طور پر میدان میں کھڑے ہوتے ہیں بھاگے دوڑنے اور گرنے پڑنے کی نوٹنکی کا ابھیاس کرنے لگتے ہیں۔
اب ہوتا کیا ہے۔۔۔ یہی جادو دو تین یا چار بار کیا جاتا ہے تو فوراً آسمان پر بادل آنے لگ جاتے ہیں اور رم جھم رم جھم میگھ برسانا شروع کر دیتے ہیں۔
تو یہ تھا وہ اصلی بھیتر کا بھید جس کی بدولت یہ گورے لوگ اتنے امیر اور خوبصورت ہیں۔ کیوں کہ ہمارے یہاں مہینوں سوکھا پڑا رہتا ہے اور ہم بارش کو ترستے رہتے ہیں۔
اس ٹیم کے اس راز کو معلوم کر لینے کی خوشی میں قبیلے کے سردار نے چار سو دن کے جشن کا اعلان کیا، چالیس قبیلے کے ہمدرد نیک دلوں سے کہا کہ وہ اپنی اپنی بیویوں کو طلاقیں دیں تاکہ بطور انعام ان عقلمندوں کو نوازا جا سکے۔ سردار نے بھی اس خوشی میں تین شادیاں اور پھڑکا دیں۔ اور ہر روز ایک ہاتھی اور تین شتر مرغ مار کر قبیلے کی ضیافت کرنے لگے۔
اب اس قبیلے کا دستور ہے کہ وہ یہی جادو کرتے ہیں۔ اور جب بھی وہ یہ جادو کرتے ہیں بارش خوب زور شور سے ہوتی ہے۔ جو بندہ گول کھوپڑی کو زیادہ زور سے پھینک دے یا زیادہ زور سے ڈنڈا مار سکے بالترتیب اسے سردار اور نائب سردار بنا دیا جاتا ہے۔ کیوں کہ قدرت کے اصلی رازوں سے تو وہی واقف ہے جو کھوپڑی کو پھینک کر تین ڈنڈوں پر مارے یا پھر کھوپڑی کو ڈنڈا مار دے۔
اس طرح یہ قبیلہ ہنسی خوشی آباد ہے۔