|غلام عباس|
یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب میں نے ”نوبہار“ کے چیف ایڈیٹر سے ایک معمولی سا اختلاف ہو جانے پر جوانی کے جوش میں استعفا دے دیا تھا۔ اور پھر رفتہ رفتہ فکر معاش نے مجھے ”ستارہ مشرق“ میں ملازمت کرنے پر مجبور کر دیا۔ ”ستارہ مشرق“ کسی رسالہ یا اخبار کا نام نہیں بلکہ یہ ایک ہوٹل تھا، جس میں زیادہ تر مغربی ممالک کے سیاح آ کر ٹھہرتے تھے۔ اس کا مالک بمبئی کا ایک سیٹھ تھا، جس نے اس کا انتظام ایک انگریز منیجر کو سونپ رکھا تھا۔ میں ملازم تو ایک کلرک کی حیثیت سے ہوا تھا مگر میرا کام اور استعداد دیکھ کر سیٹھ نے جلد ہی مجھے ہوٹل کا اسسٹنٹ منیجر بنا دیا۔ میری ترقی کی ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ سیٹھ کو انگریز منیجر پر اعتماد نہیں تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کوئی سمجھ دار ہندوستانی اس کے کام پر نظر رکھے۔
میرے ذمہ یہ خدمت تھی کہ میں ہوٹل میں ٹھہرنے والوں کا خیال رکھوں، نیز غیر ملکوں سے جو لوگ ہندوستان کی سیاحت کے لیے آتے ہیں ان کو اس ملک کے بارے میں علمی و ثقافتی معلومات بہم پہنچاؤں۔ یہ ہوٹل اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے غیر ملکی سیاحوں میں بہت مقبول تھا۔ کوئی دن نہ جاتا تھا کہ دس پانچ نئے مہمان بیرونی ممالک سے آکر یہاں نہ ٹھہرتے ہوں۔ ہفتوں پہلے سے ان کے لیے کمرے ریزرو کر لیے جاتے تھے۔ یہ ہوٹل بمبئی کے بڑے ہوٹلوں میں شمار ہوتا تھا، اور اس میں ایک وقت میں دو ڈھائی سو مسافر بخوبی رہ سکتے تھے۔
ایک دفعہ امریکہ کی ایک خاتون ہمارے ہوٹل میں آکر مقیم ہوئی۔ مس گلبرٹ اس کا نام تھا۔ وہ امریکہ کے ایک متمول تاجر کی بیٹی تھی۔ ممالک شرق اور بالخصوص ہندوستان کی سیاحت کا اسے بڑا شوق تھا۔ ہندوستان کی جدوجہد آزادی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ اور خاص کر یہاں کی ستیہ گرہ کی تحریک، بھوک ہڑتال، جلسوں اور جلوسوں کو وہ بچشم خود دیکھنے کی بڑی تمنا رکھتی تھی۔ مگر بدقسمتی سے وہ ایسے وقت یہاں پہنچی کہ تحریک آزادی ختم ہو چکی تھی کیونکہ برطانیہ نے ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر کے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ اب یہاں نہ عدم تعاون کی تحریک باقی رہی تھی نہ ستیہ گرہ اور ہڑتالیں ہوتی تھیں، نہ جلوس نکلتے تھے۔ بس یہ کیفیت تھی کہ انگریز تو اسباب باندھنے میں مصروف تھے اور اہل ملک ان کی جگہ سنبھالنے کے لیے پر پرزوں سے درست ہو رہے تھے۔
مس گلبرٹ سادہ طبیعت اور نیک دل تھی۔ اس کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ انسانی تفریق کی خواہ وہ رنگ اور نسل کی ہو یا روپیہ پیسہ کی، قائل نہیں ہے مگر انسان دوستی کا وسیع جذبہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہے۔ اس کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ لمبا قد، چوڑا چکلا چہرہ، انتہائی سادہ خد و خال، کلوں پر ہلکی ہلکی زردی کھنڈی ہوئی، سنہرے بال۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جو خوبصورت تو ہرگز نہیں ہوتیں مگر انہیں بدصورت بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان میں ایک خاص طرح کی جاذبیت پائی جاتی ہے۔
سہ پہر کو چائے کے وقت جب وہ ”ستارہ مشرق“ کے وسیع اور خوش قطع لان میں چھوٹے چھوٹے یورپین خاندانوں اور بچوں کے غل غپاڑے سے الگ تھلگ اپنی میز پر اکیلی بیٹھی ہوتی تو مجھے اس پر ترس سا آیا کرتا۔ وہ طبعاً آدمیوں سے متنفر نہیں تھی البتہ یہاں آکے اسے جو مایوسی ہوئی تھی اس نے اسے مغموم بنا رکھا تھا۔ بھلا ایسی عورت کے پاس بیٹھ کر کون اپنا وقت ضائع کرتا۔ ہاں جب کبھی وہ میرے پاس کچھ دریافت کرنے آتی تو میں انتہائی توجہ سیاس کی بات سنتا اور خندہ پیشانی سے جواب دیتا اور چاہتا کہ وہ زیادہ وقت میرے پاس گزارے۔ یوں بھی اس کے پاس جا کر پوچھ لیتا کہ کسی چیز کی ضرورت تو نہیں۔
میں بمبئی کی سیرگاہوں اور اہم قابل دید مقامات کا حال تفصیل سے بیان کرتا مگر وہ دھیان نہ دیتی۔ اسے یہاں کی تفریح گاہوں اور تاریخی مقامات سے دلچسپی نہ تھی۔ اس کے لیے وہ کئی مرتبہ یورپ کا چکر لگا چکی تھی۔ جو باتیں وہ مجھ سے پوچھتی ان کا جواب دینے سے میں کتراتا کیونکہ منیجر کی طرف سے ہمیں سخت تاکید تھی کہ ہم ملکی معاملات کے بارے میں مہمانوں سے کسی قسم کی گفتگو نہ کریں۔ ادھر تحریک آزادی کے ختم ہوتے ہی اخباروں کی ہنگامہ آرائی بھی ختم ہو گئی تھی۔ اب ان میں قتل، ڈاکہ زنی اور اغوا کی خبریں زیادہ چھپنے لگی تھیں، جن کے پڑھنے سے دل پر افسردگی ہی طاری ہوتی تھی۔
ایک دن وہ حسب معمول لان میں اکیلی بیٹھی بے دلی سے اخبارات کے ورق الٹ رہی تھی۔ یہ اواخر سرما کی ایک سہانی سہ پہر تھی۔ دھوپ نرم اور حدت آمیز تھی۔ بہار کا سماں تھا۔ مگر آج وہ پہلے سے بھی زیادہ افسردہ معلوم ہوتی تھی۔ میں اسی کے خیال میں کھویا ہوا تھا کہ اتنے میں میرا پرانا دوست ریاض میرے کمرے میں آ دھمکا۔ جس زمانے میں میں ”نوبہار“ کے عملہ ادارات کا ایک رکن تھا، ریاض ہمارا چیف رپورٹر تھا۔ اخبار سے میرا تعلق ختم ہوتے ہی وہ بھی وہاں سے چلا گیا تھا اور کسی فلمی یونٹ سے منسلک ہو گیا تھا۔ وہ ان نوجوانوں میں سے تھا جو غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں اور ہر کام خواہ وہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، بڑی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ فلم کے لیے کہانیاں اس نے لکھیں، موسیقی کی دھنیں اس نے بنائیں، گھوڑ دوڑ میں جاکی کا کام اس نے کیا، کئی مشہور فلم ایکٹرسوں کے پرائیوٹ سیکریٹری کی خدمات اس نے انجام دیں۔
اس وقت اسے دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ہم ایک مدت کے بعد ملے تھے۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آج کل وہ کیا کرتا تھا۔ نہ جانے میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے مس گلبرٹ کا حال اسے بتا دیا اور دفتر کی کھڑکی میں سے دور ہی سے اس کی صورت بھی دکھا دی۔
”بری نہیں۔“ وہ کہنے لگا، ”اور یہ جو تم جلسے جلوسوں کی بات کہہ رہے ہو، یہ کون مشکل کام ہے بھیا! جس ملک میں سگرٹ بیڑی کے جلوس نکل سکتے ہوں، بوٹ پالش کے جلوس نکل سکتے ہوں، نئی فلموں، کشتیوں اور دنگلوں کے جلوس نکل سکتے ہوں وہاں سیاسی جلوس نکالنا کیا مشکل بات ہے۔ جلوس تو تماشائیوں سے بنتا ہے تماشائیوں سے۔ اصل جلوس والے تو پانچ فیصدی بھی نہیں ہوتے۔ بس ایسے لوازم جمع کر دو جو تماشائیوں کو اپنی طرف کھینچ لیں تو سو کا جلوس دس ہزار کا معلوم ہونے لگے گا۔“
کچھ دیر ہم دونوں خاموش رہے۔ سائے اب طویل ہونے شروع ہوگئے تھے۔ فضا میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ لان میں بیٹھے ہوئے لوگ اب اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔ مس گلبرٹ نے اخبارات کو اکٹھا کیا اور ہلکے ہلکے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ ریاض نے کہا، ”سنو! اگر تم سو پچاس کا انتظام کر سکو تو میں تمہاری میم صاحب کی آرزو پوری کر سکتا ہوں۔“ میں نے کہا، ”اتنی رقم تو وہ چندہ کے طور پر بھی دے سکتی ہے۔ وہ بہت امیر عورت ہے۔ امریکہ والوں کو تو تم جانتے ہی ہو۔“
”تو بس اسی ہفتہ میں اس کا انتظام کروں گا۔ اچھی خاصی دل لگی رہے گی۔“
”لیکن ریاض۔۔۔“ میں نے لمحہ بھر غور کر کے کہا، ”کسی شریف عورت کو یوں دھوکا دینا۔۔۔“
”دھوکا!“ اس نے میری بات کاٹ کر کہا، ”آج کل ہر چیز دھوکا ہے۔ ہماری ذرا سی کوشش اسے بامراد بنا سکتی ہے۔“
میں سوچ میں پڑ گیا۔ یہ معاملہ ایسا تھا کہ میری نوکری کے لیے مخدوش ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر یہ تجویز میرے منچلے دوست کو بھا گئی تھی۔ وہ ہمیشہ نئے نئے تجربوں کی تلاش میں رہتا تھا۔ اس نے مجھے زیادہ سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ اور یہ کہتا ہوا کہ ”تو بس پھر طے ہے۔“ ایک دم کمرے سے چلا گیا۔ تیسرے دن اس نے مجھے ٹیلیفون پر بتایا کہ سب معاملہ ٹھیک ہے۔ میں چار بجے آؤں گا۔ تم میم صاحب کو تیار رکھنا اور ہاں میرا ان سے تعارف بھی کرا دینا۔ پھر اگر تمہیں فرصت ہو تو تم بھی ساتھ چلے چلنا ورنہ میں خود ہی سنبھال لوں گا۔ لنچ کے وقت میں ڈرتے ڈرتے مس گلبرٹ کے پاس پہنچا اور ادھر ادھر کی باتیں کر کے اس سے کہا، ”آج ایک جلوس نکلنے والا ہے۔ اگر تمہیں دلچسپی ہو تو سہ پہر کو اسے دیکھنے چل سکتی ہو۔“ وہ یہ سنتے ہی اچھل پڑی۔
”سچ؟“ اس نے کہا، ”ضرور چلوں گی۔ مگر کہاں اور یہ کن کا جلوس ہے؟“ میں نے کہا، ”ٹھیک طور پر میں خود بھی نہیں جانتا مگر سہ پہر کو میرا ایک دوست آ رہا ہے۔ اس جلوس کی تفصیل اس سے معلوم ہو جائے گی۔“ اس نے بڑی گرم جوشی سے میرا شکریہ ادا کیا اور میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔ ریاض ٹھیک چار بجے ہوٹل میں پہنچ گیا۔ ہم پہلے ہی سے اس کے منتظر تھے۔ غائبانہ تعارف میں کرا ہی چکا تھا۔ دونوں ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ میں اگر چاہتا تو کام کا بہانہ کر کے ہوٹل ہی میں رہ سکتا تھا۔ لیکن سچ پوچھیے تو میرے دل میں خود گدگدی ہو رہی تھی کہ دیکھوں میرا دوست کیا تماشا دکھانے والا ہے۔ میں نے منیجر سے دو گھنٹے کی چھٹی لی اور پھر ہم تینوں ٹیکسی میں بیٹھ چل دیے۔ ریاض نے ٹیکسی والے کو بمبئی کے ایک غیر معروف علاقے کی طرف چلنے کی ہدایت کر دی تھی۔
وہ مس گلبرٹ سے بہت بے تکلف ہو گیا تھا۔ رفتہ رفتہ اس کی یہ کیفیت ہو گئی جیسے وہ گلبرٹ کا بہت پرانا جاننے والا ہو۔ اس نے کہا، ”ہرچند ملک کو آزادی مل چکی ہے مگر یہاں کا مزدور طبقہ ابھی اپنی حالت پر مطمئن نہیں ہے۔ کئی دن سے اس کے ایک فرقہ میں اندر ہی اندر مواد پک رہا تھا جو آج پھوٹ پڑا۔ یہ فرقہ سائیس کہلاتا ہے۔ ان کا کام بگھی چلانا اور گھوڑوں کی دیکھ بھال ہوتا ہے۔ چنانچہ آج اس فرقہ کے لوگ اپنے مالکوں کی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ آج ان کا ایک بڑا جلوس نکل رہا ہے۔ میں نے اس جلوس کو دیکھنے کے لیے ایک فلیٹ کی بالکنی میں انتظام کیا ہے۔“ مس گلبرٹ نے ٹیکسی میں بیٹھے بیٹھے ایک مرتبہ پھر گرم جوشی سے ہمارا شکریہ ادا کیا۔
کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد ریاض نے ٹیکسی کو ایک ایسے مقام پر ٹھہرایا جو خود میرے لیے بھی اجنبی تھا۔ ہم ایک اونچی عمارت کی پہلی منزل کے فلیٹوں میں سے ہوتے ہوئے ایک بالکنی میں پہنچے، اس میں تین کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ مس گلبرٹ اپنے ساتھ کیمرہ، دوربین، تھرمس کی دو بوتلیں اور کچھ سینڈوچ ایک ٹوکری میں رکھ کر لائی تھی۔ ریاض نے کہا، ”جلوس کے آنے میں ابھی پانچ دس منٹ کی دیر ہے۔“ مس گلبرٹ بولی، ”اچھی بات ہے۔ ہم اتنے میں کافی پیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے ٹوکری میں سے تین چھوٹی چھوٹی پیالیاں نکالیں اور ایک تھرمس کا منہ کھول کر ان میں گرم گرم کافی انڈیلنے لگی۔ ابھی ہم نے کافی ختم نہیں کی تھی کہ ایک طرف سے نقاروں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ ریاض نے کہا، ”لو جلوس آ گیا۔“
مس گلبرٹ نے جلدی سے اپنی دوربین سنبھالی اور اس طرف دیکھنے لگی جدھر ریاض نے اشارہ کیا تھا۔ ہم جس سڑک پر تھے وہ ایک طرف سے خم کھاتی ہوئی دوسری طرف مڑ جاتی تھی۔ میں خوب سمجھتا تھا کہ ریاض نے کس مصلحت سے اس مقام کو چنا ہے۔ ہماری نظر کے سامنے سڑک کا صرف سو سوا سو گز کا ٹکڑا تھا۔ چنانچہ نقاروں کی آواز سے یہ تو صاف معلوم ہوتا تھا کہ جلوس بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ مگر موڑ کی وجہ سے جلوس کا اگلا حصہ ابھی ہماری نظروں سے پوشیدہ تھا۔
اس وقت مس گلبرٹ کا جوش و خروش دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس کے بے رنگ گالوں پر ہلکی سرخی جھلکنے لگی تھی۔ اس نے دور بین اپنی آنکھوں سے نہیں ہٹائی تھی۔ اس سے اس کی بے تابی کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔ آخر چند لمحوں کے بعد جلوس نے اپنی جھلک دکھائی۔ پہلے ایک اونٹ آیا جس کو بہت گہرے سرخ رنگ میں رنگا گیا تھا۔ اس کے دونوں طرف دو بڑے بڑے نقارے بندھے ہوئے تھے۔ ان کا رنگ بھی سرخ تھا۔ اس پر دو لڑکے لال ہی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے زور زور سے نقاروں کو پیٹ رہے تھے۔ مس گلبرٹ نے جلدی سے دوربین ہٹا کر کیمرہ سنبھالا اور دور کا ایک شاٹ لیا۔ اونٹ کے پیچھے پانچ چھ خالی بگھیاں تھیں جن کے آگے گھوڑوں کے بجائے آدمی جتے ہوئے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ایک مست فقیر تھا جس کے تن پر سوائے لنگوٹی کے اور کوئی کپڑا نہ تھا۔ اس نے منہ پر سیندور مل رکھا تھا۔ پاؤں میں گھنگرو تھے۔ ہاتھ میں ایک بڑا سا سونٹا، جس کے سرے پر طرح طرح کے رنگین کپڑوں کی دھجیاں بندھی ہوئی تھیں اور وہ چک پھیری لے لے کر ناچ رہا تھا۔
ریاض نے مس گلبرٹ کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھ کر فوراً کہا، ”یہ ان سائیسوں کا روحانی پیشوا ہے۔ اس نے عہد کر رکھا ہے کہ جب تک میرے فرقے کے لوگوں کے مطالبات پورے نہیں کیے جائیں گے میں اپنا ناچ جاری رکھوں گا۔“ جیسا کہ ہمیں توقع تھی، اس عجیب و غریب جلوس کو دیکھنے کے لیے سچ مچ خلقت ٹوٹ پڑی تھی۔ آس پاس کے مکانوں میں کوئی کھڑکی، کوئی دروازہ، کوئی بالکنی ایسی نہ تھی جو عورتوں اور بچوں سے بھری ہوئی نہ ہو۔ ادھر جلوس کے دونوں طرف تماشائیوں کا وہ ہجوم تھا کہ سچ مچ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ میں نے دل میں کہا، تماشائی شاید سمجھ رہے ہیں کہ یہ سین کسی فلم کے لیے تیار کیا جا رہا ہے اور بمبئی ایسے شہر میں یہ کوئی نئی بات بھی نہ تھی۔
جلوس کے ساتھ سرخ رنگ کے کئی پرچم بھی تھے۔ کپڑوں پر مختلف رنگوں میں ’انقلاب زندہ باد‘ اور طرح طرح کے الفاظ اور جملے تحریر تھے، جن میں سائیسوں کی برادری کو خواب غفلت سے بیدار کیا گیا تھا۔ اور دھن وان سیٹھوں کو تنبیہ کی گئی تھی۔ ان ہی میں ایک پرچم پر یہ الفاظ بھی لکھے تھے، ”سائیسی علم دریاؤ۔“
”آخر ان لوگوں کے مطالبات کیا ہیں؟“ مس گلبرٹ نے پوچھا۔ ریاض نے جواب دیا، ”تنخواہ میں اضافہ، کام کے اوقات کا تعین، بس ایسی ہی باتیں ہوں گی۔ میں پوری تفصیل سے واقف نہیں۔“ اب سائیسوں کی ایک ٹولی آئی، جنہوں نے سر اور ماتھے پر سیندور ڈال رکھا تھا۔ وہ بڑے جوش و خروش کے ساتھ پوربی زبان میں ایک انقلابی گیت گاتے چلے آ رہے تھے،
ہیا
بولو ہیا ہیا
رکت چوس لیو ہمرو سارو
تیل بنا چلے کا سے پہیا
ہیا
بولو ہیا ہیا
بھوکن پیٹن پرت کچھونا ہیں
چوہن ناچت تھیا تھیا
ہیا
بولو ہیا ہیا
ریاض نے اس انقلابی گیت کا ترجمہ مس گلبرٹ کو سنایا تو وہ بہت خوش ہوئی اور فوراً اپنی نوٹ بک میں لکھ لیا۔ ریاض کا کمال یہ تھا کہ وہ غیر متعلقہ آدمیوں کو بھی جلوس ہی کا ایک حصہ ظاہر کر رہا تھا۔ مثلاً دو تین لڑکے آگے پیچھے بیڑی کے اشتہار کے بورڈ لٹکائے خواہ مخواہ جلوس میں آ شامل ہوئے تھے۔ وہ آوازیں لگا رہے تھے، ”چرخہ مار کہ بیڑی پیا کرو۔“
”یہ کون لوگ ہیں؟“ مس گلبرٹ نے پوچھا۔ ریاض نے جھٹ جواب دیا، ”یہ بیڑی بیچنے والوں کے نمائندے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں ہماری ہمدردی سائیسوں کے ساتھ ہے۔“ اب سونٹے والا مست فقیر مس گلبرٹ کی بالکنی کے بالکل نیچے پہنچ گیا تھا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر زور سے اللہ ہو کا نعرہ لگایا۔ ساتھ ہی مس گلبرٹ کے چہرے پر بھی نظر پڑی اور اس نے پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ رقص کرنا شروع کر دیا۔ مس گلبرٹ نے خاص طور پر اس فقیر کے کئی شاٹ لیے۔ پانچ سات منٹ کے بعد یہ جلوس دوسرے موڑ پر پہنچ کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہم نے چائے کی پیالیاں اور دوسرا سامان ٹوکری میں ڈالا اور بالکنی سے اتر کر ٹیکسی میں بیٹھ گئے۔ مس گلبرٹ راستہ بھر میرا اور ریاض کا شکریہ ادا کرتی رہی۔ اس نے کہا، ”میں اس جلوس کا حال اپنی مما اور پپا کو آج ہی لکھ کر بھیجوں گی۔“
ٹیکسی ہوٹل کے پاس پہنچی تو میری جان میں جان آئی۔ ریاض کا چہرہ کامرانی سے چمک رہا تھا اور میں آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کی ذہانت کی داد دے رہا تھا۔ مس گلبرٹ کے رخصت ہونے سے پہلے ریاض نے پیش بندی کے طور پر اس کو بتا دیا تھا کہ آج کل چوں کہ حکومت اور رعایا میں مفاہمت ہو چکی ہے، اس لیے ہمارے لیڈروں نے تمام اخبارات کو ہدایت کر رکھی ہے کہ کوئی ایسی تصویر یا خبر نہ چھاپی جائے جس سے دونوں کے تعلقات میں بدمزگی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ شاید ہی کوئی اخبار اس جلوس کی خبر یا تصویر چھاپے۔
مس گلبرٹ کے بشرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس نکتہ کو بخوبی سمجھ گئی ہے۔ اپنے کمرے میں جانے سے پہلے اس نے ایک معقول رقم کا چیک کاٹ کر ریاض کو دیا اور کہا، ”جہاں آپ نے میرے لیے اتنی زحمت اٹھائی ہے وہاں اتنی تکلیف اور کیجیے گا کہ یہ حقیر سی رقم میری طرف سے ان غریب سائیسوں کو دے دیجیے گا۔“ چیک لے کر ریاض جلد ہی رخصت ہو گیا۔ اس سوانگ کے یوں خیر و خوبی سے سر انجام پا جانے پر میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ مگر پھر بھی دو تین دن تک میں نے مس گلبرٹ سے بات کرنے سے پہلو تہی کی۔ بس مزاج پرسی کر لیتا، اور یوں ظاہر کرتا جیسے کام میں سخت مصروف ہوں۔ جب ایک ہفتہ یوں ہی گزر گیا اور کسی قسم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آیا تو میری فکر دور ہوئی۔
اگلے روز اتوار تھا۔ میں پہلے کی طرح چونچال ہو گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ آج مس گلبرٹ سے جی بھر کر باتیں کروں گا مگر اتنے ہی میں کیا دیکھتا ہوں کہ ریاض بھاگا چلا آ رہا ہے۔
”ارے غضب ہو گیا۔“ اس نے میرے کمرے میں داخل ہوتے ہی کہا، ”اس دن والے مذاق نے کچھ اور ہی رنگ اختیار کر لیا۔“ پھر کچھ بتائے بغیر وہ مجھے زبردستی کھینچتا ہوا ہوٹل سے باہر لے گیا جہاں اس کی ٹیکسی کھڑی تھی۔ ہم شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔ شہرمیں سچ مچ ایک جلوس نکلا ہوا تھا۔ کسی الگ تھلگ گمنام گوشے میں نہیں بلکہ شہر کے عین بیچوں بیچ۔ اس میں دس بیس نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سائیس شامل تھے۔ جلوس بڑا قاعدے کا تھا یعنی اس میں کسی قسم کا غیر متعلقہ عنصر شامل نہیں تھا۔ نہ ڈھول ڈھمکا تھا اور نہ اونٹ۔ البتہ یہ لوگ ریاض ہی کا بنایا ہوا انقلابی گیت جوش و خروش سے گاتے ہوئے جا رہے تھے،
ہیا
بولو ہیا ہیا
بھوکن پیٹن پرت کچھونا ہیں
چوہن ناچت تھیا تھیا
ہیا
بولو ہیا ہیا
اس میں شبہ نہیں کہ یہ جلوس بڑے معرکے کا تھا اور مس گلبرٹ کے دیکھنے کی خاص چیز۔ لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ ہوٹل واپس آکر میں نے اور ریاض نے اس کا ذکر مس گلبرٹ سے کرنا مناسب نہ سمجھا۔